عوام ہار گئے
قدیم زمانے کی بات ہے کہ ایک تھا بادشاہ جو نائیوں کے لیے فرشتہ اجل کی حیثیت رکھتا تھا۔ جس نائی سے وہ بال ترشواتا ...
قدیم زمانے کی بات ہے کہ ایک تھا بادشاہ جو نائیوں کے لیے فرشتہ اجل کی حیثیت رکھتا تھا۔ جس نائی سے وہ بال ترشواتا اسے قتل کرا دیتا تھا۔ وہ کیوں ایسا کر تا تھا یہ بات بہت دنوں تک لوگوں کے لیے راز بنی رہی ایک دفعہ بادشاہ شہر سمرقند آ نکلا۔ یہاں بھی اس نے بہت سے نائیوں کو قتل کرا دیا۔ آخر نوبت یہاں تک پہنچی کہ سارے شہر میں ایک بھی نائی باقی نہ رہا کہ بادشاہ اپنے با ل ترشوا سکتا۔ بہت تلاش کرنے کے بعد ایک بوڑھا آدمی ایسا ملا جس نے جوانی کے دنوں میں نائی کا کام کیا تھا۔ اسے پکڑ کر محل میں لایا گیا اور وزیر نے حکم دیا ''جائو، بادشاہ کے بال تراش دو'' بوڑھا بڑی خوشی سے راضی ہو گیا، اس بیچارے کو کہاں خبر تھی کہ بادشاہ جس نائی سے اپنے بال ترشواتا ہے اس کو زندہ نہیں چھوڑتا۔
وہ بادشاہ کے بال تراشنے لگا تو اچانک اس نے دیکھا کہ بادشاہ کے سر پر سینگ ہیں لیکن اپنی حیرت دبائے چپ چاپ اپنا کام کرتا رہا کام ختم کر کے جانے لگا تو بادشاہ پکار اٹھا ۔ ''اے جلاد بوڑھے کو قتل کردو'' بوڑھا خو فزدہ ہو کر بادشاہ کی منتیں کرنے لگا ۔ بادشاہ کو بوڑھے پر رحم آ گیا اور اس نے اسے چھوڑ دیا لیکن اس نے بوڑھے سے یہ قسم لی کہ وہ جیتے جی کبھی کسی سے اس با ت کا ذکر نہیں کریگا کہ بادشاہ کے سر پر سینگ ہیں'' اس کے بعد بہت دن گزر گئے۔ بوڑھے نے اپنی قسم یاد رکھی اور چپ سادھے رہا لیکن وہ راز تھا کہ بیچارے کو اندر ہی اندر کھائے جا رہا تھا۔ اس نے بوڑھے کا دن کا چین اور رات کا آرام حرام کر رکھا تھا۔ اب بوڑھے سے نہ رہا گیا۔ وہ اپنے گھر سے نکلا اور شہر کے باہر ایک ویران اور سنسان جگہ پر آیا۔ وہاں ایک سوکھا ہوا کنواں تھا۔ بوڑھے نے اس کنویں میں جھک کر تین بار پورے زور سے چیخ کر کہا۔
''بادشاہ کے سر پر سینگ ہیں۔'' یہ کہتے ہی بوڑھے کا پیٹ پھر اپنی اصلی حالت پر آ گیا اور راز کو اپنے اندر چھپا ئے رکھنے سے اس کو برابر جو تکلیف ہو رہی تھی وہ دور ہو گئی۔ بوڑھا ہشاش بشاش اپنے گھر لوٹ آیا۔ کچھ دنوں بعد اس کنویں کے اندر سے ایک خوبصورت سا بانس اُگ آیا۔ اس طرف سے گزرنے والے ایک چرواہے نے ا س بانس کو دیکھا اور اسے کا ٹ کر اس سے ایک بانسری بنا لی لیکن اس نے بانسری کو اپنے ہونٹوں سے لگا کر اپنی پسندیدہ دھن بجا نے کی کو شش کی تو بانسری کی آواز سن کر دنگ ر ہ گیا۔ بانسری سے آواز آ رہی تھی '' بادشاہ کے سر پر سینگ ہیں'' چرواہے نے بانسر ی کو بس میں لانے کی سخت کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکا۔ اس میں بار بار یہی نغمہ ابھر تا تھا۔ بانسری کا یہ نغمہ اڑتا ہوا پل بھر میں بادشاہ کے کانوں تک پہنچ گیا۔ اس نے حکم دیا کہ بو ڑھے نائی کو پکڑ کر لایا جائے۔ سپاہی فوراً جا کر بوڑھے کو پکڑ لائے اور اس کو بادشاہ کے سامنے لا کھڑا کیا۔ اس وقت اچانک کہیں دورسے پھر وہی نغمہ سنائی دیا۔
