مقامی حکومتی نظام کا مستقبل
اکتوبر 1999ء میں سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالنے کے ساتھ ہی اپنے سات نکاتی ایجنڈے کا اعلان کیا...
اکتوبر 1999ء میں سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالنے کے ساتھ ہی اپنے سات نکاتی ایجنڈے کا اعلان کیا اس ایجنڈا کا ایک اہم نقطہ اقتدار کی نچلی سطح پر منتقلی بھی تھا اسی سلسلے میں مقامی حکومتی نظام کی بنیاد رکھی گئی جس کے لیے قومی تعمیر نو بیورو (NRB) کا قیام عمل میں آیا۔ اقتدار کی نچلی سطح پر منتقلی کے حکومتی ایجنڈے کو عملی جامہ پہنا نے کے لیے ماہرین کی خدمات حاصل کی گئیں۔
حکومت نے 2000ء میں مقامی نظامِ حکومت قائم کرنے کا اعلان کیا اور لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2001ء کے تحت بلدیاتی انتخابات کے ذریعے ضلع، تحصیل اور یونین کونسل کی سطح پر مقامی حکومتیں قائم کی گئیں۔ مقامی نظامِ حکومت کو بنیادی نعرہ دیا گیا کہ ''اقتدار عوام کا اختیار عوام کا'' اس نظام حکومت کے تحت دوبار الیکشن ہو چکے ہیں۔ اِس آرڈیننس میں بہت سی تبدیلیاں بھی ہوئیں۔ جس میں سے کچھ اس کی بنیادی روح کے خلاف بھی تھیں۔
اس نظام کے نفاذ سے قبل اس نئے نظام کی خوب تشہیر کی گئی اور باور کرایا گیا کہ یہ نیا نظام عام آدمی کی تقدیر بدل دے گا، استحصالی نظام کا خاتمہ کرے گا، تمام طبقات کو اقتدار میں شرکت کا موقع ملے گا، عوام کو ترقیاتی عمل میں شامل کیا جائے گا، پولیس اور پٹواری کو عوام کے تابع بنا دیا جائے گا۔ غرض اس نظام کے نفاذ سے قبل عوام کو بے شمار سہانے خواب دکھائے گئے، ملک کے عوام نے اس نئے بلدیاتی نظام سے بے شمار امیدیں اور توقعات وابستہ کر لیں۔ یہ نیا بلدیاتی نظام تین بنیادی ستون پر استوار تھا جس میں ضلع کونسل، تحصیل اور یونین کونسل شا مل ہیں۔ یونین کونسل اس نظام کی بنیادی اکائی قرار دی گئی۔ چھ سال تک بے شمار قومی اور بین الاقوامی ادارے اِس نظام کی جدوجہد میں مصروف رہے مقامی این جی اوز نے بھی نظام کے نفاذ کے لیے اپنی اپنی کوششیں کیں۔ اسی طرح قومی تعمیر نو بیورو (NRB) کے تحت بھی ضلع تحصیل اور یونین کی سطح پر اِس نظام کے عمل درآمد کے حوالے سے کئی اقدامات اُٹھائے گئے۔ تمام تر تبدیلوں کے باوجود یہ آرڈیننس پوری طرح نافذ نہیں ہو سکا تھا۔
پھر 18 فروری کا دن آ گیا، صدر جنرل پرویز مشرف کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔ نئے لوگ منتخب ہو کر ایوان اقتدار تک پہنچ گئے۔ اب جہاں مشرف حکومت کی دیگر پالیسیاں تبدیل کی گئی، وہاں مقامی حکومتی نظام کے خاتمے یا تبدیلی کی کوششیں بھی کی گئیں۔ سندھ میں تو بعض فرسودہ سوچ رکھنے والی سیاسی جماعتوں، قوم پرستوں اور نام نہاد رہنمائوں کے زیر اہتمام اس نظام کے خلاف باقاعدہ مظاہرے کیے گئے اور گزشتہ دنوں پیپلز پارٹی کی حکومت نے بغیر کسی مشاورت اور بحث و مباحثے کے اس نظام کے مکمل خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے 1979ء کا مقامی حکومتوں کا نظام نافذ کرنے کا اعلان کر دیا۔
آج ہم اِس امر کا جائزہ لیں گے کہ اِس نظام کے تحت ضلع تحصیل اور یونین کونسل کو جس انداز میں کام کرنا تھا کیا وہ ہوا۔ وہ خوبصورت خواب جس کی تعبیر ''اقتدار عوام کا اختیار عوام کا'' دیکھا تھا کیا وہ شرمندہ تعبیر ہو سکا؟ کیا مستقبل میں یہ نظام جاری رہنا چاہیے یا اس کو ختم کر دینا ضروری ہے۔
