تخفیف اسلحہ کا معاملہ اور چین

جوہری ہتھیاروں کے اضافے کے حوالے سے خطرات ایک بار پھر بڑھنے شروع ہو گئے ہیں

جوہری ہتھیاروں کے اضافے کے حوالے سے خطرات ایک بار پھر بڑھنے شروع ہو گئے ہیں۔ فوٹو: فائل

HYDERABAD:
جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل نے کہا ہے کہ ہتھیاروں کی بین الاقوامی تخفیف کی کوششوں میں چین کو بھی شامل کیا جائے کیونکہ بیجنگ کے میزائلوں کے ذخیرے کے بارے میں بھی عالمی سطح پر تشویش پائی جاتی ہے علاوہ ازیں امریکا اور روس کے مابین ہونے والا اسلحہ کے حوالے سے معاہدہ معطل ہو چکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب سے ماسکو اور واشنگٹن نے درمیانے فاصلے پر مار کرنے والے ایٹمی ہتھیاروں کے معاہدے سے باہر نکلنے کا فیصلہ کر لیا ہے جوہری ہتھیاروں کے اضافے کے حوالے سے خطرات ایک بار پھر بڑھنے شروع ہو گئے ہیں ۔

جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے مطالبہ کیا ہے کہ جوہری ہتھیاروں پر پابندی کا نیا معاہدہ طے پانا چاہیے جس میں چین کو بھی شامل کیا جائے کیونکہ وہ بھی اپنے جوہری ہتھیاروں میں اضافہ کر رہا ہے جو خطرے کا باعث ہے۔ جوہری ہتھیاروں پر پابندی کا معاملہ ایسا ہے جو سب کو پسند آتا ہے لیکن جب عمل کی باری آتی ہے تو ہر ملک اپنے اپنے مفاد کو دیکھتا ہے ۔ انجیلا مرکل نے تحفیف اسلحہ کی جد وجہد میں امریکا' یورپ اور روس کے ساتھ ساتھ اب چین کو بھی فعال کردار ادا کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ انھوں نے مزید کہا ہے کہ چین کے ایٹمی اثاثے بھی باقی دنیا کے لیے تشویش کا موجب ہیں لہٰذا اب زیادہ توجہ اسی کی طرف دی جانی چاہیے۔


جرمن چانسلر نے ان خیالات کا اظہار میونخ سیکیورٹی کانفرنس سے خطاب میں کہا ہے کہ واشنگٹن نے آئی این ایف معاہدے سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا ہے کیونکہ ماسکو نے نئے میزائلوں کی تنصیب شروع کر دی ہے جن کے بارے میں امریکا اور نیٹو کا موقف ہے کہ ایسا کرنا جوہری معاہدے کی صریح خلاف ورزی میں آتا ہے لہٰذا روس کو چاہیے کہ اپنے طور پر جوہری ہتھیاروں کی کمی کا اعلان کرے لیکن مرکل کے اس مطالبے پر نہ تو امریکی نائب صدر مائیک پنس نے اور نہ ہی روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کوئی بات کی ہے حالانکہ چانسلر مرکل کے بعد امریکی اور روس کے نمایندوں نے بھی میونخ کانفرنس سے خطاب کیا تھا۔ اگر ماسکو اور واشنگٹن آئی این ایف میں تبدیلی پر تیار نہیں ہوتے جس کے تحت زمین سے زمین پر مار کرنے والے ایٹمی ہتھیاروں پر جو 500 سے 5,500 کلو میٹر تک مار کرنے والے میزائلوں پر پابندی ہے۔

اس معاہدے پر عمل درآمد اگست کے مہینے میں معطل ہو جائے گا۔ نیٹو کے سربراہ چنز اسٹولن برگ نے کہا ہے کہ انھیں روسی وزیر خارجہ کی طرف سے مثبت جواب کی توقع نہیں ہے۔ جرمنی آیندہ مہینے برلن میں ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد کر رہا ہے جس میں کثیر القطبی دنیا میں ایٹمی ہتھیاروں کو کنٹرول میں رکھنے کے طریقوں اور اصولوں پر غور و خوض کیا جائے گا تاکہ دنیا ''کولڈ وار'' میں درپیش آنے والے مسائل کا شکار نہ ہو سکے لیکن عالمی مبصرین کے نزدیک چین کو کسی اتفاق رائے پر منانا بہت مشکل ہو گا کیونکہ اس وقت چین اپنی استعداد کار بڑھانے کی پوزیشن میں ہے، اس لیے کسی کے کہنے پر اسے روک دینا آسان نہیں ہو گا۔

تزویراتی اسٹڈیز کے ادارے کی رپورٹ کے مطابق چین کا 95 فیصد جوہری اسلحہ جوہری ہتھیاروں پر پابندی کے ذیل میں آتا ہے۔ بہرحال یہ صورتحال بتاتی ہے کہ اب مغربی دنیا چین کی طرف متوجہ ہوگئی ہے۔ پہلے چین کو تجارتی حریف سمجھا جاتا تھا لیکن اب اسے اسلحے کے حوالے سے بھی خطرہ سمجھا جارہا ہے۔جوہری ہتھیاروں کی تیاری اور پھیلاؤ کا معاملہ مستقبل میں مزید پیچیدہ ہوگا اور چین پر دباؤ بھی مزید بڑھے گا۔
Load Next Story