اک ذرا ایئرپورٹ تک

نندکشور وکرم اور مجھ میں ایک محبت و عقیدت کی کڑی ہے جس نے ہم دونوں کو باندھ رکھا ہے ۔

لکھنا توکچھ اور تھا مگر اچانک ایک ایسا واقعہ ہوگیا اور وہ بھی ایسا خوش گوار کہ جس کی خوشگواری کا بیان ! بس کیا بتائوں! واقعہ سنیے۔ میں نے اپنے دوست شاعر صابر ظفر کو فون کیا تو وہ چھٹتے ہی بولا '' کہاں ہیں آپ ! موبائل بند کیا ہوا ہے، وہ دہلی سے نندکشور وکرم کراچی آئے ہوئے ہیں اور آپ سے ملنے کو بے تاب ہیں۔''

نند صاحب کی آمد کا سن کر میں صبح صبح سویا سویا سا ایک قدم جاگ گیا ۔ میں نے صابر ظفر سے پوچھا '' نند صاحب کہاں ٹھہرے ہیں'' صابر ظفر نے جواباً کہا ''آپ سحر انصاری کو فون کریں۔'' میں نے صابر ظفر سے بات منقطع کی اور سحر انصاری کا سیل نمبر ملایا۔ سحر انصاری صاحب بھی مجھ پر بگڑ رہے تھے '' ارے بھئی کہاں ہو کل سے مسلسل آپ کا سیل بند ہے، دہلی سے نندکشور وکرم آئے ہوئے ہیں آپ فوراً فاطمہ حسن سے رابطہ کریں۔

نند صاحب فاطمہ کے گھر ٹھہرے ہوئے ہیں'' دوسرے لمحے میں فاطمہ حسن صاحبہ سے ان کے سیل نمبر رابطے میں تھا۔ فاطمہ حسن کی آواز پر میں نے کہا '' سعید پرویز بول رہا ہوں '' اور فاطمہ حسن صاحبہ نے لمحہ بھر ضایع کیے بغیر کہا ''نند صاحب سے بات کریں'' اب نند صاحب اور میں لائن پر تھے، نند صاحب کہہ رہے تھے'' کل رات 11بجے تک میں اور محمود شام آپ کا سیل نمبر ملاتے رہے ، مگر ہم ناکام رہے آپ اپنا موبائل دیکھیے گا کم از کم 70کالیں ہم نے کیں '' میں نے نند صاحب سے بے حد معذرت چاہی اور فاطمہ حسن کو فون دینے کا کہا۔'' فاطمہ حسن صاحبہ آپ مجھے اپنے گھرکا پتا لکھوائیں میں ابھی پہنچتا ہوں۔''

انھوں نے اپنے گھر کا پتا لکھوایا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ایک گھنٹے بعد نند صاحب ایئرپورٹ کے لیے روانہ ہوجائیں گے، انھیں اسلام آباد پہنچنا ہے۔ میں نے فون بند کیا اور گھر سے نکل گیا۔ ہمارا ڈرائیور تیز مگر محتاط رہتے ہوئے چل رہا تھا اور بالاخر ہم ان کے گھر پہنچ گئے۔ میں کار سے باہر نکلا ۔ فاطمہ حسن نے اپنی کار میں بیٹھے نندکشور وکرم سے کہا ''سعید پرویز صاحب! آگئے ہیں'' اور اب وہ یادگار لمحے شروع ہورہے تھے میں اور نندکشور وکرم 25 سال گزر جانے پر ایک دوسرے سے بغل گیر ہورہے تھے۔ اب تک ہم محض خط و کتابت یا پھر ٹیلی فون کے ذریعے ہی رابطوں میں رہے۔

