سچ بولنا… سب سے بڑا انقلاب ہے

آرٹس کونسل سے کراچی پریس کلب آنے والی سڑک پر بائیں جانب جس مقام پر سندھ ہائی کورٹ جانے والی سڑک مڑتی ہے...

s_nayyar55@yahoo.com

ISLAMABAD:
آرٹس کونسل سے کراچی پریس کلب آنے والی سڑک پر بائیں جانب جس مقام پر سندھ ہائی کورٹ جانے والی سڑک مڑتی ہے، اسی جگہ کونے کی ایک دیوار پر کئی برسوں سے ایک تحریر لکھی ہوئی نظر آتی ہے۔ لکھا ہے۔ ''دنیا کا سب سے بڑا انقلاب سچ بولنا ہے۔'' نیچے لکھا ہے۔ ''جیے انسان تحریک'' اور لکھنے والے نے اپنا نام بھی لکھا ہوا ہے، یہ کوئی منٹھار سولنگی صاحب ہیں۔ سولنگی صاحب کون ہیں؟ شاید کوئی نہیں جانتا۔ لیکن یہ منٹھار سولنگی صاحب جو بھی ہیں اور جہاں بھی ہیں ان کو یہ نا چیز یہ جملہ لکھنے پر سلام پیش کرتا ہے۔ واقعی دنیا کا سب سے بڑا انقلاب سچ بولنا ہی ہے۔ لکھنے والا چونکہ کوئی گمنام شخص ہے۔ لہذا اس دیوار پر لکھی ہوئی اس تحریر کو کسی قسم کی کوئی پذیرائی آج تک نہ مل سکی۔

لیکن وہ جو کہا جاتا ہے ''یہ مت دیکھو کہ کون کہہ رہا ہے؟ بلکہ یہ دیکھو کہ کیا کہہ رہا ہے؟'' اگر یہ تحریر لکھنے والی شخصیت کوئی جانی پہچانی یا مقبول عام ہوتی تو اس جملے کی دھوم مچ جاتی۔ جیسے حکیم مومن خان مومن نے اپنے زمانے میں ایک سادہ سا شعر لکھا ''تم میرے پاس ہوتے ہو گویا، جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا ''۔ یہ شعر ان کے ہم عصر مرزا غالب کو اس قدر پسند آیا کہ انھوں نے مومن کو ان کے اس شعر کے بدلے اپنا پورا دیوان دے دینے کی پیشکش کر دی۔ یہ دونوں شاعر اپنے زمانے کے بہت بڑے شاعر تھے۔ شاہی دربار میں ان کی نشستیں مخصوص تھیں، شعر اور دیوان کا تو خیر کیا لینا دینا ہوتا۔ لیکن غالب کی اس تعریف نے اس شعر کو اردو ادب میں ہمیشہ کے لیے امر کر دیا۔ وجہ صاف ظاہر تھی کہ دونوں شاعر مقبول عام شاعر تھے۔ مومن نے اس شعر میں بڑی سادگی سے کہا تھا تم میرے پاس اس وقت ہوتے ہو، جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا۔ یعنی مومن محبوب کو تنہائی میں اپنے قریب تصور کرتے ہیں، لیکن صرف تنہائی میں ان کی یہ کیفیت ہوتی جب کوئی دوسرا موجود ہو تو پھر پہلا یعنی ان کا محبوب ان کے پاس نہیں ہوتا تھا۔

اب اسی بات کو عشروں بعد ہمارے ایک فلمی شاعر تسلیم فاضلی مرحوم نے جو اداکارہ نشو کے شوہر اور اداکارہ صاحبہ کے والد تھے، حکیم مومن سے کہیں زیادہ آگے بڑھ کر اور زیادہ احساس کی گہرائی میں جا کر یوں بیان کیا '' ان کا ہی تصور ہے، محفل ہو کہ تنہائی' سمجھے کوئی دیوانہ، جانے کوئی سودائی'' تسلیم فاضلی کہتے ہیں میرا محبوب تصور میں ہر دم میرے ساتھ موجود ہوتا ہے، میں تنہا ہوں، خواہ کسی محفل میں بیٹھا ہوں۔ اس بنا پر کوئی مجھے دیوانہ سمجھتا ہے تو کوئی سودائی سمجھتا ہے، لیکن مجھے اس کی پرواہ نہیں ہے۔ یہ غزل ستر کی دہائی میں بننے والی ایک فلم ''سہرے کے پھول'' کے لیے ہمارے اس فلمی شاعر نے لکھی تھی اور میڈم نور جہاں نے اسے بڑے خوب صورت انداز میں گایا تھا۔


آج بھی یہ غزل سننے والوں کے کانوں میں رس گھو ل دیتی ہے۔ لیکن کہاں غالب اور مومن جیسی اردو ادب کی قد آور شخصیتیں، بلکہ انھیں ادبی دیو کہنا زیادہ مناسب ہو گا اور یہ دونوں ہیں بھی اردو ادب کے دیو کہ ڈیڑھ صدی سے زائد عرصہ گزر جانے کے بعد بھی مومن کا کلام اور ان کے اشعار ضرب الامثال کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں اور کہاں تسلیم فاضلی جیسا ایک فلمی شاعر؟ بلاشبہ ان دونوں کا کوئی مقابلہ ہی نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ ایک ہی خیال کو شعر کا پیراہن پہنانے کے مقابلے میں، مجھے ذاتی طور پر تسلیم فاضلی، مومن سے کہیں زیادہ آگے نظر آتے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ میری ذاتی رائے ہے جو غلط بھی ہو سکتی ہے، کیونکہ میں کوئی نقاد نہیں ہوں، لیکن ہر شخص کو اپنی ذاتی رائے قائم کرنے کا جو پیدائشی حق حاصل ہے، وہ بہرحال مجھے بھی حاصل ہے۔

بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ منٹھار سولنگی صاحب سے بات نکلی اور غالب و مومن سے ہوتی ہوئی تسلیم فاضلی تک جا پہنچی، ایک بات کو کہیں سے لے کر کہیں تک پہنچا دینا، میں اسے بھی ایک کالم نویس کا پیدائشی حق سمجھتا ہوں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ بعض اوقات کوئی انجان یا گمنام سا آدمی بھی بہت بڑی بات کہہ جاتا ہے، جسے ہم محض اس لیے اہمیت نہیں دیتے کہ اس بات کو کہنے والا کوئی مشہور، مقبول، جانا پہچانا یا پبلک فیم آدمی نہیں ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی تاریخ میں سب سے بڑا انقلاب جو آیا اس کی بنیاد سچ پر ہی رکھی گئی تھی۔ یاد کیجیے اس سچ کی آواز کو جو مکہ کی چوٹی سے پہلی مرتبہ بلند ہوئی تھی جب لوگوں نے پکار سنی:

'' اے قریش کے لوگو! اگر میں یہ کہوں کہ اس پہاڑی کے پیچھے دشمن کا ایک لشکر موجود ہے جو تم پر حملہ کرنے کے لیے بالکل تیار ہے تو کیا تم میری اس بات پر یقین کر لو گے؟'' سننے والوں نے ہم آواز ہو کر جواب دیا ''ہاں ہم آپ کی اس بات پر بالکل یقین کر لیں گے، کیونکہ آپ صادق اور امین ہیں۔ آپ نے آج تک نہ تو کوئی غلط بیانی کی اور نہ ہی کبھی جھوٹ بولا'' سچ کی آواز پھر بلند ہوئی۔ ''تو پھر میرے کہنے پر جھوٹے خداؤں کی پوجا چھوڑ کر اپنے حقیقی اور سچے معبود پر ایمان کیوں نہیں لاتے جو اکیلا اور یکتا ہے''؟ مگر مجمع کو یہ سچ منظور نہ تھا۔ لیکن جس خدا پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی تھی اسی خدا نے کہا تھا کہ باطل مٹنے کے لیے ہی آیا ہے اور حق کو ایک دن غالب ہونا ہی ہونا ہے۔ پھر 23 برس بعد سچ کی یہ آواز فتح مکہ کے بعد پھر بلند ہوتی ہے۔ مخاطب وہی مجمع تھا۔ ''جاؤ تم سب کو معاف کیا جاتا ہے، آج کسی سے کوئی انتقام نہیں لیا جائے گا۔ جو خدا کے گھر میں آ گیا اسے امان ہے۔ جو اپنے ہی گھر میں بیٹھ جائے اسے بھی امان اور جو سردار مکہ ابو سفیانؓ کے گھر میں پناہ لے لے اسے بھی معاف کیا جاتا ہے۔'' سچ 23 برس کے مختصر عرصے میں غالب آ چکا تھا اور فقط 10 برس کے بعد اس تحریک کا علم دس ہزار مربع میل پر مشتمل ایک وسیع اسلامی ریاست پر لہرا رہا تھا۔

سچ کی یہ تحریک صرف ڈیڑھ ہزار برس قبل ہی موجود نہیں تھی بلکہ یہ صدیوں پہلے اس وقت بھی موجود تھی، جب کسی نے بت کدے میں داخل ہو کر پتھر سے تراشے ہوئے جھوٹے خداؤں کو توڑ پھوڑ ڈالا تھا اور ایک سچے اور حقیقی خدا کی واحدانیت کی بات کی تھی۔ جس کی پاداش میں اسے جب آگ میں دھکیل دینے کی سزا تجویز کی گئی تو بقول علامہ اقبال ''بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق''۔ سچ کی خاطر آگ میں کود جانے کی اس ادا پر خود عقل بھی حیران رہ گئی تھی، کیا یہ شخص نہیں جانتا کہ آگ اسے جلا ڈالے گی؟ مگر عشق کا عقل سے کیا واسطہ؟ یہاں بھی سچ ہی غالب آیا تھا۔ آگ میں دھکیلنے والے جھوٹے خدا پر خود اسی کے حواریوں کے ہاتھوں جوتے برستے تھے اور جو حق و سچ کی خاطر آگ میں کودا تھا وہ ابوالانبیاء کہلایا۔ منٹھار سولنگی نے کوئی نئی بات ہر گز نہیں کہی ہے۔ ایک بھولی بسری بات صرف یاد دلائی ہے۔ شائد ہمیں یاد بھی ہو، لیکن عمل کرنا ہم یقینا بھول چکے ہیں۔ جس دن بھی کوئی سچی رہنما آواز بلند ہو گئی تو یقین کیجیے ہم خود بخود ایک سر بلند قوم بن جائیں گے۔ لیکن کاش کوئی آواز تو اٹھے اور خدا کرے کہ جلد اٹھے اور ایک حقیقی انقلاب برپا کر دے۔
Load Next Story