پاکستان میں سائنسی صحافت نئی جہتیں آزمانے کی ضرورت ہے
ہمارے یہاں سائنس پڑھائی تو جاتی ہے مگر اسے لکھنے کی تکنیک اور باریکیوں سے طالبعلموں کو بالکل بھی آگاہ نہیں کیا جاتا
پاکستان میں سائنسی صحافت اگرچہ عشروں سے جاری ہے لیکن اس میں سائنس بلاگنگ کے عنوان سے ایک نیا رجحان فروغ پارہا ہے۔
امریکا، برطا نیہ اور دیگر یورپی و ایشیائی ممالک میں بلاگنگ کا آغاز پچھلی صدی کے آخر میں ہوا مگر 2000 تک ان ممالک میں بھی سائنسی موضوعات پر بلاگ شاذ و نادر ہی لکھے جاتے تھے۔ گنتی کی چند جامعات کے طلبا و طالبات ہی سائنس پر بلاگ لکھتے رہے اور معیار کے بجائے وہ محض اپنے شوق کی تسکین کرتے رہے۔ سائنسی بلاگز اپنی ابتدائی صورت میں تھے اور ان میں قواعد، املا اور معلومات کی غلطیاں بھی بہت ہوتی تھیں۔
پھر اکیسویں صدی کے اوائل میں دنیا بھرکی اعلی جامعات کے پروفیسروں نے باقاعدہ سائنسی بلاگز لکھنا شروع کیے تو نیویارک ٹائمز، نیشنل جیوگرافک اور نیچر جرنل سے وابستہ کئی نامور صحافی، سائنسی ابلاغ کار اور یہاں تک کہ سائنسدانوں نے بھی سائنس بلاگنگ اختیار کرنا شروع کی؛ اور بلاگ کو محض سائنسی مضامین کے طور پر لکھنے کے بجائے ایک پلیٹ فارم کے طور پر متعارف کروایا جس سے دنیا کے کونے کونے میں چھپے ہوئے ٹیلنٹ کو انفرادی و اجتماعی طور پر لکھنے اور اپنی صلاحیتوں کا کھل کر اظہار کرنے کا موقع ملا۔
رفتہ رفتہ مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے سائنس بلاگرز اور صحافیوں کے درمیان اشتراک بڑھتا گیا جس سے نہ صرف سائنسی برادری کو تیزی سے پنپنے کا موقع ملا بلکہ ''سائنس بلاگ'' دنیا کا سب سے بڑا پلیٹ فارم بن کر سامنے آیا جہاں ہر رنگ و نسل اور قومیت کے لکھاری موجود تھے اور مذہبی، معاشی و معاشرتی تفاوت سے بے نیاز محض سائنسی علوم کی ترویج کےلیے کوشاں تھے۔
اس پلیٹ فارم سے نہ صرف کئی نامور سائنسی صحافیوں کو بین الاقوامی میڈیا میں کیریئر بنانے کا موقع ملا بلکہ اپنے طور پر محدود ذرائع کے ساتھ سائنسی تحقیق میں مصروف افراد نے بھی اپنی تحقیق، بلاگز کی صورت میں دنیا کی سامنے پیش کی؛ اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ مگر اب سائنس ابلاغ کاری کے دیگر ذرائع جیسے ٹوئٹر، یوٹیوب چینلز اور پوڈ کاسٹ بھی بڑے پیمانے پر استعمال کیے جارہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی بہت سے نامور صحافیوں اور محققین نے اپنی ٹیموں کے ساتھ مل کر آن لائن سائنسی جرائد یا میگزینز کا اجراء بھی کیا ہے جن میں نیشنل پبلک ریڈیو امریکا کا بلاگ ''گوٹس اینڈ سوڈا،'' سائنس بلاگز کا مجموعہ ''سائن ٹوپیا'' (Scientopia)، اور ''ڈسکور بلاگز'' قابل ذکر ہیں۔
امریکا میں ''قومی تنظیم برائے سائنسی مصنفین'' (NASW) سے وابستہ، کولوراڈو سے تعلق رکھنے والی معروف سائنس بلاگر اور مصنفہ کینڈل پاول کا کہنا ہے کہ انہوں نے دس سال قبل ''نیچر'' سائنس جرنل میں انٹرن شپ مکمل کرنے کے بعد فری لانسر کے طور پر باقاعدہ لکھنے کا آغاز کیا تو وہ اپنے مستقبل کے حوالے سے بہت فکرمند تھیں کہ وہ کس طرح کام حاصل کرسکیں گی یا انہیں کب تک کم آمدنی پر انحصار کرنا ہوگا وغیرہ؟
