انسان کی عظمت اور عاصمہ
بات عاصمہ کی نہیں ہے بات ہے انسان کی عظمت کی۔
یہ نہیں کہ عاصمہ جہانگیر کے بغیر جیسے کام بند ہوں ۔ انسان کی عظمت کی جدوجہد اب بھی جاری ہے ، نئے زاویوں و تقاضائوں سے اپنی راہیں بنا رہی ہے اور بنائیں گی بھی۔ لاہور میں HRCP کے دفتر میں جسٹس دراب پٹیل کا میں نے مجسمہ دیکھا تو یوں گماں ہوا یہ شخص جوکہ دین کے حساب سے پارسی تھا مگر وہ انسان کی عظمت کو ہی سب سے زیادہ لائق تعظیم سمجھتے تھے اور اب اس مملکت خدا داد میں ، پاک و ہند میں اس حوالے سے جتنا بڑا نام عاصمہ کا ہے اتنا شاید کسی کا بھی نہ ہو۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ایسے کام ،نام ، بنانے اور توڑنے کے لیے نہیں ہوتے ۔ یہ تو جنون ہے جو آپ کو آپ سے جدا کرتا چلتا ہے۔ آپ بے خود ہوتے ہیں اور آپ کے قدم راہ کا تعین خودکرتے ہیں اوراس طرح جدوجہد آپ کے نام سے رقم ہوجاتی ہے۔
بات عاصمہ کی نہیں ہے بات ہے انسان کی عظمت کی۔ جس کو مغرب کی تہذیب dignity of man کے نام سے پہچانتی ہے، کسی بھی مہذب ریاست کے آئین کے اندر یہ بات ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہوتی ہے۔
ہم جب عاصمہ کو یاد کرتے ہیں تو خود ایک پس منظر بنتا ہے اور دہائیوں پر مبنی ایک پوری تاریخ کے اوراق کھلنے لگتے ہیں ۔ وہ تاریخ انسانی حقوق کی جدوجہد کی تاریخ ہے۔ یہ تاریخ خود اپنے روح میں سیاسی تحریکوں کا ثمر ہے اور پھر اس طرح قانون سازی ہوتی ہے، آئین میں ترامیم ہوتی ہیں ۔ عدالتیں خود انسانی حقوق کی علم بردار بن کے ان قوانین کو رد کرتی ہیں جو آئین میں وضع کیے انسانی حقوق سے متصادم ہوتے ہیں ۔ انسانی حقوق اور آئین ایک ہی حقیقت کے دو نام بن جاتے ہیں۔ یہ وہ موڑ ہیں جہاں عدالت ہر اول دستہ بن کے آئین کے اس زاویے کی محافظ بن جاتی ہے۔
ہمارے آئینی حقوق یا یوں کہیے کہ بنیادی حقوق کی تاریخ بھی ہماری جمہوری جدو جہد کی تاریخ کی طرح شاید اتنی مضبوط نہ ہو۔ اس کی بنیادی وجہ خود ہمارے سماج کے اندر موجود پسماندہ معاشی وسماجی اقدار ہیں جب کہ مغرب میں آئین اور انسانی حقوق بہت مضبوط اور نہ صرف اپنے ملک کے اندر اس کو اور مضبوط کرتے ہیں بلکہ وہ ایسی اقداردنیا کے اندر پروان چڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لیے کہ مغرب کے اندر ایک ایسے سماج کے خدوخال متعین ہوچکے ہیں ، جو انسانی حقوق کا تحفظ اور خود اپنے آئین کا تحفظ خود بھی کرسکتے ہیں ۔
