نیب تحریک انصاف کے نشانے پر کیوں
سندھ میں جب بیو رو کریٹس کو پکڑا جا تا ہے تو کہا جاتا ہے کہ زرداری کے ساتھی پکڑے جا رہے ہیں
لاہور:
تحریک انصاف کی حکومت کھل کر نیب کی مخالفت میں سامنے آگئی ہے ۔ کل نیب کی سب سے بڑی سیاسی وکیل تحریک انصاف آج نیب کی سب سے بڑی ناقد بن گئی ہے۔ آج وزیر اعظم جب نیب کے خلاف ٹوئٹ کر رہے ہیں۔ کل جب یہی کام ن لیگ کر رہی تھی تو اسے آڑے ہاتھوں لیا جارہا تھا۔
زیادہ پرانی بات نہیں ہے جب پنجاب سے ایک بیوروکریٹ احد چیمہ کو گرفتار کیا گیا تو اس وقت کے پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف ان کی کابینہ اور پنجاب کی بیوروکریسی نے ایسا ہی رد عمل دیا تھا جیسا آج کے پی سے ایک بیوروکریٹ عبدالصمد کی گرفتاری پر وزیر اعظم اورکے پی کے وزیر اعلیٰ اور کے پی کی کابینہ دے رہی ہے۔ جب احد چیمہ کی حوالات کے پیچھے اپنی بیگم سے ملاقات کی تصویر جاری کی گئی تھی تو ایسا ہی رد عمل ن لیگ کی جانب سے دیا جا رہا تھا جیسا آج تحریک انصاف کی جانب سے عبدالصمد کی ہتھکڑیوں والی تصویر میںدیا جا رہا ہے۔لیکن فرق صرف یہ ہے کہ کل وہ سب جائز تھا، آج ناجائز ہے۔ کل جب پنجاب میں ناجائز بھرتیوں کے الزام میں یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کو پکڑا جا رہا تھا تو تحریک انصاف مزے لے رہی تھی کیونکہ اس کا خیال تھا کہ یہ سب وائس چانسلرز ن لیگ کے حمایتی ہیں۔
آج ناجائز بھرتیوں پر کے پی کا پہلا بیوروکریٹ پکڑا گیا ہے تو چیخیں نکل گئی ہیں اور کے پی کے وزیر اعلیٰ کہہ رہے ہیں کہ اس کام کے لیے الگ ادارے موجود ہیں ۔ نیب کو یہ کام نہیں کرنا چاہیے۔ نیب بڑی کرپشن کے پیچھے جائے۔ کل نیب زدگان کی مردہ حالت میں بھی ہتھکڑیوں کے ساتھ تصویر جائز تھی، آج زندہ کو بھی قبول نہیںکر رہے۔
آج عبدالصمد کی گرفتاری کے خلاف یہ دلیل دی جا رہی ہے کہ ان کے پاس پاکستان کا اعلیٰ عزاز پرائڈ آف پرفارمنس ہے۔ لیکن احد چیمہ کے پاس بھی تو ستا رہ امتیاز تھا۔ تب تو یہ کہا جا رہا تھا کہ احد چیمہ کا اعزازکرپشن کا لائسنس نہیں ہے۔ تو پھر آج عبدالصمد کا اعزاز کرپشن کا لائسنس کیسے ہے۔ اگر نوکریاں دینا کوئی بڑا جرم نہیں ہے تو سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف سمیت کئی لوگ نوکریاں دینے پر نیب کے ریفرنسوں کا سامنا کیوں کر رہے ہیں۔ سب کے ریفرنس ختم ہونے چاہییں۔ کیا تحریک انصاف کے لیے قانون الگ ہونا چاہیے اور تحریک انصاف کے مخالفین کے لیے الگ۔
زیادہ پرانی بات نہیں ہے اس وقت کی حکومت چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی کہ آج آپ نے ایک بیوروکریٹ کو پکڑ اہے اس کے بعد کوئی بھی بیوکروکریٹ کسی بھی حکومت کے لیے کوئی کام نہیں کرے گا۔ آج تحریک انصاف کی حکومت اپنے دور حکومت میں ایک بیوروکریٹ کی گرفتاری پر بھی یہی کہہ رہی ہے کہ آپ اگر اس طرح بیوروکریٹس کو پکڑتے رہے تو کوئی بھی بیوروکریٹ کام نہیں کرے گا۔ لیکن کل ٹھیک تھا، آج غلط ہے۔ موسم بدل گیاہے۔
