ای او بی آئی کرپشن 77 کروڑ کی زمین سوا 2 ارب میں خریدی گئی
غیرمعروف اور غیررجسٹرڈ کمپنی کو اراضیوں کے تعین کیلیے2 سال میں ڈیڑھ کروڑ روپے ادا ہوئے
ای او بی آئی کرپشن کیس کی تحقیقات کے دوران ہر گذرتے دن کے ساتھ انکشافات کا سلسلہ جاری ہے۔ تعمیرات کے شعبے کے انتہائی معتبر ادارے نیسپاک نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹی ٹیوشن (ای او بی آئی) کو کراچی کی4 ایکڑ اراضی دگنی سے زائد قیمت پر فروخت کی گئی۔
ای او بی آئی نے ایک غیرمعروف اور غیررجسٹرڈ کمپنی کو اراضیوں کے تعین کیلیے2 سال کے دوران ڈیڑھ کروڑ روپے کی ادائیگی کی۔ حال ہی میں تعمیراتی شعبے کی انتہائی معتبر سمجھے جانیوالی کنسلٹنٹ کمپنی نے کراچی کی 4ایکڑ اراضی کی قیمت کے تعین پر مشتمل اپنی رپورٹ ایف آئی اے کو پیش کردی ۔ رپورٹ کے مطابق ایئرپورٹ کے قریب واقع اراضی کی کم سے کم قیمت 77 کروڑ اور زیادہ زیادہ قیمت 87 کروڑ روپے ہے جبکہ ای او بی آئی نے یہ زمین تقریبا 2سال قبل سوا2 ارب روپے میں خریدی تھی۔
ایف آئی اے حکام کے مطابق زمین کے سودے کے وقت ای او بی آئی کی جانب سے مقرر کردہ کمپنی اے اے اے نامی کنسٹرکشن کمپنی نے زمین کی قیمت کا تعین تقریبا2 ارب روپے لگایا تھا جس کے بعد ای او بی آئی اے نے فروخت کنندہ کو رقم کی ادائیگی کی۔ دوران تفتیش یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ای او بی آئی کی جانب سے مقرر کردہ کمپنی ناصرف غیر معروف ہے بلکہ یہ کمپنی بطور تعمیراتی کنسلٹنٹ کسی ادارے میں رجسٹرڈ بھی نہیں ہے۔
ایف آئی اے کی جانب سے حال ہی میں گرفتار کیے گئے کمپنی کے نمائندے حضور بخش نعیم نے دوران تفتیش بتایا کہ اس نے خیرپور یونیورسٹی سے ایم اے کیا ہے اور وہ ملٹی نیشنل کمپنی کوئیلرز پرائیویٹ لمیٹڈ کا نمائندہ ہے۔ ملزم نے بتایا کہ ای او بی آئی نے زمینوں کی قیمتوں کے تعین کیلیے اے اے اے نامی کمپنی کا تقرر کیا تھا اور اس کمپنی نے کوئیلرز پرائیویٹ لمیٹد کو یہ کام دیا تھا، مجموعی طور پر 2 سال کے دوران ای او بی آئی 15 مختلف اراضیوں کی قیمتوں کے تعین کیلیے مقرر کردہ کمپنی کو 15 کروڑ روپے کی ادائیگی کی تھی۔
تفتیشی حکام کے مطابق ایک ایسا شخص جو نہ ہی انجینئر ہے اور نہ ہی بطور کنسلٹنٹ اس کی کمپنی یا وہ خود انجینئرنگ کونسل میں رجسٹرڈ ہے، اسے اتنی خطیر رقم کی ادائیگی کا کوئی جواز نہیں تھا۔ ایف آئی اے کی جانب سے تحقیقات کے دوران نیسپاک کی خدمات صرف2 لاکھ روپے فی اراضی کے عوض حاصل کی گئیں، ایف آئی اے حکام نے بتایا کہ وہ ان خطوط پر تحقیقات کررہے ہیں کہ حضور بخش نعیم کا سابق حکومت کے ایک وفاقی وزیر سے قریبی تعلق تھا اور اے اے اے نامی کمپنی کا تقرر حضور بخش نعیم کو نوازنے کیلیے کیا گیا تھا۔
ای او بی آئی نے ایک غیرمعروف اور غیررجسٹرڈ کمپنی کو اراضیوں کے تعین کیلیے2 سال کے دوران ڈیڑھ کروڑ روپے کی ادائیگی کی۔ حال ہی میں تعمیراتی شعبے کی انتہائی معتبر سمجھے جانیوالی کنسلٹنٹ کمپنی نے کراچی کی 4ایکڑ اراضی کی قیمت کے تعین پر مشتمل اپنی رپورٹ ایف آئی اے کو پیش کردی ۔ رپورٹ کے مطابق ایئرپورٹ کے قریب واقع اراضی کی کم سے کم قیمت 77 کروڑ اور زیادہ زیادہ قیمت 87 کروڑ روپے ہے جبکہ ای او بی آئی نے یہ زمین تقریبا 2سال قبل سوا2 ارب روپے میں خریدی تھی۔
ایف آئی اے حکام کے مطابق زمین کے سودے کے وقت ای او بی آئی کی جانب سے مقرر کردہ کمپنی اے اے اے نامی کنسٹرکشن کمپنی نے زمین کی قیمت کا تعین تقریبا2 ارب روپے لگایا تھا جس کے بعد ای او بی آئی اے نے فروخت کنندہ کو رقم کی ادائیگی کی۔ دوران تفتیش یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ای او بی آئی کی جانب سے مقرر کردہ کمپنی ناصرف غیر معروف ہے بلکہ یہ کمپنی بطور تعمیراتی کنسلٹنٹ کسی ادارے میں رجسٹرڈ بھی نہیں ہے۔
ایف آئی اے کی جانب سے حال ہی میں گرفتار کیے گئے کمپنی کے نمائندے حضور بخش نعیم نے دوران تفتیش بتایا کہ اس نے خیرپور یونیورسٹی سے ایم اے کیا ہے اور وہ ملٹی نیشنل کمپنی کوئیلرز پرائیویٹ لمیٹڈ کا نمائندہ ہے۔ ملزم نے بتایا کہ ای او بی آئی نے زمینوں کی قیمتوں کے تعین کیلیے اے اے اے نامی کمپنی کا تقرر کیا تھا اور اس کمپنی نے کوئیلرز پرائیویٹ لمیٹد کو یہ کام دیا تھا، مجموعی طور پر 2 سال کے دوران ای او بی آئی 15 مختلف اراضیوں کی قیمتوں کے تعین کیلیے مقرر کردہ کمپنی کو 15 کروڑ روپے کی ادائیگی کی تھی۔
تفتیشی حکام کے مطابق ایک ایسا شخص جو نہ ہی انجینئر ہے اور نہ ہی بطور کنسلٹنٹ اس کی کمپنی یا وہ خود انجینئرنگ کونسل میں رجسٹرڈ ہے، اسے اتنی خطیر رقم کی ادائیگی کا کوئی جواز نہیں تھا۔ ایف آئی اے کی جانب سے تحقیقات کے دوران نیسپاک کی خدمات صرف2 لاکھ روپے فی اراضی کے عوض حاصل کی گئیں، ایف آئی اے حکام نے بتایا کہ وہ ان خطوط پر تحقیقات کررہے ہیں کہ حضور بخش نعیم کا سابق حکومت کے ایک وفاقی وزیر سے قریبی تعلق تھا اور اے اے اے نامی کمپنی کا تقرر حضور بخش نعیم کو نوازنے کیلیے کیا گیا تھا۔