بادشاہ نے سو چا کہ شاید اجنبی فوجیں میری سرحدوں میں گھس آئی ہیں اور وہی مجھ کو بدنام کر رہی ہیں، یہ سو چ کر اس نے اپنی فو ج کو اسی طرف بھیج دیا جس طرف سے وہ نغمہ سنائی دے رہا تھا۔ سپاہیوں نے اس چراوہے کو پکڑ لیا اور اس کو بلا تاخیر بادشاہ کے سامنے حاضر کیا چرواہا واقعے سے بے خبر یہ سو چتا ہوا کہ شاید با دشاہ کو میرا نغمہ سننے کی خو اہش ہوئی ہے بادشاہ کے سامنے بے خو ف کھڑا تھا، بادشاہ نے بوڑھے نائی سے کڑک کر کہا۔ ''بول تو نے اپنی قسم توڑنے کی جرأت کیسے کی؟'' بوڑھے نے جواب دیا۔ ''بادشاہ سلامت! آپ میری جان بخش دیں تو عرض کروں۔'' ''اچھا بخش دی میں نے تیری جان، بول! ''بادشاہ نے گر ج کر کہا۔ بوڑھے نے سارا قصہ شروع سے آخر تک کہہ سنایا۔ پھر چرواہے نے بھی ساری بات بتائی۔ سارا حال معلوم ہونے کے بعد بادشاہ نے چرواہے سے بانسری چھین کر اس کو تو ڑا ڈالا اور بوڑھے نائی اور چرواہے دونوں کو محل سے نکلوا دیا لیکن بادشاہ کی سینگوں والی بات ایک زبان سے دوسری زبان پر منتقل ہوتی گئی ایک نسل سے دوسری نسل تک پہنچتی گئی۔
جیسے اب آپ تک پہنچی ہے بادشاہ کا راز نائی نے فاش کیا تھا جب کہ آج ہم جاگیرداروں، چوہدریوں، وڈیروں، سرداروں، کارخانے داروں، اور بیو رو کریسی مشتمل پاکستان کی اشرافیہ کے اس راز کو فاش کرینگے کہ کس طرح وہ پاکستان کے تمام اختیارات کی مالک بنی اور اس نے کس طرح اپنے اقتدار کی خاطر ملک کے اصل مالک عوام کو لاچار، لاغر، مجبور، بے بس، منقسم، غریب، کنگال کیا قائد اعظم کی وفات کے بعد ان سب کا اتحاد وجود میں آیا۔ اور یہ سب اس بات پر متفق اور متحد ہو گئے کہ اب پاکستان پر ہماری حکمرانی ہمیشہ کے لیے قائم ہونی چاہیے بیورو کریسی ان کا خاص خیال کرتی ہے یہ سب اپنے اپنے علاقوں کے با دشاہ ہیں ان کی مرضی کے خلاف پرندہ بھی پر مارنے کی جرأت نہیں کرسکتا یہ اپنا تسلط قائم رکھنے کے لیے ہر حد پار کر لیتے ہیں۔
ہر اسمبلی میں ان کی تعداد سب سے زیادہ ہوتی ہے یہ اتحاد انتہائی موقع پرست سوچ رکھتا ہے انتہائی ذہین اور خرید و فروخت کے ما ہر ہیں یہ اپنے مفادات کے لیے ہر قیمت ادا کرتے ہیں ملک میں انھوں نے صرف10% فیصد سر مایہ کاری کر رکھی ہے اور باہر ممالک میں 90% فیصد ملک میں بینکوں سے قرض لے کر کروڑوں اربوں کماتے ہیں اور وقت آنے پر تمام قرضے معاف بھی کروا لیتے ہیں پاکستان کی سیاست میں ان کا کردار ہمیشہ کلیدی رہا ہے پاکستان کی سیاست پر ان کی گرفت مضبو ط تر ہو چکی ہے یہ سب بغیر تاج و تخت کے بادشاہ ہیں۔ بھارت نے آزادی کے فوراً بعد ملک سے جاگیرداری نظام کا خاتمہ کر دیا گائوں گائوں سڑکوں کا جال بچھا دیا ہر گائوں کو بجلی مہیا کر دی ہر گائوں میں اسکول قائم کر دیے گئے سیلبس کو نئے زمانے کے تقاضے کے مطابق ترتیب دے دیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ملک میں تعلیم عام ہو گئی لوگ با شعور، سمجھ دار، اور اپنے حقوق سے با خبر ہو گئے جب کہ اس اتحاد نے جاگیرداری، سرداری نظام کو ختم کر نے کے بجائے اسے اور مضبوط ہونے دیا۔
