ہاکی اور روزہ
رمضان کے مہینے میں اس خبر نے عوام کو چونکا کر رکھ دیا کہ ’’روزہ رکھ کر ٹریننگ کیمپ میں شرکت کرنے پر...
رمضان کے مہینے میں اس خبر نے عوام کو چونکا کر رکھ دیا کہ ''روزہ رکھ کر ٹریننگ کیمپ میں شرکت کرنے پر اولمپین شکیل عباسی کو ٹیم سے ڈراپ کردیا گیا ہے۔'' خبر کی تفصیلات کچھ اس طرح ہے کہ قومی ہاکی ٹیم کا تربیتی کیمپ جو ان دنوںنیشنل اسٹیڈیم لاہور میں جاری ہے اس میں سینٹر فاروڈ شکیل عباسی روزے کی حالت میں کیمپ پہنچے تو چیف کوچ اختر رسول ان پر برس پڑے اور کیمپ چھوڑ کر واپس جانے کا کہا۔ اختر رسول نے کہا کہ ٹریننگ کے دوران کھلاڑیوں کو روزہ رکھنے سے منع کیا گیا تھا کیونکہ اس سے انھیں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ بہتر پرفارم نہیں کرپاتے۔
شکیل کو کئی بار روزہ ترک کرنے کی ہدایت کی گئی تھی تاہم انھوں نے اس ہدایت پر عمل نہیں کیا۔ اختر رسول کے اس اقدام کے بعد مفتیان کرام کے بیانات اور فتویٰ بھی سامنے آگئے۔ سیکریٹری پاکستان ہاکی فیڈریشن نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ انھیں بھی یہ خبر میڈیا سے ملی ہے، معاملے کی انکوائری کرائی جائے گی۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ کیمپ سے پہلے ٹیم انتظامیہ اور کھلاڑیوں نے مل کر جو قوانین بنائے تھے اس میں یہ شق بھی تھی کہ روز ے ایشیا کپ کے بعد رکھے جائیں گے۔
پاکستان ہاکی ٹیم کی حالیہ پے در پے شرمناک شکست نے جہاں ٹیم اور ہاکی فیڈریشن کی کارکردگی پر بہت سے سوالات اٹھا دیے ہیں، وہیں اس کے آفیشلز، کوچ اور سیکریٹری وغیرہ کو بھی بہت زیادہ انڈر پریشر کر رکھا ہے۔ اگر ٹیم آئندہ ایشیا کپ میں اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں ناکام ہوئی تو ورلڈ کپ میں شرکت سے بھی محروم رہ جائے گی۔ شاید اسی دباؤ کا نتیجہ ہے کہ ٹیم کے کوچ نے روزہ رکھنے کے جرم کی پاداش میں ایک سینٹر فاروڈ کی پوزیشن پر کھیلنے والے اچھے کھلاڑی کو گھر بھیج دیا۔ حالانکہ بظاہر یہ اتنی بڑی بات یا اتنی سنگین غلطی نظر نہیں آتی جتنی سنگین سزا اس کھلاڑی کو دی گئی ہے۔
اگر پندرہ بیس کھلاڑیوں کے کیمپ میں ایک کھلاڑی روزہ رکھ بھی دیتا ہے تو اس کو اس عمل سے روکنے اور روزے ترک نہ کرنے پر کیمپ سے باہر کردینے کا اقدام نہ تو کھیل کے مفاد میں ہے نہ ہی اصول و انصاف اور دینی تقاضوں سے مطابقت رکھتا ہے۔ روزہ کی مثال اعتکاف سے بھی نہیں دی جاسکتی جو کلی طور پر نفلی عبادت ہے۔ شاید اس قسم کی عمومی کمزوری آئندہ ماہ ہونے والے ایشین کپ پر اثر انداز بھی نہ ہوتی کیونکہ ہاکی جیسے کھیل میں طاقت سے زیادہ تیکنیک اہمیت رکھتی ہے، اسی لیے دنیا بھر میں ہاکی کے کھلاڑیوں کی جانب سے طاقت کی ادویات اور منشیات وغیرہ کے استعمال کی چیزیں یا کوئی الزام سامنے نہیں آیا، ان ادویات کے استعمال کی وبا زیادہ تر ایتھلیٹس اور فٹبالرز وغیرہ میں ہے جو طاقت کے کھیل Power Games ہیں اور دنیا کے بڑے ممالک کے نامور اور مایہ ناز کھلاڑی اس جرم میں سزا پاکر اپنی شہرت اور مستقبل سے محروم ہوچکے ہیں اور یہ واقعات World Anti Doping کے لیے بھی چیلنج بنے ہوئے ہیں۔
