عوامی جمہوریت کی طرف 

بامعنی تبدیلی کے لیے عمران خان کیئر ٹیکرکا کردار ادا کرسکتے ہیں۔

zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

اقتدارکے بھوکوں کا سب سے بڑا درد سر یہ ہوتا ہے کہ انھیں عوام کی حمایت حاصل ہو اور ترقی یافتہ دنیا نے عوام کی حمایت کے حصول کا جو آسان ترین نسخہ ایجاد کیا ہے وہ ہے جمہوریت ۔

ایوب خان ملک کا پہلا فوجی ڈکٹیٹر تھا اقتدار پر قبضے کے بعد چونکہ عوام میں ایک خوف و ہراس کی کیفیت تھی، سو ایوب خان اس خوف زدگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی فوجی ڈکٹیٹرشپ کی گاڑی کھینچتے رہے ادھر سیاستدان بھی اپنے خوف کے بلوں میں دبک گئے تھے سو ایوب خان بے خوف و خطر اقتدار پر قابض رہے۔

ایوب خان کی خوش قسمتی یہ تھی کہ امریکا نے کولمبو پلان کے تحت پسماندہ ملکوں کو بھاری مالی امداد دینے کا آغاز کیا اس کی وجہ یہ تھی کہ روس کی قیادت میں سوشلزم کا نظریہ تیزی سے عوام میں مقبول ہو رہا تھا۔ سوشل ازم بے لگام نجی ملکیت کے خلاف تھا جو سرمایہ دارانہ نظام کی اساس تھی لہٰذا امریکا اور اس کے حواری جو لامحدود نجی ملکیت کی سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اربوں کی عوامی دولت پر قبضے جما لیتے تھے۔

نجی ملکیت کے خاتمے کے داعی سوشل ازم کے سخت مخالف ہوگئے تھے لیکن طبقاتی استحصال کے شکار عوام لامحدود نجی ملکیت کے خلاف تھے اس لیے ان کا سوشل ازم سے متاثر ہونا فطری بات تھی۔سرمایہ دارانہ نظام کے حامیوں اور نظریہ سازوں نے سرمایہ دارانہ نظام کو عوام میں قابل قبول بنانے کے لیے جمہوریت کا سہارا لیا۔ یوں سوشل ازم کے خلاف جمہوریت کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا طریقہ سرمایہ دارانہ نظام کے حامیوں کے لیے نہایت سود مند ثابت ہوا ۔جب تک عوام میں فوجی حکومت کا خوف تھا ، ایوب خان آمریت کے سہارے اقتدار کی گاڑی کھینچتے رہے لیکن جب عوام میں آمریت کا خوف کم ہونے لگا تو ایوب خان ہراساں رہنے لگے۔

ایوب خان نے پاکستان کے سیاستدانوں کی فطرت کو سمجھ لیا تھا اس لیے وہ کہتا تھا کہ جب میں انھیں بلاؤں گا وہ دم ہلاتے ہوئے چلے آئیں گے، سو ایسا ہی ہوا جب ایوب نے انھیں لفٹ دی وہ مسلم لیگ کے دو ٹکڑے کرکے ایک ٹکڑے کا نام کنونشن لیگ کا تحفہ لے کر حاضر ہوگئے۔

کنونشن لیگ کے رہنماؤں کو ایوب خان کی حکومت میں جب وزارتیں دی جانے لگیں تو کنونشن لیگ پوری طرح ایوب خان کی غلامی کے لیے کمربستہ ہوگئی یوں اہل سیاست کی حمایت سے ایوب خان بے فکری سے اقتدار کے مزے لوٹنے لگا۔ اسے اتفاق کہیں یا حسن اتفاق کہ امریکا کی کولمبو پلان کے تحت دی جانے والی بھاری امداد کو ایوب خان نے صنعتی ترقی کے لیے استعمال کرنا شروع کیا یوں ملک بھر میں خاص طور پر کراچی میں تیزی سے صنعتیں لگنے لگیں اور اس کے نتیجے میں پسماندہ دیہی علاقوں سے بے روزگاروں کے قافلے کراچی پہنچنے لگے چونکہ ملک کا اقتدار ایوب خان کے ہاتھوں میں تھا سوخیبر پختونخوا سے سب سے زیادہ بے روزگار کراچی پہنچنے لگے اور لانڈھی کورنگی اور سائٹ کی فیکٹریوں میں انھیں ملازمتیں ملنے لگیں یہ صنعتی علاقے مزدوروں کی بستیوں میں بدل گئے۔


