کشمیر کے بدلتے تیور
دنیا میں انسان اورانسانیت کے رشتوں کو مضبوط کرنے کی کوشش کرنے والوں کوپلوامہ جیسی بھاری رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
BEIJING:
جو لوگ کشمیر کے تنازعے کی مذہبی بنیادوں کا ادراک رکھتے ہیں وہ اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں کہ یہ مسئلہ بہت گھمبیر اور دوآتشہ ہے اس کا حل نہ 8 لاکھ بھارتی فوجیوں میں تلاش کیا جا سکتا ہے نہ محض اقوام متحدہ کی قراردادوں میں۔
برصغیر ہند و پاکستان بھی اکیسویں صدی میں داخل ہو چکے ہیں لیکن ذہنی اور نظریاتی حوالوں سے ابھی تک سیکڑوں سال پیچھے ہیں ۔ سائنس و ٹیکنالوجی جدید علوم اور معروضی حقائق کی ان کو ہوا تک نہیں لگی۔ خوابوں کی دنیا میں رہتے ہیں اور خوابوں کی دنیا ہی کے حوالے سے اپنے مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس حوالے سے بدقسمتی یہ ہے کہ بھارتی قیادت کی کم ظرفی کی وجہ یہ ایک مخصوص دائرے میں رہنے والا مسئلہ اب ایک ایسے عالمی شرمناک تنازع میں بدل گیا ہے جس کا انت برصغیر کی ذہنی معذور قیادت نکال ہی نہیں سکتی۔ آج امریکا، یورپ، افریقہ میں جو دہشتگردی کی وارداتیں ہو رہی ہیں وہ اسی کشمیر کے برگد کی نکلی ہوئی شاخیں ہیں۔
ہم نے جب بھی اس مسئلے پہ لب کشائی کی اس امکان کا اظہار کیا کہ اس مسئلے کا جلد سے جلد پرامن حل تلاش نہ کیا گیا تو یہ مسئلہ خون میں ڈوب جائے گا اور اس کی علامتیں پلوامہ بلاسٹ کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہیں، جس میں 49 بھارتی فوجی ہلاک ہوگئے۔ ہو سکتا ہے اس المیے سے ہندو یا مسلمان ہندوستانی یا پاکستانی بن کر سوچنے والوں کو دکھ یا خوشی ہو گی لیکن جو کوئی انسان بن کر سوچے گا اس المیے پر افسوس کا اظہار کرے گا کیونکہ صرف 49 فوجی ہی نہیں مارے گئے بلکہ 49 خاندان مارے گئے جو لوگ اس المیے میں مارے گئے وہ تو دنیا سے رخصت ہو گئے لیکن ان کے جو لواحقین ہیں وہ عشروں تک روز مرتے روز جیتے رہیں گے اور خدشہ ہے کہ ان کی اولاد زیادہ وحشی بن جائے۔
جب مجھے 49 بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کا دکھ ہوتا ہے تو میرے ابر آلود ذہن کے افق پر 70 ہزار کشمیریوں کی لاشیں ٹمٹماتی ہوئی جلتی بجھتی نظر آتی ہیں۔ یہ 70 ہزار کشمیری بھارتی قیادت کی ضد اور ہٹ دھرمی کا شکار ہوئے۔ بھارت کی موجودہ قیادت تو بدقسمتی سے مذہبی دوشالہ اوڑھے ہوئے ہے اور کشمیر کے حوالے سے اتنی گہری دفن ہو چکی ہے کہ اس سے خیر کی کوئی توقع ہی فضول ہے لیکن دکھ اس بات کا ہے کہ پنڈت نہرو اور ہمنسوا جیسے روشن خیال اور دور اندیش رہنماؤں کو نہ اس مسئلے کی سنگینی کا خیال آیا نہ مستقبل میں اس کے نقصانات کا۔
