خبر بری اور بڑی ہونی چاہیے
ایسی باتیں پہلے بھی ہوتی رہی ہیں، اب بھی ہو رہی ہیں، خدا کرے آیندہ بھی ہوتی رہیں۔
جس طرح ان دنوں دھلائی پوڈر بیچنے والے بتا رہے ہیں کہ داغ تو اچھے ہوتے ہیں اسی طرح ضروری نہیں کہ بری خبر ہمیشہ بری ہی ہو وہ اچھی بھی تو ہو سکتی ہے۔بلکہ خبر جتنی بڑی اور بری ہو اتنی ہی اچھی۔ایک بڑی اور بری خبر کا کمبل اصل خبروں اور مسائل کو ایسے ڈھانپتا ہے جیسے مرغی چوزوں کو۔
اب پلوامہ کے خود کش حملے میں چوالیس بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کو ہی لے لیں۔دونوں ممالک کے لیے یہ کس قدر مفید ہے۔میڈیا کے تو خیر وارے نیارے ہیں ہی مگر بھارت میں لوک سبھا چناؤ میں حصہ لینے والی جماعتوں کو پلوامہ کی شکل میں گویا ووٹ چھاپ مشین مل گئی۔کوئی جماعت اس خبر کا فٹ بال بنا رہی ہے تو کوئی لٹھ بنا کے دوسرے کے پیچھے بھاگ رہی ہے۔
شرم نہیں آتی دیش کو آکرمن (جارحیت)کا سامنا ہے اور تم ہم سے پوچھ رہے ہو، مودی جی روجگار کے وعدے کا کیا ہوا ، اچھے دن آنے سے پہلے ہی کہاں مر گئے، اگر دیش واقعی ترقی کر رہا ہے تو قرض میں ڈوبے کسانوں کی خود کشیاں کم ہونے کے بجائے بڑھ کیوں رہی ہیں؟دوستو یہ ایسے فضول مدعے اٹھانے کا نہیں بلکہ ایک ساتھ کندھے سے کندھا ملانے کا سمے ہے۔ان مسائل پر تو کبھی بھی بات ہو سکتی ہے۔ اس وقت سوال ہے دیش کو آتنک واد سے بچانے کا۔ جے جوان ، جے کسان ، جے ہند۔
پاکستان میں بھی چودہ فروری کے بعد یہ سوال اٹھانا اچھا نہیں لگتا کہ ساہیوال سانحے کی انکوائری کس مرحلے میں پہنچی ؟ یار یہاں پاکستان کو بھارتی دباؤ اور دھمکیوں کا سامنا ہے اور تمہیں ساہیوال سانحے کی پڑی ہے۔کراچی میں ایک ہی خاندان کے چار بچے اور ماں ایک ہوٹل کا کھانا کھاتے ہی اللہ کو پیارے ہوگئے ، ابھی دو تین مہینے پہلے ہی ایک اور خاندان کے دو بچے ایک مشہور ریسٹورنٹ کا کھانا کھا کے مر گئے تھے۔سندھ فوڈ اتھارٹی کہاں مر گئی ہے ؟ ریسٹورنٹس کے مالکان کیسے چھوٹ جاتے ہیں ؟ جی بھائی ہم آپ کا دکھ سمجھتے ہیں مگر یہ بھی تو دیکھیے کہ پلوامہ کی واردات پاکستان کے سر منڈھنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ ہم اس صورتِ حال سے نکلیں تو ریسٹورنٹس کے کھانے کے معیار پر بھی دھیان دیں۔
اور یہ سندھ اسمبلی کے اسپیکر کو پنک پینتھر اسٹائل میں ڈراما کر کے پکڑنے کی کیا ضرورت تھی؟ کیا کراچی میں ان کے گھر سے یا پھر اسلام آباد سے کراچی پہنچنے پر ایرپورٹ سے نہیں پکڑا جا سکتا تھا ؟ یار یہاں پاکستان کو بھارت، افغانستان اور اب تو ایران کی طرف سے بھی دھمکیاں مل رہی ہیں۔ایسے نازک موقعے پر حکومت کے ساتھ کھڑا ہونے کے بجائے آپ کیسے کیسے فضول سوالات اٹھا کر ہماری توجہ خراب کر رہے ہیں۔یہ کوئی وقت ہے ایسی باتیں کرنے کا ؟
