تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں
سابق گورنر سندھ اور مسلم لیگ(ن) کے سینئر نائب صدرممنون حسین اگلی مدت کے لیے بھاری اکثریت کے ساتھ پاکستان کے...
لاہور:
سابق گورنر سندھ اور مسلم لیگ(ن) کے سینئر نائب صدرممنون حسین اگلی مدت کے لیے بھاری اکثریت کے ساتھ پاکستان کے صدر منتخب ہوگئے۔ اکیسویں صدی کی اس دوسری دہائی میںکہیں جا کر یہ مرحلہ آیاہے کہ پاکستان میں پہلے وفاقی وصوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے نتیجے میں اقتدار ایک منتخب حکومت سے دوسری منتخب حکومت کو پرامن طریقے سے منتقل ہوا۔اس کے بعد صدارتی انتخابات کا مرحلہ بھی طے ہوا۔اب امید ہے کہ ستمبر میں ایوان صدر میں انتقال اقتدار بھی اسی جذبے کے تحت ہوجائے گا۔ممنون حسین جو ترتیب کے لحاظ سے ملک کے بارھویں صدر ہوں گے۔لیکن اگر غلام اسحاق خان کے جبری انتخاب کو بھی شامل کرلیا جائے تو جمہوری عمل کے ذریعے منتخب ہونے والے وہ ساتویںصدر ہیں۔اس کے علاوہ بعض حلقوں کے زہر میں بجھے طنزیہ جملوں اور مخصوص اشرافیہ کے لیے نرم گوشہ کے باوجود ان کے منتخب ہونے کے بعد متوسط اور نچلے متوسط طبقے کے اہل افراد کے لیے عہدہِ صدارت تک پہنچنا ممکن ہوسکاہے، جو ایک اچھی پیش رفت ہے ،جس کا جمہوریت اور جمہوری عمل کے تسلسل کے بغیرجاری رہنا ممکن نہیں ہے۔
دوسری ایک اچھی بات یہ ہوئی کہ تینوں بڑی سیاسی جماعتوں نے صدارت کے عہدے کے لیے شخصی اور سیاسی طورپر انتہائی نیک نام اور دیانتدار امیدوار میدان میں اتارے۔جسٹس (ر)وجیہہ الدین احمد ایک باکردار ماہر ِقانون ہیں، جنہوں نے جنرل پرویز مشرف کے اس پہلے PCOکے تحت بھی حلف اٹھانے سے انکار کردیا تھا،جس پر بیشتر جج صاحبان نے حلف اٹھا لیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے عدلیہ کی بحالی کی تحریک میں بھی انتہائی فعال کردار ادا کیا۔ ممنون حسین بے داغ شخصیت کے حامل ایک شریف النفس اور کھرے انسان ہیں،جن کا مڈل کلاس سے تعلق ہے۔وہ گزشتہ تین دہائیوں سے نہایت استقامت کے ساتھ سیاسی عمل میں شریک ہیں اور اپنی جماعت کے ساتھ کمٹ منٹ رکھتے ہیں۔وہ کچھ عرصے کے لیے سندھ کے گورنر بھی رہے ،مگر ان کا دامن ہرقسم کی آلائشوں سے پاک رہا۔رضاربانی کی تو گویا عمر ہی سیاست میں گزری ہے۔وہ زمانہ طالب علمی سے آج تک نیک نامی اور جرات مندی کے ساتھ سیاسی عمل میں فعال ہیں۔ انھوں نے اپنے سیاسی نظریات کی وجہ سے قید وبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں، مگر اصولوں کی سیاست کو ترک نہیں کیا۔وہ صرف سرگرم سیاسی کارکن ہی نہیں ہیں،بلکہ ان کا شمار سیاسی دانشوروں میں ہوتا ہے۔