قیادت خواہ کسی ملک و قوم کی ہو وہ موجودہ حالات کے تناظر میں فیصلے کرتی ہے۔ مستقبل سے بے نیاز رہتی ہے جس کا نتیجہ کہیں کشمیر کی صورت میں دنیا کے سامنے آتا ہے کہیں فلسطین کی شکل میں۔ مسئلہ صرف موت کا شکار ہونے والوں کا ہی نہیں ہے مسئلہ پاکستان کے 21 کروڑ اور ہندوستان کے ایک ارب کے لگ بھگ ان انسانوں کا ہے جو 70 سال سے ہندو مسلمان ہندوستانی پاکستانی ہونے کی سزا کاٹ رہے ہیں اور مستقبل میں دور دور تک یہ سزا کاٹتے نظر آ رہے ہیں۔
آج دنیا تیزی سے ترقی کر رہی ہے، دنیا کے 7ارب انسان اقتصادی پسماندگی کا شکار ہیں۔ پسماندہ ملکوں کے 50 فیصد سے زیادہ انسان غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں کیوں؟ اس لیے کہ ان بھوکے پیاسے بیروزگار اور علاج تک سے محروم انسانوں کی خوشحالی کے لیے جس سرمائے کو استعمال کیا جانا تھا وہ ہتھیاروں کی تیاری اور لاکھوں پر مشتمل فوج پر خرچ ہو رہا ہے۔ کیا بھارت کے اہل نظر اس ٹریجڈی کا کوئی جواز پیش کر سکتے ہیں؟
دنیا میں انسان اور انسانیت کے رشتوں کو مضبوط کرنے کی کوشش کرنے والوں کو پلوامہ جیسی بھاری رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میں کشمیر کے حوالے سے پاکستانی حکمرانوں کی غلطیوں اور غلط پالیسیوں کو اجاگر کرنا چاہتا ہوں اور پاکستان کے مسائل کے حوالے سے کرتا بھی رہتا ہوں لیکن کشمیر کے حوالے سے جب میں پاکستان کے حکمران طبقے پر تنقیدی نظر ڈالتا ہوں تو مجھے ایسا کوئی موضوع نہیں ملتا جسے تنقید کا موضوع بنایا جائے۔ پاکستان کے 70 ہزار باسیوں کا قتل کوئی چھوٹا موٹا واقعہ نہیں جسے نظرانداز کر دیا جائے۔ کشمیر کے 70 ہزار انسان ہی قتل نہیں ہوئے بلکہ 70 ہزار خاندان قتل ہو گئے۔ کیا پلوامہ کا سوگ منانے والی بھارتی سرکار کو ان 70 ہزار کشمیریوں کے بے گناہ مارے جانے کا بھی افسوس ہے جو کشمیر کی خوشنما وادیوں میں دفن ہوگئے۔
بھارت کے ایک ارب کے لگ بھگ عوام بھی دن رات نان جویں کے لیے سرگرداں رہتے ہیں اور بھارت کی آبادی کا بھی 50 فیصد سے زیادہ حصہ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہا ہے۔ کیا حکمران طبقات کو احساس ہے کہ غربت کی لکیر کے نیچے کی زندگی کیسی ہوتی ہے؟ کہا جاتا ہے کہ بھارت میں 36 لاکھ ناریاں پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے اپنی آبرو بیچتی ہیں۔
بھارت ماضی میں ایک غیر جانبدار ملک تھا جس کی وجہ سے دنیا میں اس کی عزت کی جاتی تھی اب بھارت امریکا کے فوجی معاہدوں میں جکڑا ہوا ملک ہے اور ساری غیر جانبدار طاقتیں بھارت کے اس کردار کی مذمت کرتی ہیں۔ اس کا ذکر یوں کرنا پڑ رہا ہے کہ دنیا میں اسلحے کے تاجروں اور صنعتکاروں کا مفاد اسی میں ہے کہ اسلحہ بنتا اور فروخت ہوتا رہے اور اس صنعت و تجارت میں امریکا صف اول میں کھڑا ہے۔