اچھا سر ملک میں طوفانی بارشوں سے پچھلے ہفتے جو جانی نقصان ہوا، بالخصوص بلوچستان میں آنے والے اچانک سیلابی ریلوں سے مواصلاتی نظام جس طرح درہم برہم ہوا اس کی بحالی اور متاثرین کی امداد کے لیے کیا سنجیدہ کوششیں ہو رہی ہیں ؟
واہ واہ کیا سوال کیا ہے آپ نے۔ مجھے توقع تھی کہ آپ سعودی ولی عہد کے کامیاب دورے کے بارے میں پوچھیں گے یا پھر بھارتی گیدڑ بھبکیوں سے نمٹنے کے لیے ممکنہ حکمتِ عملی پے کوئی سوال کریں گے مگر آپ کی سوئی ہمیشہ چھوٹے چھوٹے مسائل پر ہی اٹکی رہے گی۔چھوٹے لوگ چھوٹا دماغ۔کبھی اپنے کنوئیں سے باہر نکل کے دیکھنے کی کوشش نہ کرنا کہ ملک اس وقت کیسے کیسے سنگین اندرونی و بیرونی خطرات سے گھرا ہوا ہے۔
پس ثابت ہوا کہ بحرانی خبروں اور واقعات کو ہلکا مت لیں۔یہ عذاب نہیں من و سلوی ہے۔جیسا کہ میں نے اوپر عرض کیا ، حکومت کو دیگر مسائل سے آناکانی کرنے کا بہانہ مل جاتا ہے۔میڈیا کے ریٹنگ کے مسائل حل ہو جاتے ہیں۔نائن الیون امریکی دفاعی بجٹ کے لیے، ایرانی جوہری پروگرام خلیجی ممالک کے دفاعی بجٹ کے لیے، یوکرین کا بحران روسی، بحیرہ جنوبی چین میں عدم استحکام، چین اور بھارت پاک تعلقات میں کشیدگی کی ہر نئی اور اونچی لہر دوطرفہ دفاعی بجٹ میں اضافے کے لیے آبِ حیات ہے۔بحرانی حالات میں جو ایسے فالتو کے سوال اٹھائے وہی غدار۔
جیب و دامان و گریباں، بخیہ و چاک و رفو
عشق کے اک کام سے کتنے نکل آتے ہیں کام (احمد نوید )
مجھے کوئی تشویش نہیں کہ پلوامہ کے بعد سے ایک دوسرے پر کون کتنا کیچڑ اچھال رہا ہے۔ہم ٹماٹر بند کر دیں گے ، دریائی پانی روک لیں گے ، تمہیں سفارتی طور پر تنہا کر دیں گے ، عالمی برادری میں منہ دکھانے لائق نہیں چھوڑیں گے، کرکٹ نہیں کھیلیں گے ، تمہارے سینماؤں کو اپنی فلموں سے محروم کر دیں گے، تمہارے فنکاروں کا بائیکاٹ کریں گے ، تم ویزے کے لیے ترسو گے ، بہتر ہے ابھی ہمارے ملک سے نکل جاؤ ، کچھ اوندھا سیدھا ہو گیا تو ہم ذمے دار نہ ہوں گے۔ یہ بات چیت کا نہیں ایکشن کا وقت ہے۔تم ایکشن کرو ہم فوراً جوابی کارروائی نہ کریں تو ہمارا نام بدل دینا۔
