کیا ہماری حکم عدولی سے وزیراعلی پنجاب خوش ہوتے ہیں سپریم کورٹ
جو افسر عدالت کی معاونت کررہا ہے اسے ہی ہراساں کیا جارہا ہے، جسٹس عظمت سعید
سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس میں ریمارکس دیے ہیں کہ کیا ہماری حکم عدولی سے وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار خوش ہوتے ہیں۔
سپریم کورٹ میں ڈی جی اینٹی کرپشن کے خلاف ڈی جی ایل ڈی اے کی توہین عدالت کی درخواست کی سماعت ہوئی۔ جسٹس عظمت سعید نے چیف سیکرٹری پنجاب کی سخت سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں میئر لاہور اور ڈی جی ایل ڈی اے کی جانب سے اینٹی کرپشن کے خلاف ہراساں کئے جانے کی شکایت ملی ہے، عدالت نے گزشتہ سماعت پر اینٹی کرپشن کو ایسا کرنے سے روک دیا تھا، اس کے باوجود عدالتی حکم کے فورا بعد ڈی جی ایل ڈی اے کیخلاف اینٹی کرپشن نے پرچہ درج کردیا، کیوں نہ آپ کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کر دیا جائے۔
چیف سیکرٹری پنجاب نے کہا کہ جناب میرا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں اور اینٹی کرپشن والوں نے پرچے سے قبل مجھ سے اجازت نہیں لی، ڈی جی اینٹی کرپشن مجھے رپورٹ نہیں کرتے۔
جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ اگر آپ کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں تو جاؤ اپنے لئے نئی نوکری ڈھونڈو، سب سے بڑے صوبے کا چیف سیکرٹری کہہ رہا ہے کہ اسے کچھ معلوم نہیں، پنجاب میں حکومت کون چلا رہا ہے بتائیں کس کو نوٹس کریں، پنجاب میں کس کی حکومت ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ چیف سیکرٹری صاحب آپ نے ڈی جی ایل ڈی اے کو ہراساں کرایا۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ جو افسر عدالت کی معاونت کررہا ہے اسے ہی ہراساں کیا جارہا ہے، چیف سیکرٹری صاحب آپ ضمانت بعد از گرفتاری کرا لیں۔
عدالتی استفسار پر چیف سیکرٹری نے بتایا کہ ڈی جی اینٹی کرپشن 22 فروری کو ریٹائر ہونگے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ لگتا ہے یہ اپنی مدت ملازمت میں توسیع کیلئے وزیر اعلی کو خوش کر رہے ہیں۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ کیا ہماری حکم عدولی سے وزیراعلی پنجاب خوش ہوتے ہیں؟۔
ڈی جی اینٹی کرپشن نے اپنا موقف پیش کیا کہ جہاں غلط کام ہوگا وہاں ریاست کے مفاد کا تحفظ ہماری ذمہ داری ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ یہ اختیار آپ کو کونسا قانون دیتا ہے ہمیں بتائیں۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ ڈی جی اینٹی کرپشن کے بیان کے بعد شک نہیں رہا کہ پنجاب میں حکومت کون چلا رہا ہے۔
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ موقع دیں جو غلط کام ہوا ہے اس کی درستگی کریں گے۔ سپریم کورٹ نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کی استدعا پر سماعت 27 فروری تک ملتوی کردی۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ اگر 27 فروری تک کام نہ ہوا وزیر اعلی پنجاب کو طلب کریں گے۔
سپریم کورٹ میں ڈی جی اینٹی کرپشن کے خلاف ڈی جی ایل ڈی اے کی توہین عدالت کی درخواست کی سماعت ہوئی۔ جسٹس عظمت سعید نے چیف سیکرٹری پنجاب کی سخت سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں میئر لاہور اور ڈی جی ایل ڈی اے کی جانب سے اینٹی کرپشن کے خلاف ہراساں کئے جانے کی شکایت ملی ہے، عدالت نے گزشتہ سماعت پر اینٹی کرپشن کو ایسا کرنے سے روک دیا تھا، اس کے باوجود عدالتی حکم کے فورا بعد ڈی جی ایل ڈی اے کیخلاف اینٹی کرپشن نے پرچہ درج کردیا، کیوں نہ آپ کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کر دیا جائے۔
چیف سیکرٹری پنجاب نے کہا کہ جناب میرا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں اور اینٹی کرپشن والوں نے پرچے سے قبل مجھ سے اجازت نہیں لی، ڈی جی اینٹی کرپشن مجھے رپورٹ نہیں کرتے۔
جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ اگر آپ کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں تو جاؤ اپنے لئے نئی نوکری ڈھونڈو، سب سے بڑے صوبے کا چیف سیکرٹری کہہ رہا ہے کہ اسے کچھ معلوم نہیں، پنجاب میں حکومت کون چلا رہا ہے بتائیں کس کو نوٹس کریں، پنجاب میں کس کی حکومت ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ چیف سیکرٹری صاحب آپ نے ڈی جی ایل ڈی اے کو ہراساں کرایا۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ جو افسر عدالت کی معاونت کررہا ہے اسے ہی ہراساں کیا جارہا ہے، چیف سیکرٹری صاحب آپ ضمانت بعد از گرفتاری کرا لیں۔
عدالتی استفسار پر چیف سیکرٹری نے بتایا کہ ڈی جی اینٹی کرپشن 22 فروری کو ریٹائر ہونگے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ لگتا ہے یہ اپنی مدت ملازمت میں توسیع کیلئے وزیر اعلی کو خوش کر رہے ہیں۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ کیا ہماری حکم عدولی سے وزیراعلی پنجاب خوش ہوتے ہیں؟۔
ڈی جی اینٹی کرپشن نے اپنا موقف پیش کیا کہ جہاں غلط کام ہوگا وہاں ریاست کے مفاد کا تحفظ ہماری ذمہ داری ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ یہ اختیار آپ کو کونسا قانون دیتا ہے ہمیں بتائیں۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ ڈی جی اینٹی کرپشن کے بیان کے بعد شک نہیں رہا کہ پنجاب میں حکومت کون چلا رہا ہے۔
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ موقع دیں جو غلط کام ہوا ہے اس کی درستگی کریں گے۔ سپریم کورٹ نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کی استدعا پر سماعت 27 فروری تک ملتوی کردی۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ اگر 27 فروری تک کام نہ ہوا وزیر اعلی پنجاب کو طلب کریں گے۔