جسٹس سعید الزماں صدیقی کی باتیں

"جیت یقینی ہو تو غیرجانبدار امیدوار ترجیح نہیں ہوتا" پاکستان کے سابق چیف جسٹس محترم ومکر م سعید الزمان صدیقی نے...

budha.goraya@yahoo.com

"جیت یقینی ہو تو غیر جانبدار امید وار تر جیح نہیں ہو تا" پاکستا ن کے سا بق چیف جسٹس محتر م ومکر م سعید الز ما ن صدیقی نے ایک جملے میں عملیت پسند سیا ست کے مقابل اخلا قی راہ رسم کی اوقات کھو ل کر رکھ دی ہے ۔

2008کے صدارتی انتخاب میں مسلم لیگ (ن) کے صدارتی امید وار جسٹس سعید الز ما ن صدیقی کہتے ہیں کہ اس مر تبہ نظر اند از کیے جا نے پر افسوس نہیں لیکن اس با ت پر حیر ت ہے کہ جب سیاسی جما عتیں حزب اختلا ف میں ہو تی ہیں اوران کے پا س صدارتی حلقہ انتخاب کے ووٹوں کی تعداد کم ہو تو مستحکم وفاق کا پر چا ر کر تے ہو ئے جا نبدار اور غیر سیا سی شخصیت کو ملک کا صدر بنو انا چا ہتی ہیں ۔لیکن جب اس جماعت کو عد دی اکثریت حا صل ہو جا ئے اور اس کے حمایت یافتہ امید وار کی فتح یقینی ہو تو انھیں جیا لا یا متوالا مو زوں دکھا ئی دیتا ہے ۔

انھوں نے انکشا ف کیا کہ نو از لیگ نے اس مر تبہ انھیں اپنا صدارتی امید واروں کی فہرست میں تو رکھا لیکن ان سے کسی ایک بھی رہنما نے بھی ان کی مر ضی تک نہیں پو چھی ۔

"میر انا م اخباروں میں آیا تو مجھے لگا کہ میڈیا کو غلط فہمی ہو گئی ہے ۔لیکن ہر روز اس حو الے سے خبریں آنے لگیں تو مجھے لگا کہ نو از لیگ جن امید واروں کے نا م پر غور کر رہی ہے، اس میں میرانا م شا مل ہے۔ لیکن مجھے با لکل امید نہیں تھی کہ میر انا م فا ئنل ہو جا ئے گا۔ کیو نکہ اس بار پا رٹی کے کسی رہنما نے مجھے سے میری رائے تک پو چھنے کے لیے رابطہ نہیں کیا تھالیکن جب 2008میںجب صدرات کے عہد ہ کے لیے اپنا امید وار نا مز د کیا تو چوہد ری نثار علی خا ن نے مجھ سے ٹیلی فون پر با ت کی اور مجھ سے کہا کہ میاں نواز شریف صاحب چاہتے ہیں کہ آپ کو پارٹی کے پلیٹ فارم سے صدارتی امیدوار نا مزد کیا جا ئے "

سعیدالزماں صدیقی نے مسکراتے ہوئے کہا کہ وفاق کی مضبوطی کے لیے ایک غیرسیاسی شخصیت کا فلسفہ تو اب بھی صادق آتا تھا مگر اس بار انتخاب ایک پا رٹی کا کا رکن بنا۔


انھوں نے کہا کہ چند سا ل پہلے جب آصف علی زرداری کو صدربنایا جا رہا تھا تو ان پر سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ ان کی ایک سیا سی جما عت کے سا تھ وابستگی ہے ۔مگر آج پھر ایک سیا سی وابستگی رکھنے والی شخصیت کو عہدہ صدارت کا امید وار بنایا گیا ہے اور وہ فلسفہ بدل گیا ہے۔

جسٹس سعید الز ما ں صد یقی کی جگہ جنا ب ممنو ن حسین کی نا مز دگی عملیت پسند حکمت عملی کا تسلسل ہے جس کا تجزیہ کر تے ہو ئے معاصر میں کالم نگا ر نا زیہ مصطفیٰ نے دریا کوزے میں بند کر دیا ہے ۔داستا ن گو ئی کو کا لم کے آہنگ میں ڈھالنے والی منفر د اسلوب نگا ر لکھتی ہیں کہ جب بھی پا کستا ن میں حکو مت تبدیل ہو نے کا وقت آتا ہے' سیاست کا یہ "دریائے نیل " بھی بھینٹ ما نگتا ہے اور بھینٹ لیے بغیر نہیں ٹلتا، زیا دہ دور نہیں جاتے۔

