ٹیکس وصولی گزشتہ حکومت سے بھی کم کیوں
ملک پر جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ اور گورننس بری سے بری ہوتی جا رہی ہے۔ ایسے کیسے چلے گا۔
ISLAMABAD:
ملک میں ٹیکس چوروں کے خلاف کریک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا ہے۔ ایسا اعلان پہلی دفعہ نہیں کیا گیا بلکہ کئی دفعہ ایسے کریک ڈائون کی پہلے بھی کوشش کی گئی لیکن ریاست ناکام رہی ۔ ناکامی کے بعد ٹیکس اکٹھا کرنے اور کالے دھن کو سفید کرنے کے لیے ایمنسٹی اسکیمیں بھی لائی جاتی رہی ہیں۔ لیکن تمام ایمنسٹی اسکیمیں بھی ناکام رہی ہیں۔ لوگ نہ ٹیکس دینے کے لیے اور نہ ہی کسی ایمنسٹی اسکیم کے تحت اپنے کالے دھن کو سفید کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ۔
تبدیلی سرکار نے اقتدار میں آنے سے پہلے بہت دعوے کیے تھے کہ وہ ملک میں ٹیکس اکٹھا کرنے کے ریکارڈ قائم کر دیں گے۔یہ بتایا گیا تھا کہ پہلی حکومتیں کرپٹ تھیں اس لیے لوگ ٹیکس نہیں دیتے تھے۔ اب جب تبدیلی سرکار کے تحت ایک ایماندار حکومت آجائے گی تو لوگ خود بخود ٹیکس دینے لگ جائیں گے۔ ایک ماحول بنایا گیا تھا کہ جیسے ہی تبدیلی سرکار کی حکومت آئے گی لوگ ٹیکس لے کر بینکوں کے آگے جمع ہو جائیں گے۔ ہر بندہ خود ہی ٹیکس جمع کروانے پہنچ جائے گا۔ ملک میں ٹیکس کی لہر بہر ہو جائے گی۔
لیکن حقیقت حال یہ ہے کہ ملک میں چور حکومتوں کے دور کے مقابلے میں ٹیکس کی وصولی کم ہو گئی ہے۔ کاروبار زندگی معطل ہو گیا ہے۔ ملک معاشی ڈپریشن میں چلا گیا ہے۔ ہر قسم کے کاروبار کو بریک لگ گئی ہے۔ یقیناً یہ صورتحال تبدیلی سرکار کے لیے پریشان کن ہے۔ ان کو ایسی امید نہیں تھی۔ ان کا تو خیال تھا کہ جونہی وہ اقتدار میں آئیں گے ٹیکس ہی ٹیکس ہو جائے گا۔
اس وقت ٹیکس محصولات میں شدید کمی ہو گئی ہے۔ اس ضمن میں سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر کو ایک خط بھی لکھا ہے جس میں صوبوں کو وفاق سے ملنے والے حصہ میں کمی کا گلہ کیا گیا ہے۔ مراد علی شاہ کے خط کے مطابق محصولات کے ٹارگٹ کے مطابق پیلے سات ماہ میں سندھ کو 353.083ملین روپے ملنے چاہیے تھے۔ لیکن ٹیکس محصولات کی وصولی میں کمی کی وجہ سے سندھ کو پہلے سات ماہ میں صرف 256.585ملین روپے ہی مل سکے ہیں۔ جب کہ گزشتہ ''چور حکومت'' کے دوران اسی عرصہ میں سندھ کو 266.699ملین روپے ملے تھے۔ اس طرح سندھ کو شدید مالی بحران کا سامنا ہے۔
نئے ٹارگٹ تو دور کی بات سندھ کو گزشتہ حکومت جتنے پیسے بھی نہیں مل سکے ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ ٹیکس کی وصولی گزشتہ دور حکومت سے کم جا رہی ہے۔ اس وقت سندھ کا اسٹیٹ بینک کے ساتھ اکائونٹ مائنس میں چل رہا ہے۔ سندھ کے پاس کوئی پیسے نہیں ہیں۔ وفاق سے پیسے مل نہیں رہے ، اس لیے سب کام رک گئے ہیں۔
