خرابی کہاں ہے
پاکستان ناکام ریاست کی طرف بڑھ رہاہے۔یہ جملہ میرانہیں بلکہ ملک کی اہم خفیہ ایجنسیISIکےسابقDGجنرل (ر)شجاع پاشاکاہے۔۔۔
''پاکستان ناکام ریاست کی طرف بڑھ رہاہے۔'' یہ جملہ میرا نہیں بلکہ ملک کی اہم خفیہ ایجنسیISI کے سابقDGجنرل (ر)شجاع پاشا کا ہے، جو انھوں نے ایبٹ آباد کمیشن میں اپنے طویل بیان کے دوران ریکارڈ کرایا۔ایک ملک جو قدرتی وسائل سے مالامال ہے، جہاں ہنر مند افرادی قوت کی بھی کمی نہیں ہے اور جہاں زراعت اور صنعت ملکی معیشت میںخاطر خواہ حصہ ڈالنے کی صلاحیت رکھتی ہو، اس کے ناکام ہونے یا ناکامی کی طرف گامزن ہونے کے تاثرات بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے۔لہٰذا یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ کون سے عوامل ہیں ، جو پاکستان جیسی ریاست کو ناکامی کی طرف دھکیلنے کا موجب بن رہے ہیں۔
پاکستان کی 66 برس کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس ملک کا بنیادی مسئلہ روزِ اول ہی سے گورننس رہاہے۔جس کی وجہ سے صرف انتظامی اور معاشی ڈھانچہ ہی متاثر نہیں ہوا،بلکہ ملک کی جغرافیائی تشکیلات بھی متاثر ہوئیں۔ بنگلہ دیش کا قیام اوراب مختلف صوبوں میں بدترین بدامنی اور بلوچستان میں بڑھتی ہوئی شورش، گورننس کے اسی بحران کا شاخسانہ ہے۔پاکستان میںگورننس کے بحران کا صرف یہ سبب نہیں ہے کہ یہاں32برس تک چار فوجی آمریتیں قائم رہی ہیں،بلکہ اس بحران کو بڑھاوادینے میںسیاسی حکومتیں بھی کسی سے کم نہیں رہی ہیں،جنھوں نے ریاستی اداروں میںبے جا مداخلت کرکے ان کی ہئیت اور کارکردگی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔اس لیے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ خرابی کہاں اور کیسے پیدا ہوئی اور اسے کس طرح ختم کیا جاسکتاہے۔
نظام جمہوری ہویا شخصی آمریت یاپھرشہنشاہیت، حکومت چلانے کے لیے ہنرمند انتظامی مشنری کی ضرورت ہوتی ہے، جو مختلف اداروں اور محکموںپر مشتمل ہوتی ہے۔ اس مشنری میںاعلیٰ منتظمین کے علاوہ نچلے درجہ کی افرادی قوت بھی شامل ہوتی ہے۔یہ مشنری قانون میں حاصل اختیارات اور پیشہ ورانہ فعالیت کے ذریعے ریاستی انتظام کو چلاتی ہے اور گورننس کا کلیدی حصہ تصورکی جاتی ہے۔اس مشنری کو جدید دنیا میں نوکرشاہی یاBureaucracy کہا جاتا ہے۔جمہوری نظام میںحکومت منتخب ادارے چلاتے ہیں،جب کہ نوکرشاہی ان اداروں کی معاونت کرتے ہوئے مختلف شعبہ جات کاانتظام وانصرام کرتی ہے۔
امریکا میں نوکر شاہی غیر مستقل ہوتی ہے اور ہر نئی آنے والی منتخب حکومت اپنی معاونت کے لیے نوکرشاہی کا اپنا کیڈر لے کر آتی ہے، جو حکومت کے خاتمے ساتھ ہی رخصت ہوجاتا ہے۔اس کے برعکس برطانیہ نے ایک ایسی بیوروکریسی کا تصور دیا، جو مستقل بنیادوں پر کام کرتی ہے اور جس کا حکومتوں کے آنے جانے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔یہ بیوروکریسی مخصوص قواعد وضوابط کے تحت کام کرتی ہے، جس کی تقرریوں تعیناتیوں اورپیشہ ورانہ ترقیوں میں سیاسی مداخلت کی گنجائش نہیں ہوتی۔اسی طرح سیاسی حکومتوںاورجماعتوں کویہ اختیار حاصل نہیںہوتاکہ وہ اسے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کریں۔اس نظام میںبیوروکریسی کو یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ خلافِ قانون احکامات کوماننے سے انکار کردے۔