نندکشور وکرم اور مجھ میں ایک محبت و عقیدت کی کڑی ہے جس نے ہم دونوں کو باندھ رکھا ہے ۔ نندکشور وکرم اب دہلی میں رہتے ہیں، بٹوارے سے پہلے راولپنڈی ان کا شہر تھا۔ اردو ادب سے بہت گہرا تعلق ہے اور حبیب جالب کے دیوانے ہیں۔ نند صاحب ''عالمی اردو ادب'' کے نام سے ہر سال ضخیم نمبر شائع کرتے ہیں ۔ افسانہ نگار ہیں اور دنیا بھرکے ادب پر ان کی نظر رہتی ہے۔1993میں حبیب جالب کا انتقال ہوا تھا اور اگلے ہی سال 1994 میں نندکشور وکرم نے480 صفحات پر مشتمل ''عالمی اردو ادب '' کا حبیب جالب نمبر شائع کیا تھا اور دہلی کے اسکول اینگلو عربک کالج (کہ جہاں حبیب جالب پڑھتے تھے) میں حبیب جالب کی پہلی برسی پر جلسہ کیا، اور اسکول کے ایک کونے میں یادگار جالب قائم کی۔ پھر 1996 میں عالمی اردو ادب نمبر میں گوشۂ حبیب جالب شائع کیا۔ جس میں خصوصاً ہمارے والد صاحب صوفی عنایت اﷲ کی تحریریں شامل کیں پھر سن 2012ء میں حبیب جالب کی منتخب شاعری کا ہندی زبان میں ترجمہ شائع کیا۔ یہ کتاب 176صفحات پر مشتمل ہے۔ میں نے حبیب جالب کے بارے میں جو کتابیں لکھیں تدوین و ترتیب دیں، نند صاحب میرے کام کے معترف ہیں۔

فاطمہ حسن صاحبہ اس یادگار تال میل میں کردار بنی۔ میں انھیں ہمیشہ اس حوالے سے بھی یاد رکھوں گا۔ نند صاحب مجھے ملے تو انھوں نے یہ بھی کہا '' مجھے یوں لگ رہا ہے جیسے میں حبیب جالب سے مل رہا ہوں۔''


فاطمہ حسن کا ڈرائیور کراچی ایئرپورٹ کی طرف رواں دواں تھا۔ فاطمہ اگلی سیٹ پر بیٹھی تھیں۔ میں اور نند صاحب کار کی پچھلی سیٹ پر بیٹھے تھے۔ یہ 30 منٹ میری زندگی کے بڑے قیمتی تھے۔ نند ادھر اور میں اِدھر برسوں سے ملنے کو تڑپ رہے تھے کہ یوں 30 منٹ ملاقات کے نکل آئے۔ نند صاحب مجھے دہلی بلانا چاہتے ہیں، نند صاحب نے یہ بھی بتایا کہ میں حبیب جالب پر ایک ڈرامہ بنارہا ہوں اس کے لیے میں نے ایک ڈائریکٹر کا انتخاب کرلیا ہے ۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ جالب پر اتنی محبتیں، چاہتیں، عقیدتیں یونہی آسمان سے نازل نہیں ہوئیں۔ اس مقام تک پہنچنے میں زمانے لگے ہیں۔ بڑے مصائب جھیلے ہیں۔''

مجھے یاد آگیا۔ 1960میں جالب بھائی ساندہ خورد لاہور میں 20 روپے ماہوار کرائے کے مکان میں رہتے تھے ۔ اس کا اکلوتا کمرہ ، مٹی گارے سے لال اینٹوں کا بنا ہوا تھا۔ کمرے کا فرش بھی مٹی کا تھا اور کمرے کے آگے چھوٹا سا کچا حصہ (صحن کہہ لیں) تھا ایک دن ایسا بھی اس گھر میں آیا کہ کھانے کو کچھ بھی نہیں تھا۔ کمرے کے کچے صحن کے کونے میں روٹی کے ٹکڑے پڑے ہوئے تھے، بھابی نے وہ ٹکڑے اٹھائے میں پرچون کی دکان سے گڑکا مینگا لے آیا اور ہم دونوں نے ٹکڑوں اور گڑ کا ملیدہ پکاکر کھایا۔ خدا کا شکر ہے میں آج تک کسی وزیر، مشیر، سفیر ، امیرکبیر کے پاس نہیں گیا میں نے اپنے عظیم بھائی کے نام پر کسی سے ایک روپیہ نہیں لیا۔ یقیناً یہ اسی کا صلہ ہے کہ دہلی کے نند کشور وکرم میرے لیے بیتاب تھے۔

حبیب جالب ! یہ نام ہمیشہ زندہ و تابندہ رہے گا۔

اس مقام کے لیے جالب نے کہا ہے۔

اپنی تو داستاں ہے بس اتنی

غم اٹھائے ہیں، شاعری کی ہے
Load Next Story