حد چاہیے سزا میں عقوبت کے واسطے
ہماری دانست میں اس نقطۂ نظرکو تو کسی مہذب معاشرے میں قبول نہیں کیا جاسکتا۔
ریاستی جبر کے اداروں کا قیام برطانوی سامراج نے عوام کو غلام بنانے اور انھیں دبانے کے لیے کیا تھا اور ان اداروں کا عوام دشمن کردار پاکستان کے خواص اور حکمرانوں کے لیے برقرار رکھا گیا۔1861میں نافذ کیاگیا پولیس ایکٹ (قانون) آج اکیسویں صدی میں بھی نافذ ہے اورکون نہیں جانتا کہ ہمارے ملک میں قانون کمزوروں کے لیے ہے اور اس کی زد میں سب سے زیادہ بے بس اور لاچار لوگ ہی آتے ہیں۔
تازہ ترین ''سانحہ ساہیوال'' میں ایک خاندان پر 35 گولیاں برسانا درندگی کی انتہا نہیں تو پھر کیا کہلائے گا؟ اس سانحے میں زندہ بچ جانے والے بچوں کی بے بسی نے ہر صاحب دل کو جو زخم لگائے ہیں اس بے بسی نے ہمیں چیخنے چلانے پر مجبور کردیا ہے اور مجبوروں کی بددعائیں حکمرانوں یا ارباب اختیار کو بھی نشانِ عبرت بنا سکتی ہیں۔ کسی مہذب معاشرے میں قانون کے محافظوں کے ہاتھوں اس طرح کا فعل محض قابل مذمت نہیں بلکہ ایسی عبرتناک تادیبی کارروائی کا متقاضی ہے کہ آئندہ کبھی کسی کو ایسی غیر ذمے دارانہ حرکت کا حوصلہ نہ ہو۔
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ پولیس اورکائونٹر ٹرر ازم ڈپارٹمنٹ کی پیشہ ورانہ تربیت، اہلیت اور کارکردگی کے حوالے سے ایسے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں جن کا فی الوقت حکومت کے پاس کوئی تسلی بخش جواب نہیں ہے، حالانکہ پاکستان کا آئین اور قانون یہ کہتا ہے کہ جرم ثابت ہونے تک ہر شہری بے گناہ ہے لیکن ماروائے عدالت قتل کی شکایات بڑھتی جارہی ہیں، یاد رہے ماروائے عدالت قتل دراصل ایسے قتل کوکہا جاتا ہے جو کوئی سرکاری ادارہ غیر قانونی طور پر کرے۔ اور افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان میں ماورائے عدالت قتل کوئی نئی بات نہیں، کراچی تو دو تین دہائیوں سے اس ضمن میں کافی بدنام ہے اور چوہدری اسلم اور رائو انوار ان کائونٹر اسپیشلسٹ کے طور پر بہت معروف نام ہیں جن کے متعدد پولیس مقابلے بہت متنازعہ قرار دیے گئے تھے۔
یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ اس ملک میں ایک طبقے کے لیے قانون ہے لیکن دوسرا طبقہ اس سے بالاتر ہے۔ ایک طبقے کو پولیس اور عدالت وغیرہ کا خوف لاحق رہتا ہے لیکن کچھ طبقات ایسے ہیں جو ان دونوں کو اپنے ہاتھ کی چھڑی اور جیب کی گھڑی سمجھتے ہیں۔ جن معاملات میں ان طبقات کا کردار آجاتا ہے وہ بھی منطقی انجام تک نہیں پہنچے ۔ لہٰذا جب تک اس ملک میں رہنے والے تمام طبقات اور تمام شہریوں کو ایک لاٹھی سے ہانکنے والا نظام نہیں بنایا جاتا یہ سانحات کم ہونے کے بجائے بڑھتے رہیں گے۔