پاکستان ہاکی ٹیم کا کسی میچ سے قبل میدان کے وسط میں سر جوڑ کر دعا کرنا، نعرہ تکبیر بلند کرکے میدان میں پھیل جانا اور فتح کی صورت میں اﷲ کے حضور سجدہ ریز ہوجانا ہے، ہمارا وقار اور تشخص رہا ہے، ہمارے ہاکی کے کھلاڑیوں میں منشیات کے استعمال، کیسینو میں جانے، غیر ملکی اداکاراؤں سے تعلقات رکھنے، ان سے شادیاں کرنے کا رجحان کبھی بھی نہیں رہا، نہ ان پر کبھی جوا اور سٹے بازی کا کوئی الزام عائد کیاگیا جب کہ کرکٹ جیسے کھیل میں ہمارے کھلاڑی ان برائیوں میں بری طرح رنگے ہوئے ہیں اور پھر اپنی پارسائی جھاڑنے کے لیے اس کو بیرونی ممالک کی اپنی اور اپنے ملک کے خلاف سازش قرار دے کر جرم کی نوعیت کو ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہاکی پاکستان کا قومی کھیل ہے اور اس کی شناخت بھی۔ جس میں بڑے بڑے کارنامے ہاکی کی تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ روبہ زوال ہاکی کو حکومت اور اس کھیل سے وابستہ کہنہ مشق اور اہل کھلاڑیوں کی مدد اور پذیرائی کی ضرورت ہے۔ ہمارے ایک دیرینہ مشفق دوست اور سابق اولمپین مسعود احمد خان جو پی اے ایف اور پاک سروسز سے طویل عرصہ ہاکی کھیل کر ریٹائر ہوچکے ہیں، جب ان کے ساتھ نشست ہوتی ہے تو بہت سی حقیقتیں منکشف ہوتی ہیں، خوشگوار حیرت سامنے آتی ہے۔
جب ان سے روزہ دار اولمپین کو گھر بھیج دینے کے واقعے پر بات چیت ہوئی تو انھوںنے اپنا ایک واقعہ بتایاکہ برطانیہ کی رائل ایئر فورس میں کیمپ جاری تھا، ایک انگریز کو پتہ چلا کہ مسلمان کھلاڑی روزہ سے ہیں تو اس نے ازراہ ہمدردی ان 18 کھلاڑیوں کو ایک طرف بٹھادیا کہ آپ آرام کریں، اسی دوران وہاں پاکستان ایئر فورس کا لائیژن آفیسر آگیا، جب اس نے یہ ماجرا سنا تو فوراً گورے کو کہا کہ ان کھلاڑیوں کو پی ٹی میں شامل کیا جائے، روزے سے ان کے معمولات میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
انھوں نے بتایا کہ جس دور میں آچرے، میکڈونلڈ اور کینن پاک فضائیہ کے سربراہ تھے اس وقت بھی کھلاڑیوں کے لیے گراؤنڈ میں ہی تازہ گرم اور تمام لوازمات سے مزین افطار کا بندوبست کردیا جاتا تھا تاکہ انھیں میس تک جانے میں وقت اور دشواری پیش نہ آئے۔ اولمپین مسعود احمد خان کہتے ہیں کہ ان کے ساتھ عبدالمجید خان (حمیدی)، کرنل ظفر احمد (ظفری)، مشتاق ، بریگیڈیئر عاطف نصیب خان، بشیر، ذاکر اور خود اختر رسول کے والد چوہدری غلام رسول جیسے اولمپین تھے، پی اے ایف میں صرف ہوا بازوں پر پابندی عائد ہوتی تھی کہ وہ روزے کی حالت میں پرواز نہیں کرسکتے تھے، اس کے لیے بھی انھیں اختیار کل تھا کہ جو روزہ رکھنا چاہیں رکھیں، جن کا روزے کی وجہ سے ماہانہ 30 گھنٹہ فلائٹ کا ٹارگٹ پورا نہیں ہوتا تھا وہ فلائٹ الاؤنس سے محروم رہتے تھے۔ لیکن روزے کا رکھنا یا نہ رکھنا جبری نہیں تھا۔
