ماں بولی
ماں بولی کا یہ حسن ہی وہ جھنڈا ہے جس کے تلے ہم سب جمع ہوکراپنی پہچان کا آغاز کرتے اور کرآتے ہیں۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق صرف پاکستان میں اس وقت 74 زبانیں ایسی ہیں جنھیں ماں بولی یا مادری زبان کا درجہ دیا جا سکتا ہے، بظاہر یہ بات عجیب سی لگتی ہے کہ عام طور پر چاروں صوبوں کی جغرافیائی اور نسلی اعتبار سے ایک ہی زبان کا تصور ابھرتا ہے۔
اب اگر لہجوں کے چکر میں نا پڑا جائے تو شاید سرائیکی، پوٹھوہاری، جھنگی اور ہندکو بھی ایک ہی زبان کہلاتیں کہ یہ سب کئی اور ضمنی لہجوں سمیت ایک ہی مخصوص علاقے میں بولی جاتی ہیں لیکن عملی اور لسانی حوالوں سے یہ کام اتنا آسان نہیں۔
تاریخ کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ جوں جوں یہ زمین آباد ہوتی گئی اور لوگ اس میں بستیاں بسا کر رہنے لگے اس کے ساتھ ہی بے شمار زبانوں نے بھی جنم لیا ،کچھ اپنا وقت گزار کر ختم ہو گئیں جب کہ کچھ مسلسل پھیلتی یا سکڑتی رہیں۔ پھر ایک وقت آیا کہ رسم الخط ایجاد ہوا اور انسانی گلے سے نکلنے والی آوازیں حروف یا تصاویر کی شکل میں ڈھلنے لگیں اور ان کے ساتھ مختلف انسانی گروہ اور ان کی تہذیبیں آپس میں جڑتی چلی گئیں۔ یہ ایک طویل اور پیچیدہ عمل ہے جس کے نتیجے میں جتنے منہ اتنی باتیں کے مصداق بے شمار مادری زبانیں ظہور پذیر ہوئیں، تاریخ کے ابتدائی ادوار میں سفری سہولتوں کی کمی اور انسانی ضروریات کی محدودیت کی وجہ سے لوگ بہت کم اپنے علاقوں سے باہر نکلتے تھے کہ ان کے اور ان کے جانوروں کے لیے خوراک اور پانی کی ضرورت ہی زیادہ اہم ہوا کرتی تھی اور یوں ان کی مادری زبانیں اپنے محدود ذخیرہ الفاظ کے ساتھ مزے سے اپنے حصے کا کام کر رہی تھیں۔
مسئلہ اس وقت پیدا ہوا جب زرخیز زمینوں اور پانی کی تلاش میں لوگ گروہوں کی شکل میں ایک سے دوسری جگہ جانا شروع ہوئے، یہاں سے ضرورت اور طاقت کا وہ تصور فروغ پذیرہوا جس نے اپنے سے کمزور انسانوں کے جسم و جان اور ان کی املاک پر زبردستی قبضے کی روش کو فروغ دیا اور جس کا ایک اثر یہ بھی ہوا کہ مختلف علاقوں اور نسلوں میں بولی جانے والی زبانوں میں بھی نئے نئے رشتے سامنے آنے لگے اوریوں مادری زبانیں بھی پھیلنا اور سکڑنا شروع ہوگئیں اور ان کی جگہ رابطے اور تہذیب کے حوالے سے مشترکہ اور نئی زبانیں سامنے آنے لگیں۔
انسانی ذہن اور شعور کی ترقی کے ساتھ ساتھ یہ نسبتا بڑی اور منضبط زبانیں تحریر و تقریر دونوں صورتوں میں غلبہ حاصل کرتی گئیں، ان کے رسم الخط ، گرامر، قوانین اور املا کے طریقے نہ صرف وضع ہونا شروع ہوئے بلکہ طاقتور قوموں نے مقامی زبانوں کو مقبوضہ علاقے کے وسائل سمیت نگلنا شروع کردیا۔ پندرہویں صدی میں یورپ میں پرنٹنگ پریس کی ایجاد کے ساتھ دنیا انسانی تہذیب اور انسانوں کے باہمی تعلقات سب کے سب ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گئے جس کا سب سے زیادہ منفی اثر مادری زبانوں پر پڑا کہ حاکم قوموں کی زبانوں کو سیکھنا اور ان میں لکھنا پڑھنا اور بات چیت کرنا ترقی اور بقا کے لیے لازم و ملزوم ہوگئے۔
