جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں تمام نظر ثانی درخواستیں خارج
سپریم کورٹ نے آصف زرداری، فریال تالپور، بلاول، مراد علی شاہ، سمیت 8 فریقین کی نظر ثانی درخواستیں مسترد کردیں
سپریم کورٹ نے جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں سابق صدر آصف علی زرداری سمیت تمام نظر ثانی درخواستیں خارج کردیں۔
سپریم کورٹ میں جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کو نیب کے حوالے کرنے کے فیصلے کے خلاف آصف زرداری اور دیگر فریقین کی نظر ثانی درخواستوں کی سماعت ہوئی۔ عدالت عظمیٰ نے سماعت کے بعد آصف علی زرداری، ان کی ہمشیرہ فریال تالپور، بیٹے بلاول بھٹو زرداری، سندھ حکومت، وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، اومنی گروپ سمیت تمام 8 فریقین کی نظر ثانی درخواستیں خارج کردیں۔
قبل ازیں دوران سماعت آصف علی زرداری کے وکیل لطیف کھوسہ نے دلائل دیتے ہوئے چیف جسٹس سے کہا کہ فل کورٹ ریفرنس میں آپ نے تاریخی جملے ادا کیے تھے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتی مقدمات میں فل کورٹ ریفرنس کی تقریر مثال نہیں ہوتی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ فیصلہ میں کیا غلطی ہے براہ راست اس کی نشاندہی کریں، معاملہ نیب کو بھجوا دیا گیا ہے، اگر نیب ریفرنس بنتا ہے تو ٹھیک نہیں بنتا تو بھی ٹھیک ہے۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ قوانین میں ترمیم کرکے ازخود اختیار میں انٹرا کورٹ اپیل دی جائے۔
یہ بھی پڑھیں: جعلی اکاؤنٹس کیس نیب کے حوالے کرنے کا حکم
چیف جسٹس نے کہا کہ جعلی اکاونٹس کیس میں عدالت نے کوئی فیصلہ نہیں دیا بلکہ صرف انکوائری کے بعد متعلقہ فورم پر کیس بھجوایا ہے۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ عدالت نے تمام مقدمات اسلام آباد منتقلی کا حکم دیا تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ تحقیقاتی افسران کو خطرے کے پیش نظر کیس کی اسلام آباد منتقلی اور جے آئی ٹی و گواہان کو سیکورٹی فراہم کرنے کا حکم دیا تھا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ایک گواہ کو پولیس نے پوری رات حراست میں رکھ کر ہراساں کیا، اس معاملہ میں قلفی والے کے اکاوئنٹ سے اربوں روپے نکلے، آپ تو کہتے ہیں پیسہ آپ کا تھا ہی نہیں۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ کاروبار میں ایسے اکاؤنٹس معمول ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا قلفی والے کے اکاؤنٹس بھی معمول کی بات ہے، آپ نے اگر کچھ نہیں کیا تو پریشان کیوں ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: آصف زرداری نے ایف آئی اے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی
چیف جسٹس نے کہا کہ پیسے آپ کے نہیں تو مسئلہ کیا ہے، اصل میں تو فالودے والے کو کیس کرنا چاہیے کہ اسکے پیسوں کی تفتیش کیوں ہو رہی ہے، اگر کسی نے غلط کیا ہے کارروائی کا سامنا کرے گا، کچھ غلط نہیں کیا تو مسئلہ کیا ہے، ایک دوست سے پوچھا ایک ارب روپیہ کتنا ہوتا ہے، ہماری گنتی تو 6 صفر کے بعد ختم ہو جاتی ہے، آپ کی گنتی تو شاید 10 صفر پرختم ہوتی ہے، کیا سارا ملک خاموش ہو جائے، اس معاملہ کی تفتیش اور تحقیق ہوگی، ابھی ریفرنس فائل نہیں ہے، نیب کو کچھ نہ ملا تو شاید ریفرنس فائل نہ ہو، اگر ریفرنس دائر ہوتا ہے تو کیس منتقلی کے خلاف درخواست دیں، نیب کی تحقیقات سے ہوسکتا ہے آپ بری ہو جائیں۔
وکیل نے کہا کہ یہ نیب کا دائرہ اختیار ہی نہیں بنتا کیونکہ معاملہ بینکنگ کورٹ میں چل رہا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ نیب کا دائرہ کیسے نہیں بنتا، کیا آپ خود تحقیقاتی ادارے کا چناؤ کرینگے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ بینکنگ کورٹ کو کیس منتقلی کی نیب درخواست پر فیصلہ کرنے دیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ایف آئی اے کو جعلی اکاؤنٹ کیس میں آزاد تحقیقات مکمل نہیں کرنے دی گئی۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ ایف آئی اے نااہل ہے تو اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے، پانامہ کیس میں ادارے تحقیقات نہیں کرنا چاہتے تھے، آئی ایس آئی کو جے آئی ٹی میں شائد دباؤ ڈالنے کے لئے شامل کیا گیا، حساس اداروں کو سول کاموں میں نہ لائیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آئی ایس آئی کو معاونت کا کہا گیا تھا جے آئی ٹی کو کنٹرول کرنے کا نہیں، عدالت مکمل انصاف کے لیے کسی بھی ادارے کو حکم دے سکتی ہے۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ ازخود نوٹس کے اختیار کو ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جب موقع آیا تو 184/3 کے اختیار کو بھی دیکھ لیں گے۔
