ہم سب کا کراچی
کراچی پاکستان کے تمام صوبوں، شہروں، قصبوں یہاں تک کہ اداروں تک کو رواں دواں رکھنے میں اپنا مرکزی کردار ادا کر رہا ہے۔
ہمیں اس فکر سے آزاد ہونے کے لیے یہ جاننا اور یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ یہ شہرکس کا ہے؟ میں شہرکراچی کی بات کر رہی ہوں اور اپنے بیشترکالموں کی سطور میں اورکبھی بین السطور اپنا مدعا بیان بھی کرچکی ہوں کہ یہ شہر سب کا ہے لیکن۔۔۔۔کسی کا بھی نہیں !کسی بھی جگہ کی تعمیر وترقی یا اس میں بہتری کرنے کے لیے اسے Own کرنے کا عمل بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے، جب کہ کراچی کے حوالے سے اس کی اونرشپ یا حق ملکیت کا صحیح فیصلہ نہ ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم بے یقینی کے ساتھ مستقبل کی دوڑ میں الجھ کر رہ گئے ہیں۔
اب موجودہ صورتحال کو ہی دیکھ لیجیے ناانصافیاں آج بھی جاری ہیں۔ حالیہ دنوں میں پبلک سروس کمیشن کے تحت 350 سے زائد نوکریاں دی گئیں، جن میں اکثریت غیر اردو بولنے والوں کی تھی ۔ کوٹہ سسٹم کا پورا پورا اطلاق سندھ کی حکومت صرف اندرون سندھ کے دیہی علاقوں میں بھرپور انداز کے ساتھ کرکے وہاں کے ڈومیسائل رکھنے والوں پرکر رہی ہے۔ اس قسم کے کیے جانے والے اقدامات ریاست کی غیر ذمے داری سمجھے جاتے ہیں۔
یہی نہیں صوبے میں ایسے افسران لگائے جاتے ہیں جو جعلی ڈومیسائل بنانے میں مدد فراہم کرتے ہیں اور ذمے دار ادارے اس بات کا نوٹس تک نہیں لیتے اس کی وجہ یہی ہے کہ اعلیٰ عہدیداران کی اکثریت کا تعلق بھی اندرون سندھ سے ہوتا ہے جو خود بھی دیہی کوٹے پر آتے ہیں لہٰذا اس میں برادری آڑے آتی ہے یا یوں کہہ لیجیے کہ دیہی کوٹے کو نوازنے کے لیے صوبے میں خاموشی کا قانون نافذ کردیا جاتا ہے۔
میں ایک بات اس کے ساتھ ضرور بتانا چاہوں گی کہ میرا جس پارٹی سے تعلق ہے وہ 80ء کی دہائی میں اس وقت معرض وجود میں آئی جب ناانصافیوں اور حق تلفی کے سبب صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کے باوجود سقوط ڈھاکہ کے واقعے کو دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ اپنے حقوق کی آواز اٹھاتے رہیں گے اور اسی سرزمین پہ قدم جماکے کھڑے رہیں گے جسے ہمارے بزرگ اپنی جانیں دے کر ہمارے سپرد کرگئے ہیں۔ کسی بھی معاشرے میں انصاف کی عدم فراہمی بے یقینی کا سبب بنتی ہے۔
میں نہیں کہتی کہ وہ دودھ سے دھلی جماعت تھی لیکن اتنا ضرور جانتی ہوں کہ چند کمزوریوں کے باوجود اس کے مطالبات حقائق پر مبنی تھے اور آج بھی ہیں۔ یہ بات بھی بڑے وثوق سے کہتی ہوں کہ ماضی میں اس نسل کی پیڑھی نے جس جوش و جذبے کے ساتھ پاکستان بنایا تھا یہ نسل اس کو بچانے میں بڑی معاون و مددگار ثابت ہوگی کیونکہ ہم پاکستان کو قائم و دائم دیکھنا چاہتے ہیں۔