شکیل کو کئی بار روزہ ترک کرنے کی ہدایت کی گئی تھی تاہم انھوں نے اس ہدایت پر عمل نہیں کیا۔ اختر رسول کے اس اقدام کے بعد مفتیان کرام کے بیانات اور فتویٰ بھی سامنے آگئے۔ سیکریٹری پاکستان ہاکی فیڈریشن نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ انھیں بھی یہ خبر میڈیا سے ملی ہے، معاملے کی انکوائری کرائی جائے گی۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ کیمپ سے پہلے ٹیم انتظامیہ اور کھلاڑیوں نے مل کر جو قوانین بنائے تھے اس میں یہ شق بھی تھی کہ روز ے ایشیا کپ کے بعد رکھے جائیں گے۔
پاکستان ہاکی ٹیم کی حالیہ پے در پے شرمناک شکست نے جہاں ٹیم اور ہاکی فیڈریشن کی کارکردگی پر بہت سے سوالات اٹھا دیے ہیں، وہیں اس کے آفیشلز، کوچ اور سیکریٹری وغیرہ کو بھی بہت زیادہ انڈر پریشر کر رکھا ہے۔ اگر ٹیم آئندہ ایشیا کپ میں اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں ناکام ہوئی تو ورلڈ کپ میں شرکت سے بھی محروم رہ جائے گی۔ شاید اسی دباؤ کا نتیجہ ہے کہ ٹیم کے کوچ نے روزہ رکھنے کے جرم کی پاداش میں ایک سینٹر فاروڈ کی پوزیشن پر کھیلنے والے اچھے کھلاڑی کو گھر بھیج دیا۔ حالانکہ بظاہر یہ اتنی بڑی بات یا اتنی سنگین غلطی نظر نہیں آتی جتنی سنگین سزا اس کھلاڑی کو دی گئی ہے۔
اگر پندرہ بیس کھلاڑیوں کے کیمپ میں ایک کھلاڑی روزہ رکھ بھی دیتا ہے تو اس کو اس عمل سے روکنے اور روزے ترک نہ کرنے پر کیمپ سے باہر کردینے کا اقدام نہ تو کھیل کے مفاد میں ہے نہ ہی اصول و انصاف اور دینی تقاضوں سے مطابقت رکھتا ہے۔ روزہ کی مثال اعتکاف سے بھی نہیں دی جاسکتی جو کلی طور پر نفلی عبادت ہے۔ شاید اس قسم کی عمومی کمزوری آئندہ ماہ ہونے والے ایشین کپ پر اثر انداز بھی نہ ہوتی کیونکہ ہاکی جیسے کھیل میں طاقت سے زیادہ تیکنیک اہمیت رکھتی ہے، اسی لیے دنیا بھر میں ہاکی کے کھلاڑیوں کی جانب سے طاقت کی ادویات اور منشیات وغیرہ کے استعمال کی چیزیں یا کوئی الزام سامنے نہیں آیا، ان ادویات کے استعمال کی وبا زیادہ تر ایتھلیٹس اور فٹبالرز وغیرہ میں ہے جو طاقت کے کھیل Power Games ہیں اور دنیا کے بڑے ممالک کے نامور اور مایہ ناز کھلاڑی اس جرم میں سزا پاکر اپنی شہرت اور مستقبل سے محروم ہوچکے ہیں اور یہ واقعات World Anti Doping کے لیے بھی چیلنج بنے ہوئے ہیں۔