امریکا آسٹریلیا اور افریقہ کے بعض علاقوں میں طاقتور قوموں کے غلبے کی وجہ سے وہاں کی مقامی تہذیبیں اور زبانیں ٹوٹ پھوٹ کا سب سے زیادہ شکار ہوئیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کے بیشمار زبانیں سرے سے ہی معدوم ہو گئیں اور ایک اندازے کے مطابق اس وقت بولی جانے والی 70 فیصد زبانیں بھی اگلی صدی کے آتے آتے ختم ہو جائیں گی۔
یہ ہے وہ پس منظر جس میں مادری زبانوں کے فروغ اور حفاظت کا مقصد سامنے آیا اور اس ضرورت کو محسوس کیا گیا کہ انسان کا بچہ زندگی اور اس سے متعلق بنیادی اور ابتدائی تصورات کو سب سے زیادہ آسانی اور بہتر طریقے سے اپنی مادری زبان میں ہی سمجھ سکتا ہے اور یہ کہ آج تک دنیا میں کوئی قوم ایسی نہیں جس نے اپنی مادری زبان کے علاوہ کسی اور زبان کے ذریعے سے ترقی کی ہو بالخصوص تعلیم کے پہلے پانچ برسوں میں اس کی ضرورت بہت بڑھ جاتی ہے اور مادری زبانوں سے دوری کی وجہ سے بچوں کا ذہن نہ تو صحیح طرح سے کھل پاتا ہے اور نہ ہی وہ اس فطری ماحول میں پھلتا پھولتا ہے جس سے اس کی ذہنی صلاحیتیں پورے طور پر اجاگر ہوتی ہیں، وطن عزیز میں گزشتہ چالیس برس سے ابتدائی تعلیم انگریزی زبان میں کرنے کی وجہ سے جو انتشار پیدا ہوا ہے، وہ سب کے سامنے ہے۔
اس گڑبڑ کی وجہ سے آج کے بچے نہ صرف اپنی مادری اور تہذیبی زبان سے دور ہو گئے ہیں بلکہ انگریزی سے بھی ان کا تعلق ایک محدود بول چال کی حد تک ہے اور وہ علم کے راستے پر چلنے کے بجائے اس کے کناروں پر کھڑے تماشائیوں کی شکل اختیار کر گئے ہیں اور یوں تماشے کا حصہ بننے کے بجائے صرف اس کے تماشائی بن کر رہ گئے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ دنیا کے ساتھ چلنے اور ترقی کرنے کے لیے ہمیں اپنے ملک کے علاوہ اس گلوبل ویلج کا شہری بھی بننا پڑے گا جس میں یہ دنیا سمٹتی چلی جا رہی ہے مگر یہ کام اپنے ذاتی تعارف اور پہچان کے بغیر ممکن نہیں کہ آپ اس وقت تک انٹرنیشنل ہو ہی نہیں سکتے جب تک نیشنل نہ ہوں۔
ہر مادری زبان کی طرح ہماری مادری زبان کا بھی ایک اپنا حسن ہے اور ماں بولی کا یہ حسن ہی وہ جھنڈا ہے جس کے تلے ہم سب جمع ہوکراپنی پہچان کا آغاز کرتے اور کرآتے ہیں اس بحث میں پڑے بغیر کہ کس کی مادری زبان کا دائرہ کہاں تک پھیلا ہوا ہے سب کو اس میں ترقی کرنے اور اس پر فخر کرنے کا حق اور آزادی ملنی چاہیے۔ کسی دانا کا قول ہے کسی انسان کی اصل زبان وہی ہوتی ہے جس میں وہ خواب دیکھتا ہے اور گالی دیتا ہے۔
جب تک انسانی زندگی کے ْپل کے ایک کنارے پر اس کی مادری زبان اور فطری طرزِ اظہار زندہ اور موجود ہیں، اس کی ہر ترقی اپنے مرکز سے ہم رشتہ رہے گی اور یوں وہ جہاں بھی گیا لوٹا تو میرے پاس آیا کہ مصداق کبھی اپنے رستے اور منزل سے زیادہ دور نہیں ہوگا۔آخر میں اپنی ماں بولی میں لکھی گئی چند بولیاں جو چار دہائیاں گزر نے کے بعد بھی پہلے دن کی طرح خوب صورت اور تر و تازہ ہیں۔
چار چوفیرے تھلاں دے وچ سسی دے لشکارے
ْپنوں ٹہاراں مارے
شہر دے دل چوں ادھی راتیں اھندی اے ایک چیخ
گونگی اے تاریخ
