ہمیں سونا ہے

اگر اندھیروں کو مارنے کے لیے اور اندھیرے پیدا کرنے ہیں تو وقت ضایع کرنے کی ضرورت کیا ہے؟ ۔۔۔

muhammad.anis@expressnews.tv

اگر اندھیروں کو مارنے کے لیے اور اندھیرے پیدا کرنے ہیں تو وقت ضایع کرنے کی ضرورت کیا ہے؟ اندھیری قبر سمجھ کر بس، کروٹ بدلتے رہئے کیونکہ یہاں سے نکلنا ممکن نہیں۔ ایک جیسے ہی تماشے روز دیکھنے ہیں تو اپنی آنکھیں بند رکھیں۔ بے بسی اور بے حسی کی چادر سے روز منہ چھپانا ہے تو ہر تماشے پر واہ واہ کرنے کا ڈرامہ بند کر دیں۔ سر سے پائوں تک چلتی ہوئی لاشوں کو کوئی غرض نہیں کہ پکوڑوں میں مرچیں زیادہ تھیں یا لندن کے حلیم میں نمک کم تھا۔ قاتل قاتل کی رٹ لگانے والے گلے مل رہے تھے اور تاریخی جلسوں کے تاریخی الفاظ مجھے قبر میں بھی سکون نہیں لینے دے رہے تھے۔

کیوں قبرستان میں بانسری بجا کر ہماری نیند خراب کی جاتی ہے؟ قبروں کے اوپر شور سا برپا ہے مگر زندہ لاشیں آرام سے سو رہی ہیں۔۔ چیف جسٹس بار بار اُن مردہ روحوں کو جھنجھوڑ رہے ہیں مگر نا انھیں کبھی جاگنا ہے اور نا کبھی یہ جاگیں گے۔

چیف جسٹس صاحب بھری عدالت میں بار بار پوچھ رہے تھے کہ مجھے بتایا جائے کہ لوگ گواہی کیوں نہیں دیتے؟ لیکن ہر طرف سکوت تھا۔ بس سکوت تھا۔ سب ایک دوسرے کے بدنما چہرے دیکھ کر دل دل میں کہہ رہے تھے کہ یہ کچھ بھی کہتے رہیں، ہو گا تو وہی جو ہم چاہیں گے۔ آئیے میں بتاتا ہوں کہ گواہ کیوں نہیں آتے؟ کیا ہم سب اتنے معصوم ہیں کہ یہ نہ جان سکیں کہ انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج مصطفیٰ میمن نے کیوں منع کر دیا کہ وہ نجی مصروفیات کی وجہ سے ایک اہم دہشت گردی کے کیس کی سماعت نہیں کر سکیں گے۔ جو پوچھنا چاہتا ہے جو جاننا چاہتا ہے وہ صرف ایک مثال لے لیجیے۔ سندھ دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ انسداد دہشت گردی کی کُل گیارہ عدالتیں ہیں۔ کراچی جو ہر وقت دہشت گردی کی لپیٹ میں رہتا ہے وہاں صرف چار عدالتیں ہیں۔ جا کر پوچھ لیں کہ کتنے فیصلے ہوئے؟

اگر کسی کو شک ہو تو وہ معلوم کر لے کہ کتنے جج وہاں سے چھوڑ کر جا چکے ہیں؟ کتنے لوگوں کی دلچسپی ہے وہاں جج بننے کی؟

آئیے میں بتاتا ہوں کہ کسی کو معلوم ہے کہ چند دن پہلے خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں کے اہم اداروں اور اہم لوگوں نے یقین دلایا تھا کہ ماہ رمضان میں امن رہے گا۔ سیکور ٹی کا انتظام مکمل کر لیا گیا ہے۔ کوئی دہشت گردی کی واردات نہیں ہو گی۔ مگر میرے کئی بھائی اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے افطار کا سامان خرید رہے تھے۔ جو بچ گئے وہ اپنے سر کو اللہ کے حضور جھکانے کے لیے مسجد کا رخ کر رہے تھے کہ یکے بعد دیگرے دو خودکش دھماکے ہو گئے۔ کون پوچھے گا کہ جب ایک کالعدم جماعت کے نمائندہ میڈیا کے نمائندوں کو باری باری فون کر کے فخر سے کہہ رہے تھے کہ یہ کام اُن کا ہے۔۔ اُس وقت تمام معززین کہاں تھے؟ صحافیوں کے فون سن کر انھیں محب وطن کا سرٹیفیکٹ جاری کرنے والوں کے گھر شاید اُس وقت لوڈ شیڈنگ ہو گی۔