ہم نہ بحیرہ عرب میں غرق ہوں گے اور نہ ہی کوئی دوسرا ملک ہمارا مطمع نظر ہوگا ۔ روزگار کے لیے وقتی طور تو دوسرے ملکوں کی راہ لی جاسکتی ہے لیکن ہم کہیں بھی دوسرے درجے کا شہری بننے کو تیار نہیں ۔ پاکستان جن نامساعد حالات سے گزر رہا ہے، اس سے بچانے کی تگ و دو اسی لیے ہے کہ جینے کے ساتھ ساتھ ہمیں مرنا بھی یہیں ہے اس لیے آج بھی ناانصافیوں کے خلاف صف آرا ہیں۔
ہم نے ہمیشہ حوصلے سے کام لیا ہے۔ کوٹہ سسٹم کو طوق نہیں سمجھا تھا بلکہ دل بڑا کرکے سینے سے لگایا تھا اور یہی چاہا تھا کہ اگر ہمارے ساتھ رہنے والے کچھ طبقے تعلیم سے محروم ہیں تو علم سے ضرور سیراب ہو سکیں اس لیے نہیں کہ ہمیں ہی دیوار سے لگا دیا جائے۔
ہماری تقسیم در تقسیم بھی اسی دہشتگردی کا شاخسانہ ہے کیونکہ وہ طاقت جانتی ہے کہ ہم ہی ہر اول دستہ بن کر کھڑے ہوئے تھے جب علم کے نام پر بچوں اور جوانوں کو خودکش جیکٹ پہنا کر جنت کے راستے دکھائے جا رہے تھے ممکن ہے کہ پاکستان مخالف منفی قوتیں ہماری صفوں میں بھی کہیں شامل ہوچکی ہوں لیکن اگر ہمیں انصاف اور ہمارا صحیح حق ملتا رہے تو شاید یہ سازشیں راکھ کا ڈھیر بن جائیں۔
ہماری جنگ کسی قومیت سے نہیں بلکہ ہمارا احتجاج ان ظالموں سے ہے جو ہمیں بے زماں و مکاں سمجھتے ہیں اور اس کے لیے کبھی قانون کا سہارا لے کر ،کبھی پیسے کی طاقت کے بل بوتے پر، کسی کا حق زندگی اور حق آزادی سلب کرنا اپنا نصب العین سمجھتے ہیں جب کہ ہمارے وجود کو تسلیم کرنا ہی ان کی بھی کامیابی و کامرانی ہے۔ انتظامی امور کی درستگی ان گمبھیر مسائل کا حل ہے جو کسی سازش کے نتیجے میں پیدا کیے گئے۔ گروہ بندیاں ایک دوسرے سے منافرت وطن عزیز کو گھن کی طرح چاٹ رہی ہے جب کہ ان مسائل کا حل موجود ہے۔
میں نے آپ کے سامنے ملک اور کراچی کے ایک خاکے کا مختصر سا پس منظر پیش کرنے کی کوشش کی ہے جو یقینا حالات کی پوری عکاسی تو نہیں لیکن ان باتوں کا حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں لہٰذا میں سمجھتی ہوں کہ اب ہونے والی ناانصافیاں کسی بھی سطح پر صرف نظر نہ کی جائیں لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اس شہر کے ساتھ ہونے والے تمام غیر منصفانہ فیصلے اور ناانصافیوں کا خاتمہ کیا جائے بلکہ ایسے ٹھوس اقدامات کیے جائیں جو کراچی کو بدامنی سے پاک اور معیشت و روزگار میں تسلسل کو برقرار رکھ سکیں ۔کراچی کے حوالے سے میری تجویزیہ ہے کہ اس کو ایک الگ حیثیت دی جائے کیونکہ اس کے بڑھتے ہوئے حجم کو کسی ایک کمشنری نظام کے تحت نہیں چلایا جاسکتا ۔ لہٰذا صوبے کی ایڈمنسٹریشن سے نکال کر اسے ایک علیحدہ ایڈمنسٹریٹو بلاک کا درجہ دے دیا جائے جسے صوبہ سندھ اور وفاقی حکومت مشترکہ طور پر اس کا نظم و نسق ہینڈل کریں۔
کراچی کا تقریباً نصف سے زائد رقبہ وفاقی حکومت کے زیر کنٹرول ہے اور یہی وہ نکتہ ہے جو صوبہ اور وفاق کے درمیان وسائل کے حصول اور اس کی تقسیم میں تنازعات کو جنم دیتا ہے۔ اس کے لیے وفاقی صوبائی اور شہری منتخب نمایندوں کے علاوہ اعلیٰ انتظامی عہدیداران، صنعتکاروں کی انجمنوں کے نمایندے و دیگر وفاقی، صوبائی اور مختلف ترقیاتی اتھارٹیز اور اداروں کے سربراہوں پر مشتمل ایک بورڈ تشکیل دے دیا جائے جو انتظامی اور مالی لحاظ سے خود مختاریت رکھتا ہو۔