ایسی باتیں پہلے بھی ہوتی رہی ہیں، اب بھی ہو رہی ہیں، خدا کرے آیندہ بھی ہوتی رہیں۔ غصہ نکلنا بہت ضروری ہے، جتنا بولو گے اتنے ہی ہلکے ہو جاؤ گے۔ایک دوسرے کے منہ پر تھوک کے چھینٹے چھوڑنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔واہگہ اٹاری سیکٹر پر پرچم چڑھانے اتارنے کی روزانہ تقریب میں زمین پر کل سے بھی زیادہ دھمک دار ایڑی آج مارنا بھی دو طرفہ صحت کے لیے اچھا ہے ۔
یہ سب کرتے رہنا۔ ایک دوسرے سے لڑو ، مرو دنیا کو کوئی ٹینشن نہیں۔بس ایک ہی فکر ہے کہ تم میں سے کسی کا ہاتھ دوسرے سے پہلے ایٹمی بٹن پر نہ پڑ جائے۔ کیونکہ حملے اور جوابی حملے میں صرف جنوبی ایشیا کے کروڑوں لوگ نہیں مریں گے۔بلکہ مریں گے دراصل وہ جو زندہ رہ جائیں گے۔جنوبی ایشیا سے فضا میں بیس سے سے پچاس میل اوپر اٹھ کر جمنے والے ایٹمی دھوئیں کو کرہِ ارض کو اپنی لپیٹ میں لینے میں صرف دو ہفتے لگیں گے۔ کہرے کی شکل کا یہ دھواں آنے والے کئی برس سورج کی آدھی روشنی ہم تک نہیں پہنچنے دے گا۔لہٰذا درجہِ حرارت گر جائے گا، لہٰذا فصلیں اگنا بند ہو جائیں گی ، لہٰذا اگلے پانچ برس میں نوے فیصد انسانوں کی زندگی اور موت کے درمیان صرف دردناک فاقہ رہ جائے گا۔
اچھا ہے یہ جنگ ٹی وی، اخبار، پریس کانفرنس اور سوشل میڈیا کے ہتھیاروں سے لڑی جا رہی ہے۔ روایتی ہتھیاروں سے بھی اگر محدود لڑائی ہو جائے تو بھی کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔بس کسی پاگل کا دھیان اس سے اوپر نہ جائے ، ورنہ نیچے کوئی نہ رہے گا۔
یہ مذاق ہے، نہ دھمکی ، نہ ڈراوا ، یہ سچائی ہے ، سفاک سچائی۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)
اب پلوامہ کے خود کش حملے میں چوالیس بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کو ہی لے لیں۔دونوں ممالک کے لیے یہ کس قدر مفید ہے۔میڈیا کے تو خیر وارے نیارے ہیں ہی مگر بھارت میں لوک سبھا چناؤ میں حصہ لینے والی جماعتوں کو پلوامہ کی شکل میں گویا ووٹ چھاپ مشین مل گئی۔کوئی جماعت اس خبر کا فٹ بال بنا رہی ہے تو کوئی لٹھ بنا کے دوسرے کے پیچھے بھاگ رہی ہے۔
شرم نہیں آتی دیش کو آکرمن (جارحیت)کا سامنا ہے اور تم ہم سے پوچھ رہے ہو، مودی جی روجگار کے وعدے کا کیا ہوا ، اچھے دن آنے سے پہلے ہی کہاں مر گئے، اگر دیش واقعی ترقی کر رہا ہے تو قرض میں ڈوبے کسانوں کی خود کشیاں کم ہونے کے بجائے بڑھ کیوں رہی ہیں؟دوستو یہ ایسے فضول مدعے اٹھانے کا نہیں بلکہ ایک ساتھ کندھے سے کندھا ملانے کا سمے ہے۔ان مسائل پر تو کبھی بھی بات ہو سکتی ہے۔ اس وقت سوال ہے دیش کو آتنک واد سے بچانے کا۔ جے جوان ، جے کسان ، جے ہند۔