ایسا صرف سندھ کے ساتھ نہیں بلکہ چاروں صوبے ایسی ہی صورتحال کا شکارہیں۔ لیکن باقی صوبوں میں تحریک انصاف کی اپنی حکومت ہے اس لیے ان کے وزرا ء اعلیٰ میں اتنی جرات نہیں ہے کہ وہ مالی بحران پر مرکز کو خط لکھ سکیں۔ اس لیے وہاں صورتحال کو دبایا جا رہا ہے۔ پنجاب کی صورتحال سندھ سے مختلف نہیں ہو سکتی۔ بلوچستان اور کے پی کی صورتحال بھی یہی ہوگی۔ لیکن ان کی زبان بندی ہے۔ اس لیے وہ مالی بحران کا تو شکار ہیں لیکن انھیں بولنے کی اجازت نہیں ہے۔
ٹیکس محصولات کی وصولی میں کمی سے ملک مالی بحران کا شکار ہے۔ یہ درست ہے کہ وفاقی حکومت پوری دنیا سے اس وقت پاکستان کے لیے قرضہ اکٹھا کرنے میں مصروف ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جب آپ ملک میں ٹیکس اکٹھا کرنے میں ناکام ہوں اور دنیا بھر سے قرض اکٹھا بھی کر لیں تو مسائل حل نہیں ہونگے۔ آپ ہی تو ہمیں بتاتے تھے کہ جب تک ٹیکس کی وصولی میں اضافہ نہیں ہوگا ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ پاکستان کا مالی بحران ختم نہیں ہو سکتا۔
لیکن اس حکومت میں ٹیکس کی وصولی میں اضافہ ہونے کے بجائے کمی ہو گئی ہے۔ حکومت یہ تسلیم کر رہی ہے کہ وہ اپنے ٹارگٹ حاصل نہیں کر سکے گی۔لیکن یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ٹیکس وصولی گزشتہ سال سے بہتر ہو گی۔ تاہم سندھ نے جو اعداد و شمار جاری کیے ہیں ان کے مطابق اس وقت صوبوں کو گزشتہ سال سے کم پیسے ملے ہیں ۔ جس کا صاف مطلب ہے کہ ٹیکس کم اکٹھا ہوا ہے۔ اب ایسا تو نہیں ہو سکتا کہ حکومت ٹیکس تو اکٹھا کر رہی ہے لیکن این ایف سی ایوارڈ کے تحت سندھ کو اس کا حصہ نہیں دے رہی ہے۔
پاکستان میں ٹیکس کلچر نہیں ہے۔ لوگ ٹیکس ریٹرن فائل کرنے سے ڈرتے ہیں۔ ٹیکس نہ دینے کا ایک عمومی رحجان ہے۔ لوگوں کو سرکار پر اعتبار نہیں ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ٹیکس نہ دینے والے سب چور ہیں۔ لیکن ٹیکس دینے کو ٹھیک نہیں سمجھا جاتا ہے۔ ملک میں تنخواہ دار طبقہ ٹیکس دے رہا ہے۔ کہیں نہ کہیں بڑے کاروباری ادارے بھی ٹیکس دے رہے ہیں۔ لیکن درمیانے درجے کا کاروباری اور تاجر طبقہ اور چھوٹے صنعتکار بھی ٹیکس دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اور موجودہ حکومت آج بھی ان کو ٹیکس دینے پر قائل نہیں کر سکی ہے۔ اسحاق ڈار نے تاجر طبقہ کے لیے ایک ٹیکس ایمنسٹی اسکیم بھی شروع کی تھی لیکن وہ بھی ناکام رہی۔ تاجروں نے اس ٹیکس ایمنسٹی اسکیم سے بھی فائدہ اٹھانے سے انکار کر دیا تھا۔ پاکستان میں اگر سب اپنی آمدن پر ٹیکس دینے لگ جائیں ملک کے آدھے سے زیادہ مالی مسائل حل ہو جائیں۔
وزیر اعظم عمران خان نے ملک بھر میں ٹیکس چوروں کے خلاف ایک کریک ڈائون کا اعلان کیا ہے۔ لیکن مجھے نہیں لگتا حکومت ایسا کوئی کریک ڈائون کر سکے۔ اس کریک ڈائون کے لیے جو سیاسی طاقت درکار ہے وہ اس حکومت کے پاس نہیں ہے۔ اس کام کے لیے ایک اخلاقی طاقت کی بھی ضرورت ہے مجھے وہ بھی نظر نہیں آرہی۔ اس لیے مجھے یہ کریک ڈائون بھی ٹیکس وصولی کی طرح ناکام ہوتا نظر آرہا ہے۔
ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ یہ حکومت بھی عوام کو ٹیکس دینے پر قائل نہیں کر سکی ہے۔ بلکہ اس نے اب تک جتنی بھی سختی کرنے کی کوشش کی ہے اس کے منفی اثرات ہی سامنے آئے ہیں۔ کاروباری لوگ ڈر کر کاروبار بند کر رہے ہیں۔ نوکریاں ختم ہو رہی ہیں۔ ہر ادارے میں ڈائون سائزنگ ہو رہی ہے۔رئیل اسٹیٹ میں بحران ہے ۔ حالانکہ اس حکومت نے تو پچاس لاکھ گھر بنانے کا اعلان کیا تھا جس سے رئیل اسٹیٹ میں تو بوم آجانا چاہیے تھا۔ لیکن رئیل اسٹیٹ بیٹھ گیا ہے۔ کنسٹرکشن سیکٹر بھی بیٹھ گیا ہے۔
دیگر صنعتیں بھی بحران کا شکار ہیں۔ خسارے کا بہانہ بنا کر کاروباری سرگرمیاں محدود کی جا رہی ہیں۔ ایسے میں جب ملک میں کاروباری سرگرمیاں معطل نظر آئیں ٹیکس کی وصولی میں کمی صاف ظاہر ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت اگر معاملات میں بہتری نہیں لا سکتی تو پہلے جیسا تو قائم رکھے لیکن اس وقت تو حالات پہلے سے بھی برے ہوتے جا رہے ہیں۔ ترقی کی شرح میں کمی ہو رہی ہے۔ مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بجلی گیس مہنگی ہو رہی ہیں۔
بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسے میں یہ حکومت کیا کر سکتی ہے۔ اس کا ہنی مون پیریڈ ختم ہو گیا ہے۔ سعودی ولی عہد کا دورہ بھی ختم ہو گیا ہے۔ ملک پر جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ اور گورننس بری سے بری ہوتی جا رہی ہے۔ ایسے کیسے چلے گا۔ کسی کو کچھ سمجھ نہیں ہے۔
ملک میں ٹیکس چوروں کے خلاف کریک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا ہے۔ ایسا اعلان پہلی دفعہ نہیں کیا گیا بلکہ کئی دفعہ ایسے کریک ڈائون کی پہلے بھی کوشش کی گئی لیکن ریاست ناکام رہی ۔ ناکامی کے بعد ٹیکس اکٹھا کرنے اور کالے دھن کو سفید کرنے کے لیے ایمنسٹی اسکیمیں بھی لائی جاتی رہی ہیں۔ لیکن تمام ایمنسٹی اسکیمیں بھی ناکام رہی ہیں۔ لوگ نہ ٹیکس دینے کے لیے اور نہ ہی کسی ایمنسٹی اسکیم کے تحت اپنے کالے دھن کو سفید کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ۔
تبدیلی سرکار نے اقتدار میں آنے سے پہلے بہت دعوے کیے تھے کہ وہ ملک میں ٹیکس اکٹھا کرنے کے ریکارڈ قائم کر دیں گے۔یہ بتایا گیا تھا کہ پہلی حکومتیں کرپٹ تھیں اس لیے لوگ ٹیکس نہیں دیتے تھے۔ اب جب تبدیلی سرکار کے تحت ایک ایماندار حکومت آجائے گی تو لوگ خود بخود ٹیکس دینے لگ جائیں گے۔ ایک ماحول بنایا گیا تھا کہ جیسے ہی تبدیلی سرکار کی حکومت آئے گی لوگ ٹیکس لے کر بینکوں کے آگے جمع ہو جائیں گے۔ ہر بندہ خود ہی ٹیکس جمع کروانے پہنچ جائے گا۔ ملک میں ٹیکس کی لہر بہر ہو جائے گی۔
لیکن حقیقت حال یہ ہے کہ ملک میں چور حکومتوں کے دور کے مقابلے میں ٹیکس کی وصولی کم ہو گئی ہے۔ کاروبار زندگی معطل ہو گیا ہے۔ ملک معاشی ڈپریشن میں چلا گیا ہے۔ ہر قسم کے کاروبار کو بریک لگ گئی ہے۔ یقیناً یہ صورتحال تبدیلی سرکار کے لیے پریشان کن ہے۔ ان کو ایسی امید نہیں تھی۔ ان کا تو خیال تھا کہ جونہی وہ اقتدار میں آئیں گے ٹیکس ہی ٹیکس ہو جائے گا۔
