کوئٹہ کا کوئی تھانہ یا ٹارچر سیل ایسا نہ تھا جہاں میں نہیں رہا

بھٹو دور میں تو مسلسل ساڑھے تین سال جیل میں رہا، عوامی نیشنل پارٹی کے سینئر راہ نما ڈاکٹر عنایت اللہ کی گفتگو

بھٹو دور میں تو مسلسل ساڑھے تین سال جیل میں رہا، عوامی نیشنل پارٹی کے سینئر راہ نما ڈاکٹر عنایت اللہ کی گفتگو۔ فوٹو: ایکسپریس

ڈاکٹر عنایت اللہ خان یکم جنوری 1938ء کو بلوچستان کے ضلع موسیٰ خیل میں پیدا ہوئے، ان کے والد ملازم تھے اور مختلف مقامات پر تعینات رہے۔ وہ تین بھائی اور تین بہنیں ہیں۔ ڈاکٹر اے بخش مرحوم بڑے بھائی ہیں، بہن بھائیوں میں ان کا نمبر دوسرا ہے۔

ڈاکٹر عنایت اللہ خان کا آبائی علاقہ کچلاک کلی کتیر ہے۔ اُنہوں نے میٹرک سنڈیمن ہائی سکول کوئٹہ سے کیا۔ ایم بی بی ایس ڈاؤ میڈیکل کالج سے 1964ء میں کیا۔ کہتے ہیں کہ پہلے سرکاری ملازم رہا، پھر ڈاکٹر کی حیثیت سے فرائض انجام دینے شروع کر دیے 1967ء میں رشتی ازدواج سے منسلک ہوئے، اہلیہ بھی ڈاکٹر ہیں۔ شادی کے بعد ہم دونوں نے پرائیویٹ پریکٹس کا آغاز کیا۔ میرے بیٹے ڈاکٹر حیات خان، ڈاکٹر سیدال خان اور چار بیٹیاں سب ڈاکٹر اور شادی شدہ ہیں۔

کہتے ہیں کہ ڈاؤ میڈیکل کالج میں 'نیشنل اسٹوڈنٹس' سے وابستگی اختیار کی جو جمہوری، ترقی پسند، قوم دوست حامل تنظیم تھی، 1973ء 'عوامی نیشنل پارٹی' میں شمولیت اختیار کی۔ آج بھی ایک عام کارکن کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہا ہوں، اس دوران میں پارٹی کے دوسرے عہدوں کے علاوہ دو مرتبہ مرکزی سیکرٹری جنرل، دو مرتبہ صوبائی صدر اور دو مرتبہ جنرل سیکرٹری بھی رہ چکا ہوں۔

ڈاکٹر عنایت اللہ خان کہتے ہیں کہ پاکستان کی سیاست بھی انگریز سامراج کے زیر عتاب رہی، جب کہ پاکستان کی تشکیل کے بعد ہم پر مرکزی حکومت کی نظر کرم زیادہ رہی ہمارا المیہ یہ رہا ہے کہ ہم پہلے دن سے یعنی 14 اگست 1947ء سے پاکستانی ہیں، جب کہ دیگر لوگ بعد میں پاکستانی بنے پاکستان سے ہماری وابستگی 3 جون 1947ء تھی، لیکن اب70 سال گزرنے کے بعد بھی ہمیں پاکستانی قرار دینے سے گریز کیا جا رہا ہے، ہم پاکستان بننے سے پہلے اور پاکستان بنتے وقت ہندوستان کی آزادی اور سامراج کی مخالف قوتوں کے اتحادی تھے۔

11 اگست 1947ء کو جب قائداعظم محمد علی جناح نے آئین ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے جن خیالات کا اظہار کیا تو باچا خان نے قائداعظم کی سوچ فکر اور ملک کے مستقبل کے لیے سیاسی حکمت عملی سے متاثر ہو کر نہ صرف ان کی مکمل تائید کی، بلکہ ان کو اس وقت کے صوبہ سرحد آنے کی پہلی دعوت دی جسے قائداعظم نے فوراً قبول کر لیا۔ سردریاب جو کہ خدائی خدمت گار پارٹی کا مرکز تھا قائداعظم نے وہاں آنے کی یقین دہانی کرائی، لیکن بدقسمتی سے جب قائداعظم صوبہ سرحد آئے تو وہاں پر چند مسلم لیگی راہ نماؤں نے غلط بیانی کر کے قائداعظم کو سردریاب جانے سے روکا، اس وقت قائداعظم کی جیب کے کھوٹے سکوں نے اس وقت کے دو بڑے لیڈروں کو ملنے سے روکا اور ان کی راہ میں رکاوٹ بنے اور یہ تاریخی ملاپ ممکن نہ ہو سکا تھا اگر اس وقت ان دو سیاسی قوتوں کے ملنے اور ایک دوسرے کو اعتماد میں لینے اور غلط فہمیاں دور کرنے کا موقع مل جاتا تو شاید پاکستان کی تاریخ بدلی ہوئی ہوتی۔

ڈاکٹر عنایت اللہ خان کا کہنا تھا کہ آج بھی 70 سال کے بعد بھی آئین میں ردوبدل کرکے اپنی مرضی کی حکومت اور غیر سنجیدہ و غیر سیاسی نا تجربہ کار کھلاڑی مصروف عمل ہیں، 18 ویں ترمیم کے اختیارات ختم کرنے کی بات کی جا رہی ہے اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس حکومت کے ذریعے پاکستان اندرونی اور بیرونی طوور پر مزید عدم استحکام سے دوچار ہوگا۔