پاکستان میں بھی چودہ فروری کے بعد یہ سوال اٹھانا اچھا نہیں لگتا کہ ساہیوال سانحے کی انکوائری کس مرحلے میں پہنچی ؟ یار یہاں پاکستان کو بھارتی دباؤ اور دھمکیوں کا سامنا ہے اور تمہیں ساہیوال سانحے کی پڑی ہے۔کراچی میں ایک ہی خاندان کے چار بچے اور ماں ایک ہوٹل کا کھانا کھاتے ہی اللہ کو پیارے ہوگئے ، ابھی دو تین مہینے پہلے ہی ایک اور خاندان کے دو بچے ایک مشہور ریسٹورنٹ کا کھانا کھا کے مر گئے تھے۔سندھ فوڈ اتھارٹی کہاں مر گئی ہے ؟ ریسٹورنٹس کے مالکان کیسے چھوٹ جاتے ہیں ؟ جی بھائی ہم آپ کا دکھ سمجھتے ہیں مگر یہ بھی تو دیکھیے کہ پلوامہ کی واردات پاکستان کے سر منڈھنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ ہم اس صورتِ حال سے نکلیں تو ریسٹورنٹس کے کھانے کے معیار پر بھی دھیان دیں۔
اور یہ سندھ اسمبلی کے اسپیکر کو پنک پینتھر اسٹائل میں ڈراما کر کے پکڑنے کی کیا ضرورت تھی؟ کیا کراچی میں ان کے گھر سے یا پھر اسلام آباد سے کراچی پہنچنے پر ایرپورٹ سے نہیں پکڑا جا سکتا تھا ؟ یار یہاں پاکستان کو بھارت، افغانستان اور اب تو ایران کی طرف سے بھی دھمکیاں مل رہی ہیں۔ایسے نازک موقعے پر حکومت کے ساتھ کھڑا ہونے کے بجائے آپ کیسے کیسے فضول سوالات اٹھا کر ہماری توجہ خراب کر رہے ہیں۔یہ کوئی وقت ہے ایسی باتیں کرنے کا ؟
اچھا سر ملک میں طوفانی بارشوں سے پچھلے ہفتے جو جانی نقصان ہوا، بالخصوص بلوچستان میں آنے والے اچانک سیلابی ریلوں سے مواصلاتی نظام جس طرح درہم برہم ہوا اس کی بحالی اور متاثرین کی امداد کے لیے کیا سنجیدہ کوششیں ہو رہی ہیں ؟
واہ واہ کیا سوال کیا ہے آپ نے۔ مجھے توقع تھی کہ آپ سعودی ولی عہد کے کامیاب دورے کے بارے میں پوچھیں گے یا پھر بھارتی گیدڑ بھبکیوں سے نمٹنے کے لیے ممکنہ حکمتِ عملی پے کوئی سوال کریں گے مگر آپ کی سوئی ہمیشہ چھوٹے چھوٹے مسائل پر ہی اٹکی رہے گی۔چھوٹے لوگ چھوٹا دماغ۔کبھی اپنے کنوئیں سے باہر نکل کے دیکھنے کی کوشش نہ کرنا کہ ملک اس وقت کیسے کیسے سنگین اندرونی و بیرونی خطرات سے گھرا ہوا ہے۔
پس ثابت ہوا کہ بحرانی خبروں اور واقعات کو ہلکا مت لیں۔یہ عذاب نہیں من و سلوی ہے۔جیسا کہ میں نے اوپر عرض کیا ، حکومت کو دیگر مسائل سے آناکانی کرنے کا بہانہ مل جاتا ہے۔میڈیا کے ریٹنگ کے مسائل حل ہو جاتے ہیں۔نائن الیون امریکی دفاعی بجٹ کے لیے، ایرانی جوہری پروگرام خلیجی ممالک کے دفاعی بجٹ کے لیے، یوکرین کا بحران روسی، بحیرہ جنوبی چین میں عدم استحکام، چین اور بھارت پاک تعلقات میں کشیدگی کی ہر نئی اور اونچی لہر دوطرفہ دفاعی بجٹ میں اضافے کے لیے آبِ حیات ہے۔بحرانی حالات میں جو ایسے فالتو کے سوال اٹھائے وہی غدار۔