اسکول کھلنے کے بجائے جگہ جگہ مدرسے کھلنا شروع ہوگئے دیہاتوں میں جہاں اسکول کھلے تھے بعد میں وہ بھی ذاتی بیٹھکوں اور اصطبل میں تبدیل ہو گئے شہروں میں برادری سسٹم کو بڑھاوا دیا گیا عوام کو کبھی متحد ہونے نہ دیا گیا کبھی مذہب، کبھی نسل کبھی زبان کی بنیاد پر لوگوں کو لڑاتے رہے اور انھیں تقسیم کرتے رہے سندھ پختوانخوا میں پنجاب کے خلاف نفرت کے بیج بوئے گئے منفی پروپیگنڈا کیا گیا ملک میں چار بار آمریت کا دور دورہ رہا نتیجہ میں تمام ادارے تباہ ہو گئے لوگ تقسیم در تقسیم ہو تے چلے گئے ہم ایک قوم بننے کی بجائے بھیڑ میں تبدیل ہو گئے تعلیمی نظام تباہ کر دیا گیا سرکاری اسکولوں میں سلیبس 1857 کے زمانے کا پڑھایا جاتا رہا جب کہ انگلش میڈیم اعلیٰ اسکولوں کی فیس اس قدر زیادہ کر دی گئی کہ عام آدمی اپنے بچوں کو ان اسکولوں میں پڑھانے کا سو چ بھی نہ سکے جان بوجھ کر عام لوگوں کو پینے کے لیے اتنا زہریلا پانی مہیا کیا گیا کہ صرف سندھ کے گائوں میں ہر چو تھا آدمی ہیپا ٹائٹس B اور C میں مبتلا ہو گیا ہے ملک کی جمہوری جماعتوں کو جتنا کچلا جا سکتا تھا کچلا گیا ان کو جتنا تقسیم کیا جا سکتا تھا تقسیم کر دیا گیا دوسری جانب انتہا پسند جماعتوں کو کام کرنے کی چھوٹ دے دی گئی جس کی وجہ سے یہ عناصر گائوں گائوں اپنا کام کر رہے ہیں۔ نتیجہ سب کے سامنے ہیں اشرافیہ جشن منائو ، قہقہے لگائو، تم کا میاب ہو گئے ہو اب تمہارے اقتدار کو کوئی خطرہ نہیں ملک کے اصل مالک عوام اب صرف اپنی زندگیاں بچانے کی فکر میں ہیں تم جیت گئے عوام ہار گئے۔
وہ بادشاہ کے بال تراشنے لگا تو اچانک اس نے دیکھا کہ بادشاہ کے سر پر سینگ ہیں لیکن اپنی حیرت دبائے چپ چاپ اپنا کام کرتا رہا کام ختم کر کے جانے لگا تو بادشاہ پکار اٹھا ۔ ''اے جلاد بوڑھے کو قتل کردو'' بوڑھا خو فزدہ ہو کر بادشاہ کی منتیں کرنے لگا ۔ بادشاہ کو بوڑھے پر رحم آ گیا اور اس نے اسے چھوڑ دیا لیکن اس نے بوڑھے سے یہ قسم لی کہ وہ جیتے جی کبھی کسی سے اس با ت کا ذکر نہیں کریگا کہ بادشاہ کے سر پر سینگ ہیں'' اس کے بعد بہت دن گزر گئے۔ بوڑھے نے اپنی قسم یاد رکھی اور چپ سادھے رہا لیکن وہ راز تھا کہ بیچارے کو اندر ہی اندر کھائے جا رہا تھا۔ اس نے بوڑھے کا دن کا چین اور رات کا آرام حرام کر رکھا تھا۔ اب بوڑھے سے نہ رہا گیا۔ وہ اپنے گھر سے نکلا اور شہر کے باہر ایک ویران اور سنسان جگہ پر آیا۔ وہاں ایک سوکھا ہوا کنواں تھا۔ بوڑھے نے اس کنویں میں جھک کر تین بار پورے زور سے چیخ کر کہا۔
