میڈیا کمیشن رپورٹ میں غلط سفارشات دی گئیں ٹرانسپیرنسی کا سپریم کورٹ کو خط
پبلک پروکیورمنٹ رولز ہر طرح کی پروکیورمنٹ کا احاطہ کرتے ہیں،20 لاکھ سے زائد کے ٹھیکے ویب سائٹ پر آویزاں کرنا لازمی ہے
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان نے ایک خط میں سپریم کورٹ سے درخواست کی ہے کہ میڈیا کمیشن ازخود نوٹس کیس پر نظرثانی کی جائے، پیپرا ایشوز، چند میڈیا ہائوسز کو4 ارب روپے سے زائد کے مشکوک ٹھیکوں، میڈاس پرائیوٹ لمیٹڈ کے632 ملین کے فراڈکی حکومت پنجاب کی نشاندہی کے معاملے کو بھی دیکھا جائے۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان نے میڈیاکمیشن رپورٹ پر15 جولائی2013 کو اپنی رائے دی تھی۔ قبل ازیں سپریم کورٹ نے9 موضوعات پر رپورٹ تیار کرنے کیلیے کمیشن تشکیل دیا تھا۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رائے ٹرم آف ریفرنس سمیت 3 موضوعات پر ہے۔ کمیشن کا ایک مقصد میڈیا سے متعلق کرپشن کی تحقیقات کرنا اور ایسے اقدامات تجویز کرنا تھا کہ آئندہ عام انتخابات کیلیے غیرجانبدار اور آزاد میڈیا کو یقینی بنایا جاسکے۔ دوسرا مقصد یہ تھا کہ مختلف میڈیا ہائوسز کو بلاواسطہ یا اشتہارات کی مد میں رقم دیتے ہوئے کیا حکومت، اس کے افسران نے شفاف طریقہ اختیار کیا اور اشتہارت تعین کی پالیسی پر عمل کیا یا یہ رقوم بغیر کسی حدبندی کے اور مخصوص چینلز؍ صحافیوں یا میڈیا کو نوازنے کیلیے تقسیم کی گئیں۔ تیسرا مقصد تھا کہ کیا وفاقی و صوبائی حکومتیں، خودمختار، نیم خودمختار ادارے، کارپوریشنز، ایجنسیز میڈیا ہائوسز؍ ایڈورٹائزنگ ایجنسیزکو اشتہاردیتے ہوئے پیپرا رولز یا کسی اور شفاف طریقہ کار پر عمل کرتے ہیں، اگر نہیں تو ایسا طریقہ کار تجویز کیا جائے جس سے اعلیٰ اقدار اور شفاف طریقے سے لوگوں تک خبریں پہنچائی جاسکیں۔
کمیشن نے کہا ہے کہ پیپرا آرڈیننس کے مطابق اسکروٹنی کا اسکوپ5 کروڑ یا اسے سے زائد کے ٹھیکے ہیں۔ سابقہ روایات کے مطابق وفاقی و صوبائی ادارے مختلف حصوں میں ایڈورٹائزنگ کرتے ہیں اور کسی بھی مرحلے پر حد5 کروڑ سے زائد نہیں ہوتی۔ مثال کے طورپر کسی حکومتی ادارے کا سالانہ بجٹ5 کروڑ سے زائد ہوسکتا ہے مگرجھکائو ایسا ہے کہ ایسی ایجنسیز اور میڈیا کو مہم کیلیے منتخب کیا جاتا ہے جن کی ایک مرحلے میں لاگت5 کروڑ سے نہ بڑھے، پھر دوسرے مرحلے کا آغاز کیا جاتا ہے اور یہاں بھی لاگت5 کروڑ سے نہیں بڑھتی جس وجہ سے پیپرا رولز کا اطلاق نہیں ہوتا۔ ایڈورٹائزنگ کے اخراجات دو یا تین ایجنسیز کو ٹھیکے دینے کی وجہ سے50 لاکھ سے نیچے رہتے ہیں۔