ملک میں جہاں پٹواریوں کو زمین کی رکھوالی کا راجہ بنا رکھا ہے وہیں کراچی میں زمینوں کے معاملات بھی بہت پیچیدہ ہیں اور مختلف اداروں کے علیحدہ علیحدہ کھاتوں میں ان کا اندراج ہے ، یہی وجہ ہے کہ ان کا ریکارڈ موجودہ نظام میں ایک جگہ یکجا ہونا مشکل نظر آتا ہے لہٰذا رجسٹری آفس جہاں املاک کی رجسٹریشن کی جاتی ہے صرف وہی ایک جگہ ایسی ہے جہاں تمام ریکارڈ دستیاب ہوسکتا ہے۔
پینے کے پانی جیسے بنیادی مسائل بھی تاخیر کے سبب اخراجات بڑھنے کی صورت میں صوبائی اور وفاقی حکومت کے درمیان پنگ پونگ بال بنے ہوئے ہیں جب کہ یہ ذمے داری خالصتاً شہری ادارے کو دے دی جاتی تو بہتر رہتی۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ کراچی کے وسائل سے سندھ ڈویلپمنٹ اتھارٹی جیسے ادارے بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے، اس قسم کے فیصلوں سے کراچی کے شہریوں کے استحصال اور اشتعال میں مزید اضافہ کرے گا جیسے عوام آج بھی ہکا بکا ہیں کہ سمندر تو کراچی میں ہے لیکن نیول ہیڈ کوارٹر اسلام آباد لے جایا گیا۔ ترقیاتی کاموں میں وقت کا ضیاع عام بات ہے جس کا سب سے بڑا ثبوت میٹروبس کے لیے تعمیر کی جانے والی سڑکیں، برج اور انڈرپاس وغیرہ تو دوسری جانب K-4 جیسے منصوبے متواتر تعطل کا شکار چلے آرہے ہیں جب کہ مالیاتی تخمینوں میں الگ سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
ایک بات یاد رکھیں کہ کراچی پاکستان کے تمام صوبوں، شہروں، قصبوں یہاں تک کہ اداروں تک کو رواں دواں رکھنے میں اپنا مرکزی کردار ادا کر رہا ہے۔ بالکل ایسے ہی جس طرح ریل کو اس کا انجن چلاتا ہے یہ پورے ملک کی معیشت کو تن تنہا چلا رہا ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ارباب اختیار اپنی ذمے داریوں کا احساس کریں کیونکہ وقت بہت کچھ تبدیل کردیتا ہے۔
اب موجودہ صورتحال کو ہی دیکھ لیجیے ناانصافیاں آج بھی جاری ہیں۔ حالیہ دنوں میں پبلک سروس کمیشن کے تحت 350 سے زائد نوکریاں دی گئیں، جن میں اکثریت غیر اردو بولنے والوں کی تھی ۔ کوٹہ سسٹم کا پورا پورا اطلاق سندھ کی حکومت صرف اندرون سندھ کے دیہی علاقوں میں بھرپور انداز کے ساتھ کرکے وہاں کے ڈومیسائل رکھنے والوں پرکر رہی ہے۔ اس قسم کے کیے جانے والے اقدامات ریاست کی غیر ذمے داری سمجھے جاتے ہیں۔
یہی نہیں صوبے میں ایسے افسران لگائے جاتے ہیں جو جعلی ڈومیسائل بنانے میں مدد فراہم کرتے ہیں اور ذمے دار ادارے اس بات کا نوٹس تک نہیں لیتے اس کی وجہ یہی ہے کہ اعلیٰ عہدیداران کی اکثریت کا تعلق بھی اندرون سندھ سے ہوتا ہے جو خود بھی دیہی کوٹے پر آتے ہیں لہٰذا اس میں برادری آڑے آتی ہے یا یوں کہہ لیجیے کہ دیہی کوٹے کو نوازنے کے لیے صوبے میں خاموشی کا قانون نافذ کردیا جاتا ہے۔