ایوب خان بکاؤ سیاستدانوں کی مدد سے اقتدارکی گاڑی کھینچنے لگے اور ایک لمبے پلان کے تحت ایوب خان نے ملک میں انتخابات کا ڈول ڈالا اور اپنی مد مقابل فاطمہ جناح کو شکست دے کر اقتدارکا جمہوری مالک بن گیا۔ ننگ سیاست سیاستدانوں کے ساتھ مل کر اس جمہوریت کا آغاز کیا جس میں طاقت کا مرکز ایوب خان کی ذات تھی۔

اس دور میں بائیں بازوکی پارٹی نیشنل عوامی پارٹی ایک منظم اور طاقتور پارٹی تھی ، ہم بھی نیپ سے بطور جوائنٹ سیکریٹری منسلک تھے۔ ایوبی جمہوریت کو بے نقاب کرنے کے لیے نیپ کی ایک میٹنگ لاہور میں مطلبی فرید آبادی کی رہائش گاہ ماڈل ٹاؤن میں منعقد ہوئی ، جس میں طویل بحث و مباحثے کے بعد ''عوامی جمہوریت '' کا پروگرام طے کیا گیا، جو ایوبی جمہوریت کو ننگا کرنے لگا ، کیونکہ عوامی جمہوریت کا مقصد عوام مزدوروں ، کسانوں کی جمہوریت تھا سو ملک میں کٹھ پتلی جمہوریت کا متبادل پیش کیا گیا ۔

آہستہ آہستہ ملک میں ایوبی جمہوریت کی جگہ اشرافیائی جمہوریت نے لے لی اور اس نام نہاد جمہوریت پر وڈیروں اور جاگیرداروں نے قبضہ کرلیا ۔ جب ضیا الحق نے بھٹوکو پھانسی پر چڑھا کر اقتدار پر قبضہ کیا تو ملک میں ضیاالحق نے بھی جمہوریت کے دامن میں پناہ لی اور ایک چھوٹے صنعتکار خاندان شریف خاندان کو سیاست میں لاکر پنجاب میں اقتدار سونپ دیا، یوں ہماری وڈیرہ شاہی جمہوریت میں صنعتکار طبقے کو بھی حصے دار بنا دیا گیا، آہستہ آہستہ یہ خاندان سیاست کا بڑا حصہ بن گیا ۔

یہ خاندان آہستہ آہستہ سیاست پر اس طرح چھاتا چلا گیا کہ اقتدارکا مرکز بن گیا، پھر وڈیرہ شاہی کی نمایندگی کرنے والوں نے بھی خود کو اسی مرکز کے ساتھ نتھی کر لیا۔ ایوب خان اور پھر ضیاء الحق اور آخر میں پرویز مشرف کے دور میں جن سیاسی جماعتوں اور لیڈروں کی کھیپ تیار ہوئی اور بیوروکریسی پروان چڑھی ، اس نے ملک میں لوٹ مارکا وہ بازار گرم کیا کہ الامان الحفیظ ۔ اقتدار کے مالکان کے تو پو بارہ ہو ہی گئے، اقتدار کے ایوان کے چھوٹے چھوٹے اہلکار بھی ارب پتی بن گئے۔

اب عمران خان انتخابات جیت کر اقتدار میں آئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی احتساب کا سلسلہ شروع ہوا اور بڑے بڑے بت اس کی زد میں آگئے ہیں چونکہ اس احتساب سے اشرافیہ کا ایک ٹکڑا زد میں آگیا ہے، اس احتساب کا خوف اشرافیہ کے اعصاب پر اس طرح مسلط ہوگیا ہے کہ اشرافیہ ہر قیمت پر اس ''ناگوار '' سلسلے کو روکنا اور رکوانا چاہتی ہے، اس کے لیے ملک کے اندر ہی سے نہیں بلکہ دوست ملکوں سے بھی بڑی بڑی سفارشیں لگانے کی خبریں ہیں، دیکھیے احتساب کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔

عمران خان ایک نظریاتی الجھنوں کا شکار حکمران ہے۔ ان سے کسی با معنی تبدیلی کی امید نہیں کی جاسکتی ، البتہ بامعنی تبدیلی کے لیے عمران خان کیئر ٹیکرکا کردار ادا کرسکتے ہیں ،کیونکہ با معنی تبدیلی کے لیے پورے کرپٹ سسٹم کو جڑ سے ختم کرنا ہے اور یہ کام مزدوروں،کسانوں، صحافیوں، دانشوروں اور مڈل کلاس سے وابستہ وہ لوگ ہی کرسکتے ہیں جو ذاتی مفادات سے پاک ہوں ۔
Load Next Story