حکومت برطانیہ نے1858ء میں ہندوستان کے لیے بھی بیوروکریسی کا تقریباً ملتا جلتاڈھانچہ متعارف کرایا،جوانڈین سول سروس(ICS)کہلاتاتھا۔مگر برٹش انڈیا سمیت دیگر نوآبادیات میںانتظام وانصرام چلانے کے ساتھ ساتھ اس کی اضافی ذمے داری نوآبادیاتی نظام کومستحکم کرنا بھی تھا۔ اس لیے برطانیہ اور نوآبادیات میں نوکرشاہی کے انتخاب کا طریقہ کارتویکساں ہواکرتا تھا،مگر تربیتی ماڈیول (Module)مختلف رکھے گئے تھے۔ آزادی کے بعد بھارت اور پاکستان کومختلف قوانین کے علاوہ سول اور ملٹری بیوروکریسی کا ایک مضبوط ڈھانچہ بھی ورثہ میں ملا۔بھارت نے اپنی حکمرانی کو قومی اور جمہوری بنانے کے لیے آئین سازی اورجاگیرداری کے خاتمے جیسے اقدامات تو کیے،مگر ورثے میں ملنے والے اداروں ختم کرنے یا فوری طورپر تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کی۔
بلکہ بعض مضبوط اداروں کے ساختی ڈھانچوں کو نوآبادیاتی اندازمیںبرقرار رکھا،جن میں بیوروکریسی کا نظام بھی شامل ہے۔البتہ اس نے سول بیوروکریسی کے تربیتی ماڈیول (Module)میںتبدیلیاں کرکے نوکر شاہی کے مزاج کو نوآبادیاتی کی جگہ قومی بنانے کی کامیاب کوشش کی۔اس تبدیلی کا خوشگوار نتیجہ یہ نکلاکہ ایک طرف انڈین بیوروکریسی جمہوریت دشمن نہیں رہی اور دوسرے وہ خود کوعوام کا حکمران سمجھنے کی بجائے خادم سمجھنے پر آمادہ ہوئی۔بھارتی سیاستدانوں کی بیوروکریسی کے اندرونی معاملات میںعدم مداخلت نے بھی اس اہم ریاستی انتظامی ادارے کو politiciseہونے نہیں دیا اور اس کی پیشہ ورانہ حیثیت برقرار ہے۔
اس کے برعکس پاکستان میں حکمران اشرافیہ اورسیاسی جماعتوں کا مزاج چونکہ شروع ہی سے غیر جمہوری رہاہے،اس لیے انھوں نے گورننس کی باریکیوں کو سمجھنے کی کبھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔یہی سبب ہے کہ 66برسوں کے دوران نہ تو جمہوری اداروںکی تشکیل وتعمیراورتوسیع ہوسکی اور نہ ہی انتظامی مشنری کوقومی مزاج کے مطابق ڈھالنے کے لیے ان کے تربیتی ماڈیولز میں تبدیلی کی گئی۔جب کہ اقتدار واختیار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے مقتدر اشرافیہ اور سیاسی جماعتوں نے جہاں ان گنت غیر قانونی حربے استعمال کیے ، وہیںانتظامی مشنری یعنی بیوروکریسی کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی نئی روایت کو بھی جنم دیا۔ ہر آنے والی حکومت نے من پسند افسران اور اہلکاروں کی اہم پوزیشنوں پرتعیناتی میں میرٹ کے اصولوں کی دھجیاں بکھیر نے کے علاوہ سول بیوروکریسی کے ساختی ڈھانچے میں بے جا ردوبدل کرکے اس اہم ریاستی انتظامی ادارے کو Politicise کردیا،جس کے اثرات براہ راست پاکستان میں گورننس پر مرتب ہورہے ہیں۔
