امداد باہمی خدمت کا نیا زاویہ

اکثر لوگ یہ کہتے ہیں کہ ریاست کی غیر موجودگی میں نظام کیسے چلے گا؟ تو اس کی مثال امداد باہمی کے ذریعے چلنے والے...

zb0322-2284142@gmail.com

اکثر لوگ یہ کہتے ہیں کہ ریاست کی غیر موجودگی میں نظام کیسے چلے گا؟ تو اس کی مثال امداد باہمی کے ذریعے چلنے والے متعدد ادار ے ہیں جو ملک بھر میں اپنی مثال رکھتے ہیں۔ ان میں ایک کوہی گوٹھ اسپتال کراچی ہے، جو دور افتادہ لانڈھی ایکسپورٹ پروسیسنگ کے مقابل واقع ہے۔ یہ اسپتال خواتین اور بچوں کو علاج، رہائش، آپریشن ادویات اور کھانا مفت فراہم کرتا ہے، ابھی تعمیر و ترقی کے مراحل میں ہے۔ اسپتال میں 40 بستروں پر مشتمل جنرل وارڈ، لیبر وارڈ، آپریشن تھیٹر، لیباریٹری اور تعلیم بالغان کا مرکز بھی شامل ہے، جہاں حمل و زچگی اور ہنگامی علاج کے لیے 24 گھنٹے خدمات دی جاتی ہے، عورتوں اور بچوں کے لیے عام طبی سہولیات، حفاظتی ٹیکوں اور بچوں کے امراض کا کلینک بھی ہے۔

اس کے علاوہ کوہی گوٹھ ویمنز اسپتال میں صحت اور کارکنوں کا تربیتی مرکز اور مڈوائفری اسکول بھی کام کر رہے ہیں۔ مڈ وائفری اسکول اور صحت کارکنوں کے تربیتی مرکز کی تمام طالبات آس پاس کے دیہی علاقوں سے تعلق رکھتی ہیں جنھیں بلامعاوضہ تعلیم و تربیت فراہم کی جاتی ہے، اسپتال کے روز مرہ ضروریات اور فراہم کی جانے والی سہولتوں کے اخراجات پورے کرنے کے لیے اسپتال کے حدود میں آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں ہے، تمام اخراجات عوامی چندوں سے پورے کیے جاتے ہیں، اس ادارے کو ہمیشہ جاری رکھنے کی یہ شرط ہے کہ اس کے چیف ایگزیکٹو آفیسر پروفیسر ٹیپو سلطان تاحیات چیف نہ رہیں بلکہ اس عہدے کو مسلسل عبوری بنیادوں پر بدلتے رہیں۔ اسی اسپتال کی ایک مریضہ گل بانو پاکستان کے ایک پہاڑی گائوں میں رہتی ہے، یہ گائوں بلوچستان کے ضلع خضدار کے علاقے کیودشت کی خشک چٹانوں کے درمیان واقع ہے، گل بانو ابھی 13 سال کی بھی نہیں ہوئی تھی کہ اس کی شادی کردی گئی، شادی کے فوراً بعد وہ حاملہ ہو گئی، گل بانو نے حمل کا پورا زمانہ اپنے شوہر کے گائوں میں گزارا، جہاں میلوں تک کوئی اسپتال ہے نہ کوئی ڈاکٹر، حمل کے دوران کسی بھی مرحلے پر اسے کوئی طبی سہولت نہیں مل سکی۔

گل بانو نے بتایا کہ یہ کوئی خاص مسئلہ نہیں تھا کیونکہ حمل کا زمانہ خیریت سے گزر گیا، زچگی کے درد بھی وقت پر شروع ہوئے، اس وقت گائوں کی دائی نے اسے دیکھا اور یقین دلایا کہ سب کچھ ٹھیک ہے اور بچہ معمول کے مطابق پیدا ہو گا لیکن اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ معمول کے مطابق نہیں تھا۔ گل بانو دو دن تک زچگی کے درد میں مبتلا رہی، وہ سخت تکلیف میں رہی، اس پر غشی کی کیفیت طاری ہو گئی، دو دن اور دو راتیں سخت اذیت میں گزارنے کے بعد بدنصیب گل بانو نے مردہ بچے کو جنم دیا۔ وہ نڈھال سی ہو گئی، بخار ہو گیا۔ دائی نے اس کو کچھ دوائیں دیں، جس سے اس کا بخار بہتر ہوا۔ مردہ بچے کے پیدائش کے ایک ہفتے بعد تک گل بانو کی حالت قدرے بہتر رہی لیکن آٹھویں دن سے پتہ چلا کہ اس کا پیشاب اور پاخانہ مسلسل بہہ رہا ہے، گل بانو اس کے شوہر اور گائوں کی دائی کسی کی سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ کون سی بیماری ہے اور اس کی وجہ کیا ہے۔