نہ توں بولیں نہ میں بولاں ، بولے گا فیر کہیڑا
پچھے سْنجا ویڑا
چھلتر چھلترہو گے بْھر گے رْکھاں ورگے بندے
تیز سمے دے رندے
اساں ای کدھرے سٹ پائی اے درداں والی سانجھ
مٹی تے نیئں بانجھ
اب اگر لہجوں کے چکر میں نا پڑا جائے تو شاید سرائیکی، پوٹھوہاری، جھنگی اور ہندکو بھی ایک ہی زبان کہلاتیں کہ یہ سب کئی اور ضمنی لہجوں سمیت ایک ہی مخصوص علاقے میں بولی جاتی ہیں لیکن عملی اور لسانی حوالوں سے یہ کام اتنا آسان نہیں۔
تاریخ کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ جوں جوں یہ زمین آباد ہوتی گئی اور لوگ اس میں بستیاں بسا کر رہنے لگے اس کے ساتھ ہی بے شمار زبانوں نے بھی جنم لیا ،کچھ اپنا وقت گزار کر ختم ہو گئیں جب کہ کچھ مسلسل پھیلتی یا سکڑتی رہیں۔ پھر ایک وقت آیا کہ رسم الخط ایجاد ہوا اور انسانی گلے سے نکلنے والی آوازیں حروف یا تصاویر کی شکل میں ڈھلنے لگیں اور ان کے ساتھ مختلف انسانی گروہ اور ان کی تہذیبیں آپس میں جڑتی چلی گئیں۔ یہ ایک طویل اور پیچیدہ عمل ہے جس کے نتیجے میں جتنے منہ اتنی باتیں کے مصداق بے شمار مادری زبانیں ظہور پذیر ہوئیں، تاریخ کے ابتدائی ادوار میں سفری سہولتوں کی کمی اور انسانی ضروریات کی محدودیت کی وجہ سے لوگ بہت کم اپنے علاقوں سے باہر نکلتے تھے کہ ان کے اور ان کے جانوروں کے لیے خوراک اور پانی کی ضرورت ہی زیادہ اہم ہوا کرتی تھی اور یوں ان کی مادری زبانیں اپنے محدود ذخیرہ الفاظ کے ساتھ مزے سے اپنے حصے کا کام کر رہی تھیں۔
مسئلہ اس وقت پیدا ہوا جب زرخیز زمینوں اور پانی کی تلاش میں لوگ گروہوں کی شکل میں ایک سے دوسری جگہ جانا شروع ہوئے، یہاں سے ضرورت اور طاقت کا وہ تصور فروغ پذیرہوا جس نے اپنے سے کمزور انسانوں کے جسم و جان اور ان کی املاک پر زبردستی قبضے کی روش کو فروغ دیا اور جس کا ایک اثر یہ بھی ہوا کہ مختلف علاقوں اور نسلوں میں بولی جانے والی زبانوں میں بھی نئے نئے رشتے سامنے آنے لگے اوریوں مادری زبانیں بھی پھیلنا اور سکڑنا شروع ہوگئیں اور ان کی جگہ رابطے اور تہذیب کے حوالے سے مشترکہ اور نئی زبانیں سامنے آنے لگیں۔
انسانی ذہن اور شعور کی ترقی کے ساتھ ساتھ یہ نسبتا بڑی اور منضبط زبانیں تحریر و تقریر دونوں صورتوں میں غلبہ حاصل کرتی گئیں، ان کے رسم الخط ، گرامر، قوانین اور املا کے طریقے نہ صرف وضع ہونا شروع ہوئے بلکہ طاقتور قوموں نے مقامی زبانوں کو مقبوضہ علاقے کے وسائل سمیت نگلنا شروع کردیا۔ پندرہویں صدی میں یورپ میں پرنٹنگ پریس کی ایجاد کے ساتھ دنیا انسانی تہذیب اور انسانوں کے باہمی تعلقات سب کے سب ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گئے جس کا سب سے زیادہ منفی اثر مادری زبانوں پر پڑا کہ حاکم قوموں کی زبانوں کو سیکھنا اور ان میں لکھنا پڑھنا اور بات چیت کرنا ترقی اور بقا کے لیے لازم و ملزوم ہوگئے۔