کل جب ن لیگ کے لوگ پکڑے جا رہے تھے تو ن لیگ چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی کہ اس طرح نظام نہیں چل سکتا۔ آج ایک علیم خان کی گرفتاری کے بعد تحریک انصاف کی چیخیں نکل گئی ہیں۔آج ایک گرفتاری کے بعد خطرہ کی گھنٹیاں بج گئی ہیں۔ تحریک انصاف کی صفوں میں خوف کا سماں ہے۔ ہر کوئی سہم گیا ہے۔ یہ کیا ہو رہا ہے ہم تو تحریک انصاف میں آئے ہی اس لیے تھے کہ یہ اسٹبلشمنٹ کی پسندیدہ تھی۔ اب اگر ہماری بھی گرفتاریاں ہونی ہیں تو کیا فائدہ۔
کل جب پنجاب سے بیوروکریٹس پکڑے جا رہے تھے تو کہا جا رہا تھا کہ یہ وہ طوطے پکڑے جا رہے ہیں جن کے اندر شریفوں کی جان ہے۔ آپ دیکھیں گرفتاری کے بعد یہ طوے کیسے فر فر بولیں گے۔ احد چیمہ پنجاب میں سارے ترقیاتی منصوبے کا انچارج رہا ہے، وہ کمیشن اور کک بیک کی تفصیل بتا دے گا۔ آج ایک عبد الصمد گرفتار ہوا ہے تو یہ کیوں نہیں کہا جا رہا ہے کہ کے پی کے وزیر اعلیٰ اس لیے پریشان ہو گئے ہیں ان کا طوطا پکڑا گیا ہے۔ آج کے پی کے وزیر اعلیٰ کی چیخوں پر یہ کیوں نہیں کہا جا رہا ہے کہ طوطے کے بولنے کا خوف ہے۔یہ ناجائز بھرتیاں دراصل کے پی کی حکومت نے کرائی ہیں۔
سندھ میں جب بیو رو کریٹس کو پکڑا جا تا ہے تو کہا جاتا ہے کہ زرداری کے ساتھی پکڑے جا رہے ہیں۔ یہ سب چور پکڑے جا رہے ہیں۔ تب یہ دلیل کیوں نہیں دی جاتی کہ جب بیوروکریٹس کو پکڑتے ہیں تو نظام حکومت جام ہوجاتا ہے کیونکہ سندھ میں آپ کی حکومت نہیں ہے۔ وہاں نظام حکومت جام ہونے سے آپ کو فرق نہیں پڑتا۔ آج کے پی، پنجاب اور مرکز میں آپ کی حکومتیں ہیں۔ اس لیے وہاں نظام حکومت جام ہونے سے آپ کو فرق پڑتا ہے۔ اس لیے نیب کی سب سے بڑی وکیل تحریک انصاف آج نیب کی سب سے بڑی مخالف بن گئی ہے۔ کیا تحریک انصاف کے لیے نیب اس وقت تک اچھی ہے جب تک وہ تحریک انصاف کے سیاسی مخالفین کو پکڑنے کا عمل جاری رکھے۔ اور جونہی نیب تحریک انصاف کی طرف منہ کرے گی نیب بری بن جائے گی۔
کیا تحریک انصاف اور ان کے چہیتوں کو مقدس گائے کا درجہ حاصل ہے کہ ان کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرے۔ کیاکسی ادارے کو آزادی سے کام کرنے کی صرف تب تک اجازت ہے جب تک وہ تحریک انصاف کے لیے کام کرے۔ پہلے ہی ایک وفاقی وزیر وزیر اعظم کے خلاف تحقیقات کے بارے میں کہہ چکے ہیں کہ یہ وزیر اعظم کی تذلیل ہے۔ وفاقی حکومت نے نیب کے پیسے روکے ہوئے ہیں۔اب محاذ جنگ بھی کھول دیا گیا۔ اصل بات یہ ہے کہ تحریک انصاف فکی حکومت انجوائے کرنا چاہتی ہے۔
نیب کا خوف انھیں مزے نہیں لینے دے رہا۔ بیوروکریسی خوف زدہ ہے۔ کوئی ایک روپے کی فائل پر دستخط کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اوپر سے اگر حکومت کا ایک آدھا وزیر اور پکڑا گیا تو صورتحال مزید خراب ہوجائے گی۔ اس لیے تحریک انصاف چاہتی ہے کہ اب نیب کو لو پروفائل میں لیجانا ہوگا ورنہ تنائو بڑھتا جائے گا۔ کل تک جو نیب کے ساتھ تھے وہ اب خوفزدہ ہیں۔ باقی پھر کسی مناسب موقعے پر ۔