اس وقت ٹیکس محصولات میں شدید کمی ہو گئی ہے۔ اس ضمن میں سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر کو ایک خط بھی لکھا ہے جس میں صوبوں کو وفاق سے ملنے والے حصہ میں کمی کا گلہ کیا گیا ہے۔ مراد علی شاہ کے خط کے مطابق محصولات کے ٹارگٹ کے مطابق پیلے سات ماہ میں سندھ کو 353.083ملین روپے ملنے چاہیے تھے۔ لیکن ٹیکس محصولات کی وصولی میں کمی کی وجہ سے سندھ کو پہلے سات ماہ میں صرف 256.585ملین روپے ہی مل سکے ہیں۔ جب کہ گزشتہ ''چور حکومت'' کے دوران اسی عرصہ میں سندھ کو 266.699ملین روپے ملے تھے۔ اس طرح سندھ کو شدید مالی بحران کا سامنا ہے۔
نئے ٹارگٹ تو دور کی بات سندھ کو گزشتہ حکومت جتنے پیسے بھی نہیں مل سکے ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ ٹیکس کی وصولی گزشتہ دور حکومت سے کم جا رہی ہے۔ اس وقت سندھ کا اسٹیٹ بینک کے ساتھ اکائونٹ مائنس میں چل رہا ہے۔ سندھ کے پاس کوئی پیسے نہیں ہیں۔ وفاق سے پیسے مل نہیں رہے ، اس لیے سب کام رک گئے ہیں۔
ایسا صرف سندھ کے ساتھ نہیں بلکہ چاروں صوبے ایسی ہی صورتحال کا شکارہیں۔ لیکن باقی صوبوں میں تحریک انصاف کی اپنی حکومت ہے اس لیے ان کے وزرا ء اعلیٰ میں اتنی جرات نہیں ہے کہ وہ مالی بحران پر مرکز کو خط لکھ سکیں۔ اس لیے وہاں صورتحال کو دبایا جا رہا ہے۔ پنجاب کی صورتحال سندھ سے مختلف نہیں ہو سکتی۔ بلوچستان اور کے پی کی صورتحال بھی یہی ہوگی۔ لیکن ان کی زبان بندی ہے۔ اس لیے وہ مالی بحران کا تو شکار ہیں لیکن انھیں بولنے کی اجازت نہیں ہے۔
ٹیکس محصولات کی وصولی میں کمی سے ملک مالی بحران کا شکار ہے۔ یہ درست ہے کہ وفاقی حکومت پوری دنیا سے اس وقت پاکستان کے لیے قرضہ اکٹھا کرنے میں مصروف ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جب آپ ملک میں ٹیکس اکٹھا کرنے میں ناکام ہوں اور دنیا بھر سے قرض اکٹھا بھی کر لیں تو مسائل حل نہیں ہونگے۔ آپ ہی تو ہمیں بتاتے تھے کہ جب تک ٹیکس کی وصولی میں اضافہ نہیں ہوگا ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ پاکستان کا مالی بحران ختم نہیں ہو سکتا۔
لیکن اس حکومت میں ٹیکس کی وصولی میں اضافہ ہونے کے بجائے کمی ہو گئی ہے۔ حکومت یہ تسلیم کر رہی ہے کہ وہ اپنے ٹارگٹ حاصل نہیں کر سکے گی۔لیکن یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ٹیکس وصولی گزشتہ سال سے بہتر ہو گی۔ تاہم سندھ نے جو اعداد و شمار جاری کیے ہیں ان کے مطابق اس وقت صوبوں کو گزشتہ سال سے کم پیسے ملے ہیں ۔ جس کا صاف مطلب ہے کہ ٹیکس کم اکٹھا ہوا ہے۔ اب ایسا تو نہیں ہو سکتا کہ حکومت ٹیکس تو اکٹھا کر رہی ہے لیکن این ایف سی ایوارڈ کے تحت سندھ کو اس کا حصہ نہیں دے رہی ہے۔
