کرپشن سے بچنے کے لیے احتساب کاعمل واضح ہونا چاہیے ثاقب نثار

اللہ نے قوموں کو ایماندار قیادت کے ذریعے ترقی دی ہے، سابق چیف جسٹس پاکستان

میری عزت میرا سب کچھ پاکستان سے ہے، ثاقب نثار فوٹو: فائل

سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس ریٹائرڈ میاں ثاقب نثار کا کہنا ہے کہ کرپشن سے بچنے کے لیےاحتساب کاعمل واضح ہونا چاہیے۔

کراچی میں صحافیوں سے ملاقات کے دوران ثاقب نثار نے کہا کہ اعلی عدلیہ کو آئین بنیادی انسانی حقوق کے نفاذ کی ذمہ داری دیتا ہے، سُومو ٹو ایکشن کسی بھی عوامی اہمیت کے مسئلے پر لیا جا سکتا ہے، میں نے ہر سوموٹو اس وقت لیا جب معاشرے سے مایوس ہوگیا تھا، اسلام آباد میں سول جج کی جانب سے ملازمہ پر تشدد کا معاملہ پر دو دن تک انتظار کرتا رہا، بھینسوں کو انجیکشن کا معاملہ ہو یا غیر معیاری دودھ، کسی نے پیٹیشن دائرنہیں کی، میرے پاس اس صورت میں بنیادی حقوق کے نفاذ کا ایک راستہ تھا، کرپشن جیسے ناسور پر اگر میں نے سوموٹو ایکشن لیے تو کیا یہ بنیادی حقوق کا معاملہ نہیں ہے، میڈیکل کالجز کی بچیوں کو 726 ملین واپس کرائے کیا یہ اختیارات سے تجاوز ہے؟۔

اس سے قبل ایک اور تقریب سے خطاب کے دوران سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ریٹائرڈ میاں ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ ایک ریاست اور ایک ملک کے طور پر اللہ نے اس معاشرے کو نعمت بخشی ہے، کرپشن سے بچنے کے لیےاحتساب کاعمل واضح ہونا چاہیے، ملک کے لئے محبت کم ہوتی جارہی ہے، ہم بہت دیر تک پاکستان کی محبت سے نا آشنا رہے۔

سابق چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میری عزت میرا سب کچھ پاکستان سے ہے، جو کچھ بھی ملا ہے وہ اس ملک کی محبت کی وجہ سے ہے، اگر پاکستان نہیں ہوتا تو میں کسی بینک کا ملازم ہوتا، لوگوں کے حقوق کی پاسداری، آئین اور ملک کی ترقی وطن سے محبت سے ہی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی ترقی کے لیے انصاف اہم ستون ہے، عدل کے ساتھ کفالت کرنے والے ترقی کرتے ہیں، ہمیں عدل کرنے والے قاضی چاہیے، وائٹ کالر جرائم پکڑنے کے لیے ہمیں اپنے قانون میں جدید خطوط پر ترامیم کرنا ہوں گی۔


ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ پاکستان کے مقابلے میں بھارت کے ادارے مضبوط ہیں، پاکستان میں سب سے سپریم ادارہ قانون ہے، کیا ہم نے پاکستان کا قانون بنانے میں توجہ دی ہے؟، قانون کو اپ گریڈ کرنے والے ادارے سے غفلت ہوئی ہے۔

جسٹس (ر) ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ بابا رحمتے کی اصطلاح میں نے اپنی ذات کے لئے استعمال کی تھی، میرے سوموٹو کو مذاق لیا گیا تھا لیکن میں جواز دے سکتا ہوں، پہلی بار کراچی آیا تو دیکھا اتنا خوبصورت شہر ہے لیکن بڑے بڑے تشہیری بورڈز نے اس کی خوبصورتی خراب کردی ہے، شہر کی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لئے تشہیری بورڈز ہٹانے کا حکم جاری کیا۔ پانی زندگی ہے، اس کے بغیر زندگی کا تصور نہیں، بلند عمارتیں تعمیر کرنے سے اس لئے منع کیا کہ مجھے لگتا تھا کہ پانی کا مسئلہ شدت اختیار کر جائے گا۔

سابق چیف جسٹس نے کہا کہ جو پانی ہم سمندر میں پھینک رہے ہیں اس میں کثافتیں ہیں، ہم سیوریج، کیمیکل اور میڈیکل کا فضلہ سمندر میں پھینک رہے ہیں، راوی آج ایک گندا نالا ہے، پانچ نالے راوی میں بہہ رہے ہیں اور اس سے سبزیاں اُگ رہی ہیں، آبادی کو کنٹرول کرنا وقت کی ضرورت ہے، آبادی کو کنڑول نہیں کیا گیا تو ہماری آبادی 30 سال بعد 39 کروڑ تک بڑھ جائے گی۔

ڈیم فنڈز سے متعلق سابق چیف جسٹس نے کہا یہ کہنا کہ ڈیم کے لئے جمع کیا گیا پیسہ ڈیم کے لئے ہی نہیں تھا بالکل غلط ہے، ہم نے پیسے صرف ڈیم کی تعمیر کے لئے دئیے تھے، اس رقم کو مخصوص کردیا گیا ہے جب ڈیم کی شدت سے ضرورت ہوگی، حکومت پاکستان اس رقم کو خرچ کرنے کے حوالے سے سپریم کورٹ کو آگاہ کرے گی۔ ہم چار ججز بیٹھے تھے جب ہم نے ڈیم بنانے کے حوالے سے سوچا تھا، ایتھوپیا میں عوام کا ڈیم کے حوالے سے شعور دیکھتے ہوئے ڈیم کی تعمیر میں پاکستان کی عوام کو شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

Load Next Story