آج عاصمہ جہانگیر کو ہم سے بچھڑے ہوئے، ایک سال بیت گیا ۔ وہ عورت تھی ، اکثر لوگ اسے مرد کہتے تھے ، مگر یہ کہنا مناسب نہ ہوگا ۔ وہ ایک عورت تھی اور اسے یہاں کی عورت درماندہ نصیب، بہتی ، پسی ہوئی اور پسماندہ نظر آئی۔ اس نے اس سے آگے جاکے جب دیکھا تو اسے ایسے محکوموں کی قطار در قطار نظر آئی۔کوئی ہندو ،کوئی عیسائی، اسے وزیرستان سے لے کر بلوچستان تک رنگ ونسل و قوموں میں اونچ نیچ نظر آئی۔کوئی بانڈڈ لیبر تھا، کوئی وڈیروں کے شکنجوں میں پھسے دہقان تھے۔ غم شدہ افراد تھے اور یوں لگتا ہے جیسے ایک اکیلی عاصمہ تھی، مگر یوں نہ تھا ، وہ اس لیے کہ اس سے سب پیار کرتے تھے لاہور کی واحد شخصیت جسے کبھی کسی نے پنجابی ہوکے نہ دیکھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ پنجاب کی ہی بیٹی تھی۔ ایک ایسے وقت جب جمہوری اور انسانی حقوق کے لیے سب سے کم آواز کی یہیں سے باز گشت آتی تھی ۔ جب بنگال پر آپریشن کا سایہ منڈلا رہا تھا یہ اس گھرکی فرد تھی ، ملک جیلانی کی بیٹی تھی جس نے خود اپنے گھر کو اس بھرے لاہور میں تنہا پایا۔
میاں افتخار ہوں یا ملک جیلانی یا فیض یہ ہمارے نوابشاہ کے گھرکے مہمان رہے۔ کوئی اورکیوں ، یہ ذکر توخود ناصرکاظمی بھی اپنی ڈائری میں ہمارے پاس ٹھہرنے کے حوالے سے کرتے ہیں۔
عاصمہ جہانگیر نے ایک ایسے گھر میں آنکھ کھولی جو انسانی اقدارکے لیے جدوجہد میں تھا ۔ والد جب جیل گئے تو ایک پٹیشن عاصمہ جیلانی نے بھی ڈالی تھی ، جس کو ہم عاصمہ جیلانی کیس کے نام سے جانتے ہیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کا تاریخ ساز فیصلہ جس نے نظریہ ضرورت کو پہلی بار دفن کرنے کی کوشش کی۔ ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ نظریہ ضرورت ہو یاکوئی اور مرض اسے کورٹس دفن نہیں کیا کرتیں، اسے دفن سوسائٹی کرتی ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب سانحہ بنگال ہوا تھا جو اورکچھ نہیں خود آئین دینے سے انکاریت کی کوکھ سے جنم لیتا ہے۔ ہم میں بہت پچھتاوا تھا ۔ ہم آئین دے بیٹھے ،ایسا آئین جس کے بعد دو آمر بھی آئے مگر وہ آئین ختم نہیں کرسکے۔ ہاں مگر مشرقی پاکستان کے جانے بعد ہماری انسانی اقدارکی تحریک ، جمہوریت کی تحریک کمزور پڑگئی، کیونکہ بنگالی ہم سے سیاسی شعور میں بہت آگے تھے۔ ہندوستان میں انگریز سامراج ایسٹ انڈیا کمپنی کی شکل میں پہلے وہاں اترا تھا ۔ ستر سال لگ گئے تھے اسے کلکتہ سے دہلی کو اپنی راجدھانی کرنے میں ۔