مگر حقیقت میں پیپرا آرڈیننس میں کہیں بھی ذکر نہیں ہے کہ اطلاق صرف5 کروڑ یا اس سے زائد پر ہوگا۔ پیپرا آرڈیننس 2002 کے آرٹیکل 2(1) کے مطابق پبلک پروکیورمنٹ کا مطلب ہے اشیا، خدمات یا کسی تعمیر کا کام حاصل کرنا جو مکمل یا جزوی طورپر عوامی پیسے سے ہو۔ آرٹیکل 5(2) (a) کے مطابق پییرا کا کام پروکیومنٹ سے متعلق قانون و ضوابط کے نفاذ کی نگرانی کرنا ہے۔ کمیشن کی یہ رائے غلط ہے کہ5 کروڑ سے کم پر پیپرا رولز کا اطلاق نہیں ہوتا۔ گر کمیشن کی کچھ سفارشات پر عمل کیا جائے تو اس سے ملک میں کرپشن کا سیلاب آجائیگا۔ پبلک پروکیورمنٹ رولز2004 کے مطابق رولز3، 4، 12 ہر مالیت کی پروکیورمنٹ کا احاطہ کرتے ہیں یہاں تک کہ20 لاکھ سے کم ہو۔ رولز یہ بھی بتاتے ہیں کہ کیسے کوٹیشن یا بلا واسطہ ٹھیکے کے ذریعے پروکیور کرنا ہے۔ ان قوانین کا اطلاق ملک کے اندر اور باہر تمام پروکیورمنٹ ایجنسیز پر ہوگا۔ پروکیومنٹ ایجنسی شفافیت اور غیر جانبداری کو یقینی بنائے گی۔
پروکیورمنٹ سے متعلق 20 لاکھ سے زائد تمام مواقع کو اتھارٹی کی ویب سائٹ پر آویزاں کیا جائیگا اور اس کے ساتھ ساتھ وسیع سرکولیشن والے کم از کم ایک اردو اور ایک انگریزی قومی روزنامہ میں شائع کیا جائیگا۔ ہیومن رائٹس کیس نمبر 23957/5/2012 میں جو دو بڑے الزامات ہیں ان میں سے ایک پروکیورمنٹ ایجنسیز کی طرف سے ٹھیکے دینے میں پیپرا رولز کی خلاف ورزی ہے۔ ٹی آئی پی نے اس نکتے کو اپنی کمیشن کے ساتھ ملاقات میں واضح کیا تھا۔ ٹی آئی پی کو اس بات پر بھی حیرانی ہے کہ کمیشن رپورٹ میں لکھا ہے کہ کمیشن نے ایم ڈی پیپرا سے ملاقات نہیں کی۔ اگر عدالت عظمیٰ نے ان سفارشات کو مانا تو اس سے پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی آرڈیننس 2002 اور پبلک پروکیورمنٹ رولز2004 کی روح متاثر ہوگی اور تمام پروکیورمنٹ ایجنسیز عدالتی حکم کا حوالہ دیں گی کہ 5 کروڑ سے کم پر پیپرا رولز کا اطلاق نہیں ہوتا۔ پنجاب حکومت کے 2007 میں میڈاس پرائیویٹ لمیٹڈ پر632 ملین کی دستاویزی کرپشن کے الزامات، 2008 سے 2012 کے دوران اربوں کی کرپشن کے الزامات ہیں، اس حوالے سے کمیشن کی سفارشات بھی غلط ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ میڈاس پرائیویٹ لمیٹڈ نام کی کمپنی پر غلط طریقے سے حکومتی اشتہارات کے ٹھیکے حاصل کرنے کا الزام ہے۔ چیف ایگزیکٹو میڈاس پرائیویٹ لمیٹڈ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ الزامات مخالف ایجنسیز کی پیشہ وارانہ رقابت، کچھ حکومتی افسران کے مخالفین یا وفاقی و صوبائی جماعتوں کی طرف سے لگائے گئے ہیں۔ سی ای او میڈاس گروپ کے والد اور میڈاس گروپ کے حقیقی بانی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ انکا اپنے بیٹے کے کاروبار سے کوئی تعلق نہیں، وہ اپنا زیادہ تر وقت لکھنے اور صحافت پر وقف کرتے ہیں اور وہ ایک اور کمپنی کے چیئرمین ہیں، وہ کمپنی بھی میڈاس کا نام استعمال کرتی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ دراصل دونوں بھائیوں کی کمپنیوں میں مقابلہ ہے۔ میڈاس پرائیویٹ لمیٹڈ سے متعلق مخالف آراء پر مشتمل بہت سے بیانات اور دستاویزات کمیشن کو دی گئیں۔
بدگمانی دور کرنے اور بے قصور اشخاص، فرمز کے نام کلیئر کرنے کیلیے کمیشن کی رائے ہے کہ نیب یا دیگر متعلقہ اتھارٹیز اس معاملے کا فرانزک آڈٹ کریں۔ ٹی آئی پی نے میڈیا کمیشن سے اپنی ملاقات میں بتایا تھا کہ کہ میسرز میڈاس پرائیویٹ لمیٹڈ پر الزامات کہی سنی بات نہیں ہیں بلکہ یہ ڈی جی پی آر کے 2006،2007 کے آڈٹ سے متعلق پنجاب حکومت کی سرکاری رپورٹ ہے۔6 جولائی 2013 کو ٹی آئی پی نے سپریم کورٹ کو درخواست بھیجی تھی اور یہ کہا گیا تھا کہ پنجاب حکومت کو وضاحت کرنی چاہیے کہ632 ملین کی کرپشن کے حوالے سے میڈاس پرائیویٹ لمیٹڈ کیخلاف کیس کیوں نہیں درج کیا گیا۔ میڈیا کمیشن کو ڈی جی پی آر کے افسروں کو بلانا چاہیے تھا کہ ان سے میڈاس پرائیویٹ لمیٹڈ کی کرپشن کے حوالے سے ثبوت مانگے جاتے، اگر الزامات غلط ثابت ہوتے تو کمیشن غلط الزامات لگانے والوں کیلئے سزا تجویز کرتا۔ عدالت عظمیٰ سے درخواست کی جاتی ہے کہ ازخود نوٹس کیس پر نظرثانی کی جائے، پیپرا ایشوز، چند میڈیا ہائوسز کو4 ارب روپے سے زائد کے مشکوک ٹھیکوں، میڈاس پرائیویٹ لمیٹڈ کے 632 ملین کے فراڈ کی حکومت پنجاب کی نشاندہی کے معاملے کو دیکھا جائے۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان نے میڈیاکمیشن رپورٹ پر15 جولائی2013 کو اپنی رائے دی تھی۔ قبل ازیں سپریم کورٹ نے9 موضوعات پر رپورٹ تیار کرنے کیلیے کمیشن تشکیل دیا تھا۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رائے ٹرم آف ریفرنس سمیت 3 موضوعات پر ہے۔ کمیشن کا ایک مقصد میڈیا سے متعلق کرپشن کی تحقیقات کرنا اور ایسے اقدامات تجویز کرنا تھا کہ آئندہ عام انتخابات کیلیے غیرجانبدار اور آزاد میڈیا کو یقینی بنایا جاسکے۔ دوسرا مقصد یہ تھا کہ مختلف میڈیا ہائوسز کو بلاواسطہ یا اشتہارات کی مد میں رقم دیتے ہوئے کیا حکومت، اس کے افسران نے شفاف طریقہ اختیار کیا اور اشتہارت تعین کی پالیسی پر عمل کیا یا یہ رقوم بغیر کسی حدبندی کے اور مخصوص چینلز؍ صحافیوں یا میڈیا کو نوازنے کیلیے تقسیم کی گئیں۔ تیسرا مقصد تھا کہ کیا وفاقی و صوبائی حکومتیں، خودمختار، نیم خودمختار ادارے، کارپوریشنز، ایجنسیز میڈیا ہائوسز؍ ایڈورٹائزنگ ایجنسیزکو اشتہاردیتے ہوئے پیپرا رولز یا کسی اور شفاف طریقہ کار پر عمل کرتے ہیں، اگر نہیں تو ایسا طریقہ کار تجویز کیا جائے جس سے اعلیٰ اقدار اور شفاف طریقے سے لوگوں تک خبریں پہنچائی جاسکیں۔