جیب و دامان و گریباں، بخیہ و چاک و رفو
عشق کے اک کام سے کتنے نکل آتے ہیں کام (احمد نوید )
مجھے کوئی تشویش نہیں کہ پلوامہ کے بعد سے ایک دوسرے پر کون کتنا کیچڑ اچھال رہا ہے۔ہم ٹماٹر بند کر دیں گے ، دریائی پانی روک لیں گے ، تمہیں سفارتی طور پر تنہا کر دیں گے ، عالمی برادری میں منہ دکھانے لائق نہیں چھوڑیں گے، کرکٹ نہیں کھیلیں گے ، تمہارے سینماؤں کو اپنی فلموں سے محروم کر دیں گے، تمہارے فنکاروں کا بائیکاٹ کریں گے ، تم ویزے کے لیے ترسو گے ، بہتر ہے ابھی ہمارے ملک سے نکل جاؤ ، کچھ اوندھا سیدھا ہو گیا تو ہم ذمے دار نہ ہوں گے۔ یہ بات چیت کا نہیں ایکشن کا وقت ہے۔تم ایکشن کرو ہم فوراً جوابی کارروائی نہ کریں تو ہمارا نام بدل دینا۔
ایسی باتیں پہلے بھی ہوتی رہی ہیں، اب بھی ہو رہی ہیں، خدا کرے آیندہ بھی ہوتی رہیں۔ غصہ نکلنا بہت ضروری ہے، جتنا بولو گے اتنے ہی ہلکے ہو جاؤ گے۔ایک دوسرے کے منہ پر تھوک کے چھینٹے چھوڑنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔واہگہ اٹاری سیکٹر پر پرچم چڑھانے اتارنے کی روزانہ تقریب میں زمین پر کل سے بھی زیادہ دھمک دار ایڑی آج مارنا بھی دو طرفہ صحت کے لیے اچھا ہے ۔
یہ سب کرتے رہنا۔ ایک دوسرے سے لڑو ، مرو دنیا کو کوئی ٹینشن نہیں۔بس ایک ہی فکر ہے کہ تم میں سے کسی کا ہاتھ دوسرے سے پہلے ایٹمی بٹن پر نہ پڑ جائے۔ کیونکہ حملے اور جوابی حملے میں صرف جنوبی ایشیا کے کروڑوں لوگ نہیں مریں گے۔بلکہ مریں گے دراصل وہ جو زندہ رہ جائیں گے۔جنوبی ایشیا سے فضا میں بیس سے سے پچاس میل اوپر اٹھ کر جمنے والے ایٹمی دھوئیں کو کرہِ ارض کو اپنی لپیٹ میں لینے میں صرف دو ہفتے لگیں گے۔ کہرے کی شکل کا یہ دھواں آنے والے کئی برس سورج کی آدھی روشنی ہم تک نہیں پہنچنے دے گا۔لہٰذا درجہِ حرارت گر جائے گا، لہٰذا فصلیں اگنا بند ہو جائیں گی ، لہٰذا اگلے پانچ برس میں نوے فیصد انسانوں کی زندگی اور موت کے درمیان صرف دردناک فاقہ رہ جائے گا۔
اچھا ہے یہ جنگ ٹی وی، اخبار، پریس کانفرنس اور سوشل میڈیا کے ہتھیاروں سے لڑی جا رہی ہے۔ روایتی ہتھیاروں سے بھی اگر محدود لڑائی ہو جائے تو بھی کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔بس کسی پاگل کا دھیان اس سے اوپر نہ جائے ، ورنہ نیچے کوئی نہ رہے گا۔
یہ مذاق ہے، نہ دھمکی ، نہ ڈراوا ، یہ سچائی ہے ، سفاک سچائی۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)