عاصمہ جہانگیر ہم سے انھیں دنوں میں پچھلے سال بچھڑگئی ۔کتنی بھاری اور بھرکم تھی اس کی آواز، یوں تو سننے میں پتلی تھی۔ ایک نیم کمزور درمیانے قدکی عورت کی آواز مگر اتنی دلیری سے بولتی تھی کہ ایوانوں کے درودروازے ہل جاتے تھے۔ اپنے سر پے لاٹھیاں بھی کھائیں۔ وہ مسلسل جدوجہد تھی، بے چین روح جس بات کا فیصلہ کرلیتی پھر اس پر ٹھہر جاتی۔وہ نہ پھر زیاں دیکھتی تھی نہ سود، تہمتوں کے سنگ دشنام گرے ، وہ جو بہتان سننے کو ملے ۔ یار لوگوں نے پروپیگنڈا کا بازار گرم کیا وہ جن کی خاطر میدان جنگ میں اتری تھی خود ان کو خبر نہ ہوئی ۔ یہ انسانی حقوق کی جدوجہد چیز ہی ایسی ہے کہ جسے یہ لت لگ جائے وہ پھرکب ٹھہرتا ہے تب رکتا ہے جب جان لہو ہوئی اور اشک گوہر ہوئے ۔
کتنی ساری باتیں ہیں ، یادیں ہیں جو عاصمہ سے وابستہ ہیں ۔ آج پھر باد صبا بن کے میرے وجود کو چھو سی گئی ہیں کہ تعظیم سے اسے یاد کرنے کو دل چاہتا ہے کہ سب ٹھہرجائے، ساکن ہو جائے ایسی آوازیں ، دلیریاں اور بے خوفی کب کہاں سب کے نصیب میں نہیں آتی ہیں ۔ یہ فہم و فراست سے، اپنے وجود کو ثانوی سمجھنے سے،کل میں جزکی کیفیت سے، دل میں درد رکھنے سے آتی ہیں، اس کی سوچ وسیع تھی ، وہ بہت دور تک دیکھ سکتی تھی ، وہ تاریخ کی شاگرد تھی اور انسان کی عظمت اس کا مقصد تھا، وہ غریبوں کی وکیل تھی۔
ہم اگر عاصمہ کو یاد کرتے ہیں تو ہمارا مقصد دراصل یہی ہوتا ہے کہ ہم اس جدوجہد سے اپنے آپ کو جوڑتے ہیں ۔ جس کا حصہ عاصمہ تھی۔ یہ جدوجہد آج کی نہیں ہے اور صرف اس ملک کی نہیں ہے۔ یہ جدوجہد یونیورسل ہے جو اپنے زمان ومکاں میں وہ اپنی راہ کا تعین خود کرتی ہے۔ ایک خلا ہے جو عاصمہ کے بعد رہ جاتا ہے اسے ابھی پر ہونا ہے۔ کوئی نہ کوئی یگانہ و یکتہ اسی خمیر جیسا اور یقینا کوئی عورت ہی ہوگی کہ آج کل سچ کے ساتھ کھڑے ہونے میں اس قبیلے سے پہلے کے تناظر میں کچھ زیادہ آوازیں سننے کو ملتی ہیں۔ ہماری عورت دنیا میں سب سے زیادہ پسماندہ اور پسی ہوئی ہے ۔ اس کی آواز اور بلند ہو۔ اس کے لیے اور راہیں کھلیں۔ اسے ہم نے عاصمہ کی آنکھ سے دیکھنا ہے۔
عاصمہ نے سچ کو عورت کی آنکھ سے دیکھا ۔ایک ایسے سماج میں جو مردوں کا سماج تھا ۔ یا ساری تشریح جو آج تک مؤرخ نے لکھے ہیں یہ مردوں کی تشریح ہے یہ وہ تشریح نہیں جو سب کی ترجمانی کرے ایک ایسی آنکھ سے دیکھی گئی ہو جو سب کی آنکھ کو مدنظر رکھتی ہے ۔ یہ دیکھنے کا اسکوپ خود تبدیل ہونا چاہیے۔
ہمیں عاصمہ کو ہر سال یاد کرنا ہوگا ۔ وہ کسی پارٹی کی سربراہ نہیں تھی وہ نہ پیرنی تھی نہ رانی تھی نہ شہید بابا تھی ۔ وہ تھی بھی یا نہیں تھی۔ بات اس کے نام سے جو مقدس سے وہ ہے انسان کی عظمت۔ سن 2015 میں جب وہ میرے والد کی برسی پر آئی تو کہنے لگی ۔ تم نے'' اس کی برسی کراچی میں کیوں کی اور اس کی برسی میں وہ کہاں ہیں جن کے لیے وہ تھے ۔دہقان، میں اس برسی میں اس جدو جہد میں اپنا حصہ ڈالنے آئی ہوں جو تمہارے والد نے کی تھی۔''