کمیشن نے کہا ہے کہ پیپرا آرڈیننس کے مطابق اسکروٹنی کا اسکوپ5 کروڑ یا اسے سے زائد کے ٹھیکے ہیں۔ سابقہ روایات کے مطابق وفاقی و صوبائی ادارے مختلف حصوں میں ایڈورٹائزنگ کرتے ہیں اور کسی بھی مرحلے پر حد5 کروڑ سے زائد نہیں ہوتی۔ مثال کے طورپر کسی حکومتی ادارے کا سالانہ بجٹ5 کروڑ سے زائد ہوسکتا ہے مگرجھکائو ایسا ہے کہ ایسی ایجنسیز اور میڈیا کو مہم کیلیے منتخب کیا جاتا ہے جن کی ایک مرحلے میں لاگت5 کروڑ سے نہ بڑھے، پھر دوسرے مرحلے کا آغاز کیا جاتا ہے اور یہاں بھی لاگت5 کروڑ سے نہیں بڑھتی جس وجہ سے پیپرا رولز کا اطلاق نہیں ہوتا۔ ایڈورٹائزنگ کے اخراجات دو یا تین ایجنسیز کو ٹھیکے دینے کی وجہ سے50 لاکھ سے نیچے رہتے ہیں۔
مگر حقیقت میں پیپرا آرڈیننس میں کہیں بھی ذکر نہیں ہے کہ اطلاق صرف5 کروڑ یا اس سے زائد پر ہوگا۔ پیپرا آرڈیننس 2002 کے آرٹیکل 2(1) کے مطابق پبلک پروکیورمنٹ کا مطلب ہے اشیا، خدمات یا کسی تعمیر کا کام حاصل کرنا جو مکمل یا جزوی طورپر عوامی پیسے سے ہو۔ آرٹیکل 5(2) (a) کے مطابق پییرا کا کام پروکیومنٹ سے متعلق قانون و ضوابط کے نفاذ کی نگرانی کرنا ہے۔ کمیشن کی یہ رائے غلط ہے کہ5 کروڑ سے کم پر پیپرا رولز کا اطلاق نہیں ہوتا۔ گر کمیشن کی کچھ سفارشات پر عمل کیا جائے تو اس سے ملک میں کرپشن کا سیلاب آجائیگا۔ پبلک پروکیورمنٹ رولز2004 کے مطابق رولز3، 4، 12 ہر مالیت کی پروکیورمنٹ کا احاطہ کرتے ہیں یہاں تک کہ20 لاکھ سے کم ہو۔ رولز یہ بھی بتاتے ہیں کہ کیسے کوٹیشن یا بلا واسطہ ٹھیکے کے ذریعے پروکیور کرنا ہے۔ ان قوانین کا اطلاق ملک کے اندر اور باہر تمام پروکیورمنٹ ایجنسیز پر ہوگا۔ پروکیومنٹ ایجنسی شفافیت اور غیر جانبداری کو یقینی بنائے گی۔
پروکیورمنٹ سے متعلق 20 لاکھ سے زائد تمام مواقع کو اتھارٹی کی ویب سائٹ پر آویزاں کیا جائیگا اور اس کے ساتھ ساتھ وسیع سرکولیشن والے کم از کم ایک اردو اور ایک انگریزی قومی روزنامہ میں شائع کیا جائیگا۔ ہیومن رائٹس کیس نمبر 23957/5/2012 میں جو دو بڑے الزامات ہیں ان میں سے ایک پروکیورمنٹ ایجنسیز کی طرف سے ٹھیکے دینے میں پیپرا رولز کی خلاف ورزی ہے۔ ٹی آئی پی نے اس نکتے کو اپنی کمیشن کے ساتھ ملاقات میں واضح کیا تھا۔ ٹی آئی پی کو اس بات پر بھی حیرانی ہے کہ کمیشن رپورٹ میں لکھا ہے کہ کمیشن نے ایم ڈی پیپرا سے ملاقات نہیں کی۔ اگر عدالت عظمیٰ نے ان سفارشات کو مانا تو اس سے پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی آرڈیننس 2002 اور پبلک پروکیورمنٹ رولز2004 کی روح متاثر ہوگی اور تمام پروکیورمنٹ ایجنسیز عدالتی حکم کا حوالہ دیں گی کہ 5 کروڑ سے کم پر پیپرا رولز کا اطلاق نہیں ہوتا۔ پنجاب حکومت کے 2007 میں میڈاس پرائیویٹ لمیٹڈ پر632 ملین کی دستاویزی کرپشن کے الزامات، 2008 سے 2012 کے دوران اربوں کی کرپشن کے الزامات ہیں، اس حوالے سے کمیشن کی سفارشات بھی غلط ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ میڈاس پرائیویٹ لمیٹڈ نام کی کمپنی پر غلط طریقے سے حکومتی اشتہارات کے ٹھیکے حاصل کرنے کا الزام ہے۔ چیف ایگزیکٹو میڈاس پرائیویٹ لمیٹڈ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ الزامات مخالف ایجنسیز کی پیشہ وارانہ رقابت، کچھ حکومتی افسران کے مخالفین یا وفاقی و صوبائی جماعتوں کی طرف سے لگائے گئے ہیں۔ سی ای او میڈاس گروپ کے والد اور میڈاس گروپ کے حقیقی بانی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ انکا اپنے بیٹے کے کاروبار سے کوئی تعلق نہیں، وہ اپنا زیادہ تر وقت لکھنے اور صحافت پر وقف کرتے ہیں اور وہ ایک اور کمپنی کے چیئرمین ہیں، وہ کمپنی بھی میڈاس کا نام استعمال کرتی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ دراصل دونوں بھائیوں کی کمپنیوں میں مقابلہ ہے۔ میڈاس پرائیویٹ لمیٹڈ سے متعلق مخالف آراء پر مشتمل بہت سے بیانات اور دستاویزات کمیشن کو دی گئیں۔
بدگمانی دور کرنے اور بے قصور اشخاص، فرمز کے نام کلیئر کرنے کیلیے کمیشن کی رائے ہے کہ نیب یا دیگر متعلقہ اتھارٹیز اس معاملے کا فرانزک آڈٹ کریں۔ ٹی آئی پی نے میڈیا کمیشن سے اپنی ملاقات میں بتایا تھا کہ کہ میسرز میڈاس پرائیویٹ لمیٹڈ پر الزامات کہی سنی بات نہیں ہیں بلکہ یہ ڈی جی پی آر کے 2006،2007 کے آڈٹ سے متعلق پنجاب حکومت کی سرکاری رپورٹ ہے۔6 جولائی 2013 کو ٹی آئی پی نے سپریم کورٹ کو درخواست بھیجی تھی اور یہ کہا گیا تھا کہ پنجاب حکومت کو وضاحت کرنی چاہیے کہ632 ملین کی کرپشن کے حوالے سے میڈاس پرائیویٹ لمیٹڈ کیخلاف کیس کیوں نہیں درج کیا گیا۔ میڈیا کمیشن کو ڈی جی پی آر کے افسروں کو بلانا چاہیے تھا کہ ان سے میڈاس پرائیویٹ لمیٹڈ کی کرپشن کے حوالے سے ثبوت مانگے جاتے، اگر الزامات غلط ثابت ہوتے تو کمیشن غلط الزامات لگانے والوں کیلئے سزا تجویز کرتا۔ عدالت عظمیٰ سے درخواست کی جاتی ہے کہ ازخود نوٹس کیس پر نظرثانی کی جائے، پیپرا ایشوز، چند میڈیا ہائوسز کو4 ارب روپے سے زائد کے مشکوک ٹھیکوں، میڈاس پرائیویٹ لمیٹڈ کے 632 ملین کے فراڈ کی حکومت پنجاب کی نشاندہی کے معاملے کو دیکھا جائے۔