معذور افراد مصائب کا شکار کیوں
سرکاری نوکریوں میں دو فیصد کوٹہ مقرر ہونے کے باوجود حکومتِ پاکستان معذور افراد کو روزگار فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے۔
DAMASCUS:
سپریم کورٹ نے معذور افراد کے حقوق پر وفاق اور صوبوں کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہارکرتے ہوئے معذور افراد کی بحالی، شکایات اور سہولیات سے متعلق ڈیٹا طلب کر لیا، عدالت نے کہا کہ بتایا جائے وفاق اور صوبوں نے عدالتی احکامات پر کتنا عمل کیا ، اگر عمل نہیں کرنا تو بتا دیں، منافقت نہ کی جائے۔
عدالت عظمیٰ کے ریمارکس صورتحال کی سنگینی کی جانب واضح ترین اشارہ ہے۔ پاکستان میں معذور افراد جن مصائب اور آلام کا شکار ہیں ان کا بیان ایک درد ناک منظر نامہ پیش کرتا ہے ۔ پاکستان میں معذور افراد کی فلاح و بہبود سے متعلق صرف ایک ڈس ایبل پرسنز ایمپلائنمنٹ اینڈ ری ہیبلی ٹیشن آرڈیننس 1981ء موجود ہے، جس میں معذور افراد کے لیے نوکریوں میں دو فیصد کوٹہ متعین ہے۔
اس کے علاوہ علاج کی مفت سہولتیں اور معذور افراد کے بچوں کی سرکاری اداروں میں 75 فیصد جب کہ پرائیویٹ اداروں میں 50 فیصد فیس معافی اور روزگار کی یقینی فراہمی بھی اس قانون کا حصہ ہے ، مگر اس کے باوجود اکثر معذور افراد کو اپنے حقوق کے حصول کے لیے احتجاج کا راستہ اختیارکرنا پڑتا ہے۔ مذکورہ آرڈیننس میں خاصی خامیاں،کمزوریاں موجود ہیں جنھیںدورکرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ جب معذور افراد سڑکوں پر آکر احتجاج کرتے ہیں تو ان پر پولیس لاٹھیاں برساتی ہے، بالخصوص نابینا ڈگری یافتہ امیدواروں کے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا ہے اور انھیں کوٹے کے مطابق ملازمتیں بھی فراہم نہیں کی جاتیں ۔
دوسری جانب وزارتِ تعلیم کے تحت خصوصی بچوں کی تعلیم کے لیے کروڑوں روپوں کے بجٹ کا اعلان توکر دیا جاتا ہے لیکن سرکاری اسکول ان تمام سہولتوں سے محروم ہیں جس سے معذور بچوں میں تعلیم حاصل کرنے کے شوق کی حوصلہ افزائی ہو سکے۔ معذور بچوں کی بڑی تعداد محض اس وجہ سے اسکول نہیں جا سکتی کیونکہ ان کے کلاس روم پہلی یا دوسری منزل پر ہوتے ہیں اور انھیں سیڑھیاں چڑھنے میں دشواری ہوتی ہے۔
دیگر ممالک میں ناصرف اسکولوں بلکہ پبلک ٹرانسپورٹ اور تفریحی مقامات پر معذور لوگوں کو الگ سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں جب کہ پاکستانی حکومت کی طرف سے ایسی سہولتیں ناپید ہیں۔ ملک میں معذور بچوں کی 80فیصد تعداد مناسب سہولتوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہتی ہے۔ معذور افراد کے لیے حکومت کی کارکردگی ہمیشہ صفر رہی ہے۔ ظلم کی حد تو یہ ہے کہ سرکاری نوکریوں میں دو فیصد کوٹہ مقرر ہونے کے باوجود حکومتِ پاکستان معذور افراد کو روزگار فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے۔
گزشتہ برس صوبہ سندھ میں معذور افراد کے کوٹے پر سرکاری ملازمت کے حصول کے لیے تندرست افراد معذور بن کر انٹرویو دیتے ہوئے پکڑے گئے تھے ۔ ایک شخص نے خود کو نابینا ظاہر کر کے سرکاری نوکری حاصل کرنے کے لیے انٹرویو دیا' ایک اور نوجوان پولیو سے متاثرہ معذور بن کر نوکری لینے پہنچ گیا، ان کی جعلسازی پکڑی گئی اور ان کو انٹرویو سے نکال دیا گیا۔ معذور افراد دیگر معاشرے کی نسبت زیادہ توجہ کے مستحق ہیں۔حکومت کو معذور افراد کے لیے اقدامات اٹھانے چاہئیں۔