''بادشاہ کے سر پر سینگ ہیں۔'' یہ کہتے ہی بوڑھے کا پیٹ پھر اپنی اصلی حالت پر آ گیا اور راز کو اپنے اندر چھپا ئے رکھنے سے اس کو برابر جو تکلیف ہو رہی تھی وہ دور ہو گئی۔ بوڑھا ہشاش بشاش اپنے گھر لوٹ آیا۔ کچھ دنوں بعد اس کنویں کے اندر سے ایک خوبصورت سا بانس اُگ آیا۔ اس طرف سے گزرنے والے ایک چرواہے نے ا س بانس کو دیکھا اور اسے کا ٹ کر اس سے ایک بانسری بنا لی لیکن اس نے بانسری کو اپنے ہونٹوں سے لگا کر اپنی پسندیدہ دھن بجا نے کی کو شش کی تو بانسری کی آواز سن کر دنگ ر ہ گیا۔ بانسری سے آواز آ رہی تھی '' بادشاہ کے سر پر سینگ ہیں'' چرواہے نے بانسر ی کو بس میں لانے کی سخت کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکا۔ اس میں بار بار یہی نغمہ ابھر تا تھا۔ بانسری کا یہ نغمہ اڑتا ہوا پل بھر میں بادشاہ کے کانوں تک پہنچ گیا۔ اس نے حکم دیا کہ بو ڑھے نائی کو پکڑ کر لایا جائے۔ سپاہی فوراً جا کر بوڑھے کو پکڑ لائے اور اس کو بادشاہ کے سامنے لا کھڑا کیا۔ اس وقت اچانک کہیں دورسے پھر وہی نغمہ سنائی دیا۔
بادشاہ نے سو چا کہ شاید اجنبی فوجیں میری سرحدوں میں گھس آئی ہیں اور وہی مجھ کو بدنام کر رہی ہیں، یہ سو چ کر اس نے اپنی فو ج کو اسی طرف بھیج دیا جس طرف سے وہ نغمہ سنائی دے رہا تھا۔ سپاہیوں نے اس چراوہے کو پکڑ لیا اور اس کو بلا تاخیر بادشاہ کے سامنے حاضر کیا چرواہا واقعے سے بے خبر یہ سو چتا ہوا کہ شاید با دشاہ کو میرا نغمہ سننے کی خو اہش ہوئی ہے بادشاہ کے سامنے بے خو ف کھڑا تھا، بادشاہ نے بوڑھے نائی سے کڑک کر کہا۔ ''بول تو نے اپنی قسم توڑنے کی جرأت کیسے کی؟'' بوڑھے نے جواب دیا۔ ''بادشاہ سلامت! آپ میری جان بخش دیں تو عرض کروں۔'' ''اچھا بخش دی میں نے تیری جان، بول! ''بادشاہ نے گر ج کر کہا۔ بوڑھے نے سارا قصہ شروع سے آخر تک کہہ سنایا۔ پھر چرواہے نے بھی ساری بات بتائی۔ سارا حال معلوم ہونے کے بعد بادشاہ نے چرواہے سے بانسری چھین کر اس کو تو ڑا ڈالا اور بوڑھے نائی اور چرواہے دونوں کو محل سے نکلوا دیا لیکن بادشاہ کی سینگوں والی بات ایک زبان سے دوسری زبان پر منتقل ہوتی گئی ایک نسل سے دوسری نسل تک پہنچتی گئی۔
جیسے اب آپ تک پہنچی ہے بادشاہ کا راز نائی نے فاش کیا تھا جب کہ آج ہم جاگیرداروں، چوہدریوں، وڈیروں، سرداروں، کارخانے داروں، اور بیو رو کریسی مشتمل پاکستان کی اشرافیہ کے اس راز کو فاش کرینگے کہ کس طرح وہ پاکستان کے تمام اختیارات کی مالک بنی اور اس نے کس طرح اپنے اقتدار کی خاطر ملک کے اصل مالک عوام کو لاچار، لاغر، مجبور، بے بس، منقسم، غریب، کنگال کیا قائد اعظم کی وفات کے بعد ان سب کا اتحاد وجود میں آیا۔ اور یہ سب اس بات پر متفق اور متحد ہو گئے کہ اب پاکستان پر ہماری حکمرانی ہمیشہ کے لیے قائم ہونی چاہیے بیورو کریسی ان کا خاص خیال کرتی ہے یہ سب اپنے اپنے علاقوں کے با دشاہ ہیں ان کی مرضی کے خلاف پرندہ بھی پر مارنے کی جرأت نہیں کرسکتا یہ اپنا تسلط قائم رکھنے کے لیے ہر حد پار کر لیتے ہیں۔