عہدہِ صدارت کے لیے اس مرتبہ دلچسپ مقابلے کی توقع تھی، جو پیپلزپارٹی اور اس کی حلیف جماعتوں کی جانب سے بائیکاٹ کی وجہ سے پوری نہ ہو پائی، بلکہ سیاسی ماحول میں تلخی اور بدمزگی کی فضاء بھی پیدا ہوئی۔اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ عام انتخابات کے بارے میں اٹھنے والے سنگین اعتراضات کی بازگشت ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ صدارتی انتخابات کے حوالے سے کچھ نئے تحفظات بھی سامنے آگئے۔ عام انتخابات میں ہونے والی دھاندلیوںاوربے قاعدگیوں کی ذمے داری سیاسی جماعتوں سمیت مختلف حلقے الیکشن کمیشن پر عائد کررہے ہیں۔گوکہ ایک جمہوری معاشرے میںاعتراضات کا اٹھنااور اختلافات کاجنم لینا معمول کی بات ہوتی ہے،لیکن بعض آئینی وقانونی معاملات جس انداز میں اٹھے ہیں اس نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے،جن کا ہر سطح پر جائزہ لینا ضروری ہے۔
اگر صدارتی انتخابات کی تاریخ میں تبدیلی کے حوالے سے پیدا ہونے والی بدمزگی کا جائزہ لیاجائے ،تو پیپلزپارٹی اور اس کی حلیف جماعتوں کاموقف اپنے اندر وزن رکھتا ہے۔ان جماعتوں کے نقطہ نظر کے حوالے سے یہ بات قابل غور ہے،جن کی وجہ سے صدارتی انتخاب متنازع بن گیا ہے۔ اس پوری صورتحال میں الیکشن کمیشن کا کردار غیر واضح اور مبہم رہا اور اس نے فیصلہ کرنے میں تاخیری حربے استعمال کیے۔ صدارتی انتخابات کے حوالے سے صرف پیپلز پارٹی کی جانب سے تنقید نہیں ہو رہی، بلکہ اب تو تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان بھی یہ کہنے پر مجبورہوئے ہیں کہ بعض طاقتور اداروں کی جانب سے ان انتخابات کو ہائی جیک کرلیا گیا ہے۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ تحریک انصاف 11مئی کے عام انتخابات کی شفافیت پر اعتراضات اٹھارہی ہے اور اس نے احتجاجی مظاہرے بھی کیے اور الیکشن کمیشن کوبڑے پیمانے پر ہونے والی دھاندلی کا ذمے دار قرار دیا۔
پاکستان جیسے معاشروں میں جہاں تعلیم کی شرح تشویشناک حد تک کم ہے،جہاں قبائلی نظام کی جڑیں بہت گہری ہیں، جہاں فیوڈل ازم کی شکل میں اشرافیہ کی مضبوط بالادستی قائم ہے اورجہاں32برس آمریت قائم رہی ہے، وہاں عموماً اجتماعیت کی جگہ انفرادیت اور اداروں کی جگہ شخصیات کا اہمیت حاصل کرجانا عام سی بات ہے۔یہی وجہ ہے کہ صرف سیاسی جماعتوںہی نہیںبلکہ مختلف ریاستی اداروںکوبھی مخصوص شخصیات کے حوالے سے دیکھے جانے کا تصور عام ہے۔جس کا نتیجہ یہ نکلتاہے کہ وہ شخصیات خود بھی ان اداروں کواپنی ذات کاعکس تصور کرنے لگتی ہیں اور اسے اپنے تصورات اور خواہشات کے مطابق چلانے کی کوشش کرتی ہیں۔ نتیجتاً اداروں کی قومی اور ریاستی اہمیت کم ہوجاتی ہے اور فرد واحد کی شخصیت اس پر حاوی آجاتی ہے۔