مسلسل پیشاب بہنے کی وجہ سے اس کا بستر، کپڑے اور جسم ہر وقت غلاظت سے بھرے رہتے اور اس کے پاس سے سخت بدبو آتی، گل بانو نے گھر سے نکلنا چھوڑ دیا، گائوں کی عورتیں بھی اس سے کترانے لگیں۔ بیماری کے باوجود گائوں کی کوئی عورت اس کی خیریت پوچھنے نہ آتی۔ یہ انتہائی مایوسی اور نا امیدی کے دن تھے۔ گل بانو کو لگا کہ اس دنیا میں اب اس کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ ان سخت مشکل دنوں میں گل بانو کا شوہر اس کے دکھ درد کا شریک تھا۔ جو پاکستانی معاشرے خاص طور پر دیہی معاشرے میں ایک انہونی سی بات ہے، عام طور پر ایسی بیوی کو چھوڑ دیتے ہیں، گھر سے نکال دیتے ہیں، طلاق دے دیتے ہیں یا دوسری شادی کر لیتے ہیں لیکن شوہر کی ہمدردی کے باوجود گل بانو خودکشی کا سوچنے لگی کہ شاید ایسی زندگی سے موت اچھی ہو۔ خشک اور بنجر پہاڑوں کے درمیان بسے گائوں کے مٹی کے گھر میں گل بانو دو سال تک اپنی بنجر زندگی کے اذیت ناک دن گزارتی رہی، دو سال بعد اس کی چھوٹی بہن قربانو کی شادی ہوئی، اتفاق سے اس کا شوہر کراچی کے ایک ایسے اسپتال کے بارے میں جانتا تھا جہاں عورتوں کی اس بیماری کا علاج کیا جاتا ہے۔ پھر گل بانو اور اس کا شوہر پہاڑی گائوں سے قریبی شہر خضدار سے کراچی تک آٹھ گھنٹے کا سفر طے کر کے اسپتال پہنچے۔

یہ سفر گل بانو کی زندگی کا اہم واقعہ ہے کہ اس نے پہلی بار کسی ایسی گاڑی کو دیکھا اور اس میں سفر کیا جو چار پہیوں پر بہت تیزی چلتی ہے، اس نے پہلی بار پختہ سڑک دیکھی، گل بانو اور اس کی چھوٹی بہن قربانو جو اس کے ساتھ آئی تھی، پہلی بار بجلی کی روشنی دیکھی اور پختہ عمارتیں دیکھیں۔ اسپتال ڈاکٹر، نرس، ریڈیو، ٹی وی، گیس کا چولہا، زندگی کی ان عام چیزوں سے گل بانو کا تعارف پہلی مرتبہ ہوا۔ یہ اس طبقاتی تفریق کی گھنائونی، مکروہ اور بیہودہ شکل تھی، ایک جانب لوگ بس، سڑک، بجلی، گیس، ٹی وی اور ڈاکٹر سے ناواقف ہوں تو دوسری جانب کھربوں ڈالر سمیٹ کر عیاشیوں کے سمندر میں غوطہ خوری کریں، اسی کو کارل مارکس نے ''داس کیپٹل'' میں کہا تھا کہ ''سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی سے ایک جانب دولت کا پہاڑ ہو گا تو دوسری جانب افلاس زدہ لوگوں کی فوج'' یہ بات آج اس کے مرنے کے 130 سال بعد ہی زیادہ درست ثابت ہوئی۔ دنیا کے2000 ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مالکان کے پاس 138 کھرب ڈالر کے اثاثے موجود ہیں جن میں امریکا میں 10 فیصد لوگ خیراتی کھانوں پہ پلتے ہیں۔ جب کہ سرکاری اعداد و شمار کے لحاظ سے 30 کروڑ کی آبادی میں تقریباً 3 کروڑ بے روزگار ہیں، یہ ہے سرمایہ داری کی خونخوار شکل۔

گل بانو جب کوہی گوٹھ اسپتال کراچی لائی گئی تو وہ بہت کمزور تھی اس میں خون کی شدید کمی تھی اور کسی بھی سرجری سے پہلے اسے علاج کی ضرورت تھی تا کہ اس کے جسم میں اتنی توانائی آ جائے کہ سرجری کی جا سکے۔ دو ماہ کے بعد گل بانو کی سرجری کا منصوبہ بنایا گیا، اس کے کئی آپریشن ہوئے۔ عید سے ایک ہفتہ پہلے گل بانو کو اسپتال سے گھر جانے کی اجازت دے دی گئی، گھر جانے سے پہلے اس کی عملے کے ساتھ تصویر کھینچی گئی اس لیے کہ وہ یہاں 7 ماہ گزار چکی تھی۔ اسپتال کے کارکنوں نے گل بانو کو نئی شلوار، قمیض کے جوڑے کا تحفہ دیا، وہ صاف ستھری عورت بن چکی تھی۔ ڈاکٹروں نے بتایاکہ وہ دوبارہ حاملہ ہو سکتی ہے لیکن بچے کی پیدائش آپریشن سے ہو گی۔ اس کے بعد وہ اب تک اپنے گائوں سے تین عورتوں کو کوہی گوٹھ اسپتال لا چکی ہے۔

اگر یہ کام اپنی مدد آپ کی بنیاد پر محدود پیمانے پر کیا جا سکتا ہے تو ہر علاقے، خطے اور دنیا بھر میں بے ریاستی امداد باہمی کا سماج کیونکر قائم نہیں ہو سکتا ہے۔ جب دنیا کی ساری پیداوار سارے لوگ مل کر کر سکتے ہیں تو مل کر بانٹ اور کھا بھی سکتے ہیں۔ آئیے اس لوٹ مار کی دنیا کو کارکنوں کے انقلاب کے ذریعے تبدیل کر کے ایک ایسا سماج تشکیل دیں جہاں کوئی بھوکا مرے اور نہ کوئی ارب پتی ہو، نہ کوئی گل بانو بنے۔ اس وقت دنیا کا سب سے امیر ترین شخص سلیم ملوار 73 کھرب ڈالر کا مالک ہے اور اسی دنیا میں بھوک سے روزانہ 75000 انسان لقمہ اجل بن رہے ہیں۔ ''دولت مند روٹی ہضم کرنے کے لیے بھاگتے ہیں جب کہ غریب لوگ روٹی کے حصول کے لیے بھاگتے ہیں''۔
Load Next Story