مگر رفتہ رفتہ اپنے ایڈیٹرز کے تعاون اور وقت پر، پوری محنت اور ذمہ داری کے ساتھ اسائنمنٹ مکمل کرنے کی عادت سے نہ صرف ان کا کیریئر مضبوط ہوا بلکہ ان کو دیکھتے ہوئے بہت سی دیگر خواتین بھی سائنس رائٹنگ اور بلاگنگ کے شعبے میں قسمت آزمائی کے لیے آگے آئیں۔
سائنسی صحافت مشکل امر اس لیے بھی ہے کہ اس میں پیچیدہ اور خشک سائنسی حقائق و موضوعات کو عام آدمی کےلیے دلچسپ بنا کر اس طرح پیش کرنا ہوتا ہے کہ اصل تحقیق یا حقائق ذرّہ برابر بھی تبدیل یا متاثر نہ ہوں۔ مثلاً چارلس ڈارون نے کرۂ ارض پر زندگی کی ابتدا اور ارتقاء کو ایک درخت کی ڈایاگرام سے سمجھانے کی کوشش کی جسے ''شجرِ ارتقاء'' (evolutionary tree) کا نام دیا گیا۔ اسی طرح ماہرِ حیاتیات ریچل کارسن کو سائنس نگاری پر اس قدر عبور تھا کہ انہوں جنگلی حیات اور ماحولیات کے بارے میں ''سائلنٹ اسپرنگ'' (خاموش بہار) کے نام سے ایک معرکتہ الآرا کتاب لکھی جو آج بھی اپنے شاعرانہ انداز کی وجہ سے بہت مقبول ہے۔ تاہم اسٹیفن ہاکنگ کی بریف ہسٹری آف ٹائم اور دیگر کتابوں نے بھی سائنسی سہل نگاری کو ایک نئی جہت عطا کی ہے۔
دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی الیکٹرونک میڈیا تیزی سے پرنٹ میڈیا پر حاوی ہوتا جارہا ہے اور رفتہ رفتہ پاکستانی صحافت ایک نئے ڈیجیٹل دور میں داخل ہورہی ہے۔ مگر ہمارے میڈیا ہاؤسز، اخباری مالکان اور صحافت کے کرتا دھرتا آج بھی اپنے اخبارات اور نیوز چینلوں کو عشروں پرانی پالیسیوں پر ہی چلانے پر بضد ہیں۔ کمیونی کیشن و ٹیکنالوجی کے جدید ذرائع دستیاب ہونے کے باوجود بھی خبروں کو بغیر تصدیق نشر کیا جاتا ہے اور اس حوالے سے شاذ و نادر ہی کوئی معذرت سامنے آتی ہے۔ معیار سے زیادہ مقدار اور ریٹنگ کو ترجیح دینے کی پالیسوں کی وجہ سے نہ صرف خبروں بلکہ انٹرٹینمنٹ نے بھی کشش کھو دی ہے؛ اور پاکستان کا پڑھا لکھا باذوق طبقہ محض ڈان، دی نیوز، اور جنگ جیسے اخبارات اور ان کے نیوز چینلوں کی خبروں پر ہی یقین رکھتا ہے۔
اگرچہ ان چینلوں اور اخبارات کا معیار اب بھی برقرار ہے مگر ایک ''ڈیجیٹل ورلڈ'' میں داخل ہوجانے کے باوجود بھی سائنس و ٹیکنالوجی ان کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ اسی وجہ سے نئی نسل کے وہ پرعزم نوجوان جو نہ صرف لکھنے کی بہترین صلاحیتوں سے مالامال ہیں بلکہ سائنس پر مکمل عبور بھی رکھتے ہیں، وہ سائنسی صحافت میں قسمت آزمائی کرنے سے کتراتے ہیں کیونکہ اس میں انہیں اپنا کیریئر زیادہ روشن نظر نہیں آتا۔ ان میں سے کچھ باہمت نوجوان میڈیا میں ابتدائی ناکامیوں کے باوجود اپنے ذاتی بلاگز کے ذریعے نہ صرف اپنا شوق پورا کر رہے ہیں بلکہ اپنی کوششوں سے عوام و خواص میں سائنس و ٹیکنالوجی اور سائنسی طرزِ فکر کو فروغ دینے کےلیے بھی کوشاں ہیں۔
سائنس و ٹیکنالوجی کی بابت اس صحافتی انحطاط کی ایک اور بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان بھر کی یونیورسٹیوں میں جرنلزم کی اعلیٰ تعلیم دستیاب ہونے کے باوجود یہاں سے فارغ التحصیل طلباء و طالبات سائنسی صحافت کی الف بے سے بھی واقف نہیں ہوتے کیونکہ انہیں نصاب میں اس حوالے سے کچھ پڑھایا ہی نہیں جاتا۔