پاکستان ہاکی ٹیم کا کسی میچ سے قبل میدان کے وسط میں سر جوڑ کر دعا کرنا، نعرہ تکبیر بلند کرکے میدان میں پھیل جانا اور فتح کی صورت میں اﷲ کے حضور سجدہ ریز ہوجانا ہے، ہمارا وقار اور تشخص رہا ہے، ہمارے ہاکی کے کھلاڑیوں میں منشیات کے استعمال، کیسینو میں جانے، غیر ملکی اداکاراؤں سے تعلقات رکھنے، ان سے شادیاں کرنے کا رجحان کبھی بھی نہیں رہا، نہ ان پر کبھی جوا اور سٹے بازی کا کوئی الزام عائد کیاگیا جب کہ کرکٹ جیسے کھیل میں ہمارے کھلاڑی ان برائیوں میں بری طرح رنگے ہوئے ہیں اور پھر اپنی پارسائی جھاڑنے کے لیے اس کو بیرونی ممالک کی اپنی اور اپنے ملک کے خلاف سازش قرار دے کر جرم کی نوعیت کو ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہاکی پاکستان کا قومی کھیل ہے اور اس کی شناخت بھی۔ جس میں بڑے بڑے کارنامے ہاکی کی تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ روبہ زوال ہاکی کو حکومت اور اس کھیل سے وابستہ کہنہ مشق اور اہل کھلاڑیوں کی مدد اور پذیرائی کی ضرورت ہے۔ ہمارے ایک دیرینہ مشفق دوست اور سابق اولمپین مسعود احمد خان جو پی اے ایف اور پاک سروسز سے طویل عرصہ ہاکی کھیل کر ریٹائر ہوچکے ہیں، جب ان کے ساتھ نشست ہوتی ہے تو بہت سی حقیقتیں منکشف ہوتی ہیں، خوشگوار حیرت سامنے آتی ہے۔
جب ان سے روزہ دار اولمپین کو گھر بھیج دینے کے واقعے پر بات چیت ہوئی تو انھوںنے اپنا ایک واقعہ بتایاکہ برطانیہ کی رائل ایئر فورس میں کیمپ جاری تھا، ایک انگریز کو پتہ چلا کہ مسلمان کھلاڑی روزہ سے ہیں تو اس نے ازراہ ہمدردی ان 18 کھلاڑیوں کو ایک طرف بٹھادیا کہ آپ آرام کریں، اسی دوران وہاں پاکستان ایئر فورس کا لائیژن آفیسر آگیا، جب اس نے یہ ماجرا سنا تو فوراً گورے کو کہا کہ ان کھلاڑیوں کو پی ٹی میں شامل کیا جائے، روزے سے ان کے معمولات میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
انھوں نے بتایا کہ جس دور میں آچرے، میکڈونلڈ اور کینن پاک فضائیہ کے سربراہ تھے اس وقت بھی کھلاڑیوں کے لیے گراؤنڈ میں ہی تازہ گرم اور تمام لوازمات سے مزین افطار کا بندوبست کردیا جاتا تھا تاکہ انھیں میس تک جانے میں وقت اور دشواری پیش نہ آئے۔ اولمپین مسعود احمد خان کہتے ہیں کہ ان کے ساتھ عبدالمجید خان (حمیدی)، کرنل ظفر احمد (ظفری)، مشتاق ، بریگیڈیئر عاطف نصیب خان، بشیر، ذاکر اور خود اختر رسول کے والد چوہدری غلام رسول جیسے اولمپین تھے، پی اے ایف میں صرف ہوا بازوں پر پابندی عائد ہوتی تھی کہ وہ روزے کی حالت میں پرواز نہیں کرسکتے تھے، اس کے لیے بھی انھیں اختیار کل تھا کہ جو روزہ رکھنا چاہیں رکھیں، جن کا روزے کی وجہ سے ماہانہ 30 گھنٹہ فلائٹ کا ٹارگٹ پورا نہیں ہوتا تھا وہ فلائٹ الاؤنس سے محروم رہتے تھے۔ لیکن روزے کا رکھنا یا نہ رکھنا جبری نہیں تھا۔