تحریک انصاف کی حکومت کھل کر نیب کی مخالفت میں سامنے آگئی ہے ۔ کل نیب کی سب سے بڑی سیاسی وکیل تحریک انصاف آج نیب کی سب سے بڑی ناقد بن گئی ہے۔ آج وزیر اعظم جب نیب کے خلاف ٹوئٹ کر رہے ہیں۔ کل جب یہی کام ن لیگ کر رہی تھی تو اسے آڑے ہاتھوں لیا جارہا تھا۔
زیادہ پرانی بات نہیں ہے جب پنجاب سے ایک بیوروکریٹ احد چیمہ کو گرفتار کیا گیا تو اس وقت کے پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف ان کی کابینہ اور پنجاب کی بیوروکریسی نے ایسا ہی رد عمل دیا تھا جیسا آج کے پی سے ایک بیوروکریٹ عبدالصمد کی گرفتاری پر وزیر اعظم اورکے پی کے وزیر اعلیٰ اور کے پی کی کابینہ دے رہی ہے۔ جب احد چیمہ کی حوالات کے پیچھے اپنی بیگم سے ملاقات کی تصویر جاری کی گئی تھی تو ایسا ہی رد عمل ن لیگ کی جانب سے دیا جا رہا تھا جیسا آج تحریک انصاف کی جانب سے عبدالصمد کی ہتھکڑیوں والی تصویر میںدیا جا رہا ہے۔لیکن فرق صرف یہ ہے کہ کل وہ سب جائز تھا، آج ناجائز ہے۔ کل جب پنجاب میں ناجائز بھرتیوں کے الزام میں یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کو پکڑا جا رہا تھا تو تحریک انصاف مزے لے رہی تھی کیونکہ اس کا خیال تھا کہ یہ سب وائس چانسلرز ن لیگ کے حمایتی ہیں۔
آج ناجائز بھرتیوں پر کے پی کا پہلا بیوروکریٹ پکڑا گیا ہے تو چیخیں نکل گئی ہیں اور کے پی کے وزیر اعلیٰ کہہ رہے ہیں کہ اس کام کے لیے الگ ادارے موجود ہیں ۔ نیب کو یہ کام نہیں کرنا چاہیے۔ نیب بڑی کرپشن کے پیچھے جائے۔ کل نیب زدگان کی مردہ حالت میں بھی ہتھکڑیوں کے ساتھ تصویر جائز تھی، آج زندہ کو بھی قبول نہیںکر رہے۔
آج عبدالصمد کی گرفتاری کے خلاف یہ دلیل دی جا رہی ہے کہ ان کے پاس پاکستان کا اعلیٰ عزاز پرائڈ آف پرفارمنس ہے۔ لیکن احد چیمہ کے پاس بھی تو ستا رہ امتیاز تھا۔ تب تو یہ کہا جا رہا تھا کہ احد چیمہ کا اعزازکرپشن کا لائسنس نہیں ہے۔ تو پھر آج عبدالصمد کا اعزاز کرپشن کا لائسنس کیسے ہے۔ اگر نوکریاں دینا کوئی بڑا جرم نہیں ہے تو سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف سمیت کئی لوگ نوکریاں دینے پر نیب کے ریفرنسوں کا سامنا کیوں کر رہے ہیں۔ سب کے ریفرنس ختم ہونے چاہییں۔ کیا تحریک انصاف کے لیے قانون الگ ہونا چاہیے اور تحریک انصاف کے مخالفین کے لیے الگ۔
زیادہ پرانی بات نہیں ہے اس وقت کی حکومت چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی کہ آج آپ نے ایک بیوروکریٹ کو پکڑ اہے اس کے بعد کوئی بھی بیوکروکریٹ کسی بھی حکومت کے لیے کوئی کام نہیں کرے گا۔ آج تحریک انصاف کی حکومت اپنے دور حکومت میں ایک بیوروکریٹ کی گرفتاری پر بھی یہی کہہ رہی ہے کہ آپ اگر اس طرح بیوروکریٹس کو پکڑتے رہے تو کوئی بھی بیوروکریٹ کام نہیں کرے گا۔ لیکن کل ٹھیک تھا، آج غلط ہے۔ موسم بدل گیاہے۔