یہ وہی جدو جہد ہے جس کو ہم انسان کی عظمت سے جانتے ہیں کہ ہم سب برابر ہیں اور ریاست ہم میں تفریق نہ کرے اور ایسی ریاست جو انسانی اقدار پر پورا نہیں اترتی وہ ریاست کبھی بھی آگے کی طرف نہیں جا سکتی۔
جلاکے مشعل جاں ہم جنوں صفات چلے
جو گھر کو آگ لگائے ہمارے ساتھ چلے
(مجروح سلطان پوری)
حقیقت تو یہ ہے کہ ایسے کام ،نام ، بنانے اور توڑنے کے لیے نہیں ہوتے ۔ یہ تو جنون ہے جو آپ کو آپ سے جدا کرتا چلتا ہے۔ آپ بے خود ہوتے ہیں اور آپ کے قدم راہ کا تعین خودکرتے ہیں اوراس طرح جدوجہد آپ کے نام سے رقم ہوجاتی ہے۔
بات عاصمہ کی نہیں ہے بات ہے انسان کی عظمت کی۔ جس کو مغرب کی تہذیب dignity of man کے نام سے پہچانتی ہے، کسی بھی مہذب ریاست کے آئین کے اندر یہ بات ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہوتی ہے۔
ہم جب عاصمہ کو یاد کرتے ہیں تو خود ایک پس منظر بنتا ہے اور دہائیوں پر مبنی ایک پوری تاریخ کے اوراق کھلنے لگتے ہیں ۔ وہ تاریخ انسانی حقوق کی جدوجہد کی تاریخ ہے۔ یہ تاریخ خود اپنے روح میں سیاسی تحریکوں کا ثمر ہے اور پھر اس طرح قانون سازی ہوتی ہے، آئین میں ترامیم ہوتی ہیں ۔ عدالتیں خود انسانی حقوق کی علم بردار بن کے ان قوانین کو رد کرتی ہیں جو آئین میں وضع کیے انسانی حقوق سے متصادم ہوتے ہیں ۔ انسانی حقوق اور آئین ایک ہی حقیقت کے دو نام بن جاتے ہیں۔ یہ وہ موڑ ہیں جہاں عدالت ہر اول دستہ بن کے آئین کے اس زاویے کی محافظ بن جاتی ہے۔
ہمارے آئینی حقوق یا یوں کہیے کہ بنیادی حقوق کی تاریخ بھی ہماری جمہوری جدو جہد کی تاریخ کی طرح شاید اتنی مضبوط نہ ہو۔ اس کی بنیادی وجہ خود ہمارے سماج کے اندر موجود پسماندہ معاشی وسماجی اقدار ہیں جب کہ مغرب میں آئین اور انسانی حقوق بہت مضبوط اور نہ صرف اپنے ملک کے اندر اس کو اور مضبوط کرتے ہیں بلکہ وہ ایسی اقداردنیا کے اندر پروان چڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لیے کہ مغرب کے اندر ایک ایسے سماج کے خدوخال متعین ہوچکے ہیں ، جو انسانی حقوق کا تحفظ اور خود اپنے آئین کا تحفظ خود بھی کرسکتے ہیں ۔
آج عاصمہ جہانگیر کو ہم سے بچھڑے ہوئے، ایک سال بیت گیا ۔ وہ عورت تھی ، اکثر لوگ اسے مرد کہتے تھے ، مگر یہ کہنا مناسب نہ ہوگا ۔ وہ ایک عورت تھی اور اسے یہاں کی عورت درماندہ نصیب، بہتی ، پسی ہوئی اور پسماندہ نظر آئی۔ اس نے اس سے آگے جاکے جب دیکھا تو اسے ایسے محکوموں کی قطار در قطار نظر آئی۔کوئی ہندو ،کوئی عیسائی، اسے وزیرستان سے لے کر بلوچستان تک رنگ ونسل و قوموں میں اونچ نیچ نظر آئی۔کوئی بانڈڈ لیبر تھا، کوئی وڈیروں کے شکنجوں میں پھسے دہقان تھے۔ غم شدہ افراد تھے اور یوں لگتا ہے جیسے ایک اکیلی عاصمہ تھی، مگر یوں نہ تھا ، وہ اس لیے کہ اس سے سب پیار کرتے تھے لاہور کی واحد شخصیت جسے کبھی کسی نے پنجابی ہوکے نہ دیکھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ پنجاب کی ہی بیٹی تھی۔ ایک ایسے وقت جب جمہوری اور انسانی حقوق کے لیے سب سے کم آواز کی یہیں سے باز گشت آتی تھی ۔ جب بنگال پر آپریشن کا سایہ منڈلا رہا تھا یہ اس گھرکی فرد تھی ، ملک جیلانی کی بیٹی تھی جس نے خود اپنے گھر کو اس بھرے لاہور میں تنہا پایا۔
میاں افتخار ہوں یا ملک جیلانی یا فیض یہ ہمارے نوابشاہ کے گھرکے مہمان رہے۔ کوئی اورکیوں ، یہ ذکر توخود ناصرکاظمی بھی اپنی ڈائری میں ہمارے پاس ٹھہرنے کے حوالے سے کرتے ہیں۔
عاصمہ جہانگیر نے ایک ایسے گھر میں آنکھ کھولی جو انسانی اقدارکے لیے جدوجہد میں تھا ۔ والد جب جیل گئے تو ایک پٹیشن عاصمہ جیلانی نے بھی ڈالی تھی ، جس کو ہم عاصمہ جیلانی کیس کے نام سے جانتے ہیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کا تاریخ ساز فیصلہ جس نے نظریہ ضرورت کو پہلی بار دفن کرنے کی کوشش کی۔ ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ نظریہ ضرورت ہو یاکوئی اور مرض اسے کورٹس دفن نہیں کیا کرتیں، اسے دفن سوسائٹی کرتی ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب سانحہ بنگال ہوا تھا جو اورکچھ نہیں خود آئین دینے سے انکاریت کی کوکھ سے جنم لیتا ہے۔ ہم میں بہت پچھتاوا تھا ۔ ہم آئین دے بیٹھے ،ایسا آئین جس کے بعد دو آمر بھی آئے مگر وہ آئین ختم نہیں کرسکے۔ ہاں مگر مشرقی پاکستان کے جانے بعد ہماری انسانی اقدارکی تحریک ، جمہوریت کی تحریک کمزور پڑگئی، کیونکہ بنگالی ہم سے سیاسی شعور میں بہت آگے تھے۔ ہندوستان میں انگریز سامراج ایسٹ انڈیا کمپنی کی شکل میں پہلے وہاں اترا تھا ۔ ستر سال لگ گئے تھے اسے کلکتہ سے دہلی کو اپنی راجدھانی کرنے میں ۔
عاصمہ جہانگیر ہم سے انھیں دنوں میں پچھلے سال بچھڑگئی ۔کتنی بھاری اور بھرکم تھی اس کی آواز، یوں تو سننے میں پتلی تھی۔ ایک نیم کمزور درمیانے قدکی عورت کی آواز مگر اتنی دلیری سے بولتی تھی کہ ایوانوں کے درودروازے ہل جاتے تھے۔ اپنے سر پے لاٹھیاں بھی کھائیں۔ وہ مسلسل جدوجہد تھی، بے چین روح جس بات کا فیصلہ کرلیتی پھر اس پر ٹھہر جاتی۔وہ نہ پھر زیاں دیکھتی تھی نہ سود، تہمتوں کے سنگ دشنام گرے ، وہ جو بہتان سننے کو ملے ۔ یار لوگوں نے پروپیگنڈا کا بازار گرم کیا وہ جن کی خاطر میدان جنگ میں اتری تھی خود ان کو خبر نہ ہوئی ۔ یہ انسانی حقوق کی جدوجہد چیز ہی ایسی ہے کہ جسے یہ لت لگ جائے وہ پھرکب ٹھہرتا ہے تب رکتا ہے جب جان لہو ہوئی اور اشک گوہر ہوئے ۔
