فیس بُک ہے مجبوری۔۔۔ کیسے ہو دوری
محققین کچھ کہیں، مگر فیس بک ایسی مجبوری اور کم زوری بن چکی ہے جس سے دوری اسے استعمال کرنے والوں کو گوارا نہیں۔
ہمارے ایک دوست نے اپنے صاحب زادے کے سامنے یہ انکشاف کیا کہ ان کی نوجوانی کے زمانے میں فیس بُک نہیں تھی، صاحب زادے نے چونک کر اینڈرائڈ فون سے نظریں ہٹائیں اور کچھ دیر والد کو حیرت سے تکتے رہے، جس کے بعد انھوں نے دو باتیں کیں''ابو! آپ نے داڑھی کب رکھی؟ دراصل بہت دنوں بعد آپ کی شکل دیکھی ہے۔''
اس سوال کے بعد بولے،''اچھا، آپ کے دور میں فیس بُک نہیں تھی، تب تو بڑی فراغت ہوگی، کچھ کرلیتے۔'' یہ سُن کر موصوف کا فیس ریڈبُک ہوگیا، پھر انھوں نے بیٹے اور فیس بک کی شان میں جو کچھ کہا وہ ایک الگ کہانی ہے۔ گھر گھر کی کہانی یہ ہے کہ فیس بک لوگوں کی زندگی میں یوں شامل ہوئی ہے کہ فیس بک ہی رہ گئی ہے زندگی کہیں دور نکل گئی ہے، چناں چہ زندگی کو واپس لانے کے لیے فیس بک سے نکلنا ضروری ہے۔ یہ ہم نہیں محققین کہہ رہے ہیں۔
نیویارک یونیورسٹی اور اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے محققین نے مشترکہ تحقیق کے بعد دعویٰ کیا ہے کہ فیس بک صارفین اس وقت زیادہ خوش، زندگی سے مطمئن اور ذہنی بے چینی، ڈپریشن یا تنہائی سے کسی حد تک محفوظ ہوتے ہیں جب وہ ایک ماہ کے لیے اس سوشل نیٹ ورک سے دوری اختیار کرلیں۔
اور واپسی کے بعد ان تمام فوائد کے لیے فیس بک کا استعمال پہلے کے مقابلے میں کم کرنا بھی ضروری ہے۔
محققین کچھ کہیں، مگر فیس بک ایسی مجبوری اور کم زوری بن چکی ہے جس سے دوری اسے استعمال کرنے والوں کو گوارا نہیں۔ بہت سے خواتین وحضرات تو صرف اس لیے باہر جاکر کچھ کھاتے ہیں تاکہ فیس بک پر اس کھانے کی تصویر شیئر کرکے یہ ثابت کریں کہ ان کے لیے اچھا کھانا زندگی کا اہم ترین موقع ہے۔ بیمار محض اس لیے پڑتے ہیں کہ ایف بی پر اپنی بیماری کی اطلاع دے سکیں۔ سو جیسے ہی چھینک آتی ہے، طبعیت کی ناسازی کی خبر کے ساتھ دعائے صحت کی درخواست پوسٹ کردی جاتی ہے۔ محلے کے سابق کونسلر سے بھی کہیں ملاقات ہوجائے تو اس سے چپک کر سیلفی بنوائی اور فیس بُک پر لگائی جاتی ہے۔
یہ سب ''حرکات'' اتنے لوگ اور اس قدر تواتر سے کرتے ہیں کہ کمنٹ کرنے والا کچھ نیا کہنے کے چکر میں پڑنے کے بجائے گِنے چُنے کمنٹ کرکے جان چُھڑاتا ہے۔ اس مقصد کے لیے کاپی پیسٹ کا سہارا بھی لیا جاتا ہے۔ ایسے میں بعض اوقات غلطی سے بیماری کی پوسٹ پر ''ماشاء اللہ'' کے کمنٹ آجاتے ہیں، انتقال کی اطلاع پر ''مبارک ہو'' لکھ دیا جاتا ہے اور شادی کی سال گرہ کا اسٹیٹس ''اللہ صبرِ جمیل عطا کرے'' کا تبصرہ وصول کرتا ہے۔
اس کے علاوہ فیس بُک۔۔۔ شوہر کی حرکات وسکنات پر نظر رکھنے، رشتے داروں کی پوسٹ لائک نہ کرکے ان سے کسی تقریب میں سیدھے منہہ بات نہ کرنے کا انتقام لینے، جسے شادی میں نہ بلانا ہو اسے کارڈ ان باکس میں دے کر ٹرخانے، علامہ اقبال، فیض اور فراز کی شاعری کا بیڑا غرق کرنے، پوسٹوں کے ذریعے اپنی بات بھونڈے طریقے سے دوسروں تک پہنچانے۔۔۔اور نہ جانے کس کس کام آتی ہے، تو اس سے دوری کتنی ہی ضروری ہو مگر محققین کی یہ خواہش پوری ہوتی نظر نہیں آتی۔