صحافت کی دیگر اصناف مثلاً سوشل، اکنامکس، یا سیاسی رپورٹنگ کے مقابلے میں سائنسی صحافت قدرے مختلف ہوتی ہے کیونکہ اس میں سب سے اہم چیز موضوع سے متعلق مکمل تحقیق، درست اور مستند ذرائع سے معلومات کا حصول اور لکھنے پر مکمل عبور انتہائی ضروری ہیں۔ یہ کوکنگ ریسیپی، کسی سیاسی جلسے کی روداد، یا کسی حکومتی اجلاس کی رپورٹنگ نہیں جس میں آپ اپنے مخصوص اندازِ تحریر کے مطابق کچھ اضافہ یا کمی بیشی کرسکتے ہیں۔ اس میں اعداد و شمار کی معمولی غلطی سے رپورٹر یا لکھاری کی پوری محنت ضائع ہوسکتی ہے۔
ہمارے تعلیمی اداروں میں سائنس پڑھائی تو ضرور جارہی ہے مگر اسےلکھنے کی اصل تکنیک اور باریکیوں سے طلباء و طا لبات کو بالکل بھی آگاہ نہیں کیا جاتا۔ یہاں تک کہ اکثر اخبارات و بلاگز کے ایڈیٹرز بھی سائنسی موضوعات کو اسی لیے ترجیح نہیں دیتے کیونکہ ان کا اس حوالے سے کوئی تجربہ نہیں ہوتا؛ اور کوئی بھی بغیر تجربے کے خطرہ مول لینا نہیں چاہتا۔ سائنس کا صفحہ اور ڈیسک الگ ہونے کے باوجود اس فیلڈ سے متعلق تجربہ کار اور قابل عملے کی کمی کے باعث، بلاگرز اور سائنس رائٹرز جلد ہی اکتا کر کسی اور فیلڈ یا بین الاقوامی میڈیا میں قسمت آزمائی کا فیصلہ کرلیتے ہیں۔ اسی باعث ملک کے بہت سے محبِ وطن اور باصلاحیت نوجوان بیرونِ ملک کیریئر بناتے ہیں اور پھر پلٹ کر اپنے ملک کی طرف دیکھتے بھی نہیں۔ حالانکہ وہ تبدیلی لانے کےلیے پر عزم ہوتے ہیں مگر سائنس و ٹیکنالوجی میں حکومتی عدم دلچسپی اور ناکافی ذرائع کے ساتھ چند افراد کےلیے بڑی تبدیلی لانا ممکن ہی نہیں۔
پاکستان میں سائنس، صحافت کا حصہ اب تک اس لیے بھی نہیں بن سکی کیونکہ سائنسی خبریں، تحقیقات یا بلاگز، عام آدمی کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ وہ گھنٹوں بلکہ پورا پورا دن ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر یا سوشل میڈیا پر اسکرولنگ کرکے ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کا انتظار کرسکتا ہے جو شاید اگلے چند ہی دنوں میں سپریم کورٹ سے کالعدم قرار دے دیا جائے؛ یا پھر وہ پورے ہفتے ایک گھسے پٹے اسکرپٹ والی کوئی نئی ڈرامہ سیریل صرف اس انتظار میں دیکھے گا کہ اس کا کلائمیکس جمعے کو نشر کیا جائے گا۔ مگر وہ دنیا بھر میں ہونے والی سائنسی پیش رفت میں ہرگز دلچسپی نہیں لے گا، جو لامحالہ اس کی اپنی زندگی کو آسان، سہل، اور آرام دہ و محفوظ بنانے میں معاون ثابت ہورہی ہے۔
اس لیے اخبارات یا میڈیا ہاؤسز کے مالکان بھی عوامی دلچسپی کو مدِنظر رکھ کر اپنی ترجیحات طے کرتے ہیں؛ اور کبھی کبھار سائنسی خبریں، بلاگز یا آرٹیکلز اگر شائع کیے بھی جاتے ہیں تو وہ زیادہ تر بین الاقوامی تحقیق کا اردو ترجمہ ہوتے ہیں، جنہیں مصالحہ دار سرخیوں کے ساتھ انتہائی غیر ذمہ دارانہ انداز میں شائع کیا جاتا ہے۔ اس سے عوام کے ذوق میں تبدیلی کی توقع... چہ معنی دارد!