پوری دنیامیں ریاست کا بہترین تصور یہ ہے کہ وہ فرد کے معاملے میں کم ازکم دخل اندازی کرے ، فرد کی آزادی ہر شے پر مقدم ہے لیکن ہمارے ہاں الٹا تصور ہے یہاں ریاست فرد کی آزادی سلب کرتی ہے اور فرد کے پاس داد رسی کے لیے کوئی راستہ بھی نہیں بچتا۔ یہ مسلم امر ہے کہ بنیادی انسانی حقوق کی پامالی دراصل آئین سے روگردانی کے نتیجے میں ہوتی ہے، عوام سانحہ ساہیوال پر ماتم کناں ہیں لیکن آئین کی پامالی پر خاموش رہتے ہیں اور اس خاموشی کا نتیجہ ہمارے بنیادی حقوق کے سلب ہونے کی شکل میں برآمد ہوتا ہے اور جہاں بنیادی انسانی حقوق کا کوئی تصور نہ ہو وہاں ساہیوال جیسے واقعات ہونا اچھنبے کی بات نہیں۔ عدالت عظمیٰ کراچی میں ہزاروں دکانیں اور گھرگرانے پر تو مصر ہے لیکن ریاستی بربریت پہ انسانی حقوق کے دفاع پر خاموشی طاری ہے۔
آج جس بے امانی اور عدم تحفظ کے سمندر میں ہم ہاتھ پائوں ماررہے ہیں یہ ہماری72 سال کی غیر ذمے داریوں اور مستقبل کے لیے لاپروائیوں کا نتیجہ ہے۔ یہ ہمارے سیاسی اور غیر سیاسی دونوں حکمرانوں کی خراب حکمرانی کا کڑوا پھل ہے، لیکن اب مقابلہ جمہوریت اور آمریت کا نہیں اچھی اور خراب حکمرانی کا ہے۔ ایسے میں '' میثاق حکمرانی '' کی تجویز ایک نوید، ایک بشارت اور ایک تیز بہدف نسخہ ہی کہا جاسکتا ہے۔
پولیس کے نظام میں اصلاحات کا مطالبہ کرنے والے حلقوں کے مطابق جب پولیس میں سیاسی بھرتیاں کی جائیں گی اور پسندیدہ لوگوں کے سر پر سیاسی افراد کا ہاتھ ہوگا تو پھر وہی کچھ ہوگا جو ملکی منظر نامے پر ہم دیکھ رہے ہیں اور پھر ایسے میں پولیس اصلاحات کی باتیں بے کار ہی لگتی ہیں یہاں قانون کی پرواہ کرنے والے پولیس آفیسر دبنگ افسرکہلاتے ہیں اور 100ماڈل پولیس تھانوں کا قیام اور نیا پولیس قانون کیسے قانون نافذ کرنے والوں کے ذہن اور کیریکٹرکو بدل سکتا ہے؟
پولیس مقابلوں میں جرائم پیشہ افراد کی ہلاکتوں کے حامی بعض افسران کا یہ موقف ہے کہ ایسے ان کائونٹرز مخصوص علاقوں میں جرائم کے فروغ کے معروضی حالات کے تحت ضروری ہوجاتے ہیں کیونکہ خطرناک ملزمان کے خلاف عدالتوں میں شہادت دینے کے لیے کوئی شریف شہری آگے نہیں آتا جس کے نتیجے میں جرائم پیشہ افراد ضمانتوں پر رہا یا بری ہوجاتے ہیں اور دوبارہ عوام کی جان و مال سے کھیلنے کا مذموم عمل شروع کردیتے ہیں۔ وہ پولیس افسران کی جانوں کے بھی دشمن ہوجاتے ہیں لہٰذا ان کا قصہ پاک کردینا ہی معاشرے کے حق میں بہتر ہوتا ہے۔
ہماری دانست میں اس نقطۂ نظرکو تو کسی مہذب معاشرے میں قبول نہیں کیا جاسکتا۔ منطق ، دلیل، ثبوت اور حقائق کا سامنا کرنا یا اس کی نشاندہی اس قسم کے معاملات میں زادِ راہ ثابت ہوتے ہیں لیکن کیا ہے کہ ہم سبھی دلیل، منطق اور حقیقتوں سے دور رہنا چاہتے ہیں اور رہ بھی رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ برسہا برس سے ہم بطور قوم ہمیشہ ردعمل ظاہر کرتے ہیں کبھی عمل نہیں کرتے اور بھول جاتے ہیں اور پھر ایک اور سانحے کا انتظار کرتے ہیں۔ ہم کبھی کوئی سبق نہیں سیکھتے اور سانحات کو بار بار رونما ہونے سے روکنے کے لیے بہتری کی کوشش بھی نہیں کرتے۔ ہم سنجیدہ مسائل کے لیے عارضی حل تلاش کرتے ہیں اور اس عارضی حل کو مستقل اور ریاستی پالیسی کا حصہ بنادیتے ہیں۔