گزشتہ 20،25برسو ں کا جا ئز ہ ہی لے لیتے ہیں، مثال کے طور پر 1993کے انتخابا ت میں مسلم لیگ (ن)کو پہلی مر تبہ ایک جما عت کے طور پر کا میا بی تو ملی لیکن پیپلز پا رٹی سے نشستیں کم ہو نے کی وجہ سے مسلم لیگ (ن)مر کز میں حکو مت بنا پا ئی نہ ہی پنجا ب میں اس کی دال گلی ۔حا لا نکہ پنجا ب میں اس کی اچھی خا صی نشستیں تھیں۔ ادھر پیپلز پا رٹی نے مسلم لیگ جونیجو کے سا تھ مل کر مر کز کے سا تھ سا تھ لا ہو ر کا تخت بھی حا صل کر لیا ۔پنجا ب میں وزیراعلیٰ کا مر حلہ آیا تو مسلم لیگ (ن)نے "ہارنے "کے لیے چوہد ری پر ویز الہیٰ کو امید وار نا مز دکر دیا لیکن یہ بھینٹ ان کے کا م نہیں آئی ۔

1997کے انتخا بات میں ہیوی مینڈیت لینے کے بعدجب صاف ظاہر تھا کہ وزیر اعلیٰ مسلم لیگ (ن)کا ہی ہو گا تب یہ قر عہ چوہد ری پر ویز الہی کی بجا ئے میا ں شہبا ز شر یف کے نام نکل لیا گیا ۔دوسری جا نب 1997میں ہی پیپلز پا رٹی نے نو از شر یف کے مقا بلے میں وزرات عظمیٰ کا امید وار شاہ محمو د قر یشی کو نا مزد کر دیا ۔مر کز میں پیپلز پا رٹی کی 17نشستو ں کے ساتھ شاہ محمود قر یشی بیچارے ہارنے کے سوا کر بھی کیا سکتے تھے! لیکن یہ بھینٹ آنے والے وقت میں ملتا ن کے اس مخد وم کے کام نہ آئی' یہی وجہ ہے کہ 2008میں وزارت عظمیٰ کی کر سی پر پیپلز پا رٹی میں کسی غیر بھٹو کے لیے گنجا ئش بنی تو یہ قر عہ ملتا ن کے دوسر ے مخدوم سید یو سف رضا گیلا نی کے نا م نکل آیا ۔

کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر آصف زرداری کی گریجویشن مکمل ہو تی تو شاید گیلا نی کی بھینٹ بھی رائیگاں جا تی، اس طر ح متحر مہ بے نظیر کی جلا وطنی میں 2002کے انتخا بات کے بعد میرظفر اللہ جما لی کے مقابلے میں مخد وم امین فہیم کو وزرات عظمی کا امید وار بنا کر بھینٹ لی گئی ۔ لیکن وقت آنے پر ان کا دامن بھی خا لی رہا۔اس سیا سی بھیٹ کی دو واضح مثالیں تو ابھی حا ل ہی میں سامنے آئی ہیں۔آپ ذرا تصور کر یں کہ اگر 2013کے عا م انتخا بات میں پا کستا ن تحر یک انصاف کو اکثر یت ملی ہو تی اورانیس بیس کے فر ق کے سا تھ پا کستا ن تحر یک انصاف کو مر کز میں حکو مت بنانے کی تھو ڑی سے امید بھی ہو تی تومیا ں نواز شر یف کے مقابلے میں پی ٹی آئی کی جا نب سے وزرات عظمی کا امید واربھلا کو ن ہو تا؟کیا اس وقت عمر ان خا ن کے سوا کسی دوسر ے کا چا نس بنا سکتا تھا ؟کیا اکثر یت حا صل ہو نے کی صورت میں بھی جا وید ہا شمی اس طرح کی بھینٹ طلب کی جا سکتی تھی ؟اور دوسر ی طر ف اگر اب بھی جو ڑتو ڑ کی صور ت میں پیپلز پا رٹی کو اپنا صد ر منتخب کر انے کی موہو م سی امید بھی ہو تی تو بھلا کسی کی مجا ل تھی کہ اس عہدہ جلیلہ کے لیے آصف علی زرداری کے سوا کسی دوسرے کا نا م بھی اپنی ہو نٹو ں پر لا تا ۔کیا اس وقت بھی پیپلز پا رٹی رضا ربانی کوہی اپناامید وار بنا تی ؟

جنھیں گز شتہ پا نچ بر سو ں میں قا بل ذکر عہد ے کے لا ئق سمجھا گیا اورنہ ہی کسی اور معا ملے میں گھا س ڈالی گئی ؟لیکن سیا ست کے اس دریا نیل کا تو با وآدم ہی نر الا ہے ۔سیا ست کا یہ دریا ئے نیل بھینٹ کسی اور کی لیتا ہے لیکن سیر اب کسی اور کو کر تا ہے یہ دریا نیل سر اب کسی اور کو کرتا ہے اور اس کی بھینٹ سیر اب کی ہو ئی زمین پر فیصل کسی اور کی اگتی ہے لیکن پا کستان کے سیاسی دریائے نیل کے پیا سے تو کہیں اور ہجر ت بھی نہیں کر سکتے ان کے پا س تو ایک ہی چو ائس ہو تی ہے کہ جب بھی ضر ورت پڑ ے کے لیے تیار رہیں' کوئی گلہ شکوہ زباں پر نہ لائیں یہ ہی بس دریائے نیل کے پیاسوں کی قسمت !
Load Next Story