ہر مدعی کے واسطے جے آئی ٹی کہاں  

ہم کسی پر انگلی بھی تو نہیں اٹھا سکتے لیکن یہ بہرحال حکومت اور ان کے اداروں کی ذمے داری بنتی ہے۔

barq@email.com

یہ تو ہم آپ کو بار بار بتا چکے ہیں کہ ہمیں وہ اپنے ملازم سفیہ دین کا مرض لاحق ہو چکا ہے کہ بات ایک کر رہے ہیں اور درمیان میں کوئی اور بات ''دُم'' ہلانے لگتی ہے چنانچہ اکثر ہم اصل بات چھوڑ کر اس ''دمُ'' کے پیچھے چلے جاتے ہیں۔

اس دن ہم نے جو موت ''برحق'' اور کفن میں ''شک'' والی بات شروع کی تھی تو ارادہ کہیں اور جانے کا تھا لیکن دوسری بات نے دُم ہلا کر ہمیں بھٹکا دیا۔

موت برحق اور کفن میں شک والی بات ہمیں سانحہ ''ساہیوال'' سے یاد آئی تھی کہ اگرچہ ان کے ساتھ برا ہوا، ایک الیمہ رونماء ہوا اور اس خاندان کے دکھ میں ہم برابر کے شریک ہیں لیکن اس میں ایک اطمینان کا پہلو بھی ہے کہ ہر چہ بادا باد۔ کم ازکم ''کفن'' تو ان کو نصیب ہو گیا۔ بلکہ ان پر گریے بھی ہوئے اور آنسو بھی بہے بلکہ ''جے آئی ٹی'' بھی بٹھا دی گئی جو اب اس سے جے جے آئی آئی اور ٹی ٹٰی انڈے چوزے نکالے گی۔

لیکن دکھ ہمیں ان بے گور وکفن لوگوں کا ہے جو قانون نافذ کرنے والوں کے ہتھے چڑھے اور پھر کبھی واپس نہیں آئے۔ گویا شیر کے غار میں ان کے جاتے ہوئے نقش قدم تو دیکھے گئے لیکن واپس آتے ہوئے قدموںکے نشان کبھی دکھائی نہیں دیے کہ انھیں آسمان کھا گیا یا زمین نگل گئی۔ لواحقین کی آنکھیں راہ دیکھتے دیکھتے بے نور ہو گئیں۔ لیکن ان کے نور نظر گوشہ جگر واپس نہیں آئے، نہ جانے کس جہاں میں کھو گئے؟۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے یوسف علیہ السلام کے گم ہونے پر کہا تھا کہ ''تمہیں کس تلوار سے مارا گیا، کس کنوئیں میں پھینکا گیا اور کس بحر میں ڈبویاگیا''۔

وہ تو اﷲ کے نبی تھے، آخرکار گمشدہ مل گیا۔لیکن وہ عام لوگ جو صرف عامی ہیں اور ان کے یوسف غائب ہوچکے ہیں، ظاہر ہے کہ ''بھائیوں'' ہی کے ہاتھوں غائب ہو چکے ہیں، نہ کبھی آئے اور نہ شاید آئیں گے کیونکہ دریاؤں میں ایسی بے شمار لاشیں ملی ہیں جو بے ریش و برودت تھے اور جن کو پانی یا پانی کے جانوروں نے ناقابل شناخت بنا دیا تھا۔ کچھ کو تو اﷲ والوں نے دریا کنارے کسی گڑھے میں گاڑ دیا اور کچھ کو دھکیل کر دوبارہ پانی کے حوالے کر دیا۔