سپریم کورٹ نے معذور افراد کے حقوق پر وفاق اور صوبوں کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہارکرتے ہوئے معذور افراد کی بحالی، شکایات اور سہولیات سے متعلق ڈیٹا طلب کر لیا، عدالت نے کہا کہ بتایا جائے وفاق اور صوبوں نے عدالتی احکامات پر کتنا عمل کیا ، اگر عمل نہیں کرنا تو بتا دیں، منافقت نہ کی جائے۔
عدالت عظمیٰ کے ریمارکس صورتحال کی سنگینی کی جانب واضح ترین اشارہ ہے۔ پاکستان میں معذور افراد جن مصائب اور آلام کا شکار ہیں ان کا بیان ایک درد ناک منظر نامہ پیش کرتا ہے ۔ پاکستان میں معذور افراد کی فلاح و بہبود سے متعلق صرف ایک ڈس ایبل پرسنز ایمپلائنمنٹ اینڈ ری ہیبلی ٹیشن آرڈیننس 1981ء موجود ہے، جس میں معذور افراد کے لیے نوکریوں میں دو فیصد کوٹہ متعین ہے۔
اس کے علاوہ علاج کی مفت سہولتیں اور معذور افراد کے بچوں کی سرکاری اداروں میں 75 فیصد جب کہ پرائیویٹ اداروں میں 50 فیصد فیس معافی اور روزگار کی یقینی فراہمی بھی اس قانون کا حصہ ہے ، مگر اس کے باوجود اکثر معذور افراد کو اپنے حقوق کے حصول کے لیے احتجاج کا راستہ اختیارکرنا پڑتا ہے۔ مذکورہ آرڈیننس میں خاصی خامیاں،کمزوریاں موجود ہیں جنھیںدورکرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ جب معذور افراد سڑکوں پر آکر احتجاج کرتے ہیں تو ان پر پولیس لاٹھیاں برساتی ہے، بالخصوص نابینا ڈگری یافتہ امیدواروں کے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا ہے اور انھیں کوٹے کے مطابق ملازمتیں بھی فراہم نہیں کی جاتیں ۔
دوسری جانب وزارتِ تعلیم کے تحت خصوصی بچوں کی تعلیم کے لیے کروڑوں روپوں کے بجٹ کا اعلان توکر دیا جاتا ہے لیکن سرکاری اسکول ان تمام سہولتوں سے محروم ہیں جس سے معذور بچوں میں تعلیم حاصل کرنے کے شوق کی حوصلہ افزائی ہو سکے۔ معذور بچوں کی بڑی تعداد محض اس وجہ سے اسکول نہیں جا سکتی کیونکہ ان کے کلاس روم پہلی یا دوسری منزل پر ہوتے ہیں اور انھیں سیڑھیاں چڑھنے میں دشواری ہوتی ہے۔
دیگر ممالک میں ناصرف اسکولوں بلکہ پبلک ٹرانسپورٹ اور تفریحی مقامات پر معذور لوگوں کو الگ سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں جب کہ پاکستانی حکومت کی طرف سے ایسی سہولتیں ناپید ہیں۔ ملک میں معذور بچوں کی 80فیصد تعداد مناسب سہولتوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہتی ہے۔ معذور افراد کے لیے حکومت کی کارکردگی ہمیشہ صفر رہی ہے۔ ظلم کی حد تو یہ ہے کہ سرکاری نوکریوں میں دو فیصد کوٹہ مقرر ہونے کے باوجود حکومتِ پاکستان معذور افراد کو روزگار فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے۔
گزشتہ برس صوبہ سندھ میں معذور افراد کے کوٹے پر سرکاری ملازمت کے حصول کے لیے تندرست افراد معذور بن کر انٹرویو دیتے ہوئے پکڑے گئے تھے ۔ ایک شخص نے خود کو نابینا ظاہر کر کے سرکاری نوکری حاصل کرنے کے لیے انٹرویو دیا' ایک اور نوجوان پولیو سے متاثرہ معذور بن کر نوکری لینے پہنچ گیا، ان کی جعلسازی پکڑی گئی اور ان کو انٹرویو سے نکال دیا گیا۔ معذور افراد دیگر معاشرے کی نسبت زیادہ توجہ کے مستحق ہیں۔حکومت کو معذور افراد کے لیے اقدامات اٹھانے چاہئیں۔