کشمیر کا مسئلہ بھارت ہی اقوام متحدہ میں لے گیا اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اس مسئلے کو رائے شماری کے ذریعے حل ہوناچاہیے تھا اگر امریکا کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کا پاس ہے تو پھر امریکا کی ذمے داری ہے کہ وہ بھارت کو اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کے لیے مجبور کرے۔ لیکن اسلحہ سازی میں امریکا ایک بڑا پارٹنر ہے کیا وہ بھارت اور پاکستان جیسے اسلحے کے بڑے گاہکوں کو اسلحے کی فروخت کے اربوں ڈالر کے منافع کو ضایع کر سکتا ہے؟
بھارت اور پاکستان کے عوام سمیت دنیا بھر کے عوام کو سرمایہ دارانہ نظام نے روٹی کے پیچھے ایسا لگا دیا ہے کہ وہ اپنے پیٹ کے علاوہ کچھ سوچ ہی نہیں سکتے۔ کشمیر کا مسئلہ جنگ سے نہیں بلکہ مذاکرات ہی سے حل ہوگا لیکن اگر یہ مذاکرات روایت کے مطابق حکومتی اہلکار کرتے ہیں تو نتیجہ وہی نکلے گا جو اب تک نکلتا آ رہا ہے۔
اگر فریقین خاص طور پر بھارت کشمیر کے مسئلے کے حل میں مخلص ہے تو دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات میں حکومتی اہلکاروں کے ساتھ ساتھ دونوں ملکوں کے دانشوروں، صحافیوں اور فنکاروں کو بھی شریک کرے ورنہ وزارت خارجہ کی سرپرستی میں ہونے والے مذاکرات کا نتیجہ ماضی کی طرح نشستند گفتند و برخواستندکے علاوہ کچھ برآمد نہیں ہوگا۔ یہ ایک بے مقصد مشق ہی ہوگی اور عوام کو کئی پلواموں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
جو لوگ کشمیر کے تنازعے کی مذہبی بنیادوں کا ادراک رکھتے ہیں وہ اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں کہ یہ مسئلہ بہت گھمبیر اور دوآتشہ ہے اس کا حل نہ 8 لاکھ بھارتی فوجیوں میں تلاش کیا جا سکتا ہے نہ محض اقوام متحدہ کی قراردادوں میں۔
برصغیر ہند و پاکستان بھی اکیسویں صدی میں داخل ہو چکے ہیں لیکن ذہنی اور نظریاتی حوالوں سے ابھی تک سیکڑوں سال پیچھے ہیں ۔ سائنس و ٹیکنالوجی جدید علوم اور معروضی حقائق کی ان کو ہوا تک نہیں لگی۔ خوابوں کی دنیا میں رہتے ہیں اور خوابوں کی دنیا ہی کے حوالے سے اپنے مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس حوالے سے بدقسمتی یہ ہے کہ بھارتی قیادت کی کم ظرفی کی وجہ یہ ایک مخصوص دائرے میں رہنے والا مسئلہ اب ایک ایسے عالمی شرمناک تنازع میں بدل گیا ہے جس کا انت برصغیر کی ذہنی معذور قیادت نکال ہی نہیں سکتی۔ آج امریکا، یورپ، افریقہ میں جو دہشتگردی کی وارداتیں ہو رہی ہیں وہ اسی کشمیر کے برگد کی نکلی ہوئی شاخیں ہیں۔