میں ایک بات اس کے ساتھ ضرور بتانا چاہوں گی کہ میرا جس پارٹی سے تعلق ہے وہ 80ء کی دہائی میں اس وقت معرض وجود میں آئی جب ناانصافیوں اور حق تلفی کے سبب صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کے باوجود سقوط ڈھاکہ کے واقعے کو دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ اپنے حقوق کی آواز اٹھاتے رہیں گے اور اسی سرزمین پہ قدم جماکے کھڑے رہیں گے جسے ہمارے بزرگ اپنی جانیں دے کر ہمارے سپرد کرگئے ہیں۔ کسی بھی معاشرے میں انصاف کی عدم فراہمی بے یقینی کا سبب بنتی ہے۔
میں نہیں کہتی کہ وہ دودھ سے دھلی جماعت تھی لیکن اتنا ضرور جانتی ہوں کہ چند کمزوریوں کے باوجود اس کے مطالبات حقائق پر مبنی تھے اور آج بھی ہیں۔ یہ بات بھی بڑے وثوق سے کہتی ہوں کہ ماضی میں اس نسل کی پیڑھی نے جس جوش و جذبے کے ساتھ پاکستان بنایا تھا یہ نسل اس کو بچانے میں بڑی معاون و مددگار ثابت ہوگی کیونکہ ہم پاکستان کو قائم و دائم دیکھنا چاہتے ہیں۔
ہم نہ بحیرہ عرب میں غرق ہوں گے اور نہ ہی کوئی دوسرا ملک ہمارا مطمع نظر ہوگا ۔ روزگار کے لیے وقتی طور تو دوسرے ملکوں کی راہ لی جاسکتی ہے لیکن ہم کہیں بھی دوسرے درجے کا شہری بننے کو تیار نہیں ۔ پاکستان جن نامساعد حالات سے گزر رہا ہے، اس سے بچانے کی تگ و دو اسی لیے ہے کہ جینے کے ساتھ ساتھ ہمیں مرنا بھی یہیں ہے اس لیے آج بھی ناانصافیوں کے خلاف صف آرا ہیں۔
ہم نے ہمیشہ حوصلے سے کام لیا ہے۔ کوٹہ سسٹم کو طوق نہیں سمجھا تھا بلکہ دل بڑا کرکے سینے سے لگایا تھا اور یہی چاہا تھا کہ اگر ہمارے ساتھ رہنے والے کچھ طبقے تعلیم سے محروم ہیں تو علم سے ضرور سیراب ہو سکیں اس لیے نہیں کہ ہمیں ہی دیوار سے لگا دیا جائے۔
ہماری تقسیم در تقسیم بھی اسی دہشتگردی کا شاخسانہ ہے کیونکہ وہ طاقت جانتی ہے کہ ہم ہی ہر اول دستہ بن کر کھڑے ہوئے تھے جب علم کے نام پر بچوں اور جوانوں کو خودکش جیکٹ پہنا کر جنت کے راستے دکھائے جا رہے تھے ممکن ہے کہ پاکستان مخالف منفی قوتیں ہماری صفوں میں بھی کہیں شامل ہوچکی ہوں لیکن اگر ہمیں انصاف اور ہمارا صحیح حق ملتا رہے تو شاید یہ سازشیں راکھ کا ڈھیر بن جائیں۔
ہماری جنگ کسی قومیت سے نہیں بلکہ ہمارا احتجاج ان ظالموں سے ہے جو ہمیں بے زماں و مکاں سمجھتے ہیں اور اس کے لیے کبھی قانون کا سہارا لے کر ،کبھی پیسے کی طاقت کے بل بوتے پر، کسی کا حق زندگی اور حق آزادی سلب کرنا اپنا نصب العین سمجھتے ہیں جب کہ ہمارے وجود کو تسلیم کرنا ہی ان کی بھی کامیابی و کامرانی ہے۔ انتظامی امور کی درستگی ان گمبھیر مسائل کا حل ہے جو کسی سازش کے نتیجے میں پیدا کیے گئے۔ گروہ بندیاں ایک دوسرے سے منافرت وطن عزیز کو گھن کی طرح چاٹ رہی ہے جب کہ ان مسائل کا حل موجود ہے۔