اگر تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو سول بیوروکریسی میں مداخلت کاآغازایوب خان کے دور میںہوگیاتھا، مگرچونکہ اس وقت تک انگریز دور کے ICS افسران موجود تھے، جو اپنی ادارہ جاتی ذمے داریوں کو سمجھتے تھے،اس لیے اس نظام کو زیادہ نقصان نہیں پہنچایاجا سکا۔اس کے علاوہ بنگالی سیاسی قیادت بھی سول بیوروکریسی کے معاملات میں سیاسی مداخلت کے خلاف تھی،اس لیے وہ ہر غیر قانونی اقدام کی مخالفت کیا کرتی تھی۔یہی وجہ تھی کہ سقوط ڈھاکہ تک انتظامی ڈھانچہ کسی حدتک توازن کے ساتھ چلتا رہا۔ لیکن سقوط ڈھاکہ کے بعد فیوڈل ذہنیت کے حکمرانوں اورسیاست دانوں کھل کر گل کھلانے کا موقع مل گیا۔سول سروس پر دو جانب سے حملہ کیا گیا۔ اول، اس میں سلیکشن،تربیت اورتقرری کے برطانوی نظام کو تبدیل کردیاگیا۔سلیکشن میں میرٹ کی جگہ کوٹا،جب کہ تقرری اور تعیناتی میں سینئرٹی کی جگہ ذاتی پسند اور ناپسند نے اس سروس کی پیشہ ورانہ کارکردگی کومتاثر کیا۔
دوئم، فوجی افسران کو سول سروس میں کھپانے اور انھیں مختلف انتظامی ذمے داریاں تفویض کرنے کے رجحان نے بھی اس اہم سروس کے نظام میں بگاڑپیداکیا۔ آج صورت حال یہ ہے کہ پولیس سے شہری انتظامیہ اور سیکریٹریٹ میں بیٹھے عملے تک انتظامی مشنری کا ہر چھوٹا بڑااہلکاراپنی اصل ذمے داریاں ادا کرنے پر اس لیے آمادہ نہیں ہے،کیونکہ اسے اندازہ ہے کہ پیشہ ورانہ اہلیت اور اچھی کارکردگی کا کوئی صلہ ملنے کاامکان نہیں ہے۔ جب کہ حکمرانوں کی کاسہ لیسی اور اراکین اسمبلی کی خوشامد اور ان کے ناجائز مطالبات کی تکمیل اسے ایک ساتھ کئی سیڑھیاں اوپر چڑھا سکتی ہیںاور منفعت بخش عہدوں پر فائز کرسکتی ہے۔اس لیے وہ اپنی کارکردگی میں بہتری لانے اور عوام کوسہولیات مہیاکرنے کی بجائے حکومت،وزراء اور اراکین اسمبلی کی خوشامد کواپنی ترقی کا زینہ سمجھتاہے۔ایسی صورتحال میںسول بیوروکریسی سے اچھی گورننس اور ملک کے لیے بہترمنصوبہ بندی کی توقع رکھنا عبث ہے۔
لہٰذا آج ملک دہشت گردی، بدامنی، جرائم کی بڑھتی ہوشرح سمیت جن ان گنت مسائل میں گھراہواہے،ان کا بنیادی سبب انتظامی اداروں کی تباہی ہے۔ آج دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی وارداتوں اورامن وامان کی مخدوش صورتحال کوکنٹرول کرنے میں سیکیورٹی اداروںکی ناکامی۔ بڑھتی ہوئی کرپشن اور بدعنونیواںکے سبب ملکی خزانے کوہر سال ہونے والا اربوں روپے کا نقصان اورہر سطح پر بدانتظامی ،اس بات کی غماز ہے کہ ملک میں گورننس بدترین ناکامی سے دوچار ہوچکی ہے، جس کے نتیجے میں ریاست ناکامی کی دہلیز تک جاپہنچی ہے۔گورننس کا یہ بحران منتخب اور غیر منتخب دونوں طرح کی حکومتوں کا پیدا کردہ ہے۔جنھوں نے اپنے مخصوص مفادات کے حصول کی خاطر ریاستی انتظام کے ایک اہم اور فعال ادارے کو کرپٹ، بدعنوان اور نااہل بنانے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔
لہٰذا اگر ملک کو ناکام ہونے سے بچانا ہے تو گورننس کے نظام کو درست کرنا ہوگا۔اس مقصد کے لیے ریاستی اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنانے پر توجہ مرکوزکرنا ہوگی۔خاص طورپر سول بیوروکریسی کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے سختی سے گریز کرتے ہوئے اس کے اس ساختی ڈھانچے کو بحال کرنا ہوگا جو انگریز جاتے ہوئے چھوڑ کرگیا تھا۔ یہ طے ہے کہ میرٹ اوراہلیت کی بنیادپر منتخب، انتظامی طورپر بااختیار اور سیاسی طورپرNonpartisanبیوروکریسی ہی سیاسی حکومت کی ہدایات کی روشنی میںگورننس کو بہتر بنانے کی اہلیت رکھتی ہے۔
پاکستان کی 66 برس کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس ملک کا بنیادی مسئلہ روزِ اول ہی سے گورننس رہاہے۔جس کی وجہ سے صرف انتظامی اور معاشی ڈھانچہ ہی متاثر نہیں ہوا،بلکہ ملک کی جغرافیائی تشکیلات بھی متاثر ہوئیں۔ بنگلہ دیش کا قیام اوراب مختلف صوبوں میں بدترین بدامنی اور بلوچستان میں بڑھتی ہوئی شورش، گورننس کے اسی بحران کا شاخسانہ ہے۔پاکستان میںگورننس کے بحران کا صرف یہ سبب نہیں ہے کہ یہاں32برس تک چار فوجی آمریتیں قائم رہی ہیں،بلکہ اس بحران کو بڑھاوادینے میںسیاسی حکومتیں بھی کسی سے کم نہیں رہی ہیں،جنھوں نے ریاستی اداروں میںبے جا مداخلت کرکے ان کی ہئیت اور کارکردگی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔اس لیے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ خرابی کہاں اور کیسے پیدا ہوئی اور اسے کس طرح ختم کیا جاسکتاہے۔
نظام جمہوری ہویا شخصی آمریت یاپھرشہنشاہیت، حکومت چلانے کے لیے ہنرمند انتظامی مشنری کی ضرورت ہوتی ہے، جو مختلف اداروں اور محکموںپر مشتمل ہوتی ہے۔ اس مشنری میںاعلیٰ منتظمین کے علاوہ نچلے درجہ کی افرادی قوت بھی شامل ہوتی ہے۔یہ مشنری قانون میں حاصل اختیارات اور پیشہ ورانہ فعالیت کے ذریعے ریاستی انتظام کو چلاتی ہے اور گورننس کا کلیدی حصہ تصورکی جاتی ہے۔اس مشنری کو جدید دنیا میں نوکرشاہی یاBureaucracy کہا جاتا ہے۔جمہوری نظام میںحکومت منتخب ادارے چلاتے ہیں،جب کہ نوکرشاہی ان اداروں کی معاونت کرتے ہوئے مختلف شعبہ جات کاانتظام وانصرام کرتی ہے۔
امریکا میں نوکر شاہی غیر مستقل ہوتی ہے اور ہر نئی آنے والی منتخب حکومت اپنی معاونت کے لیے نوکرشاہی کا اپنا کیڈر لے کر آتی ہے، جو حکومت کے خاتمے ساتھ ہی رخصت ہوجاتا ہے۔اس کے برعکس برطانیہ نے ایک ایسی بیوروکریسی کا تصور دیا، جو مستقل بنیادوں پر کام کرتی ہے اور جس کا حکومتوں کے آنے جانے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔یہ بیوروکریسی مخصوص قواعد وضوابط کے تحت کام کرتی ہے، جس کی تقرریوں تعیناتیوں اورپیشہ ورانہ ترقیوں میں سیاسی مداخلت کی گنجائش نہیں ہوتی۔اسی طرح سیاسی حکومتوںاورجماعتوں کویہ اختیار حاصل نہیںہوتاکہ وہ اسے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کریں۔اس نظام میںبیوروکریسی کو یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ خلافِ قانون احکامات کوماننے سے انکار کردے۔