اگرچہ گزشتہ ایک عشرے میں پاکستانی صحافت میں کئی نمایاں تبدیلیاں آئی ہیں۔ ماحولیات پر لکھنے والے صحافیوں کی تعداد پہلے کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہوچکی ہے، یہی وجہ ہے کہ اب عام افراد ماحولیاتی تبدیلیوں اور قدرتی آفات کے اسباب و اثرات سے بڑی حد تک آگاہ ہوچکے ہیں، مگر اس حوالے سے ایک بڑی کمی سائنسی حقائق کو پیش کرنے کی ہے۔
گزشتہ برس ''تھر کی بدترین خشک سالی'' اور اموات پر بہت زیادہ لکھا گیا اور ہر فورم پر اس اندوہناک صورتحال کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی۔ مگر رپورٹنگ میں محض سرکاری افسران یا ماحولیاتی محققین کی آراء ہی شامل کی گئیں؛ اور جن کی لاپرواہی اور غفلت کے باعث ہی یہ صورتحال آخری حد کو پہنچی تھی، ان کا تذکرہ نہ تھا۔ دوسری جانب کہیں بھی فی الوقت یا مستقبل میں اس صورتحال سے بچنے کی کوئی سائنسی حکمتِ عملی پیش نہیں کی گئی۔ خشک سالی صرف ایک سماجی مسئلہ نہیں بلکہ یہ ماحولیاتی تبدیلی (کلائمیٹ چینج) کا موضوع ہے۔ ایک عام رپورٹر میدان میں جاکر اس پر لکھ تو سکتا ہے لیکن اس کا حل بتانا اس کےلیے ممکن نہیں۔
ہمیں صحافت میں اپنی نئی ترجیحات طے کرنے سے پہلے یہ ذہن نشین رکھنا ہوگا کہ صحت، تعلیم، روزگار، ماحولیات و دیگر سماجی و معاشرتی مسائل کا بہترین حل ایک سائنسی حکمتِ عملی کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ ہماری حکومتیں کتنی ہی غیرملکی امداد حاصل کرلیں، کتنی ہی لمبی لمبی میٹنگز یا اجلاسوں کی لائن کیوں نہ لگا دیں، لیکن جب تک ہمارے پاس ہمارے اپنے قابل افراد کا بنایا ہوا ایک فریم ورک یا عملی راستہ نہیں ہوگا، ہمارے مسائل یونہی پیچیدہ ہوتے چلے جائیں گے؛ اور ان قابل افراد کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کا بہترین طریقہ سائنس رائٹنگ کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کرنا ہے۔ اگرچہ ملک میں اس وقت سائنس بلاگرز کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے لیکن ملکی میڈیا کے تعاون سے یہ تعداد جلد ہی بڑھ سکتی ہے۔ اس کے علاوہ پرائیویٹ سیکٹر کو بھی آگے آکر سائنس بلاگنگ کو فروغ دینے کی کوشش کرنی ہوگی، اس کا ایک بہترین طریقہ ''سائنسی رسائل و جرائد'' بھی ہیں۔ ہمارے پاس بہترین ٹیلنٹ اور محنتی و قابل افراد کمی ہر گز نہیں، اگر کمی ہے تو صرف اچھے مواقع کی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
امریکا، برطا نیہ اور دیگر یورپی و ایشیائی ممالک میں بلاگنگ کا آغاز پچھلی صدی کے آخر میں ہوا مگر 2000 تک ان ممالک میں بھی سائنسی موضوعات پر بلاگ شاذ و نادر ہی لکھے جاتے تھے۔ گنتی کی چند جامعات کے طلبا و طالبات ہی سائنس پر بلاگ لکھتے رہے اور معیار کے بجائے وہ محض اپنے شوق کی تسکین کرتے رہے۔ سائنسی بلاگز اپنی ابتدائی صورت میں تھے اور ان میں قواعد، املا اور معلومات کی غلطیاں بھی بہت ہوتی تھیں۔