usman.jamai@express.com.pk
اس سوال کے بعد بولے،''اچھا، آپ کے دور میں فیس بُک نہیں تھی، تب تو بڑی فراغت ہوگی، کچھ کرلیتے۔'' یہ سُن کر موصوف کا فیس ریڈبُک ہوگیا، پھر انھوں نے بیٹے اور فیس بک کی شان میں جو کچھ کہا وہ ایک الگ کہانی ہے۔ گھر گھر کی کہانی یہ ہے کہ فیس بک لوگوں کی زندگی میں یوں شامل ہوئی ہے کہ فیس بک ہی رہ گئی ہے زندگی کہیں دور نکل گئی ہے، چناں چہ زندگی کو واپس لانے کے لیے فیس بک سے نکلنا ضروری ہے۔ یہ ہم نہیں محققین کہہ رہے ہیں۔
نیویارک یونیورسٹی اور اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے محققین نے مشترکہ تحقیق کے بعد دعویٰ کیا ہے کہ فیس بک صارفین اس وقت زیادہ خوش، زندگی سے مطمئن اور ذہنی بے چینی، ڈپریشن یا تنہائی سے کسی حد تک محفوظ ہوتے ہیں جب وہ ایک ماہ کے لیے اس سوشل نیٹ ورک سے دوری اختیار کرلیں۔
اور واپسی کے بعد ان تمام فوائد کے لیے فیس بک کا استعمال پہلے کے مقابلے میں کم کرنا بھی ضروری ہے۔
محققین کچھ کہیں، مگر فیس بک ایسی مجبوری اور کم زوری بن چکی ہے جس سے دوری اسے استعمال کرنے والوں کو گوارا نہیں۔ بہت سے خواتین وحضرات تو صرف اس لیے باہر جاکر کچھ کھاتے ہیں تاکہ فیس بک پر اس کھانے کی تصویر شیئر کرکے یہ ثابت کریں کہ ان کے لیے اچھا کھانا زندگی کا اہم ترین موقع ہے۔ بیمار محض اس لیے پڑتے ہیں کہ ایف بی پر اپنی بیماری کی اطلاع دے سکیں۔ سو جیسے ہی چھینک آتی ہے، طبعیت کی ناسازی کی خبر کے ساتھ دعائے صحت کی درخواست پوسٹ کردی جاتی ہے۔ محلے کے سابق کونسلر سے بھی کہیں ملاقات ہوجائے تو اس سے چپک کر سیلفی بنوائی اور فیس بُک پر لگائی جاتی ہے۔
یہ سب ''حرکات'' اتنے لوگ اور اس قدر تواتر سے کرتے ہیں کہ کمنٹ کرنے والا کچھ نیا کہنے کے چکر میں پڑنے کے بجائے گِنے چُنے کمنٹ کرکے جان چُھڑاتا ہے۔ اس مقصد کے لیے کاپی پیسٹ کا سہارا بھی لیا جاتا ہے۔ ایسے میں بعض اوقات غلطی سے بیماری کی پوسٹ پر ''ماشاء اللہ'' کے کمنٹ آجاتے ہیں، انتقال کی اطلاع پر ''مبارک ہو'' لکھ دیا جاتا ہے اور شادی کی سال گرہ کا اسٹیٹس ''اللہ صبرِ جمیل عطا کرے'' کا تبصرہ وصول کرتا ہے۔
اس کے علاوہ فیس بُک۔۔۔ شوہر کی حرکات وسکنات پر نظر رکھنے، رشتے داروں کی پوسٹ لائک نہ کرکے ان سے کسی تقریب میں سیدھے منہہ بات نہ کرنے کا انتقام لینے، جسے شادی میں نہ بلانا ہو اسے کارڈ ان باکس میں دے کر ٹرخانے، علامہ اقبال، فیض اور فراز کی شاعری کا بیڑا غرق کرنے، پوسٹوں کے ذریعے اپنی بات بھونڈے طریقے سے دوسروں تک پہنچانے۔۔۔اور نہ جانے کس کس کام آتی ہے، تو اس سے دوری کتنی ہی ضروری ہو مگر محققین کی یہ خواہش پوری ہوتی نظر نہیں آتی۔
usman.jamai@express.com.pk