ہر اسمبلی میں ان کی تعداد سب سے زیادہ ہوتی ہے یہ اتحاد انتہائی موقع پرست سوچ رکھتا ہے انتہائی ذہین اور خرید و فروخت کے ما ہر ہیں یہ اپنے مفادات کے لیے ہر قیمت ادا کرتے ہیں ملک میں انھوں نے صرف10% فیصد سر مایہ کاری کر رکھی ہے اور باہر ممالک میں 90% فیصد ملک میں بینکوں سے قرض لے کر کروڑوں اربوں کماتے ہیں اور وقت آنے پر تمام قرضے معاف بھی کروا لیتے ہیں پاکستان کی سیاست میں ان کا کردار ہمیشہ کلیدی رہا ہے پاکستان کی سیاست پر ان کی گرفت مضبو ط تر ہو چکی ہے یہ سب بغیر تاج و تخت کے بادشاہ ہیں۔ بھارت نے آزادی کے فوراً بعد ملک سے جاگیرداری نظام کا خاتمہ کر دیا گائوں گائوں سڑکوں کا جال بچھا دیا ہر گائوں کو بجلی مہیا کر دی ہر گائوں میں اسکول قائم کر دیے گئے سیلبس کو نئے زمانے کے تقاضے کے مطابق ترتیب دے دیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ملک میں تعلیم عام ہو گئی لوگ با شعور، سمجھ دار، اور اپنے حقوق سے با خبر ہو گئے جب کہ اس اتحاد نے جاگیرداری، سرداری نظام کو ختم کر نے کے بجائے اسے اور مضبوط ہونے دیا۔
اسکول کھلنے کے بجائے جگہ جگہ مدرسے کھلنا شروع ہوگئے دیہاتوں میں جہاں اسکول کھلے تھے بعد میں وہ بھی ذاتی بیٹھکوں اور اصطبل میں تبدیل ہو گئے شہروں میں برادری سسٹم کو بڑھاوا دیا گیا عوام کو کبھی متحد ہونے نہ دیا گیا کبھی مذہب، کبھی نسل کبھی زبان کی بنیاد پر لوگوں کو لڑاتے رہے اور انھیں تقسیم کرتے رہے سندھ پختوانخوا میں پنجاب کے خلاف نفرت کے بیج بوئے گئے منفی پروپیگنڈا کیا گیا ملک میں چار بار آمریت کا دور دورہ رہا نتیجہ میں تمام ادارے تباہ ہو گئے لوگ تقسیم در تقسیم ہو تے چلے گئے ہم ایک قوم بننے کی بجائے بھیڑ میں تبدیل ہو گئے تعلیمی نظام تباہ کر دیا گیا سرکاری اسکولوں میں سلیبس 1857 کے زمانے کا پڑھایا جاتا رہا جب کہ انگلش میڈیم اعلیٰ اسکولوں کی فیس اس قدر زیادہ کر دی گئی کہ عام آدمی اپنے بچوں کو ان اسکولوں میں پڑھانے کا سو چ بھی نہ سکے جان بوجھ کر عام لوگوں کو پینے کے لیے اتنا زہریلا پانی مہیا کیا گیا کہ صرف سندھ کے گائوں میں ہر چو تھا آدمی ہیپا ٹائٹس B اور C میں مبتلا ہو گیا ہے ملک کی جمہوری جماعتوں کو جتنا کچلا جا سکتا تھا کچلا گیا ان کو جتنا تقسیم کیا جا سکتا تھا تقسیم کر دیا گیا دوسری جانب انتہا پسند جماعتوں کو کام کرنے کی چھوٹ دے دی گئی جس کی وجہ سے یہ عناصر گائوں گائوں اپنا کام کر رہے ہیں۔ نتیجہ سب کے سامنے ہیں اشرافیہ جشن منائو ، قہقہے لگائو، تم کا میاب ہو گئے ہو اب تمہارے اقتدار کو کوئی خطرہ نہیں ملک کے اصل مالک عوام اب صرف اپنی زندگیاں بچانے کی فکر میں ہیں تم جیت گئے عوام ہار گئے۔