گواہ کیوں نہیں آتے؟ کراچی میں چن چن کر اُن وکیلوں کو مار دیا جاتا ہے جو دہشت گردوں کے خلاف کیس لڑتے ہیں۔ ہائی کورٹ کے کیفے ٹیریا میں ان گناہ گار کانوں نے خود وکیلوں کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ کوئی سرکاری وکیل دہشت گردوں کے خلاف کیس لڑنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ بار کے لوگ تو خود کو آئین اور قانون کا جانثار کہتے ہیں۔ اُن جانثاروں میں سے تو کسی سے پوچھیئے کہ کیوں لوگ بھاگ رہے ہیں ۔۔۔۔؟؟


چھوڑیں کراچی کی کہانی کو، رہنے دیجیے خیبر پختونخوا کے وکیلوں کو، مت لیں دلچسپی بلوچستان کی لاپتہ داستانوں میں۔۔ مجھے بتائے کہ سیکڑوں لوگوں کے قتل کا اعتراف کرنے والے کون سی جیل میں ہیں۔ پنجاب حکومت نے جن بڑے دہشتگروں کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے، اُن کے کیس کن فائلوں میں قید ہیں؟

صوفیوں کی زمین پر بسنے والے سچل اور شاہ لطیف کو یاد کر کے ہمیشہ دعویٰ کرتے رہے کہ یہاں دہشت گردی کبھی نہیں پنپ سکتی۔ وہ آنکھیں کھول کر دیکھ لیں کہ سکھر میں لگنے والی آگ کسی کو محفوظ نہیں رکھے گی۔ دہشت گردوں نے لاڑکانہ سے کچھ ہی فاصلے پر اپنی موجودگی کا احساس دلا دیا ہے۔ 11 مئی سے پہلے مزارات پر ہونے والے دھماکوں کی بُو ابھی ختم نہیں ہوئی۔ پنجاب میں وارث شاہ اور بُلھے کے عشق کو بارود کی بُو کبھی نہیں مٹا سکتی مگر یاد رکھئے کہ یہ سکوت ابھی عارضی ہے۔ رمضان کے بعد کئی چہروں سے نقاب اٹھیں گے۔۔

جو یہ سمجھ رہا ہے کہ شر پسند نگاہیں اُس تک نہیں پہنچیں گی، وہ اس سوال کا جواب جلد ڈھونڈ لے کہ لوگ گواہی کیوں نہیں دیتے ۔۔؟

اس لیے نہیں دیتے کہ اُن کے بچوں کو مار دیا جاتا ہے۔ اُن کی عزتوں کو سر عام پامال کیا جاتا ہے۔ کسی کو یاد ہے کہ ایک رپورٹر کے قتل کے چھ گواہ کہاں گئے ۔۔؟؟ کیسے چُن چُن کر انھیں مارا گیا ۔۔۔۔؟؟ْ

چیف جسٹس نے پولیس والوں سے سہی پوچھا کہ گواہ کیوں نہیں آتے ۔۔؟؟ کوئی جا کر ضرور پوچھے کہ پشاور کے قصہ خوانی بازار میں پولیس والوں کو کیوں سر عام مارا گیا ۔۔؟؟ بنوں میں قتل ہونے والے پولیس افسر کا جرم کیا تھا ۔۔؟؟ کراچی کے علاقے گلشن میں ایک پولیس اہلکار کے بھائی کو کیوں مارا گیا تھا ۔۔؟؟ کوئٹہ میں اعلی پولیس افسروں پر بم حملہ کیوں ہوا تھا ۔۔۔؟ْ؟؟ اور پھر کیا ہوا۔۔؟ جب یہ سب اس دنیا میں نہ رہے پولیس کتنے لوگوں کو پکڑ کر لائی۔؟ اور اب وہ رہا ہو کر کس علاقے میں پائے جاتے ہیں ۔۔ ؟؟ بالکل یہ معلوم کریں کہ سیکڑوں بندوق بردار لوگ جیل سے جس دہشت گرد کو رہا کرا کر لے گئے، اُس نے ملالہ کے لیے خط کہاں سے لکھا ۔؟؟۔ پولیس والوں کے بھی بچے ہیں۔ جج بھی اسی ملک کے شہری ہیں۔ اور عام آدمی تو چکی میں پستا ہی ہے ۔۔ ان سب سے پوچھ لیں کہ گواہ کیوں نہیں آتے ۔۔۔۔

بس اس لیے نہیں آتے کہ ہمارے خواب جھوٹے ہیں جو بڑی گاڑی میں سیکیورٹی کے ساتھ نہیں گھوم سکتے اس لیے چھوٹی سی بند قبر میں ہمیں سونے دیں ۔۔ ہمیں سونے دیں ۔۔ ہمیں سونا ہے ۔۔۔
Load Next Story