امریکا آسٹریلیا اور افریقہ کے بعض علاقوں میں طاقتور قوموں کے غلبے کی وجہ سے وہاں کی مقامی تہذیبیں اور زبانیں ٹوٹ پھوٹ کا سب سے زیادہ شکار ہوئیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کے بیشمار زبانیں سرے سے ہی معدوم ہو گئیں اور ایک اندازے کے مطابق اس وقت بولی جانے والی 70 فیصد زبانیں بھی اگلی صدی کے آتے آتے ختم ہو جائیں گی۔
یہ ہے وہ پس منظر جس میں مادری زبانوں کے فروغ اور حفاظت کا مقصد سامنے آیا اور اس ضرورت کو محسوس کیا گیا کہ انسان کا بچہ زندگی اور اس سے متعلق بنیادی اور ابتدائی تصورات کو سب سے زیادہ آسانی اور بہتر طریقے سے اپنی مادری زبان میں ہی سمجھ سکتا ہے اور یہ کہ آج تک دنیا میں کوئی قوم ایسی نہیں جس نے اپنی مادری زبان کے علاوہ کسی اور زبان کے ذریعے سے ترقی کی ہو بالخصوص تعلیم کے پہلے پانچ برسوں میں اس کی ضرورت بہت بڑھ جاتی ہے اور مادری زبانوں سے دوری کی وجہ سے بچوں کا ذہن نہ تو صحیح طرح سے کھل پاتا ہے اور نہ ہی وہ اس فطری ماحول میں پھلتا پھولتا ہے جس سے اس کی ذہنی صلاحیتیں پورے طور پر اجاگر ہوتی ہیں، وطن عزیز میں گزشتہ چالیس برس سے ابتدائی تعلیم انگریزی زبان میں کرنے کی وجہ سے جو انتشار پیدا ہوا ہے، وہ سب کے سامنے ہے۔
اس گڑبڑ کی وجہ سے آج کے بچے نہ صرف اپنی مادری اور تہذیبی زبان سے دور ہو گئے ہیں بلکہ انگریزی سے بھی ان کا تعلق ایک محدود بول چال کی حد تک ہے اور وہ علم کے راستے پر چلنے کے بجائے اس کے کناروں پر کھڑے تماشائیوں کی شکل اختیار کر گئے ہیں اور یوں تماشے کا حصہ بننے کے بجائے صرف اس کے تماشائی بن کر رہ گئے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ دنیا کے ساتھ چلنے اور ترقی کرنے کے لیے ہمیں اپنے ملک کے علاوہ اس گلوبل ویلج کا شہری بھی بننا پڑے گا جس میں یہ دنیا سمٹتی چلی جا رہی ہے مگر یہ کام اپنے ذاتی تعارف اور پہچان کے بغیر ممکن نہیں کہ آپ اس وقت تک انٹرنیشنل ہو ہی نہیں سکتے جب تک نیشنل نہ ہوں۔
ہر مادری زبان کی طرح ہماری مادری زبان کا بھی ایک اپنا حسن ہے اور ماں بولی کا یہ حسن ہی وہ جھنڈا ہے جس کے تلے ہم سب جمع ہوکراپنی پہچان کا آغاز کرتے اور کرآتے ہیں اس بحث میں پڑے بغیر کہ کس کی مادری زبان کا دائرہ کہاں تک پھیلا ہوا ہے سب کو اس میں ترقی کرنے اور اس پر فخر کرنے کا حق اور آزادی ملنی چاہیے۔ کسی دانا کا قول ہے کسی انسان کی اصل زبان وہی ہوتی ہے جس میں وہ خواب دیکھتا ہے اور گالی دیتا ہے۔
جب تک انسانی زندگی کے ْپل کے ایک کنارے پر اس کی مادری زبان اور فطری طرزِ اظہار زندہ اور موجود ہیں، اس کی ہر ترقی اپنے مرکز سے ہم رشتہ رہے گی اور یوں وہ جہاں بھی گیا لوٹا تو میرے پاس آیا کہ مصداق کبھی اپنے رستے اور منزل سے زیادہ دور نہیں ہوگا۔آخر میں اپنی ماں بولی میں لکھی گئی چند بولیاں جو چار دہائیاں گزر نے کے بعد بھی پہلے دن کی طرح خوب صورت اور تر و تازہ ہیں۔
چار چوفیرے تھلاں دے وچ سسی دے لشکارے
ْپنوں ٹہاراں مارے
شہر دے دل چوں ادھی راتیں اھندی اے ایک چیخ
گونگی اے تاریخ
نہ توں بولیں نہ میں بولاں ، بولے گا فیر کہیڑا
پچھے سْنجا ویڑا
چھلتر چھلترہو گے بْھر گے رْکھاں ورگے بندے
تیز سمے دے رندے
اساں ای کدھرے سٹ پائی اے درداں والی سانجھ
مٹی تے نیئں بانجھ