پشتو غزل کے بادشاہ امیر حمزہ شنواری کو دنیا سے گزرے 25 سال بیت گئے

حمزہ شنواری نے رحمان بابا اور علامہ اقبال کے کلام کا منظوم ترجمہ کرنے کے علاوہ لاتعاداد ڈرامے بھی لکھے

حمزہ شنواری کے بیشتر اشعار ضرب المثل کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں فوٹو: فائل

پشتو کے معروف قوم پرست شاعر، ادیب اور افسانہ نگار امیر حمزہ خان شنواری کو دنیا سے گزرے 25 سال بیت گئے.

حمزہ شنواری 1907 کو لنڈی کوتل میں ملک باز میر خان کے ہاں پیدا ہوئے، ان کی عمر تین برس سے بھی کم تھی کہ والدہ انتقال کرگئیں، والدہ کی وفات کے بعد ان کی تربیت ان کی سوتیلی ماں نے اس انداز میں کی کہ حمزہ شنواری کو کبھی بھی یتیم ہونے کا احساس نہیں ہونے دیا۔

1935 میں جب پشاور سیکرٹریٹ کے اندر آل انڈیا ریڈیو کی شاخ قائم ہوئی تو اس کے لیے حمزہ شنواری نے ''زمیندار'' کے نام سے پہلا ڈرامہ لکھا، اس کے بعد انہوں نے پشاور ریڈیو کے لیے سیکڑوں ڈرامے، فیچرز اور تقریریں لکھیں۔


بحیثیت مترجم انہوں نے رحمان بابا کی 204 غزلوں کا اردو جب کہ علامہ اقبال کے جاوید نامہ اور ارمغان حجاز کا پشتو میں منظوم ترجمہ کیا، انہیں 1940 میں ایک مشاعرے کے دوران پشتو زبان کے معروف شاعر اور ادیب سمندر خان سمندر نے پشتو غزل کے بادشاہ کے خطاب سے نوازا۔

حمزہ بابا کی ایک انفرادیت یہ بھی رہی کہ ساری عمر اپنے قومی اور سادہ قبائلی لباس میں ملبوس رہے۔ وہ 35 کتابوں کے مصنف تھے، جن میں تصوف، شاعری، نفسیات،ثقافت اور ادب کے موضوع پر لکھی گئی کتابیں شامل ہیں، ان کا لکھا ہوا ناول ''نوے چپے'' (نئی موجیں) چودہ ابواب پر مشتمل مشہور ناول ہے، جس کا مرکزی خیال پختون اتحاد پر مبنی ہے۔

حمزہ شنواری نے پشتو میں مکتوب نگاری کی صنف میں بھی گراں قدرخدمات انجام دی ہیں، ان کے بیشتر اشعار ضرب المثل کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں، وہ انگریزی روزنامہ ''خیبر میل'' کے پشتو صحفے کے انچارج بھی رہے اور اس کے لیے روزانہ مختلف معاشرتی اور ادبی موضوعات پر'' ژور فکرونہ'' (گہری سوچیں) کے نام سے کالم بھی لکھتے رہے،بابائے غزل امیرحمزہ خان شنواری 87 سال کی عمر میں 18 فروری 1994 کو خالق حقیقی سے جاملے۔
Load Next Story