آصف زرداری کے وکیل لطیف کھوسہ نے دلائل مکمل کرلیے۔ چیف جسٹس نے واضح کیا کہ تحقیقات کا اصل فورم نیب ہی ہے۔
سپریم کورٹ نے سماعت کے بعد تمام نظرثانی درخواستیں خارج کردیں۔
سپریم کورٹ میں جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کو نیب کے حوالے کرنے کے فیصلے کے خلاف آصف زرداری اور دیگر فریقین کی نظر ثانی درخواستوں کی سماعت ہوئی۔ عدالت عظمیٰ نے سماعت کے بعد آصف علی زرداری، ان کی ہمشیرہ فریال تالپور، بیٹے بلاول بھٹو زرداری، سندھ حکومت، وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، اومنی گروپ سمیت تمام 8 فریقین کی نظر ثانی درخواستیں خارج کردیں۔
قبل ازیں دوران سماعت آصف علی زرداری کے وکیل لطیف کھوسہ نے دلائل دیتے ہوئے چیف جسٹس سے کہا کہ فل کورٹ ریفرنس میں آپ نے تاریخی جملے ادا کیے تھے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتی مقدمات میں فل کورٹ ریفرنس کی تقریر مثال نہیں ہوتی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ فیصلہ میں کیا غلطی ہے براہ راست اس کی نشاندہی کریں، معاملہ نیب کو بھجوا دیا گیا ہے، اگر نیب ریفرنس بنتا ہے تو ٹھیک نہیں بنتا تو بھی ٹھیک ہے۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ قوانین میں ترمیم کرکے ازخود اختیار میں انٹرا کورٹ اپیل دی جائے۔
یہ بھی پڑھیں: جعلی اکاؤنٹس کیس نیب کے حوالے کرنے کا حکم
چیف جسٹس نے کہا کہ جعلی اکاونٹس کیس میں عدالت نے کوئی فیصلہ نہیں دیا بلکہ صرف انکوائری کے بعد متعلقہ فورم پر کیس بھجوایا ہے۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ عدالت نے تمام مقدمات اسلام آباد منتقلی کا حکم دیا تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ تحقیقاتی افسران کو خطرے کے پیش نظر کیس کی اسلام آباد منتقلی اور جے آئی ٹی و گواہان کو سیکورٹی فراہم کرنے کا حکم دیا تھا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ایک گواہ کو پولیس نے پوری رات حراست میں رکھ کر ہراساں کیا، اس معاملہ میں قلفی والے کے اکاوئنٹ سے اربوں روپے نکلے، آپ تو کہتے ہیں پیسہ آپ کا تھا ہی نہیں۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ کاروبار میں ایسے اکاؤنٹس معمول ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا قلفی والے کے اکاؤنٹس بھی معمول کی بات ہے، آپ نے اگر کچھ نہیں کیا تو پریشان کیوں ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: آصف زرداری نے ایف آئی اے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی
چیف جسٹس نے کہا کہ پیسے آپ کے نہیں تو مسئلہ کیا ہے، اصل میں تو فالودے والے کو کیس کرنا چاہیے کہ اسکے پیسوں کی تفتیش کیوں ہو رہی ہے، اگر کسی نے غلط کیا ہے کارروائی کا سامنا کرے گا، کچھ غلط نہیں کیا تو مسئلہ کیا ہے، ایک دوست سے پوچھا ایک ارب روپیہ کتنا ہوتا ہے، ہماری گنتی تو 6 صفر کے بعد ختم ہو جاتی ہے، آپ کی گنتی تو شاید 10 صفر پرختم ہوتی ہے، کیا سارا ملک خاموش ہو جائے، اس معاملہ کی تفتیش اور تحقیق ہوگی، ابھی ریفرنس فائل نہیں ہے، نیب کو کچھ نہ ملا تو شاید ریفرنس فائل نہ ہو، اگر ریفرنس دائر ہوتا ہے تو کیس منتقلی کے خلاف درخواست دیں، نیب کی تحقیقات سے ہوسکتا ہے آپ بری ہو جائیں۔
وکیل نے کہا کہ یہ نیب کا دائرہ اختیار ہی نہیں بنتا کیونکہ معاملہ بینکنگ کورٹ میں چل رہا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ نیب کا دائرہ کیسے نہیں بنتا، کیا آپ خود تحقیقاتی ادارے کا چناؤ کرینگے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ بینکنگ کورٹ کو کیس منتقلی کی نیب درخواست پر فیصلہ کرنے دیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ایف آئی اے کو جعلی اکاؤنٹ کیس میں آزاد تحقیقات مکمل نہیں کرنے دی گئی۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ ایف آئی اے نااہل ہے تو اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے، پانامہ کیس میں ادارے تحقیقات نہیں کرنا چاہتے تھے، آئی ایس آئی کو جے آئی ٹی میں شائد دباؤ ڈالنے کے لئے شامل کیا گیا، حساس اداروں کو سول کاموں میں نہ لائیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آئی ایس آئی کو معاونت کا کہا گیا تھا جے آئی ٹی کو کنٹرول کرنے کا نہیں، عدالت مکمل انصاف کے لیے کسی بھی ادارے کو حکم دے سکتی ہے۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ ازخود نوٹس کے اختیار کو ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جب موقع آیا تو 184/3 کے اختیار کو بھی دیکھ لیں گے۔
آصف زرداری کے وکیل لطیف کھوسہ نے دلائل مکمل کرلیے۔ چیف جسٹس نے واضح کیا کہ تحقیقات کا اصل فورم نیب ہی ہے۔
سپریم کورٹ نے سماعت کے بعد تمام نظرثانی درخواستیں خارج کردیں۔