پھر اکیسویں صدی کے اوائل میں دنیا بھرکی اعلی جامعات کے پروفیسروں نے باقاعدہ سائنسی بلاگز لکھنا شروع کیے تو نیویارک ٹائمز، نیشنل جیوگرافک اور نیچر جرنل سے وابستہ کئی نامور صحافی، سائنسی ابلاغ کار اور یہاں تک کہ سائنسدانوں نے بھی سائنس بلاگنگ اختیار کرنا شروع کی؛ اور بلاگ کو محض سائنسی مضامین کے طور پر لکھنے کے بجائے ایک پلیٹ فارم کے طور پر متعارف کروایا جس سے دنیا کے کونے کونے میں چھپے ہوئے ٹیلنٹ کو انفرادی و اجتماعی طور پر لکھنے اور اپنی صلاحیتوں کا کھل کر اظہار کرنے کا موقع ملا۔
رفتہ رفتہ مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے سائنس بلاگرز اور صحافیوں کے درمیان اشتراک بڑھتا گیا جس سے نہ صرف سائنسی برادری کو تیزی سے پنپنے کا موقع ملا بلکہ ''سائنس بلاگ'' دنیا کا سب سے بڑا پلیٹ فارم بن کر سامنے آیا جہاں ہر رنگ و نسل اور قومیت کے لکھاری موجود تھے اور مذہبی، معاشی و معاشرتی تفاوت سے بے نیاز محض سائنسی علوم کی ترویج کےلیے کوشاں تھے۔
اس پلیٹ فارم سے نہ صرف کئی نامور سائنسی صحافیوں کو بین الاقوامی میڈیا میں کیریئر بنانے کا موقع ملا بلکہ اپنے طور پر محدود ذرائع کے ساتھ سائنسی تحقیق میں مصروف افراد نے بھی اپنی تحقیق، بلاگز کی صورت میں دنیا کی سامنے پیش کی؛ اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ مگر اب سائنس ابلاغ کاری کے دیگر ذرائع جیسے ٹوئٹر، یوٹیوب چینلز اور پوڈ کاسٹ بھی بڑے پیمانے پر استعمال کیے جارہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی بہت سے نامور صحافیوں اور محققین نے اپنی ٹیموں کے ساتھ مل کر آن لائن سائنسی جرائد یا میگزینز کا اجراء بھی کیا ہے جن میں نیشنل پبلک ریڈیو امریکا کا بلاگ ''گوٹس اینڈ سوڈا،'' سائنس بلاگز کا مجموعہ ''سائن ٹوپیا'' (Scientopia)، اور ''ڈسکور بلاگز'' قابل ذکر ہیں۔
امریکا میں ''قومی تنظیم برائے سائنسی مصنفین'' (NASW) سے وابستہ، کولوراڈو سے تعلق رکھنے والی معروف سائنس بلاگر اور مصنفہ کینڈل پاول کا کہنا ہے کہ انہوں نے دس سال قبل ''نیچر'' سائنس جرنل میں انٹرن شپ مکمل کرنے کے بعد فری لانسر کے طور پر باقاعدہ لکھنے کا آغاز کیا تو وہ اپنے مستقبل کے حوالے سے بہت فکرمند تھیں کہ وہ کس طرح کام حاصل کرسکیں گی یا انہیں کب تک کم آمدنی پر انحصار کرنا ہوگا وغیرہ؟
مگر رفتہ رفتہ اپنے ایڈیٹرز کے تعاون اور وقت پر، پوری محنت اور ذمہ داری کے ساتھ اسائنمنٹ مکمل کرنے کی عادت سے نہ صرف ان کا کیریئر مضبوط ہوا بلکہ ان کو دیکھتے ہوئے بہت سی دیگر خواتین بھی سائنس رائٹنگ اور بلاگنگ کے شعبے میں قسمت آزمائی کے لیے آگے آئیں۔
