ہمارے مفت سامع بلامعاوضہ مشیر
آپ کے اردگرد ایسے لوگ بھی یقیناً ہوں گے جن کا کام بن مانگے مشورہ دینا بلکہ تھوپنا ہوتا ہے۔
''اوسان رینٹل'' جاپان میں فراہم کی جانے والی ایک سروس ہے، جس کے ذریعے آپ قیمت ادا کرکے ایک اَدھیڑ عمر شخص کا وقت اور توجہ خرید سکتے ہیں، جو آپ کی ساری باتیں، مسائل اور مشکلات کان لگا کر پوری محویت سے سُنے گا اور آپ کو مشورے بھی دے گا۔ جاپانی میں ''اوسان'' کا مطلب ہے انکل، یعنی اس سروس کا مطلب ہوا ''کرائے کے انکل۔''
پاکستان میں یہ سہولت مفت دست یاب ہے۔ یہاں ایسی آنٹیوں اور انکلوں کی کمی نہیں جو آپ کے خالصتاً نجی مسائل سُننے اور ان کا حل پیش کرنے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔ یہاں ''مِرے ہسبینڈ مجھے پیار نہیں کرتے'' سے ''اُس نے اپنا بنا کے چھوڑ دیا'' تک کوئی بھی مسئلہ کسی سے بھی بیان کیا جاسکتا ہے، جو پورے ذوق وشوق سے پوری بات سُنے گا بلکہ حسب توفیق مشورے بھی دے گا۔
ہمارے ہاں دوسرے کے نجی معاملات کی کھوج، اس کے مسائل جاننے کی طلب، اور انھیں حل کرنے کا شوق افراط سے پایا جاتا ہے۔ یہ شوق حد سے بڑھ جائے تو پیشہ بن جاتا ہے اور دیواروں پر ''چھوٹو رام بنگالی، جس کے کالے جادو کا کاٹا پانی نہ مانگے''،''پروفیسر گوگو، جن کے ایک عمل سے پتھر دل محبوب آپ کے قدموں میں'' اور ''ماہر امراضِ پوشیدہ ڈاکٹر بے شرم بے ہودہ'' کے اشتہارات ہر مسئلے کا فوری حل پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ جاپانی ''کرائے کے انکل'' کی طرح ان کی مدد کی قیمت چُکانی پڑتی ہے اور اکثر بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے، یہ وہ کرائے کے انکل ہیں جو سائل کو بیچ کھاتے ہیں۔
جہاں تک مفت مسائل سُننے اور مشورہ دینے والوں کا تعلق ہے وہ گلی محلے، چوک، نکڑ، دکان، دفتر، محفل، بس اور ٹرین۔۔۔ہر جگہ دست یاب ہیں۔ یہ جب آپ سے پوچھیں ''سب خیریت ہے؟'' تو اس کا بین السطور مطلب یہ ہوتا ہے کہ خدانخواستہ تم خیریت سے تو نہیں ہو، اگر خیریت سے ہو تو ہمارے کس کام کے۔
اگر اس سوال کے جواب میں آپ نے کمر کے درد، پیٹ کے مروڑ یا نزلے زکام جیسا کوئی طبی مسئلہ بتا دیا تو یہ آپ کو نسخے اور ڈاکٹروں کے نام پتے بتابتا کر سر درد میں مبتلا کردیں گے۔ یہ مفت سامع اور بلامعاوضہ مشیر اگر پڑوس کی خالہ ہیں تو ہمسائی خاتون سے شوہر کے اعمال، ساس نندوں کے افعال اور کوائف سُسرال کُریدکُرید کر یوں معلوم کرتی ہیں کہ کوئی نہ کوئی مسئلہ برآمد ہو ہی جاتا ہے، اگر نہ ہو تو یہ خود کوئی مسئلہ پیدا کردیتی ہیں پھر اس کا حل تجویز کرتی ہیں۔
آپ کے اردگرد ایسے لوگ بھی یقیناً ہوں گے جن کا کام بن مانگے مشورہ دینا بلکہ تھوپنا ہوتا ہے''آپ یہ نوکری چھوڑ کر کوئی دوسری نوکری کیوں نہیں کرلیتے؟''،''ارے ملازمت چھوڑ کر کاروبار کریں''،''ارے اس کاروبار میں کیا رکھا ہے، یہ کاروبار کریں، اس میں بڑا منافع ہے''،''کار خرید لیں''، ''یہ کار بیچ کر وہ کار لے لیں''۔۔۔۔ ہونا یہ چاہیے کہ مسئلوں کا حل بتانے اور مشورے دینے والوں سے حل اور مشورہ سُننے کے سروس چارجز وصول کیے جائیں، یقین مانیے یہ خواتین وحضرات مسئلے حل کرنے اور مشورے دینے کے ہوکے میں یوں مبتلا ہوتے ہیں کہ پیسے دے کر بھی مشورہ دیں گے۔ پھر یہ ہوا کرے گا کہ کوئی صاحب آپ سے آکر کہیں گے ''ایک مشورہ دینا ہے، سُننے کے کتنے لیں گے''، اُس وقت آپ کا جواب ہوگا ''پانچ منٹ سُننے کے پانچ سو روپے''، وہ سَر کھجاکر لجاجت سے کہیں گے،''زیادہ نہیں ہیں۔۔۔'' یہ سُن کر آپ جونہی آگے بڑھنے لگیں گے وہ پانچ سو کا نوٹ آپ کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہیں گے''ارے ناراض کیوں ہوتے ہیں، چلیے ٹھیک ہے جو آپ کی مرضی، تو پھر سُنیے۔۔۔۔۔''