کل جب ن لیگ کے لوگ پکڑے جا رہے تھے تو ن لیگ چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی کہ اس طرح نظام نہیں چل سکتا۔ آج ایک علیم خان کی گرفتاری کے بعد تحریک انصاف کی چیخیں نکل گئی ہیں۔آج ایک گرفتاری کے بعد خطرہ کی گھنٹیاں بج گئی ہیں۔ تحریک انصاف کی صفوں میں خوف کا سماں ہے۔ ہر کوئی سہم گیا ہے۔ یہ کیا ہو رہا ہے ہم تو تحریک انصاف میں آئے ہی اس لیے تھے کہ یہ اسٹبلشمنٹ کی پسندیدہ تھی۔ اب اگر ہماری بھی گرفتاریاں ہونی ہیں تو کیا فائدہ۔
کل جب پنجاب سے بیوروکریٹس پکڑے جا رہے تھے تو کہا جا رہا تھا کہ یہ وہ طوطے پکڑے جا رہے ہیں جن کے اندر شریفوں کی جان ہے۔ آپ دیکھیں گرفتاری کے بعد یہ طوے کیسے فر فر بولیں گے۔ احد چیمہ پنجاب میں سارے ترقیاتی منصوبے کا انچارج رہا ہے، وہ کمیشن اور کک بیک کی تفصیل بتا دے گا۔ آج ایک عبد الصمد گرفتار ہوا ہے تو یہ کیوں نہیں کہا جا رہا ہے کہ کے پی کے وزیر اعلیٰ اس لیے پریشان ہو گئے ہیں ان کا طوطا پکڑا گیا ہے۔ آج کے پی کے وزیر اعلیٰ کی چیخوں پر یہ کیوں نہیں کہا جا رہا ہے کہ طوطے کے بولنے کا خوف ہے۔یہ ناجائز بھرتیاں دراصل کے پی کی حکومت نے کرائی ہیں۔
سندھ میں جب بیو رو کریٹس کو پکڑا جا تا ہے تو کہا جاتا ہے کہ زرداری کے ساتھی پکڑے جا رہے ہیں۔ یہ سب چور پکڑے جا رہے ہیں۔ تب یہ دلیل کیوں نہیں دی جاتی کہ جب بیوروکریٹس کو پکڑتے ہیں تو نظام حکومت جام ہوجاتا ہے کیونکہ سندھ میں آپ کی حکومت نہیں ہے۔ وہاں نظام حکومت جام ہونے سے آپ کو فرق نہیں پڑتا۔ آج کے پی، پنجاب اور مرکز میں آپ کی حکومتیں ہیں۔ اس لیے وہاں نظام حکومت جام ہونے سے آپ کو فرق پڑتا ہے۔ اس لیے نیب کی سب سے بڑی وکیل تحریک انصاف آج نیب کی سب سے بڑی مخالف بن گئی ہے۔ کیا تحریک انصاف کے لیے نیب اس وقت تک اچھی ہے جب تک وہ تحریک انصاف کے سیاسی مخالفین کو پکڑنے کا عمل جاری رکھے۔ اور جونہی نیب تحریک انصاف کی طرف منہ کرے گی نیب بری بن جائے گی۔
کیا تحریک انصاف اور ان کے چہیتوں کو مقدس گائے کا درجہ حاصل ہے کہ ان کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرے۔ کیاکسی ادارے کو آزادی سے کام کرنے کی صرف تب تک اجازت ہے جب تک وہ تحریک انصاف کے لیے کام کرے۔ پہلے ہی ایک وفاقی وزیر وزیر اعظم کے خلاف تحقیقات کے بارے میں کہہ چکے ہیں کہ یہ وزیر اعظم کی تذلیل ہے۔ وفاقی حکومت نے نیب کے پیسے روکے ہوئے ہیں۔اب محاذ جنگ بھی کھول دیا گیا۔ اصل بات یہ ہے کہ تحریک انصاف فکی حکومت انجوائے کرنا چاہتی ہے۔
نیب کا خوف انھیں مزے نہیں لینے دے رہا۔ بیوروکریسی خوف زدہ ہے۔ کوئی ایک روپے کی فائل پر دستخط کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اوپر سے اگر حکومت کا ایک آدھا وزیر اور پکڑا گیا تو صورتحال مزید خراب ہوجائے گی۔ اس لیے تحریک انصاف چاہتی ہے کہ اب نیب کو لو پروفائل میں لیجانا ہوگا ورنہ تنائو بڑھتا جائے گا۔ کل تک جو نیب کے ساتھ تھے وہ اب خوفزدہ ہیں۔ باقی پھر کسی مناسب موقعے پر ۔