سائنسی صحافت مشکل امر اس لیے بھی ہے کہ اس میں پیچیدہ اور خشک سائنسی حقائق و موضوعات کو عام آدمی کےلیے دلچسپ بنا کر اس طرح پیش کرنا ہوتا ہے کہ اصل تحقیق یا حقائق ذرّہ برابر بھی تبدیل یا متاثر نہ ہوں۔ مثلاً چارلس ڈارون نے کرۂ ارض پر زندگی کی ابتدا اور ارتقاء کو ایک درخت کی ڈایاگرام سے سمجھانے کی کوشش کی جسے ''شجرِ ارتقاء'' (evolutionary tree) کا نام دیا گیا۔ اسی طرح ماہرِ حیاتیات ریچل کارسن کو سائنس نگاری پر اس قدر عبور تھا کہ انہوں جنگلی حیات اور ماحولیات کے بارے میں ''سائلنٹ اسپرنگ'' (خاموش بہار) کے نام سے ایک معرکتہ الآرا کتاب لکھی جو آج بھی اپنے شاعرانہ انداز کی وجہ سے بہت مقبول ہے۔ تاہم اسٹیفن ہاکنگ کی بریف ہسٹری آف ٹائم اور دیگر کتابوں نے بھی سائنسی سہل نگاری کو ایک نئی جہت عطا کی ہے۔
دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی الیکٹرونک میڈیا تیزی سے پرنٹ میڈیا پر حاوی ہوتا جارہا ہے اور رفتہ رفتہ پاکستانی صحافت ایک نئے ڈیجیٹل دور میں داخل ہورہی ہے۔ مگر ہمارے میڈیا ہاؤسز، اخباری مالکان اور صحافت کے کرتا دھرتا آج بھی اپنے اخبارات اور نیوز چینلوں کو عشروں پرانی پالیسیوں پر ہی چلانے پر بضد ہیں۔ کمیونی کیشن و ٹیکنالوجی کے جدید ذرائع دستیاب ہونے کے باوجود بھی خبروں کو بغیر تصدیق نشر کیا جاتا ہے اور اس حوالے سے شاذ و نادر ہی کوئی معذرت سامنے آتی ہے۔ معیار سے زیادہ مقدار اور ریٹنگ کو ترجیح دینے کی پالیسوں کی وجہ سے نہ صرف خبروں بلکہ انٹرٹینمنٹ نے بھی کشش کھو دی ہے؛ اور پاکستان کا پڑھا لکھا باذوق طبقہ محض ڈان، دی نیوز، اور جنگ جیسے اخبارات اور ان کے نیوز چینلوں کی خبروں پر ہی یقین رکھتا ہے۔
اگرچہ ان چینلوں اور اخبارات کا معیار اب بھی برقرار ہے مگر ایک ''ڈیجیٹل ورلڈ'' میں داخل ہوجانے کے باوجود بھی سائنس و ٹیکنالوجی ان کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ اسی وجہ سے نئی نسل کے وہ پرعزم نوجوان جو نہ صرف لکھنے کی بہترین صلاحیتوں سے مالامال ہیں بلکہ سائنس پر مکمل عبور بھی رکھتے ہیں، وہ سائنسی صحافت میں قسمت آزمائی کرنے سے کتراتے ہیں کیونکہ اس میں انہیں اپنا کیریئر زیادہ روشن نظر نہیں آتا۔ ان میں سے کچھ باہمت نوجوان میڈیا میں ابتدائی ناکامیوں کے باوجود اپنے ذاتی بلاگز کے ذریعے نہ صرف اپنا شوق پورا کر رہے ہیں بلکہ اپنی کوششوں سے عوام و خواص میں سائنس و ٹیکنالوجی اور سائنسی طرزِ فکر کو فروغ دینے کےلیے بھی کوشاں ہیں۔
سائنس و ٹیکنالوجی کی بابت اس صحافتی انحطاط کی ایک اور بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان بھر کی یونیورسٹیوں میں جرنلزم کی اعلیٰ تعلیم دستیاب ہونے کے باوجود یہاں سے فارغ التحصیل طلباء و طالبات سائنسی صحافت کی الف بے سے بھی واقف نہیں ہوتے کیونکہ انہیں نصاب میں اس حوالے سے کچھ پڑھایا ہی نہیں جاتا۔