حکومت برطانیہ نے1858ء میں ہندوستان کے لیے بھی بیوروکریسی کا تقریباً ملتا جلتاڈھانچہ متعارف کرایا،جوانڈین سول سروس(ICS)کہلاتاتھا۔مگر برٹش انڈیا سمیت دیگر نوآبادیات میںانتظام وانصرام چلانے کے ساتھ ساتھ اس کی اضافی ذمے داری نوآبادیاتی نظام کومستحکم کرنا بھی تھا۔ اس لیے برطانیہ اور نوآبادیات میں نوکرشاہی کے انتخاب کا طریقہ کارتویکساں ہواکرتا تھا،مگر تربیتی ماڈیول (Module)مختلف رکھے گئے تھے۔ آزادی کے بعد بھارت اور پاکستان کومختلف قوانین کے علاوہ سول اور ملٹری بیوروکریسی کا ایک مضبوط ڈھانچہ بھی ورثہ میں ملا۔بھارت نے اپنی حکمرانی کو قومی اور جمہوری بنانے کے لیے آئین سازی اورجاگیرداری کے خاتمے جیسے اقدامات تو کیے،مگر ورثے میں ملنے والے اداروں ختم کرنے یا فوری طورپر تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کی۔
بلکہ بعض مضبوط اداروں کے ساختی ڈھانچوں کو نوآبادیاتی اندازمیںبرقرار رکھا،جن میں بیوروکریسی کا نظام بھی شامل ہے۔البتہ اس نے سول بیوروکریسی کے تربیتی ماڈیول (Module)میںتبدیلیاں کرکے نوکر شاہی کے مزاج کو نوآبادیاتی کی جگہ قومی بنانے کی کامیاب کوشش کی۔اس تبدیلی کا خوشگوار نتیجہ یہ نکلاکہ ایک طرف انڈین بیوروکریسی جمہوریت دشمن نہیں رہی اور دوسرے وہ خود کوعوام کا حکمران سمجھنے کی بجائے خادم سمجھنے پر آمادہ ہوئی۔بھارتی سیاستدانوں کی بیوروکریسی کے اندرونی معاملات میںعدم مداخلت نے بھی اس اہم ریاستی انتظامی ادارے کو politiciseہونے نہیں دیا اور اس کی پیشہ ورانہ حیثیت برقرار ہے۔
اس کے برعکس پاکستان میں حکمران اشرافیہ اورسیاسی جماعتوں کا مزاج چونکہ شروع ہی سے غیر جمہوری رہاہے،اس لیے انھوں نے گورننس کی باریکیوں کو سمجھنے کی کبھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔یہی سبب ہے کہ 66برسوں کے دوران نہ تو جمہوری اداروںکی تشکیل وتعمیراورتوسیع ہوسکی اور نہ ہی انتظامی مشنری کوقومی مزاج کے مطابق ڈھالنے کے لیے ان کے تربیتی ماڈیولز میں تبدیلی کی گئی۔جب کہ اقتدار واختیار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے مقتدر اشرافیہ اور سیاسی جماعتوں نے جہاں ان گنت غیر قانونی حربے استعمال کیے ، وہیںانتظامی مشنری یعنی بیوروکریسی کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی نئی روایت کو بھی جنم دیا۔ ہر آنے والی حکومت نے من پسند افسران اور اہلکاروں کی اہم پوزیشنوں پرتعیناتی میں میرٹ کے اصولوں کی دھجیاں بکھیر نے کے علاوہ سول بیوروکریسی کے ساختی ڈھانچے میں بے جا ردوبدل کرکے اس اہم ریاستی انتظامی ادارے کو Politicise کردیا،جس کے اثرات براہ راست پاکستان میں گورننس پر مرتب ہورہے ہیں۔
اگر تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو سول بیوروکریسی میں مداخلت کاآغازایوب خان کے دور میںہوگیاتھا، مگرچونکہ اس وقت تک انگریز دور کے ICS افسران موجود تھے، جو اپنی ادارہ جاتی ذمے داریوں کو سمجھتے تھے،اس لیے اس نظام کو زیادہ نقصان نہیں پہنچایاجا سکا۔اس کے علاوہ بنگالی سیاسی قیادت بھی سول بیوروکریسی کے معاملات میں سیاسی مداخلت کے خلاف تھی،اس لیے وہ ہر غیر قانونی اقدام کی مخالفت کیا کرتی تھی۔