ملک میں ڈیم کی تعمیر کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ پانی یقینی طور پر زندگی کے لیے ضروری ہے اور یہ اس وقت ملک کے لیے سنگین مسئلہ بن گیا ہے، پانی کی قلت دور کرنے اور اسے ذخیرہ کرنے کے لیے ڈیموں کی انتہائی ضرورت ہے اور یہ مسئلہ آج سے نہیں ہے، اس کی طرف سوچ اور حکمت عملی بہر طوور پر اپنائی جانی چاہیے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سندھ طاس معاہدے کے بعد بیرونی قوتوں کی امداد سے قائم تربیلا اور منگلا ڈیم کے ساتھ ہی مزید ڈیموں کی طرف توجہ دی جاتی لیکن اشرافیہ اور مخصوص قوتیں اسے ملک گیر سطح پر متفقہ لائحہ عمل اختیار کرتیں، لیکن وہ صرف مرکز اور صوبوں کے درمیان غلط فہمیاں اور دوریاں پیدا کرنے کے بعد صرف کالا باغ ڈیم کی رٹ لگائے ہوئے ہیں اور اسی ضد کی وجہ سے پچاس ساٹھ سال سے نہ تو کالا باغ ڈیم ممکن ہوا اور نہ ہی دوسرے ڈیمز کی طرف توجہ دی جا سکی، بلکہ مرکز اور چھوٹے صوبوں کے درمیان دوریاں اور خلیج گہری ہوتی گئی۔

آج بھی ہم سمجھتے ہیں کہ چاہے مہمند ڈیم، بھاشا، واسو ڈیم ہو ایک رائے کی بنیاد پر اقدام اُٹھائے جائیں، ورنہ یہ انتہائی غیر مناسب ہے، اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ اس میں کسی جلد بازی سے گریز کرتے ہوئے چھوٹے صوبوں کی تمام سیاسی قوتوںںکو اعتماد میں لے کر کوئی قدم اُٹھانا چاہیے۔

موجودہ وفاقی حکومت کی مزید کارکردگی کے حوالے سے ڈاکٹر عنایت اللہ کا کہنا ہے کہ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ موجودہ حکومت عوام کے مسائل حل کرنے اور ان پر توجہ دینے کے بجائے ہر مخالف قوت کو کرپٹ قرار دے کراپنے آقا کی خدمت کرنے پر تلی ہوئی ہے، تو یہ حکومت اپنی بچکانہ حکمت عملی کی بنیاد پر خود ہی گھٹنے ٹیک دے گی۔

ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کے بارے میں ڈاکٹر عنایت اللہ خان کہتے ہیں کہ ہماری پہلے دن سے یہ کوشش رہی ہے کہ ہمسایوں کے ساتھ جو مسائل ہیں، وہ گفت و شنید سے حل ہوں، جب تک ہمسایوں کے ساتھ تعلقات کشیدہ اور غلط فہمیاں برقرار رہیں گی، تو اس وقت تک پاکستان اندرونی اور بیرونی دباؤ اور عدم استحکام سے دوچار رہے گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جس طرح امریکا افغانستان کو بحرانوں میں اکیلا چھوڑ گیا اور اگر پھر یہ عمل جاری رہا، تو یہ خطہ بڑے خونی بحرانوں سے دوچار ہوگا۔ ٹرمپ انتظامیہ کو بھی جلد بازی سے گریز کرتے ہوئے قدم اُٹھانا چاہیے۔

اپنے خاندانی پس منظر کے حوالے سے ڈاکٹر عنایت اللہ بتاتے ہیں 'ڈاکٹرز فیملی' بننے کے لیے ہم نے بہت محنت کی ہے اس میں میری اہلیہ کا بڑا کردار ہے جس نے میری غیر موجودگی میں اور دوران حراست نہ صرف گھر قائم و دائم رکھا میرے بچوں کی پرورش کی میں تو سیاسی سرگرمیوں کے حوالے سے ملک کے مختلف حصوں میں رہا کوئٹہ، مچھ، کراچی، حیدر آباد، سکھر جیل کے علاوہ ہر دور میں جیل میں رہا 'ہاؤس اریسٹ' رہا ہوں کوئٹہ کا کوئی ایسا تھانہ یا ٹارچر سیل نہ تھا، جہاں مجھے نہ بھیجا گیا ہو بھٹو دور میں تو مسلسل ساڑھے تین سال تک جیل میں رہا یہ کہتے ہیں کہ شروع کے دنوں میں دوستوں کے ساتھ کبھی کبھار فلم بینی بھی کرتے تھے سیاحت کا بڑا شوق ہے افغانستان، انڈیا، لندن، فرانس، امریکا جاتا رہا ہوں جہاں بھی جاتا ہوں وطن واپس آکر اپنے عوام اور قوم کی مظلومیت اور محرومیوں پر دل برداشتہ ہو جاتا ہوں۔

بچپن میں کھیلوں میں حصہ نہیں لیا صرف دیکھنے کی حد تک شوقین ہوں یہ کہتے ہیں کہ کالج کے زمانے سے اب تک صبح سے کلینک کے اوقات میں پینٹ شرٹ کوٹ ٹائی اور پھر شلوار قمیص زیب تن کرتا ہوں۔
Load Next Story