صحافت کی دیگر اصناف مثلاً سوشل، اکنامکس، یا سیاسی رپورٹنگ کے مقابلے میں سائنسی صحافت قدرے مختلف ہوتی ہے کیونکہ اس میں سب سے اہم چیز موضوع سے متعلق مکمل تحقیق، درست اور مستند ذرائع سے معلومات کا حصول اور لکھنے پر مکمل عبور انتہائی ضروری ہیں۔ یہ کوکنگ ریسیپی، کسی سیاسی جلسے کی روداد، یا کسی حکومتی اجلاس کی رپورٹنگ نہیں جس میں آپ اپنے مخصوص اندازِ تحریر کے مطابق کچھ اضافہ یا کمی بیشی کرسکتے ہیں۔ اس میں اعداد و شمار کی معمولی غلطی سے رپورٹر یا لکھاری کی پوری محنت ضائع ہوسکتی ہے۔
ہمارے تعلیمی اداروں میں سائنس پڑھائی تو ضرور جارہی ہے مگر اسےلکھنے کی اصل تکنیک اور باریکیوں سے طلباء و طا لبات کو بالکل بھی آگاہ نہیں کیا جاتا۔ یہاں تک کہ اکثر اخبارات و بلاگز کے ایڈیٹرز بھی سائنسی موضوعات کو اسی لیے ترجیح نہیں دیتے کیونکہ ان کا اس حوالے سے کوئی تجربہ نہیں ہوتا؛ اور کوئی بھی بغیر تجربے کے خطرہ مول لینا نہیں چاہتا۔ سائنس کا صفحہ اور ڈیسک الگ ہونے کے باوجود اس فیلڈ سے متعلق تجربہ کار اور قابل عملے کی کمی کے باعث، بلاگرز اور سائنس رائٹرز جلد ہی اکتا کر کسی اور فیلڈ یا بین الاقوامی میڈیا میں قسمت آزمائی کا فیصلہ کرلیتے ہیں۔ اسی باعث ملک کے بہت سے محبِ وطن اور باصلاحیت نوجوان بیرونِ ملک کیریئر بناتے ہیں اور پھر پلٹ کر اپنے ملک کی طرف دیکھتے بھی نہیں۔ حالانکہ وہ تبدیلی لانے کےلیے پر عزم ہوتے ہیں مگر سائنس و ٹیکنالوجی میں حکومتی عدم دلچسپی اور ناکافی ذرائع کے ساتھ چند افراد کےلیے بڑی تبدیلی لانا ممکن ہی نہیں۔
پاکستان میں سائنس، صحافت کا حصہ اب تک اس لیے بھی نہیں بن سکی کیونکہ سائنسی خبریں، تحقیقات یا بلاگز، عام آدمی کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ وہ گھنٹوں بلکہ پورا پورا دن ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر یا سوشل میڈیا پر اسکرولنگ کرکے ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کا انتظار کرسکتا ہے جو شاید اگلے چند ہی دنوں میں سپریم کورٹ سے کالعدم قرار دے دیا جائے؛ یا پھر وہ پورے ہفتے ایک گھسے پٹے اسکرپٹ والی کوئی نئی ڈرامہ سیریل صرف اس انتظار میں دیکھے گا کہ اس کا کلائمیکس جمعے کو نشر کیا جائے گا۔ مگر وہ دنیا بھر میں ہونے والی سائنسی پیش رفت میں ہرگز دلچسپی نہیں لے گا، جو لامحالہ اس کی اپنی زندگی کو آسان، سہل، اور آرام دہ و محفوظ بنانے میں معاون ثابت ہورہی ہے۔
اس لیے اخبارات یا میڈیا ہاؤسز کے مالکان بھی عوامی دلچسپی کو مدِنظر رکھ کر اپنی ترجیحات طے کرتے ہیں؛ اور کبھی کبھار سائنسی خبریں، بلاگز یا آرٹیکلز اگر شائع کیے بھی جاتے ہیں تو وہ زیادہ تر بین الاقوامی تحقیق کا اردو ترجمہ ہوتے ہیں، جنہیں مصالحہ دار سرخیوں کے ساتھ انتہائی غیر ذمہ دارانہ انداز میں شائع کیا جاتا ہے۔ اس سے عوام کے ذوق میں تبدیلی کی توقع... چہ معنی دارد!