پاکستان میں ٹیکس کلچر نہیں ہے۔ لوگ ٹیکس ریٹرن فائل کرنے سے ڈرتے ہیں۔ ٹیکس نہ دینے کا ایک عمومی رحجان ہے۔ لوگوں کو سرکار پر اعتبار نہیں ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ٹیکس نہ دینے والے سب چور ہیں۔ لیکن ٹیکس دینے کو ٹھیک نہیں سمجھا جاتا ہے۔ ملک میں تنخواہ دار طبقہ ٹیکس دے رہا ہے۔ کہیں نہ کہیں بڑے کاروباری ادارے بھی ٹیکس دے رہے ہیں۔ لیکن درمیانے درجے کا کاروباری اور تاجر طبقہ اور چھوٹے صنعتکار بھی ٹیکس دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اور موجودہ حکومت آج بھی ان کو ٹیکس دینے پر قائل نہیں کر سکی ہے۔ اسحاق ڈار نے تاجر طبقہ کے لیے ایک ٹیکس ایمنسٹی اسکیم بھی شروع کی تھی لیکن وہ بھی ناکام رہی۔ تاجروں نے اس ٹیکس ایمنسٹی اسکیم سے بھی فائدہ اٹھانے سے انکار کر دیا تھا۔ پاکستان میں اگر سب اپنی آمدن پر ٹیکس دینے لگ جائیں ملک کے آدھے سے زیادہ مالی مسائل حل ہو جائیں۔
وزیر اعظم عمران خان نے ملک بھر میں ٹیکس چوروں کے خلاف ایک کریک ڈائون کا اعلان کیا ہے۔ لیکن مجھے نہیں لگتا حکومت ایسا کوئی کریک ڈائون کر سکے۔ اس کریک ڈائون کے لیے جو سیاسی طاقت درکار ہے وہ اس حکومت کے پاس نہیں ہے۔ اس کام کے لیے ایک اخلاقی طاقت کی بھی ضرورت ہے مجھے وہ بھی نظر نہیں آرہی۔ اس لیے مجھے یہ کریک ڈائون بھی ٹیکس وصولی کی طرح ناکام ہوتا نظر آرہا ہے۔
ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ یہ حکومت بھی عوام کو ٹیکس دینے پر قائل نہیں کر سکی ہے۔ بلکہ اس نے اب تک جتنی بھی سختی کرنے کی کوشش کی ہے اس کے منفی اثرات ہی سامنے آئے ہیں۔ کاروباری لوگ ڈر کر کاروبار بند کر رہے ہیں۔ نوکریاں ختم ہو رہی ہیں۔ ہر ادارے میں ڈائون سائزنگ ہو رہی ہے۔رئیل اسٹیٹ میں بحران ہے ۔ حالانکہ اس حکومت نے تو پچاس لاکھ گھر بنانے کا اعلان کیا تھا جس سے رئیل اسٹیٹ میں تو بوم آجانا چاہیے تھا۔ لیکن رئیل اسٹیٹ بیٹھ گیا ہے۔ کنسٹرکشن سیکٹر بھی بیٹھ گیا ہے۔
دیگر صنعتیں بھی بحران کا شکار ہیں۔ خسارے کا بہانہ بنا کر کاروباری سرگرمیاں محدود کی جا رہی ہیں۔ ایسے میں جب ملک میں کاروباری سرگرمیاں معطل نظر آئیں ٹیکس کی وصولی میں کمی صاف ظاہر ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت اگر معاملات میں بہتری نہیں لا سکتی تو پہلے جیسا تو قائم رکھے لیکن اس وقت تو حالات پہلے سے بھی برے ہوتے جا رہے ہیں۔ ترقی کی شرح میں کمی ہو رہی ہے۔ مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بجلی گیس مہنگی ہو رہی ہیں۔
بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسے میں یہ حکومت کیا کر سکتی ہے۔ اس کا ہنی مون پیریڈ ختم ہو گیا ہے۔ سعودی ولی عہد کا دورہ بھی ختم ہو گیا ہے۔ ملک پر جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ اور گورننس بری سے بری ہوتی جا رہی ہے۔ ایسے کیسے چلے گا۔ کسی کو کچھ سمجھ نہیں ہے۔