دوسرا المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں ریاستی ادارے آئینی حدود کے اندر رہنے کے بجائے اکثراپنی حدودسے تجاوز کرجاتے ہیں،جس کے نتیجے میں ادارہ جاتی تصادم کی فضاء پیدا ہوجاتی ہے۔پاکستان میں مضبوط اور مستحکم اداروں کی تشکیل اور عوامی سطح پر ان کے احترام کے لیے ضروری ہے کہ تمام ریاستی ادارے اپنی آئینی حدود کے اندر رہیں۔ خود کو عقل کل سمجھنا چھوڑکردوسرے اداروں کے معاملات میں بے جامداخلت سے گریز کریں۔اگر جاری رویوں کو تبدیل نہ کیا گیا تو صرف جمہوریت اور جمہوری عمل ہی متاثر نہیں ہوگا،بلکہ پورا ریاستی ڈھانچہ بھی بری طرح متاثر ہوگا۔ لہٰذا ایسے اقدامات سے گریز کیا جائے جو کسی ادارے یا اس سے متعلق کسی شخصیت کے بارے میںمنفی تصورات پیدا کرنے کا سبب بنے۔
ہمیں خوشی ہے کہ ممنون حسین جیسا شریف النفس اورشائستہ شخص پاکستان کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہوا ہے۔ان کی کامیابی ہر صورت میں یقینی تھی چاہیے انتخابات30جولائی کے بجائے 6اگست کومنعقد ہوتے۔ لیکن مسلم لیگ(ن) کی طرف سے ایک نان ایشیو کھڑا کرکے، الیکشن کمیشن نے مبہم اور غیر واضح رویہ اختیار کرکے اس انتخاب کو متنازعہ بنادیا ہے،جس کے اثرات پانچ برس تک صدر ممنون حسین کوغیر ضروری طورپربھگتنا پڑیں گے۔حالانکہ انا، ذاتی بالادستی کا تصور اور ادارہ جاتی حدود سے تجاوز کرنے کی خواہش پر قابوپا کر اس عمل کو صحیح انداز میں سرانجام ہونے دیا جاتا،تو بہت سے معاملات متوازن انداز میں حل ہوجاتے اور کسی کو کوئی شکوہ بھی نہیں ہوتا۔ اس موقعے پر غالب کا یہ شعر یاد آتا ہے کہ
بدل کر فقیروں کا ہم بھیس غالب
تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں
سابق گورنر سندھ اور مسلم لیگ(ن) کے سینئر نائب صدرممنون حسین اگلی مدت کے لیے بھاری اکثریت کے ساتھ پاکستان کے صدر منتخب ہوگئے۔ اکیسویں صدی کی اس دوسری دہائی میںکہیں جا کر یہ مرحلہ آیاہے کہ پاکستان میں پہلے وفاقی وصوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے نتیجے میں اقتدار ایک منتخب حکومت سے دوسری منتخب حکومت کو پرامن طریقے سے منتقل ہوا۔اس کے بعد صدارتی انتخابات کا مرحلہ بھی طے ہوا۔اب امید ہے کہ ستمبر میں ایوان صدر میں انتقال اقتدار بھی اسی جذبے کے تحت ہوجائے گا۔ممنون حسین جو ترتیب کے لحاظ سے ملک کے بارھویں صدر ہوں گے۔لیکن اگر غلام اسحاق خان کے جبری انتخاب کو بھی شامل کرلیا جائے تو جمہوری عمل کے ذریعے منتخب ہونے والے وہ ساتویںصدر ہیں۔اس کے علاوہ بعض حلقوں کے زہر میں بجھے طنزیہ جملوں اور مخصوص اشرافیہ کے لیے نرم گوشہ کے باوجود ان کے منتخب ہونے کے بعد متوسط اور نچلے متوسط طبقے کے اہل افراد کے لیے عہدہِ صدارت تک پہنچنا ممکن ہوسکاہے، جو ایک اچھی پیش رفت ہے ،جس کا جمہوریت اور جمہوری عمل کے تسلسل کے بغیرجاری رہنا ممکن نہیں ہے۔