اور وہ اپنے پیچھے اپنے گھروں میں ایک کبھی نہ ختم ہونے والا ''ماتم'' چھوڑ گئے۔

انسان مر جائے تو ایک دو دن کا سوگ ہوتاہے، مردے کو رضائے الٰہی سمجھ کر اپنے ہاتھوں سے تجہیز و تکفین کر دیتے ہیں اور پھر اس مبرم حقیقت کے آگے سر جھکا کر صبر کر لیتے ہیں لیکن جو زندہ غائب ہو جاتے ہیں، وہ لواحقین کے لیے دل کا نہ مندمل ہونے والا گھاؤ بن جاتے ہیں جو آخری سانس تک رستا رہتا ہے۔ ہمارے پڑوس میں بھی ایک ایسی بڑھیا رہتی ہے جس کا اکلوتا اور ہزار منتوں دعاؤں سے پیدا ہونے والا بیٹا جوان ہوتے ہی کہیں غائب ہو گیا تھا، بچاری ہمیشہ دروازے میں کھڑی راستے کو تکتی رہتی تھی اور دور سے ہر کسی پر اپنے بیٹے کا گمان کرتی رہتی تھی۔ اسی انتظار میں دس بارہ سال گزارنے کے بعد جب اس کا وقت پورا ہو گیا تو آخر تک وہ اٹھ اٹھ کر پوچھتی رہی کہ کیا ملوک نہیں آیا؟۔ پھر شاید مایوس ہوکر خود بھی ملوک کی تلاش میں نکل گئی۔


پوری تعداد توہمیں معلوم نہیں لیکن کم ازکم آٹھ ہزار لوگ تو صرف پختون خوا میں غائب بتائے جاتے ہیں، شاید دوسرے صوبوں میں بھی ہوں لیکن یہاں یہ سلسلہ کچھ زیادہ ہی پھیلا ہوا ہے۔ اب یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ ''کون'' ؟ لیکن عام اغوائے برائے تاوان کا سلسلہ بھی نہیں کیونکہ ان میں زیادہ تر ایسے لوگ ہیں جن کا شمار غربت کی لکیر سے نیچے والوں میں ہوتاہے۔ بلکہ زیادہ تر تو روزگار کی تلاش میں نکلے تھے لیکن واپس نہیں آئے۔

ہم کسی پر انگلی بھی تو نہیں اٹھا سکتے لیکن یہ بہرحال حکومت اور ان کے اداروں کی ذمے داری بنتی ہے جو عوام کی جان ومال کا بھاری معاوضہ عوام کی جیب سے وصول کرتے ہیں۔

کچھ دریا برد لاشیں جو کنارے آ جاتی ہیں، ان پر تشدد کے نشان بھی واضح ہوتے ہیں۔کسی کی سمجھ میں نہیں آتا کہ ان بے نام ونشان اور بے شناخت و پہچان لوگوں کے پاس ایسا ''کیا'' تھا جس کے لیے ان پر تشدد کیا جاتا رہا اور پھر ان کی پہچان کو مٹانے کی کوشش کی گئی۔ اور یہ صرف دریاؤں میں ہی نہیں بلکہ نہروں اور گٹروں میں بھی پائے جاتے ہیں اور اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ ایسے کتنے اور ہوں گے جنھیں زمین کھا گئی ہو گی، گویا:

نہ مدعی نہ شہادت حساب پاک ہوا

کہ خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا

اگر وہ کوئی مجرم تھے کسی غلط سرگرمی میں مصروف تھے تو سیدھے پکڑکر قانون کے کٹہرے میں کھڑے کیے جاتے اور کیفرکردار تک پہنچا دیے جاتے، اس طریقے سے اگر موت کی سزا بھی ان کو ملتی تو کسی کو اعتراض نہ ہو بچارے لواحقین بھی صبر کر کے بیٹھ جاتے۔

اب یہ اس قانونی آئینی اور جمہوری ملک کے قانون نافذ کرنے والوں کی ذمے داری ہے کہ وہ اس بات کا پتہ لگائیں کہ لوگ اچانک کیوں اور کہاں غائب ہو رہے ہیں،ان میں ہوسکتا ہے ،کچھ لوگ اپنی مرضی سے افغانستان وغیرہ میں چلے گئے ہوں یا ملک میں کہیں موجود ہوں۔اس لیے حقائق سامنے آنے چاہییں تاکہ اگر کوئی پروپیگنڈہ کررہا ہے تو اس کی بھی گرفت ہوسکے۔کاش اس پر کوئی جے آئی ٹی ہی بنائی جاتی لیکن ہر مدعی کے واسطے جے آئی ٹی کہاں؟
Load Next Story