کتنی ساری باتیں ہیں ، یادیں ہیں جو عاصمہ سے وابستہ ہیں ۔ آج پھر باد صبا بن کے میرے وجود کو چھو سی گئی ہیں کہ تعظیم سے اسے یاد کرنے کو دل چاہتا ہے کہ سب ٹھہرجائے، ساکن ہو جائے ایسی آوازیں ، دلیریاں اور بے خوفی کب کہاں سب کے نصیب میں نہیں آتی ہیں ۔ یہ فہم و فراست سے، اپنے وجود کو ثانوی سمجھنے سے،کل میں جزکی کیفیت سے، دل میں درد رکھنے سے آتی ہیں، اس کی سوچ وسیع تھی ، وہ بہت دور تک دیکھ سکتی تھی ، وہ تاریخ کی شاگرد تھی اور انسان کی عظمت اس کا مقصد تھا، وہ غریبوں کی وکیل تھی۔
ہم اگر عاصمہ کو یاد کرتے ہیں تو ہمارا مقصد دراصل یہی ہوتا ہے کہ ہم اس جدوجہد سے اپنے آپ کو جوڑتے ہیں ۔ جس کا حصہ عاصمہ تھی۔ یہ جدوجہد آج کی نہیں ہے اور صرف اس ملک کی نہیں ہے۔ یہ جدوجہد یونیورسل ہے جو اپنے زمان ومکاں میں وہ اپنی راہ کا تعین خود کرتی ہے۔ ایک خلا ہے جو عاصمہ کے بعد رہ جاتا ہے اسے ابھی پر ہونا ہے۔ کوئی نہ کوئی یگانہ و یکتہ اسی خمیر جیسا اور یقینا کوئی عورت ہی ہوگی کہ آج کل سچ کے ساتھ کھڑے ہونے میں اس قبیلے سے پہلے کے تناظر میں کچھ زیادہ آوازیں سننے کو ملتی ہیں۔ ہماری عورت دنیا میں سب سے زیادہ پسماندہ اور پسی ہوئی ہے ۔ اس کی آواز اور بلند ہو۔ اس کے لیے اور راہیں کھلیں۔ اسے ہم نے عاصمہ کی آنکھ سے دیکھنا ہے۔
عاصمہ نے سچ کو عورت کی آنکھ سے دیکھا ۔ایک ایسے سماج میں جو مردوں کا سماج تھا ۔ یا ساری تشریح جو آج تک مؤرخ نے لکھے ہیں یہ مردوں کی تشریح ہے یہ وہ تشریح نہیں جو سب کی ترجمانی کرے ایک ایسی آنکھ سے دیکھی گئی ہو جو سب کی آنکھ کو مدنظر رکھتی ہے ۔ یہ دیکھنے کا اسکوپ خود تبدیل ہونا چاہیے۔
ہمیں عاصمہ کو ہر سال یاد کرنا ہوگا ۔ وہ کسی پارٹی کی سربراہ نہیں تھی وہ نہ پیرنی تھی نہ رانی تھی نہ شہید بابا تھی ۔ وہ تھی بھی یا نہیں تھی۔ بات اس کے نام سے جو مقدس سے وہ ہے انسان کی عظمت۔ سن 2015 میں جب وہ میرے والد کی برسی پر آئی تو کہنے لگی ۔ تم نے'' اس کی برسی کراچی میں کیوں کی اور اس کی برسی میں وہ کہاں ہیں جن کے لیے وہ تھے ۔دہقان، میں اس برسی میں اس جدو جہد میں اپنا حصہ ڈالنے آئی ہوں جو تمہارے والد نے کی تھی۔''
یہ وہی جدو جہد ہے جس کو ہم انسان کی عظمت سے جانتے ہیں کہ ہم سب برابر ہیں اور ریاست ہم میں تفریق نہ کرے اور ایسی ریاست جو انسانی اقدار پر پورا نہیں اترتی وہ ریاست کبھی بھی آگے کی طرف نہیں جا سکتی۔
جلاکے مشعل جاں ہم جنوں صفات چلے
جو گھر کو آگ لگائے ہمارے ساتھ چلے
(مجروح سلطان پوری)