دوسری ایک اچھی بات یہ ہوئی کہ تینوں بڑی سیاسی جماعتوں نے صدارت کے عہدے کے لیے شخصی اور سیاسی طورپر انتہائی نیک نام اور دیانتدار امیدوار میدان میں اتارے۔جسٹس (ر)وجیہہ الدین احمد ایک باکردار ماہر ِقانون ہیں، جنہوں نے جنرل پرویز مشرف کے اس پہلے PCOکے تحت بھی حلف اٹھانے سے انکار کردیا تھا،جس پر بیشتر جج صاحبان نے حلف اٹھا لیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے عدلیہ کی بحالی کی تحریک میں بھی انتہائی فعال کردار ادا کیا۔ ممنون حسین بے داغ شخصیت کے حامل ایک شریف النفس اور کھرے انسان ہیں،جن کا مڈل کلاس سے تعلق ہے۔وہ گزشتہ تین دہائیوں سے نہایت استقامت کے ساتھ سیاسی عمل میں شریک ہیں اور اپنی جماعت کے ساتھ کمٹ منٹ رکھتے ہیں۔وہ کچھ عرصے کے لیے سندھ کے گورنر بھی رہے ،مگر ان کا دامن ہرقسم کی آلائشوں سے پاک رہا۔رضاربانی کی تو گویا عمر ہی سیاست میں گزری ہے۔وہ زمانہ طالب علمی سے آج تک نیک نامی اور جرات مندی کے ساتھ سیاسی عمل میں فعال ہیں۔ انھوں نے اپنے سیاسی نظریات کی وجہ سے قید وبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں، مگر اصولوں کی سیاست کو ترک نہیں کیا۔وہ صرف سرگرم سیاسی کارکن ہی نہیں ہیں،بلکہ ان کا شمار سیاسی دانشوروں میں ہوتا ہے۔
عہدہِ صدارت کے لیے اس مرتبہ دلچسپ مقابلے کی توقع تھی، جو پیپلزپارٹی اور اس کی حلیف جماعتوں کی جانب سے بائیکاٹ کی وجہ سے پوری نہ ہو پائی، بلکہ سیاسی ماحول میں تلخی اور بدمزگی کی فضاء بھی پیدا ہوئی۔اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ عام انتخابات کے بارے میں اٹھنے والے سنگین اعتراضات کی بازگشت ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ صدارتی انتخابات کے حوالے سے کچھ نئے تحفظات بھی سامنے آگئے۔ عام انتخابات میں ہونے والی دھاندلیوںاوربے قاعدگیوں کی ذمے داری سیاسی جماعتوں سمیت مختلف حلقے الیکشن کمیشن پر عائد کررہے ہیں۔گوکہ ایک جمہوری معاشرے میںاعتراضات کا اٹھنااور اختلافات کاجنم لینا معمول کی بات ہوتی ہے،لیکن بعض آئینی وقانونی معاملات جس انداز میں اٹھے ہیں اس نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے،جن کا ہر سطح پر جائزہ لینا ضروری ہے۔
اگر صدارتی انتخابات کی تاریخ میں تبدیلی کے حوالے سے پیدا ہونے والی بدمزگی کا جائزہ لیاجائے ،تو پیپلزپارٹی اور اس کی حلیف جماعتوں کاموقف اپنے اندر وزن رکھتا ہے۔ان جماعتوں کے نقطہ نظر کے حوالے سے یہ بات قابل غور ہے،جن کی وجہ سے صدارتی انتخاب متنازع بن گیا ہے۔ اس پوری صورتحال میں الیکشن کمیشن کا کردار غیر واضح اور مبہم رہا اور اس نے فیصلہ کرنے میں تاخیری حربے استعمال کیے۔ صدارتی انتخابات کے حوالے سے صرف پیپلز پارٹی کی جانب سے تنقید نہیں ہو رہی، بلکہ اب تو تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان بھی یہ کہنے پر مجبورہوئے ہیں کہ بعض طاقتور اداروں کی جانب سے ان انتخابات کو ہائی جیک کرلیا گیا ہے۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ تحریک انصاف 11مئی کے عام انتخابات کی شفافیت پر اعتراضات اٹھارہی ہے اور اس نے احتجاجی مظاہرے بھی کیے اور الیکشن کمیشن کوبڑے پیمانے پر ہونے والی دھاندلی کا ذمے دار قرار دیا۔