usman.jamai@express.com.pk
پاکستان میں یہ سہولت مفت دست یاب ہے۔ یہاں ایسی آنٹیوں اور انکلوں کی کمی نہیں جو آپ کے خالصتاً نجی مسائل سُننے اور ان کا حل پیش کرنے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔ یہاں ''مِرے ہسبینڈ مجھے پیار نہیں کرتے'' سے ''اُس نے اپنا بنا کے چھوڑ دیا'' تک کوئی بھی مسئلہ کسی سے بھی بیان کیا جاسکتا ہے، جو پورے ذوق وشوق سے پوری بات سُنے گا بلکہ حسب توفیق مشورے بھی دے گا۔
ہمارے ہاں دوسرے کے نجی معاملات کی کھوج، اس کے مسائل جاننے کی طلب، اور انھیں حل کرنے کا شوق افراط سے پایا جاتا ہے۔ یہ شوق حد سے بڑھ جائے تو پیشہ بن جاتا ہے اور دیواروں پر ''چھوٹو رام بنگالی، جس کے کالے جادو کا کاٹا پانی نہ مانگے''،''پروفیسر گوگو، جن کے ایک عمل سے پتھر دل محبوب آپ کے قدموں میں'' اور ''ماہر امراضِ پوشیدہ ڈاکٹر بے شرم بے ہودہ'' کے اشتہارات ہر مسئلے کا فوری حل پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ جاپانی ''کرائے کے انکل'' کی طرح ان کی مدد کی قیمت چُکانی پڑتی ہے اور اکثر بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے، یہ وہ کرائے کے انکل ہیں جو سائل کو بیچ کھاتے ہیں۔
جہاں تک مفت مسائل سُننے اور مشورہ دینے والوں کا تعلق ہے وہ گلی محلے، چوک، نکڑ، دکان، دفتر، محفل، بس اور ٹرین۔۔۔ہر جگہ دست یاب ہیں۔ یہ جب آپ سے پوچھیں ''سب خیریت ہے؟'' تو اس کا بین السطور مطلب یہ ہوتا ہے کہ خدانخواستہ تم خیریت سے تو نہیں ہو، اگر خیریت سے ہو تو ہمارے کس کام کے۔
اگر اس سوال کے جواب میں آپ نے کمر کے درد، پیٹ کے مروڑ یا نزلے زکام جیسا کوئی طبی مسئلہ بتا دیا تو یہ آپ کو نسخے اور ڈاکٹروں کے نام پتے بتابتا کر سر درد میں مبتلا کردیں گے۔ یہ مفت سامع اور بلامعاوضہ مشیر اگر پڑوس کی خالہ ہیں تو ہمسائی خاتون سے شوہر کے اعمال، ساس نندوں کے افعال اور کوائف سُسرال کُریدکُرید کر یوں معلوم کرتی ہیں کہ کوئی نہ کوئی مسئلہ برآمد ہو ہی جاتا ہے، اگر نہ ہو تو یہ خود کوئی مسئلہ پیدا کردیتی ہیں پھر اس کا حل تجویز کرتی ہیں۔
آپ کے اردگرد ایسے لوگ بھی یقیناً ہوں گے جن کا کام بن مانگے مشورہ دینا بلکہ تھوپنا ہوتا ہے''آپ یہ نوکری چھوڑ کر کوئی دوسری نوکری کیوں نہیں کرلیتے؟''،''ارے ملازمت چھوڑ کر کاروبار کریں''،''ارے اس کاروبار میں کیا رکھا ہے، یہ کاروبار کریں، اس میں بڑا منافع ہے''،''کار خرید لیں''، ''یہ کار بیچ کر وہ کار لے لیں''۔۔۔۔ ہونا یہ چاہیے کہ مسئلوں کا حل بتانے اور مشورے دینے والوں سے حل اور مشورہ سُننے کے سروس چارجز وصول کیے جائیں، یقین مانیے یہ خواتین وحضرات مسئلے حل کرنے اور مشورے دینے کے ہوکے میں یوں مبتلا ہوتے ہیں کہ پیسے دے کر بھی مشورہ دیں گے۔ پھر یہ ہوا کرے گا کہ کوئی صاحب آپ سے آکر کہیں گے ''ایک مشورہ دینا ہے، سُننے کے کتنے لیں گے''، اُس وقت آپ کا جواب ہوگا ''پانچ منٹ سُننے کے پانچ سو روپے''، وہ سَر کھجاکر لجاجت سے کہیں گے،''زیادہ نہیں ہیں۔۔۔'' یہ سُن کر آپ جونہی آگے بڑھنے لگیں گے وہ پانچ سو کا نوٹ آپ کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہیں گے''ارے ناراض کیوں ہوتے ہیں، چلیے ٹھیک ہے جو آپ کی مرضی، تو پھر سُنیے۔۔۔۔۔''
usman.jamai@express.com.pk