تازہ ترین ''سانحہ ساہیوال'' میں ایک خاندان پر 35 گولیاں برسانا درندگی کی انتہا نہیں تو پھر کیا کہلائے گا؟ اس سانحے میں زندہ بچ جانے والے بچوں کی بے بسی نے ہر صاحب دل کو جو زخم لگائے ہیں اس بے بسی نے ہمیں چیخنے چلانے پر مجبور کردیا ہے اور مجبوروں کی بددعائیں حکمرانوں یا ارباب اختیار کو بھی نشانِ عبرت بنا سکتی ہیں۔ کسی مہذب معاشرے میں قانون کے محافظوں کے ہاتھوں اس طرح کا فعل محض قابل مذمت نہیں بلکہ ایسی عبرتناک تادیبی کارروائی کا متقاضی ہے کہ آئندہ کبھی کسی کو ایسی غیر ذمے دارانہ حرکت کا حوصلہ نہ ہو۔
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ پولیس اورکائونٹر ٹرر ازم ڈپارٹمنٹ کی پیشہ ورانہ تربیت، اہلیت اور کارکردگی کے حوالے سے ایسے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں جن کا فی الوقت حکومت کے پاس کوئی تسلی بخش جواب نہیں ہے، حالانکہ پاکستان کا آئین اور قانون یہ کہتا ہے کہ جرم ثابت ہونے تک ہر شہری بے گناہ ہے لیکن ماروائے عدالت قتل کی شکایات بڑھتی جارہی ہیں، یاد رہے ماروائے عدالت قتل دراصل ایسے قتل کوکہا جاتا ہے جو کوئی سرکاری ادارہ غیر قانونی طور پر کرے۔ اور افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان میں ماورائے عدالت قتل کوئی نئی بات نہیں، کراچی تو دو تین دہائیوں سے اس ضمن میں کافی بدنام ہے اور چوہدری اسلم اور رائو انوار ان کائونٹر اسپیشلسٹ کے طور پر بہت معروف نام ہیں جن کے متعدد پولیس مقابلے بہت متنازعہ قرار دیے گئے تھے۔
یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ اس ملک میں ایک طبقے کے لیے قانون ہے لیکن دوسرا طبقہ اس سے بالاتر ہے۔ ایک طبقے کو پولیس اور عدالت وغیرہ کا خوف لاحق رہتا ہے لیکن کچھ طبقات ایسے ہیں جو ان دونوں کو اپنے ہاتھ کی چھڑی اور جیب کی گھڑی سمجھتے ہیں۔ جن معاملات میں ان طبقات کا کردار آجاتا ہے وہ بھی منطقی انجام تک نہیں پہنچے ۔ لہٰذا جب تک اس ملک میں رہنے والے تمام طبقات اور تمام شہریوں کو ایک لاٹھی سے ہانکنے والا نظام نہیں بنایا جاتا یہ سانحات کم ہونے کے بجائے بڑھتے رہیں گے۔