ہم نے جب بھی اس مسئلے پہ لب کشائی کی اس امکان کا اظہار کیا کہ اس مسئلے کا جلد سے جلد پرامن حل تلاش نہ کیا گیا تو یہ مسئلہ خون میں ڈوب جائے گا اور اس کی علامتیں پلوامہ بلاسٹ کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہیں، جس میں 49 بھارتی فوجی ہلاک ہوگئے۔ ہو سکتا ہے اس المیے سے ہندو یا مسلمان ہندوستانی یا پاکستانی بن کر سوچنے والوں کو دکھ یا خوشی ہو گی لیکن جو کوئی انسان بن کر سوچے گا اس المیے پر افسوس کا اظہار کرے گا کیونکہ صرف 49 فوجی ہی نہیں مارے گئے بلکہ 49 خاندان مارے گئے جو لوگ اس المیے میں مارے گئے وہ تو دنیا سے رخصت ہو گئے لیکن ان کے جو لواحقین ہیں وہ عشروں تک روز مرتے روز جیتے رہیں گے اور خدشہ ہے کہ ان کی اولاد زیادہ وحشی بن جائے۔
جب مجھے 49 بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کا دکھ ہوتا ہے تو میرے ابر آلود ذہن کے افق پر 70 ہزار کشمیریوں کی لاشیں ٹمٹماتی ہوئی جلتی بجھتی نظر آتی ہیں۔ یہ 70 ہزار کشمیری بھارتی قیادت کی ضد اور ہٹ دھرمی کا شکار ہوئے۔ بھارت کی موجودہ قیادت تو بدقسمتی سے مذہبی دوشالہ اوڑھے ہوئے ہے اور کشمیر کے حوالے سے اتنی گہری دفن ہو چکی ہے کہ اس سے خیر کی کوئی توقع ہی فضول ہے لیکن دکھ اس بات کا ہے کہ پنڈت نہرو اور ہمنسوا جیسے روشن خیال اور دور اندیش رہنماؤں کو نہ اس مسئلے کی سنگینی کا خیال آیا نہ مستقبل میں اس کے نقصانات کا۔
قیادت خواہ کسی ملک و قوم کی ہو وہ موجودہ حالات کے تناظر میں فیصلے کرتی ہے۔ مستقبل سے بے نیاز رہتی ہے جس کا نتیجہ کہیں کشمیر کی صورت میں دنیا کے سامنے آتا ہے کہیں فلسطین کی شکل میں۔ مسئلہ صرف موت کا شکار ہونے والوں کا ہی نہیں ہے مسئلہ پاکستان کے 21 کروڑ اور ہندوستان کے ایک ارب کے لگ بھگ ان انسانوں کا ہے جو 70 سال سے ہندو مسلمان ہندوستانی پاکستانی ہونے کی سزا کاٹ رہے ہیں اور مستقبل میں دور دور تک یہ سزا کاٹتے نظر آ رہے ہیں۔
آج دنیا تیزی سے ترقی کر رہی ہے، دنیا کے 7ارب انسان اقتصادی پسماندگی کا شکار ہیں۔ پسماندہ ملکوں کے 50 فیصد سے زیادہ انسان غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں کیوں؟ اس لیے کہ ان بھوکے پیاسے بیروزگار اور علاج تک سے محروم انسانوں کی خوشحالی کے لیے جس سرمائے کو استعمال کیا جانا تھا وہ ہتھیاروں کی تیاری اور لاکھوں پر مشتمل فوج پر خرچ ہو رہا ہے۔ کیا بھارت کے اہل نظر اس ٹریجڈی کا کوئی جواز پیش کر سکتے ہیں؟
دنیا میں انسان اور انسانیت کے رشتوں کو مضبوط کرنے کی کوشش کرنے والوں کو پلوامہ جیسی بھاری رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میں کشمیر کے حوالے سے پاکستانی حکمرانوں کی غلطیوں اور غلط پالیسیوں کو اجاگر کرنا چاہتا ہوں اور پاکستان کے مسائل کے حوالے سے کرتا بھی رہتا ہوں لیکن کشمیر کے حوالے سے جب میں پاکستان کے حکمران طبقے پر تنقیدی نظر ڈالتا ہوں تو مجھے ایسا کوئی موضوع نہیں ملتا جسے تنقید کا موضوع بنایا جائے۔ پاکستان کے 70 ہزار باسیوں کا قتل کوئی چھوٹا موٹا واقعہ نہیں جسے نظرانداز کر دیا جائے۔ کشمیر کے 70 ہزار انسان ہی قتل نہیں ہوئے بلکہ 70 ہزار خاندان قتل ہو گئے۔ کیا پلوامہ کا سوگ منانے والی بھارتی سرکار کو ان 70 ہزار کشمیریوں کے بے گناہ مارے جانے کا بھی افسوس ہے جو کشمیر کی خوشنما وادیوں میں دفن ہوگئے۔
بھارت کے ایک ارب کے لگ بھگ عوام بھی دن رات نان جویں کے لیے سرگرداں رہتے ہیں اور بھارت کی آبادی کا بھی 50 فیصد سے زیادہ حصہ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہا ہے۔ کیا حکمران طبقات کو احساس ہے کہ غربت کی لکیر کے نیچے کی زندگی کیسی ہوتی ہے؟ کہا جاتا ہے کہ بھارت میں 36 لاکھ ناریاں پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے اپنی آبرو بیچتی ہیں۔
بھارت ماضی میں ایک غیر جانبدار ملک تھا جس کی وجہ سے دنیا میں اس کی عزت کی جاتی تھی اب بھارت امریکا کے فوجی معاہدوں میں جکڑا ہوا ملک ہے اور ساری غیر جانبدار طاقتیں بھارت کے اس کردار کی مذمت کرتی ہیں۔ اس کا ذکر یوں کرنا پڑ رہا ہے کہ دنیا میں اسلحے کے تاجروں اور صنعتکاروں کا مفاد اسی میں ہے کہ اسلحہ بنتا اور فروخت ہوتا رہے اور اس صنعت و تجارت میں امریکا صف اول میں کھڑا ہے۔
کشمیر کا مسئلہ بھارت ہی اقوام متحدہ میں لے گیا اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اس مسئلے کو رائے شماری کے ذریعے حل ہوناچاہیے تھا اگر امریکا کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کا پاس ہے تو پھر امریکا کی ذمے داری ہے کہ وہ بھارت کو اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کے لیے مجبور کرے۔ لیکن اسلحہ سازی میں امریکا ایک بڑا پارٹنر ہے کیا وہ بھارت اور پاکستان جیسے اسلحے کے بڑے گاہکوں کو اسلحے کی فروخت کے اربوں ڈالر کے منافع کو ضایع کر سکتا ہے؟
بھارت اور پاکستان کے عوام سمیت دنیا بھر کے عوام کو سرمایہ دارانہ نظام نے روٹی کے پیچھے ایسا لگا دیا ہے کہ وہ اپنے پیٹ کے علاوہ کچھ سوچ ہی نہیں سکتے۔ کشمیر کا مسئلہ جنگ سے نہیں بلکہ مذاکرات ہی سے حل ہوگا لیکن اگر یہ مذاکرات روایت کے مطابق حکومتی اہلکار کرتے ہیں تو نتیجہ وہی نکلے گا جو اب تک نکلتا آ رہا ہے۔
اگر فریقین خاص طور پر بھارت کشمیر کے مسئلے کے حل میں مخلص ہے تو دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات میں حکومتی اہلکاروں کے ساتھ ساتھ دونوں ملکوں کے دانشوروں، صحافیوں اور فنکاروں کو بھی شریک کرے ورنہ وزارت خارجہ کی سرپرستی میں ہونے والے مذاکرات کا نتیجہ ماضی کی طرح نشستند گفتند و برخواستندکے علاوہ کچھ برآمد نہیں ہوگا۔ یہ ایک بے مقصد مشق ہی ہوگی اور عوام کو کئی پلواموں کا سامنا کرنا پڑے گا۔