انٹرنیٹ سے اشتعال انگیزی بھارتی اخبارنے ہندوتنظیموں کو مورد الزام ٹھہرادیا

انڈین ایکسپریس نے صحیح عکاسی نہیں کی،داخلہ سیکریٹری کابیان حقائق پرتھا،سرکاری ذرائع

انڈین ایکسپریس نے صحیح عکاسی نہیں کی،داخلہ سیکریٹری کابیان حقائق پرتھا،سرکاری ذرائع، فوٹو ؛ فائل

'انڈین ایکسپریس' کی اس رپورٹ کے بعد کہ شمال مشرق کے باشندوں کے خلاف اشتعال انگیزی پھیلانے میں پاکستان کے انٹرنیٹ صارفین کاکردار بڑھا چڑھاکر پیش کیاگیا،اب ایک اور اخبار 'ٹائمز آف انڈیا' نے لکھاہے کہ حکومت نے جو ویب پیجز بلاک کیے،ان میں سے 20 فیصد کے پیچھے ہندو انتہاپسندوں کاہاتھ تھا۔بھارت کی شمال مشرقی ریاست آسام میں کئی ہفتوںسے بوڈو قبائلیوں اور مسلمانوں کے درمیان تشدد جاری ہے جس میں اب تک 75سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔


بدھ کی شام سرکاری ذرائع نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہاکہ انڈین ایکسپریس نے جو نتائج اخذ کیے وہ صحیح صورتحال کی عکاسی نہیں کرتے اور یہ کہ داخلہ سیکریٹری نے جو بیان دیاوہ حقائق پر مبنی تھا۔ٹائمز آف انڈیا کے مطابق ایجنسیوںکویہ سراغ بھی ملاہے کہ خوف و ہراس پھیلانے والے بہت سے ایس ایم ایس پیغامات بھی ہندوتنظیموں نے بھیجے تاہم حکومت نے اس سلسلے میں ابھی باقاعدہ بیان جاری نہیںکیا۔

اخبار نے ایک مثال دیتے ہوئے لکھاکہ بنگلور سے حال ہی میں یہ اطلاع ملی کہ3خواتین ایک ٹرین کوبم دھماکے سے اڑانے کی سازش کر رہی ہیں،بعد میں معلوم ہوا کہ اطلاع دینے والاہندو انتہاپسند تنظیم بجرنگ دل کا کارکن تھا۔15 اگست کوحیدرآباد میں پاکستانی پرچم لہرانے کی وڈیوانٹرنیٹ پر اپ لوڈ کی گئی،بعد میں پتہ چلاکہ وڈیوپاکستانی شہر حیدرآباد کی تھی۔ان افواہوںسے پیدا شدہ صورتحال پر پارلیمان میں بحث کے دوران بہارکے سابق وزیر اعلی لالو پرساد یادونے کہاکہ کچھ طاقتیں اس نازک صورتحال سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہی ہیں ۔
Load Next Story