اگرچہ گزشتہ ایک عشرے میں پاکستانی صحافت میں کئی نمایاں تبدیلیاں آئی ہیں۔ ماحولیات پر لکھنے والے صحافیوں کی تعداد پہلے کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہوچکی ہے، یہی وجہ ہے کہ اب عام افراد ماحولیاتی تبدیلیوں اور قدرتی آفات کے اسباب و اثرات سے بڑی حد تک آگاہ ہوچکے ہیں، مگر اس حوالے سے ایک بڑی کمی سائنسی حقائق کو پیش کرنے کی ہے۔
گزشتہ برس ''تھر کی بدترین خشک سالی'' اور اموات پر بہت زیادہ لکھا گیا اور ہر فورم پر اس اندوہناک صورتحال کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی۔ مگر رپورٹنگ میں محض سرکاری افسران یا ماحولیاتی محققین کی آراء ہی شامل کی گئیں؛ اور جن کی لاپرواہی اور غفلت کے باعث ہی یہ صورتحال آخری حد کو پہنچی تھی، ان کا تذکرہ نہ تھا۔ دوسری جانب کہیں بھی فی الوقت یا مستقبل میں اس صورتحال سے بچنے کی کوئی سائنسی حکمتِ عملی پیش نہیں کی گئی۔ خشک سالی صرف ایک سماجی مسئلہ نہیں بلکہ یہ ماحولیاتی تبدیلی (کلائمیٹ چینج) کا موضوع ہے۔ ایک عام رپورٹر میدان میں جاکر اس پر لکھ تو سکتا ہے لیکن اس کا حل بتانا اس کےلیے ممکن نہیں۔
ہمیں صحافت میں اپنی نئی ترجیحات طے کرنے سے پہلے یہ ذہن نشین رکھنا ہوگا کہ صحت، تعلیم، روزگار، ماحولیات و دیگر سماجی و معاشرتی مسائل کا بہترین حل ایک سائنسی حکمتِ عملی کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ ہماری حکومتیں کتنی ہی غیرملکی امداد حاصل کرلیں، کتنی ہی لمبی لمبی میٹنگز یا اجلاسوں کی لائن کیوں نہ لگا دیں، لیکن جب تک ہمارے پاس ہمارے اپنے قابل افراد کا بنایا ہوا ایک فریم ورک یا عملی راستہ نہیں ہوگا، ہمارے مسائل یونہی پیچیدہ ہوتے چلے جائیں گے؛ اور ان قابل افراد کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کا بہترین طریقہ سائنس رائٹنگ کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کرنا ہے۔ اگرچہ ملک میں اس وقت سائنس بلاگرز کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے لیکن ملکی میڈیا کے تعاون سے یہ تعداد جلد ہی بڑھ سکتی ہے۔ اس کے علاوہ پرائیویٹ سیکٹر کو بھی آگے آکر سائنس بلاگنگ کو فروغ دینے کی کوشش کرنی ہوگی، اس کا ایک بہترین طریقہ ''سائنسی رسائل و جرائد'' بھی ہیں۔ ہمارے پاس بہترین ٹیلنٹ اور محنتی و قابل افراد کمی ہر گز نہیں، اگر کمی ہے تو صرف اچھے مواقع کی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