پاکستان جیسے معاشروں میں جہاں تعلیم کی شرح تشویشناک حد تک کم ہے،جہاں قبائلی نظام کی جڑیں بہت گہری ہیں، جہاں فیوڈل ازم کی شکل میں اشرافیہ کی مضبوط بالادستی قائم ہے اورجہاں32برس آمریت قائم رہی ہے، وہاں عموماً اجتماعیت کی جگہ انفرادیت اور اداروں کی جگہ شخصیات کا اہمیت حاصل کرجانا عام سی بات ہے۔یہی وجہ ہے کہ صرف سیاسی جماعتوںہی نہیںبلکہ مختلف ریاستی اداروںکوبھی مخصوص شخصیات کے حوالے سے دیکھے جانے کا تصور عام ہے۔جس کا نتیجہ یہ نکلتاہے کہ وہ شخصیات خود بھی ان اداروں کواپنی ذات کاعکس تصور کرنے لگتی ہیں اور اسے اپنے تصورات اور خواہشات کے مطابق چلانے کی کوشش کرتی ہیں۔ نتیجتاً اداروں کی قومی اور ریاستی اہمیت کم ہوجاتی ہے اور فرد واحد کی شخصیت اس پر حاوی آجاتی ہے۔
دوسرا المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں ریاستی ادارے آئینی حدود کے اندر رہنے کے بجائے اکثراپنی حدودسے تجاوز کرجاتے ہیں،جس کے نتیجے میں ادارہ جاتی تصادم کی فضاء پیدا ہوجاتی ہے۔پاکستان میں مضبوط اور مستحکم اداروں کی تشکیل اور عوامی سطح پر ان کے احترام کے لیے ضروری ہے کہ تمام ریاستی ادارے اپنی آئینی حدود کے اندر رہیں۔ خود کو عقل کل سمجھنا چھوڑکردوسرے اداروں کے معاملات میں بے جامداخلت سے گریز کریں۔اگر جاری رویوں کو تبدیل نہ کیا گیا تو صرف جمہوریت اور جمہوری عمل ہی متاثر نہیں ہوگا،بلکہ پورا ریاستی ڈھانچہ بھی بری طرح متاثر ہوگا۔ لہٰذا ایسے اقدامات سے گریز کیا جائے جو کسی ادارے یا اس سے متعلق کسی شخصیت کے بارے میںمنفی تصورات پیدا کرنے کا سبب بنے۔
ہمیں خوشی ہے کہ ممنون حسین جیسا شریف النفس اورشائستہ شخص پاکستان کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہوا ہے۔ان کی کامیابی ہر صورت میں یقینی تھی چاہیے انتخابات30جولائی کے بجائے 6اگست کومنعقد ہوتے۔ لیکن مسلم لیگ(ن) کی طرف سے ایک نان ایشیو کھڑا کرکے، الیکشن کمیشن نے مبہم اور غیر واضح رویہ اختیار کرکے اس انتخاب کو متنازعہ بنادیا ہے،جس کے اثرات پانچ برس تک صدر ممنون حسین کوغیر ضروری طورپربھگتنا پڑیں گے۔حالانکہ انا، ذاتی بالادستی کا تصور اور ادارہ جاتی حدود سے تجاوز کرنے کی خواہش پر قابوپا کر اس عمل کو صحیح انداز میں سرانجام ہونے دیا جاتا،تو بہت سے معاملات متوازن انداز میں حل ہوجاتے اور کسی کو کوئی شکوہ بھی نہیں ہوتا۔ اس موقعے پر غالب کا یہ شعر یاد آتا ہے کہ
بدل کر فقیروں کا ہم بھیس غالب
تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں