روئیں اور روتے رہیں

شہر کراچی میں جگہ جگہ مضر صحت خوراک کھلائی بھی جارہی ہے اور بک بھی رہی ہے۔

ہمارے عوام کی قسمت ہی کچھ ایسی ہے کہ مسائل در مسائل کا سامنا مسلسل کررہے ہیں۔ تکالیف پر چیختے ہیں تو شو مچانے کا الزام لگ جاتا ہے۔ ذمے داروں سے سوال کرتے ہیں تو ''بے ادبی'' کی فرد جرم عائد کردی جاتی ہے۔

حکمرانوں اور ارباب اقتدار کو ان کی کوتاہیوں اورغلطیوں سے خبردار کرتے ہیں تو حکومتوں کے خلاف بات کرنے کا الزام آجاتا ہے۔ لیکن اس سے زیادہ دردناک صورتحال یہ ہے کہ عوام کو سہولتیں دینے کے دعوے داروں، ہر مشکل میں عام آدمی کے کام آنے کا وعدہ کرنے والوں اور عوامی مسائل کے حل کے لیے یقین دہانیوں پر یقین دہانیاں کرانے والوں کے محلات سے عوام کو جچھ مل رہا ہے ، اس کے بعد تو ہمارے بس میں صرف یہ کام ہی رہ گیا ہے کہ ہر سانحے پر، ہر حادثے پر روتے رہیں اور خوب روئیں یہاں تک کہ کسی اور سانحے کا وقت نہ آجائے۔

لیکن ہم عوام بھی ''ڈھیٹ '' ہیں ، اگر مسائل پر، تکالیف پر، کسی حادثے پر یا سانحے پر لب سی لیں، آنکھیں بند کرلیں ، کانوں پر ہاتھ رکھ لیں تو ضمیر اتنے طعنے دیتا ہے کہ بولنا پڑجاتا ہے۔

جمعرات 21 فروری کو کوئٹہ سے کراچی آنے والے فیصل اور اس کے گھر والوں کو کیا پتہ تھا کہ وہ آخری بار ایک ساتھ کراچی جارہے ہیں۔جمعہ 22 فروری کو وہ ہوگیا جس کا کوئی سوچ سکتا ہے نہ خیال کرسکتا ہے۔ زہر خورانی کی شکایت پر پہلے کمسن بچوں کی ماں اسپتال لائی گئی اور پھر سارے بچے اسپتال پہنچانے کی نوبت آگئی لیکن بچے اسپتال پہنچنے سے قبل ہی دار ِ فانی سے کوچ کرگئے۔

ڈیڑھ سالہ عبدالعلی ، 4 سالہ عزیز فیصل ، 6 سال کی علینہ ، 7 سال کا توحید اور 9 سالہ سلویٰ کی تصاویر دیکھ کر ہر دردمند دل اور صاحب اولاد خون کے آنسو رورہا ہے ۔ شاید ان جیسے پھولوں کے لیے ہی کسی نے کہا تھا کہ

حسرت اُن غنچوں پہ ہے

جو بِن کِھلے مُرجھا گئے

متاثرہ خاندان کے گھر میں تو صف ِ ماتم بچھ چکی ہے، یہ ایسا درد ہے جو تازندگی لواحقین کو تڑپائے گا۔ ہمارے ارباب اختیار نے بھی فوری ''ایکشن '' لیتے ہوئے واقعے کی تحقیقات کا حکم دے دیا، کارروائیاں شروع بھی ہوگئی ہیں ، ذمے داروں کو قرارواقعی سزا دینے کے ''نعرے'' بھی لگ رہے ہیں لیکن ایسا تو ہر حادثے اور ہر سانحے کے بعد ہوتا ہے۔ مذمتی بیانات، رنج و غم میں بھری گفتگو، ذمے داروں کو سزائیں دینے کے وعدے، متاثرین یک ساتھ اظہار یکجہتی، ان کے غم کوبانٹنے کی کوششیں، سب پہلے بھی ہوتا رہا ہے لیکن اصل سوال یہ ہے کہ ہم کسی بھی حادثے سے سبق کیوں نہیں لیتے۔

ابھی کچھ ماہ قبل ہی نومبر 2018 میں کلفٹن کے علاقے میں ایک ریسٹورنٹ کا مبینہ طور پر مضر صحت کھانا کھاکر 2کم سن بھائی جاں بحق ہوگئے تھے۔ اس سانحے کے بعد بھی مذمت بھی کی گئی، ریسٹورنٹ والوں کے خلاف کارروائیاں بھی ہوئیں، متاثرہ گھر کے افراد کو دلاسے اور تسلیاں بھی دی گئیں ۔ شہر بھر میں کھانے پینے کے مراکز کی چیکنگ اور عوام کو صحت بخش اشیائے خور و نوش کی فراہمی کی یقین دہانیاں بھی بہت ہوئیں۔ یہ سب کچھ ہُوا لیکن اصل کام نہیں ہُوا کہ ہم عوام کے لیے، اپنے شہریوں کے لیے وعدوں اور دعووں سے ہٹ کر بھی کچھ کریں۔

پشین کوئٹہ کا بدنصیب فیصل جو اپنی اہلیہ کے علاج کے لیے آیا تھا، اُسے کیا پتہ تھا کہ اپنے ''گلشن '' کا تابوت لے کر واپس جائے گا۔ اس سانحے پر جتنا ماتم کیا جائے، جتنا رویا جائے کم ہے۔ جانے والے بچے کبھی واپس نہیں آئیں گے اوران کی جدائی کا غم ماں باپ کو زندگی بھر رُلاتا رہے گا ۔ حکومتی تحقیقات بھی کسی نہ کسی انجام کو پہنچ کر فائلوں میں دب جائیں گی لیکن اس سانحے سے بھی اگر کچھ سیکھ لیں تو آیندہ ایسے المناک سانحے کی نوبت نہیں آئے گی۔

ارباب اقتدار اور ارباب ختیار کو چاہیے کہ وہ ایسے اقدامات کریں کہ لوگ وعدوں اور نعروں کے شور سے نکل کر عملی طور پر اپنے مسائل اور تکالیف کا حل دیکھیں۔

کسی بھی صوبے یا شہر میں فوڈ اتھارٹی ایک اہم ادارہ ہے لیکن مضر صحت کھانا کھانے یا مشروبات پینے سے مختلف شہروں میں کبھی لوگ بیہوش ہوجاتے ہیں، کبھی ان کی طبیعت خراب ہوجاتی ہے اور کچھ بدنصیب تو دنیا سے ہی چلے جاتے ہیں۔بہت ضروری ہوگیا ہے کہ فوڈ اتھارٹی کو بہت مضبوط، موثر اور فعال کیا جائے۔ سندھ میں بھی سندھ فوڈ اتھارٹی کو وہ تمام وسائل مہیا کیے جائیں جن کے بعد شہر بھر میں اسے کام کرنے میں کسی قسم کی دقت نہ ہو۔

شہر کراچی میں جگہ جگہ مضر صحت خوراک کھلائی بھی جارہی ہے اور بک بھی رہی ہے۔ آئے دن ایسی خبریں میں پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا پر دیکھتے رہتے ہیں لیکن ان کے خلاف کارروائی کرنے والے کیوں بے خبر ہیں ؟، کیا انھیں اپنی ذمے داریوں کا احساس نہیں ؟ یا وہ کسی دبائو کی وجہ سے مجبور ہیں؟، سبب کچھ بھی ہوغلط کام کرنے والوں کی سرکوبی اور انھیں اُن کے کیے کی سزا دینا ہی مسائل کا حل ہے۔

شہر کراچی میں بھی عوام کی بڑی تفریح گھومنا پھرنا، مختلف تفریحی مقامات کی سیر کرنا یا پسندیدہ کھانے یا چٹ پٹی ڈشز سے لطف اندوز ہونا ہے۔ اس میں حلوہ پوری، پراٹھے، چائے، لسی، چاٹ، چھولے ، مشروبات، روایتی کھانے، فاسٹ فوڈ، باربی کیو اور دیگر شامل ہیں، اس کے علاوہ شادی بیاہ کے موقع پر بھی بننے والے کھانے اور شہریوں کے لیے بہت پُر کشش ہیں جب کہ بچے ہر وقت چپس، آئسکریم ، چاکلیٹ اور ایسی ہی دیگر اشیا کے طلبگار نظر آتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسا نظام وضع کرے کہ شہریوں کو یہ تمام چیزیں حفظان صحت کے اصولوں کے عین مطابق فراہم کی جائیں۔


مثلاً چند تجاویز حکومت کے ذمے داروں کے کام آسکتی ہیں

٭ کھانے پینے کی اشیا کی تیاری کے تمام مراحل میں صفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھا جائے ۔

٭کھانا پکانے کے مراکز اور مقامات پر بھی صفائی کو یقینی بنایا جائے۔

٭ مختلف ٹیمیں تشکیل دی جائیں جو شہر بھر میں دورے کریں اور مضر صحت اشیا کو عوام کے منہ میں جانے سے روکیں۔

٭ کراچی بہت بڑا شہر ہے، آبادی کروڑوں میں ہے اور ایک محکمہ یقینی طور پر پورے شہر کی نگرانی کا فریضہ انجام نہیں دے سکتا لیکن اس کے لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ زیادہ سے زیادہ عملہ بھرتی کرے، رضاکاروں کو تربیت اور مشاہرے کے ذریعے اس ''کار ِخیر '' میں حصہ لینے کی ترغیب دے تاکہ شہری صاف ستھری غذا کھائیں اور لطف اندوز ہوں۔

٭ کھانے پینے کی مضر صحت اشیا بنانے والوں کو اگر فوری طور پر سخت سے سخت سزائیں دے دی جائیں، ان کے کاروبار کو مکمل طور پر ختم کردیا جائے تو معاملات کافی حد تک سدھرسکتے ہیں۔

آخر میں حکمرانوں کے لیے، ارباب اقتدار اور ارباب اختیار کے لیے چند اشعار ؎

مسند ہے تمہاری یہ جنازہ تو نہیں ہے

کچھ کرنہیں سکتے تو اتر کیوں نہیں جاتے

یہ مضمون لکھتے وقت چند مصرعوں کی آمد ہوئی تو وہ بھی نذر قارئین کررہا ہوں

کبھی جب دیس کا ماحول نَم محسوس ہوتا ہے

تو اپنے فیصلوں کا ہی ستم محسوس ہوتا ہے

کسی بھی غمزدہ کو شہر میں جب دیکھ لیتے ہیں

تو ہم کو اپنا غم بالکل ہی کم محسوس ہوتا ہے
Load Next Story