میں نے آپ کے سامنے ملک اور کراچی کے ایک خاکے کا مختصر سا پس منظر پیش کرنے کی کوشش کی ہے جو یقینا حالات کی پوری عکاسی تو نہیں لیکن ان باتوں کا حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں لہٰذا میں سمجھتی ہوں کہ اب ہونے والی ناانصافیاں کسی بھی سطح پر صرف نظر نہ کی جائیں لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اس شہر کے ساتھ ہونے والے تمام غیر منصفانہ فیصلے اور ناانصافیوں کا خاتمہ کیا جائے بلکہ ایسے ٹھوس اقدامات کیے جائیں جو کراچی کو بدامنی سے پاک اور معیشت و روزگار میں تسلسل کو برقرار رکھ سکیں ۔کراچی کے حوالے سے میری تجویزیہ ہے کہ اس کو ایک الگ حیثیت دی جائے کیونکہ اس کے بڑھتے ہوئے حجم کو کسی ایک کمشنری نظام کے تحت نہیں چلایا جاسکتا ۔ لہٰذا صوبے کی ایڈمنسٹریشن سے نکال کر اسے ایک علیحدہ ایڈمنسٹریٹو بلاک کا درجہ دے دیا جائے جسے صوبہ سندھ اور وفاقی حکومت مشترکہ طور پر اس کا نظم و نسق ہینڈل کریں۔
کراچی کا تقریباً نصف سے زائد رقبہ وفاقی حکومت کے زیر کنٹرول ہے اور یہی وہ نکتہ ہے جو صوبہ اور وفاق کے درمیان وسائل کے حصول اور اس کی تقسیم میں تنازعات کو جنم دیتا ہے۔ اس کے لیے وفاقی صوبائی اور شہری منتخب نمایندوں کے علاوہ اعلیٰ انتظامی عہدیداران، صنعتکاروں کی انجمنوں کے نمایندے و دیگر وفاقی، صوبائی اور مختلف ترقیاتی اتھارٹیز اور اداروں کے سربراہوں پر مشتمل ایک بورڈ تشکیل دے دیا جائے جو انتظامی اور مالی لحاظ سے خود مختاریت رکھتا ہو۔
ملک میں جہاں پٹواریوں کو زمین کی رکھوالی کا راجہ بنا رکھا ہے وہیں کراچی میں زمینوں کے معاملات بھی بہت پیچیدہ ہیں اور مختلف اداروں کے علیحدہ علیحدہ کھاتوں میں ان کا اندراج ہے ، یہی وجہ ہے کہ ان کا ریکارڈ موجودہ نظام میں ایک جگہ یکجا ہونا مشکل نظر آتا ہے لہٰذا رجسٹری آفس جہاں املاک کی رجسٹریشن کی جاتی ہے صرف وہی ایک جگہ ایسی ہے جہاں تمام ریکارڈ دستیاب ہوسکتا ہے۔
پینے کے پانی جیسے بنیادی مسائل بھی تاخیر کے سبب اخراجات بڑھنے کی صورت میں صوبائی اور وفاقی حکومت کے درمیان پنگ پونگ بال بنے ہوئے ہیں جب کہ یہ ذمے داری خالصتاً شہری ادارے کو دے دی جاتی تو بہتر رہتی۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ کراچی کے وسائل سے سندھ ڈویلپمنٹ اتھارٹی جیسے ادارے بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے، اس قسم کے فیصلوں سے کراچی کے شہریوں کے استحصال اور اشتعال میں مزید اضافہ کرے گا جیسے عوام آج بھی ہکا بکا ہیں کہ سمندر تو کراچی میں ہے لیکن نیول ہیڈ کوارٹر اسلام آباد لے جایا گیا۔ ترقیاتی کاموں میں وقت کا ضیاع عام بات ہے جس کا سب سے بڑا ثبوت میٹروبس کے لیے تعمیر کی جانے والی سڑکیں، برج اور انڈرپاس وغیرہ تو دوسری جانب K-4 جیسے منصوبے متواتر تعطل کا شکار چلے آرہے ہیں جب کہ مالیاتی تخمینوں میں الگ سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
ایک بات یاد رکھیں کہ کراچی پاکستان کے تمام صوبوں، شہروں، قصبوں یہاں تک کہ اداروں تک کو رواں دواں رکھنے میں اپنا مرکزی کردار ادا کر رہا ہے۔ بالکل ایسے ہی جس طرح ریل کو اس کا انجن چلاتا ہے یہ پورے ملک کی معیشت کو تن تنہا چلا رہا ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ارباب اختیار اپنی ذمے داریوں کا احساس کریں کیونکہ وقت بہت کچھ تبدیل کردیتا ہے۔