پوری دنیامیں ریاست کا بہترین تصور یہ ہے کہ وہ فرد کے معاملے میں کم ازکم دخل اندازی کرے ، فرد کی آزادی ہر شے پر مقدم ہے لیکن ہمارے ہاں الٹا تصور ہے یہاں ریاست فرد کی آزادی سلب کرتی ہے اور فرد کے پاس داد رسی کے لیے کوئی راستہ بھی نہیں بچتا۔ یہ مسلم امر ہے کہ بنیادی انسانی حقوق کی پامالی دراصل آئین سے روگردانی کے نتیجے میں ہوتی ہے، عوام سانحہ ساہیوال پر ماتم کناں ہیں لیکن آئین کی پامالی پر خاموش رہتے ہیں اور اس خاموشی کا نتیجہ ہمارے بنیادی حقوق کے سلب ہونے کی شکل میں برآمد ہوتا ہے اور جہاں بنیادی انسانی حقوق کا کوئی تصور نہ ہو وہاں ساہیوال جیسے واقعات ہونا اچھنبے کی بات نہیں۔ عدالت عظمیٰ کراچی میں ہزاروں دکانیں اور گھرگرانے پر تو مصر ہے لیکن ریاستی بربریت پہ انسانی حقوق کے دفاع پر خاموشی طاری ہے۔
آج جس بے امانی اور عدم تحفظ کے سمندر میں ہم ہاتھ پائوں ماررہے ہیں یہ ہماری72 سال کی غیر ذمے داریوں اور مستقبل کے لیے لاپروائیوں کا نتیجہ ہے۔ یہ ہمارے سیاسی اور غیر سیاسی دونوں حکمرانوں کی خراب حکمرانی کا کڑوا پھل ہے، لیکن اب مقابلہ جمہوریت اور آمریت کا نہیں اچھی اور خراب حکمرانی کا ہے۔ ایسے میں '' میثاق حکمرانی '' کی تجویز ایک نوید، ایک بشارت اور ایک تیز بہدف نسخہ ہی کہا جاسکتا ہے۔
پولیس کے نظام میں اصلاحات کا مطالبہ کرنے والے حلقوں کے مطابق جب پولیس میں سیاسی بھرتیاں کی جائیں گی اور پسندیدہ لوگوں کے سر پر سیاسی افراد کا ہاتھ ہوگا تو پھر وہی کچھ ہوگا جو ملکی منظر نامے پر ہم دیکھ رہے ہیں اور پھر ایسے میں پولیس اصلاحات کی باتیں بے کار ہی لگتی ہیں یہاں قانون کی پرواہ کرنے والے پولیس آفیسر دبنگ افسرکہلاتے ہیں اور 100ماڈل پولیس تھانوں کا قیام اور نیا پولیس قانون کیسے قانون نافذ کرنے والوں کے ذہن اور کیریکٹرکو بدل سکتا ہے؟
پولیس مقابلوں میں جرائم پیشہ افراد کی ہلاکتوں کے حامی بعض افسران کا یہ موقف ہے کہ ایسے ان کائونٹرز مخصوص علاقوں میں جرائم کے فروغ کے معروضی حالات کے تحت ضروری ہوجاتے ہیں کیونکہ خطرناک ملزمان کے خلاف عدالتوں میں شہادت دینے کے لیے کوئی شریف شہری آگے نہیں آتا جس کے نتیجے میں جرائم پیشہ افراد ضمانتوں پر رہا یا بری ہوجاتے ہیں اور دوبارہ عوام کی جان و مال سے کھیلنے کا مذموم عمل شروع کردیتے ہیں۔ وہ پولیس افسران کی جانوں کے بھی دشمن ہوجاتے ہیں لہٰذا ان کا قصہ پاک کردینا ہی معاشرے کے حق میں بہتر ہوتا ہے۔
ہماری دانست میں اس نقطۂ نظرکو تو کسی مہذب معاشرے میں قبول نہیں کیا جاسکتا۔ منطق ، دلیل، ثبوت اور حقائق کا سامنا کرنا یا اس کی نشاندہی اس قسم کے معاملات میں زادِ راہ ثابت ہوتے ہیں لیکن کیا ہے کہ ہم سبھی دلیل، منطق اور حقیقتوں سے دور رہنا چاہتے ہیں اور رہ بھی رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ برسہا برس سے ہم بطور قوم ہمیشہ ردعمل ظاہر کرتے ہیں کبھی عمل نہیں کرتے اور بھول جاتے ہیں اور پھر ایک اور سانحے کا انتظار کرتے ہیں۔ ہم کبھی کوئی سبق نہیں سیکھتے اور سانحات کو بار بار رونما ہونے سے روکنے کے لیے بہتری کی کوشش بھی نہیں کرتے۔ ہم سنجیدہ مسائل کے لیے عارضی حل تلاش کرتے ہیں اور اس عارضی حل کو مستقل اور ریاستی پالیسی کا حصہ بنادیتے ہیں۔