بچھڑ گئے

واپسی پر ’’کچھ دیرچلنے کے بعددرختوں کے درمیان میں سے سبزہلالی پرچم نظرآگیا۔پھرکیاتھا؟اس عظیم پرچم سے نظرنہ ہٹتی تھی۔

raomanzar@hotmail.com

کیابہترین کتاب ہے۔فرخ کیونکہ عمرمیں مجھ سے بڑے ہیں۔لہٰذافرخ صاحب لکھنامقدم ہے۔ شاید برادرم فرخ کہنازیادہ مناسب ہے۔عرصے درازسے فوج سے ریٹائر ہونے والاکرنل زیڈآئی فرخ۔ان سے محض چند ملاقاتیں ہیں۔واجبی سی۔دوچارمباحثوں میں اکٹھے جانے کااتفاق۔ذہن میں ان کے متعلق کوئی خصوصی تاثرنہیں تھا۔ ایک سماجی ملاقات کے بعداپنی کتاب میرے حوالے کی تو گھرواپس آکرمیزپررکھ دی۔وہی جواکثرکتابوں کے ساتھ ہوتاہے۔

میزبھرجاتی ہے۔جب طبیعت چاہے توپھرکوئی کتاب نکال کرورق گردانی شروع کردیتاہوں۔ویسے میری اسٹڈی میں کتابیں بڑے قرینہ سے شلفوں میں رکھی ہوئی ہیں۔مگرمیزپرایک بے ترتیب ڈھیرموجودہے۔ایک دوسرے کے اوپردھری ہوئی بے ترتیب ساکتابی ڈھیر۔یہ بے ترتیبی میری زندگی کاایک سرمایہ ہے۔بہت زیادہ نظم وضبط سے میری سوچنے کی طاقت مفقودسی ہوجاتی ہے۔

برادرم فرخ کی کتاب کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ میز پر تقریباًایک ڈیڑھ ہفتہ پڑی رہی۔پھرایک شام نظرپڑی تو بے معنی طریقے سے پڑھناشروع کردیا۔جیسے جیسے کتاب پڑھنی شروع کی،ایک جہانِ حیرت کھلناشروع ہوگیا۔ایک نوجوان فوجی افسرجومشرقی پاکستان میں تعینات ہوا تھا۔ جس نے ملک کے دوحصوں کوانتہائی تکلیف سے تقسیم ہوتے دیکھاتھا۔جوبنگلہ دیش کے وجودمیں آنے کاعینی شاہد تھا۔ جس نے ایک نوحہ لکھاہے،کہ اس جان کنی میں کون سے فریق نے کیامنفی یامثبت کام کیاتھا۔

یہ ایک مرثیہ ہے،ملک کے ٹوٹنے پر،1970کے مقتدرطبقے کی ذہنی پسماندگی پر۔ کس طرح مغربی پاکستان میں چنداعلیٰ ترین لوگوں نے عام لوگوں کواصل معاملات کی ہوانھیں لگنے دی۔کیسے قومی سطح پرجھوٹ درجھوٹ بولاگیااورکیسے ایک ایسی حقیقت کو جو دہائیوں سے مشرقی پاکستان کابچہ بچہ جانتاتھا،لوگوں سے چھپایاگیا۔یہ کتاب ایک نوجوان فوجی افسرکی پکار ہے۔ جو چاردہائیوں کے بعدبھی اتنی ہی اہم ہے جتنی سابقہ دور میں۔سچ توسچ ہوتاہے۔بیشک صدیوں تک ملفوف رہے اوریہ تو صرف دہائیاں پہلے کی بات ہے۔