یہی وجہ تھی کہ سقوط ڈھاکہ تک انتظامی ڈھانچہ کسی حدتک توازن کے ساتھ چلتا رہا۔ لیکن سقوط ڈھاکہ کے بعد فیوڈل ذہنیت کے حکمرانوں اورسیاست دانوں کھل کر گل کھلانے کا موقع مل گیا۔سول سروس پر دو جانب سے حملہ کیا گیا۔ اول، اس میں سلیکشن،تربیت اورتقرری کے برطانوی نظام کو تبدیل کردیاگیا۔سلیکشن میں میرٹ کی جگہ کوٹا،جب کہ تقرری اور تعیناتی میں سینئرٹی کی جگہ ذاتی پسند اور ناپسند نے اس سروس کی پیشہ ورانہ کارکردگی کومتاثر کیا۔
دوئم، فوجی افسران کو سول سروس میں کھپانے اور انھیں مختلف انتظامی ذمے داریاں تفویض کرنے کے رجحان نے بھی اس اہم سروس کے نظام میں بگاڑپیداکیا۔ آج صورت حال یہ ہے کہ پولیس سے شہری انتظامیہ اور سیکریٹریٹ میں بیٹھے عملے تک انتظامی مشنری کا ہر چھوٹا بڑااہلکاراپنی اصل ذمے داریاں ادا کرنے پر اس لیے آمادہ نہیں ہے،کیونکہ اسے اندازہ ہے کہ پیشہ ورانہ اہلیت اور اچھی کارکردگی کا کوئی صلہ ملنے کاامکان نہیں ہے۔ جب کہ حکمرانوں کی کاسہ لیسی اور اراکین اسمبلی کی خوشامد اور ان کے ناجائز مطالبات کی تکمیل اسے ایک ساتھ کئی سیڑھیاں اوپر چڑھا سکتی ہیںاور منفعت بخش عہدوں پر فائز کرسکتی ہے۔اس لیے وہ اپنی کارکردگی میں بہتری لانے اور عوام کوسہولیات مہیاکرنے کی بجائے حکومت،وزراء اور اراکین اسمبلی کی خوشامد کواپنی ترقی کا زینہ سمجھتاہے۔ایسی صورتحال میںسول بیوروکریسی سے اچھی گورننس اور ملک کے لیے بہترمنصوبہ بندی کی توقع رکھنا عبث ہے۔
لہٰذا آج ملک دہشت گردی، بدامنی، جرائم کی بڑھتی ہوشرح سمیت جن ان گنت مسائل میں گھراہواہے،ان کا بنیادی سبب انتظامی اداروں کی تباہی ہے۔ آج دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی وارداتوں اورامن وامان کی مخدوش صورتحال کوکنٹرول کرنے میں سیکیورٹی اداروںکی ناکامی۔ بڑھتی ہوئی کرپشن اور بدعنونیواںکے سبب ملکی خزانے کوہر سال ہونے والا اربوں روپے کا نقصان اورہر سطح پر بدانتظامی ،اس بات کی غماز ہے کہ ملک میں گورننس بدترین ناکامی سے دوچار ہوچکی ہے، جس کے نتیجے میں ریاست ناکامی کی دہلیز تک جاپہنچی ہے۔گورننس کا یہ بحران منتخب اور غیر منتخب دونوں طرح کی حکومتوں کا پیدا کردہ ہے۔جنھوں نے اپنے مخصوص مفادات کے حصول کی خاطر ریاستی انتظام کے ایک اہم اور فعال ادارے کو کرپٹ، بدعنوان اور نااہل بنانے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔
لہٰذا اگر ملک کو ناکام ہونے سے بچانا ہے تو گورننس کے نظام کو درست کرنا ہوگا۔اس مقصد کے لیے ریاستی اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنانے پر توجہ مرکوزکرنا ہوگی۔خاص طورپر سول بیوروکریسی کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے سختی سے گریز کرتے ہوئے اس کے اس ساختی ڈھانچے کو بحال کرنا ہوگا جو انگریز جاتے ہوئے چھوڑ کرگیا تھا۔ یہ طے ہے کہ میرٹ اوراہلیت کی بنیادپر منتخب، انتظامی طورپر بااختیار اور سیاسی طورپرNonpartisanبیوروکریسی ہی سیاسی حکومت کی ہدایات کی روشنی میںگورننس کو بہتر بنانے کی اہلیت رکھتی ہے۔