کتاب کے چندمندرجات پیش خدمت ہیں۔

''میں نے اپنے ساڑھے چارسال کی کہانی لکھی ہے۔اپنے آپکوکسی ایک موضوع میں محدودکرنے کے بجائے میں نے خوددیکھا،خودجانا،میرے ساتھ جوگزری، بطور نوجوان افسرکس جگہ کیاجذبات تھے اورآج میں اسکاکیسے تجزیہ کرتا ہوں،سب نہایت ایمانداری کے ساتھ نذرقارئین کررہا ہوں۔اُمیدہے پڑھنے والوں کواس وقت بنگال میں زندگی، عوامی احساسات،تاریخی اورجغرافیائی اثرات، اورحالات کے جبرکاکچھ اندازہ ہوجائیگا۔شایداسی سے ہماراقومی معاملات میں حقیقتوں کوپہچاننے اوراپنی ذمے داریوں کے احساس کا عنصربھی مزیدنموپاجائے''۔

''انکااپنی قسمت بدلنے کاسفرخاموشی سے جاری تھا جس طرح لاوا زمین کے اندرمناسب وقت اورکمزور چٹانوں کی تلاش میں صدیوں سفرکرتارہتاہے۔یہ خیالات اب ماضی کے جھروکوں میں اُمڈتے نظرآتے ہیں ورنہ اسوقت تو ہم فقط تفاخرسے مخمورہورہے تھے''۔

''یادرہے کہ جب بنگالی وزیراعظم محمدعلی بوگرہ نے 22نومبر1954 کواسمبلی میں وَن یونٹ کی قراردادپیش کی جواس کے اگست1955میں مستعفی ہونے کے تقریباًڈیڑھ ماہ بعد30ستمبر1955کومنظورہوئی۔اس کے خلاف شیخ مجیب الرحمن کی آوازنمایاں تھی۔اس نے مشرقی بنگال کومشرقی پاکستان کہنے پربنگالی تشخص کاخاتمہ بلکہ بنگال کے نام تک کومٹانے کے مترادف قراردیاتھا۔کیااسوقت کسی نے اس کی آوازکے اثرات کااندازہ لگانامناسب سمجھا؟کیاکسی کی بلندنگاہی نے اس کے مضمرات کاادراک کرتے ہوئے آیندہ کی بنگالی نسل کے احساسات کاسوچاتھاجواس وقت تو8سال کی تھی مگراب اس بازگشت میں جوان ہوکرمجیب کی طاقت بن چکی تھی؟ مشہور مثل ہے کہ غلط سیاسی فیصلے تپ دق کے جراثیم کی طرح ہوتے ہیں۔آغازمیں علامات کم نظرآتی ہیں مگرعلاج آسان ہوتاہے اوربعدمیں جب علامات سامنے کھل کر آجاتی ہیں تو علاج مشکل یاناممکن ہوجاتاہے۔اس معاملے میں بھی کچھ ایساہی ہواہے''۔

''نئے سال کے پہلے دودنوں میں واقعی Happy New Yearکاسماں تھا مگراس سال کااختتام کتنا اندوہناک ہونے والاتھاکم ازکم ہمارے لیول پر تو اس کا تصوربھی نہ کیاجاسکتاتھا''۔

''فوجی دستوں کوحکم تھاکہ شہرمیں کرفیوکانفاذ تویقینی بنایاجائیگامگرکوئی جوان گولی فائرنہیں کریگا۔یہ عجیب المنطق آرڈرلے کرآرمی شہرمیں داخل ہوگئی۔جگہ جگہ جوانوں کی بلوایوں سے مڈبھیڑہوئی۔چارپانچ گھنٹے گالیاں اور پتھر کھانے کے بعدبھی جوان حکم کی تعمیل کرتے رہے جس سے بنگالیوں کے حوصلے بڑھ گئے۔ایک جگہ جہاں انھوں نے خودپر بھرپور حملے کوآتے دیکھاتوآرمی جوانوں نے فائرکھول دیا۔اس رات چھ بنگالی مارے گئے۔اپنی تحریک میں شدت لانے کے لیے انھیں یہ لاشیں چاہیے تھیں سوانھیں پہلی رات ہی میسر آگئیں''۔


''یحییٰ خان نے سب کے سامنے جمہوریت کی بحالی کا عزم رکھا۔ون یونٹ توڑکے صوبے بحال کردیے،مشرقی پاکستان کوبرابرکی نمایندگی(Parity)سے آزادکرکے ایک آدمی ایک ووٹ کااُصول رائج کیا،الیکشن منصفانہ اور غیرجانبدارانہ کروائے اورمجیب کے چھ نقاطی منشورپرکوئی اعتراض نہ کیا۔پھرالیکشن نتائج کے مطابق مجیب الرحمن کو برملا پاکستان کامستقبل کاوزیراعظم کہا۔مگریہ سب جمہوری اقدام اُٹھائے اوربنگالیوں کی اُمیدیں بڑھانے کے بعداقتدار ان کے حوالے کرنے کے لیے مین میخ نکالنی شروع کردی۔وہ سیاستدان اور ذرایع ابلاغ جنہوں نے''محب الوطن''مجیب الرحمن کو اگر تلہ کیس سے نکلوایاتھا،کہیں بھی اُصولی جمہوریت کے حق میں آوازاُٹھاتے نظرنہ آئے۔اس فیکٹر نے بنگالیوں کو اخلاقی اورآئینی طورپرمضبوط کردیا۔ اُدھر مغربی پاکستانیوں کا بھی ایک طرح کامحاذسامنے آگیا جس سے ملکی یکجہتی مزید کمزور ہوگئی''۔

آپریشن ''سرچ لائٹ''نے مشرقی پاکستان پرآرمی کے ذریعے حکومت کاکنٹرول توبحال کردیامگریکجہتی کی تسبیح ٹوٹ گئی اوراس کے موتی اس گھنے سبزے میں ایسے بکھرگئے کہ سراغ لگاناکسی بھی سرچ لائٹ کے بس میں نہیں رہاتھا''۔

''ڈھاکا میں ہرطرف ایک شورسابرپاتھا۔بہاری کالونیوں اوراَکادُکامل جانے والے پاکستانیوں کاقتلِ عام جاری تھا جو ''جائے بنگلہ''کے فلک شگاف نعروں کے درمیان ہورہاتھا۔پیل خانہ کے ایک طرف دھان منڈی، نیو مارکیٹ اوردوسرے پوش علاقوں میں مکتیوں کی گاڑیوں کے پیچھے بنگالی اپنے نئے پرچم کے ساتھ کاروں کے قافلے بناکرگھوم رہے تھے۔وہ مختلف جگہوں پررُک رُک کراپنے جذبات کا اظہارکرتے،نعرہ بازی کرتے اورآگے نکل جاتے۔دوسری طرف بوڑھی گنگاکے ساتھ گنجان آبادیوں اورتنگ گلیوں میں لوگوں کی تعدادبڑھ رہی تھی اورفلک شگاف نعرے سنائی دے رہے تھے۔ان میں پاکستانیوں سے نفرت کے نعرے زیادہ تھے۔خطرہ تھاکہ رات کوادھرسے یہ لوگ پیل خانہ پر ہلہ نہ بول دیں۔ہم میں سے ہرایک کواس رات جاگ کراپنی اس پاکٹ کادفاع کرناتھا۔آج بھی ہم پہلے والے تفاخرکی عمارتوں میں بیٹھے تھے مگرغریب الوطن ہونے کااحساس غالب تھا''۔

''17دسمبرکوہم ڈھاکا کینٹ کے مکین بنے تھے اور 19دسمبرکی صبح نہتے ہوکردشمنوں کے رحم وکرم پرچلے گئے۔ ہرلمحہ کسی انجانے انتظارمیں گزرتا۔سچ کہتے ہیں کہ غیریقینی کی کیفیت سب سے بڑی سزاہوتی ہے۔ کتنے دن اورکس حال میں یہاں رہناتھا،اس کے بعد کہاں جاناتھا،کب آزادی ملے گی،ملے گی بھی یا نہیں، کچھ معلوم نہ تھا۔قیافہ آرائیاں اور سینئرزسے دوسری جنگِ عظیم کے قیدیوں کی کہانیاں سنتے دن رات گزر جاتے۔یونٹس اورگروپس کے لوگ ایک دوسرے کو ڈھونڈ کراکٹھے ہوچکے تھے اوراب اسی طرح کی لسٹیں بن رہی تھیں''۔

یہ1971کی آخری رات تھی۔یہ وہی سال تھا جسکا آغازمیری زندگی کے خوبصورت ترین لمحات سے ہواتھامیں بظاہرآنکھیں بندکرکے سیٹ کی پشت سے ٹیک لگائے اونگھ رہاتھامگرآنکھیں وہی سارے حسین لمحے صاف صاف دیکھ رہی تھیں۔فرق صرف اتناتھاکہ ہرایک نظارہ جس سے میں اسوقت خودکومعطرفضائوں میں اونچی اُڑان بھرتے محسوس کررہاتھاوہی اب دل کوزخم زخم کررہاتھا۔یوں لگ رہا تھا جیسے میں ایک گھائل پرندے کی طرح آسمانوں سے مایوسیوں کی عمیق گہرائیوں میںگرتاچلاجارہاتھا''۔

''جنگی قیدی کابھی یہی حال ہوتاہے۔نہ تواس نے ذاتی طورپرکوئی جرم کیاہوتاہے اورنہ ہی اس کی سزاکی مدت متعین ہوتی ہے۔پھراس نے اپنے قومی مقاصدکی خاطر انھی کے تازہ تازہ سپاہی مارے ہوتے ہیں جنکی وہ قیدمیں ہوتا ہے۔ لہٰذااسے کسی رحم کامستحق بھی نہیں سمجھاجاتا۔اس کرب میں مجھے بھی دوسال چارماہ اور12دن کاعرصہ گزارنا پڑا''۔

''کوئی قیدمیں ہویارات ڈھلے اپنے راستے سے بھٹک جانے والامسافر،اُمیدصبح میں اندھیری رات گزارہی لیتا ہے۔خطرات اورخوف سے گزرنے کے بعدصبح صادق دونوں کے لیے اُمیدکی کرن ہوتی ہے۔مگرجہاں مسافراپنی منزل کی جانب اس اُمیدسے بڑھناشروع کردیتاہے کہ شام تک گھر پہنچ جائیگا،قیدی حسرت ویاس کے بگولوں میں سرگردان کسی اورصبح کاانتظارکرنے لگ جاتاہے۔اس کے لیے سورج کا نکلنا صبح نہیں ہوتی''۔

''شملہ معاہدے پراس وقت کے اپوزیشن لیڈراٹل بہاری واجپائی نے کہاکہ ہماری فوجوں نے جومیدانِ جنگ میں جیتاتھاوہ اندراگاندھی نے بھٹوکے سامنے میز پر ہار دیا۔ نقاداس بات پرسراپااحتجاج نظرآتے تھے کہ ان کے وزیراعظم نے1971کی جنگ کے ثمرات سمیٹے بغیرآسانی سے پاکستان کے ساتھ جنگ سے پہلے والی پوزیشن پر آنا اور بہتر حالات پیداکرنے کامعاہدہ کیوں کرلیاتھا''۔

واپسی پر ''کچھ دیرچلنے کے بعددرختوں کے درمیان میں سے سبزہلالی پرچم نظرآگیا۔پھرکیاتھا؟اس عظیم پرچم سے نظرنہ ہٹتی تھی۔سانسیں تیزاورآنکھیں نم ہوگئیں۔یہ معلوم ہی نہ تھاکہ قدم کہاں پڑرہے ہیں۔بس پاکستانی وقار کی اس علامت کی جانب فاصلہ کم کرناتھا۔یہ وہ کیفیت ہے جسے لکھنے کے لیے نہ توالفاظ ہیں اورنہ ہی پڑھنے سے محسوس کی جاسکتی ہے''۔

برادرم فرخ نے کمال کتاب لکھ ڈالی ہے۔ایک نشست میں پڑھنے کے بعدجب دیکھاتورات گزرچکی تھی اورآنکھوں میں صرف بادل تھے۔مگرسوال ہے کہ کیا ہم نے اس المناک واقعے سے کسی قسم کاکوئی سبق سیکھابھی ہے یا نہیں! جواب آپ پرچھوڑتاہوں۔
Load Next Story