اگر ہم مقامی حکومتی نظام پر عمل درآمد کا جائزہ لیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ضلع کی سطح پر پبلک سیفٹی کمیشن، ضلع کی سطح پر مانیٹرنگ کمیٹیاں، ضلعی محتسب، ضلعی مشاورت، اور عوامی رضا کار بورڈز CCBs قائم ہونے تھے اور عوام کو ان اداروں کے ذریعے اس نظام کا حصہ بننا تھا۔ لیکن اِن میں کتنے ادارے قائم ہوئے اور وہ موٗثر انداز میں کام کر سکے یا نہیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے۔
اگست 2001ء کے بعد یہ نظام کیسے چلا۔ ہم نے دیکھا ملک بھر میں ضلع ناظم منتخب ہو ئے اور یہ منتخب ہونے والے 80 سے 90 فیصد لوگ وہی روایتی جاگیردار، وڈیرے اور سرمایہ دار تھے جو خود یا ان کے آبائو اجداد ایوان اقتدار میں ہمیشہ سے حصے دار رہے تھے صرف چند اضلاع میںہی نئے چہرے ضلع ناظم کی صورت میں سامنے آئے۔ البتہ بڑے بڑے شہروں میں سٹی ڈسٹرکٹ ناظم، نائب ناظمین اور ٹائون ناظمین کی اکثریت نوجوان اور پڑھے لکھے لوگوں پر مشتمل تھی، تحصیل ناظمین کی اکثریت بھی روایتی سیاستدانو ں پر مشتمل تھی اور % 50 نئے چہروں کو موقع مل سکا تاہم کونسلرز اور خصوصاً خواتین کونسلر مزدور کسان اور اقلیتی نشستوں پر عام آدمی کو مو قع مل سکا اور وہ کونسلر بن کر اس نظام کا حصہ بنے۔
ابتداء میں سب سے بڑا چیلنج جس کا اس نظام کو سامنا کرنا پڑا وہ بیوروکریسی کا رویہ تھا کیونکہ اس نئے نظام کے قیام سے سب سے زیادہ جس کے اختیار کم ہوئے وہ بیورو کریسی تھی پاکستان کی تاریخ میں پہلی با ر کسی نظام نے بیورو کریسی کو بے اختیار کیا۔ اے سی، ڈی سی، کمشنر سب کے اختیارات اس نظام کے آنے سے ختم ہو گئے اور یہ تمام اختیارات تحصیل اور ضلع کے منتخب افراد کو مل گئے۔ اس عمل کے کیا فوائد اور کیا نقصانات یہ ایک الگ بحث ہے تاہم عوام کو65 سال سے قائم بیوروکریسی کے فرسودہ نظام اور انگریز کے غلامانہ حکمرانی کے نظام سے نجات ضرور مل گئی جس کے فوائد کے ساتھ کچھ نقصانات بھی ضرور ہوئے۔ غرض اس نظام پر عمل درآمد میں بیوروکریسی کا رویہ پہلی رکاوٹ کے طور پر سامنے آیا۔ دوسری بڑی رکاوٹ فرسودہ جاگیردارانہ، وڈیرانہ سوچ رہی جس نے آج تک عوام کو باشعور با اختیار بنانے کے کسی بھی اقدام کو موثر نہیں ہونے دیا۔ اپنے اقتدار کو طول دینے، اپنی بادشاہت کو قائم رکھنے اور اختیارات کو اپنے عزیزوں اور رشتے داروں تک محدود رکھنے کے لیے بلدیاتی انتخابات نہ کرائے گئے۔
اس نظام میں عوام کی موثر شرکت کے لیے بہت سارے دروازے رکھے گئے ہیں تا کہ عوام بااختیار ہو سکیں اس نظا م میں جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ یونین کونسل کو اس نظام کی بنیادی اکائی قرار دیا گیا اور یونین کونسل کے ناظم کو ضلع کی سطح پر نمایندگی ملی جب کہ یونین کونسل کے نائب ناظم کو تحصیل کونسل میں نمایندگی کا حق دیا گیا تا کہ ضلع اور تحصیل سے یو نین ناظم اور نائب ناظم اپنی اپنی یونین کونسل کے لیے فنڈز حاصل کر سکیں اور ضلع نا ظم کو منتخب کر نے کا حق بھی کو نسلر وں کو دیا گیا۔
اس نظام میں یونین کونسل کی سطح پر مانیٹرنگ کمیٹیوں کا تصور دیا گیا تھا جس کا کام ہر یونین کونسل کی سطح پر موجود حکو متی اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنانا تھا۔ یہ کمیٹیا ں ہر یونین کونسل میں قائم تو ہوئیں لیکن کہیں بھی موثر انداز میں مانیٹرنگ کی ذمے داریاں جو آئین میں دی گئیں تھیں یہ پوری نہ کر سکیں اور غیر موثر رہیں، حکو متی افسران انھیں ماننے پر تیا ر نہ ہوئے۔ اسی طر ح یونین کو نسل کی سطح پر فنڈز کی کمی رہی اور عام کونسلرز تک فنڈز نہ پہنچ سکے اور نہ ہی اس کے ذریعے استعمال ہوئے۔ بعض مقامات پر یونین ناظم اور نائب ناظم تحصیل اور ضلع سے حاصل ہونے والے فنڈز خود استعمال کرتے رہے اور اس میں اپنی کونسل کے مشورے کو شامل نہیں کیا اور یوں اس نظام کا اہم ترین حصہ کونسلرز جو اس نظام کی اصل روح تھے فنڈز اور اختیارات سے محروم رہے۔ انھیں صرف اور صرف یونین کونسل کو ملنے والے معمولی ماہانہ کے فنڈز سے ایک آدھ منصوبہ مکمل کرنے کا موقع مل سکا۔ اور اس وجہ سے سب سے زیادہ محرومی کا شکار یہی کونسلر رہے خصوصاً خواتین اور مزدور کسان کونسلرز جنھیں ایک بھی منصو بے کے لیے فنڈز میسر نہ آ سکے حلقہ کے عوام کو جوابدہ یہی لوگ رہے۔
حکومت نے 2000ء میں مقامی نظامِ حکومت قائم کرنے کا اعلان کیا اور لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2001ء کے تحت بلدیاتی انتخابات کے ذریعے ضلع، تحصیل اور یونین کونسل کی سطح پر مقامی حکومتیں قائم کی گئیں۔ مقامی نظامِ حکومت کو بنیادی نعرہ دیا گیا کہ ''اقتدار عوام کا اختیار عوام کا'' اس نظام حکومت کے تحت دوبار الیکشن ہو چکے ہیں۔ اِس آرڈیننس میں بہت سی تبدیلیاں بھی ہوئیں۔ جس میں سے کچھ اس کی بنیادی روح کے خلاف بھی تھیں۔
اس نظام کے نفاذ سے قبل اس نئے نظام کی خوب تشہیر کی گئی اور باور کرایا گیا کہ یہ نیا نظام عام آدمی کی تقدیر بدل دے گا، استحصالی نظام کا خاتمہ کرے گا، تمام طبقات کو اقتدار میں شرکت کا موقع ملے گا، عوام کو ترقیاتی عمل میں شامل کیا جائے گا، پولیس اور پٹواری کو عوام کے تابع بنا دیا جائے گا۔ غرض اس نظام کے نفاذ سے قبل عوام کو بے شمار سہانے خواب دکھائے گئے، ملک کے عوام نے اس نئے بلدیاتی نظام سے بے شمار امیدیں اور توقعات وابستہ کر لیں۔ یہ نیا بلدیاتی نظام تین بنیادی ستون پر استوار تھا جس میں ضلع کونسل، تحصیل اور یونین کونسل شا مل ہیں۔ یونین کونسل اس نظام کی بنیادی اکائی قرار دی گئی۔ چھ سال تک بے شمار قومی اور بین الاقوامی ادارے اِس نظام کی جدوجہد میں مصروف رہے مقامی این جی اوز نے بھی نظام کے نفاذ کے لیے اپنی اپنی کوششیں کیں۔ اسی طرح قومی تعمیر نو بیورو (NRB) کے تحت بھی ضلع تحصیل اور یونین کی سطح پر اِس نظام کے عمل درآمد کے حوالے سے کئی اقدامات اُٹھائے گئے۔ تمام تر تبدیلوں کے باوجود یہ آرڈیننس پوری طرح نافذ نہیں ہو سکا تھا۔
پھر 18 فروری کا دن آ گیا، صدر جنرل پرویز مشرف کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔ نئے لوگ منتخب ہو کر ایوان اقتدار تک پہنچ گئے۔ اب جہاں مشرف حکومت کی دیگر پالیسیاں تبدیل کی گئی، وہاں مقامی حکومتی نظام کے خاتمے یا تبدیلی کی کوششیں بھی کی گئیں۔ سندھ میں تو بعض فرسودہ سوچ رکھنے والی سیاسی جماعتوں، قوم پرستوں اور نام نہاد رہنمائوں کے زیر اہتمام اس نظام کے خلاف باقاعدہ مظاہرے کیے گئے اور گزشتہ دنوں پیپلز پارٹی کی حکومت نے بغیر کسی مشاورت اور بحث و مباحثے کے اس نظام کے مکمل خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے 1979ء کا مقامی حکومتوں کا نظام نافذ کرنے کا اعلان کر دیا۔
آج ہم اِس امر کا جائزہ لیں گے کہ اِس نظام کے تحت ضلع تحصیل اور یونین کونسل کو جس انداز میں کام کرنا تھا کیا وہ ہوا۔ وہ خوبصورت خواب جس کی تعبیر ''اقتدار عوام کا اختیار عوام کا'' دیکھا تھا کیا وہ شرمندہ تعبیر ہو سکا؟ کیا مستقبل میں یہ نظام جاری رہنا چاہیے یا اس کو ختم کر دینا ضروری ہے۔
اگر ہم مقامی حکومتی نظام پر عمل درآمد کا جائزہ لیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ضلع کی سطح پر پبلک سیفٹی کمیشن، ضلع کی سطح پر مانیٹرنگ کمیٹیاں، ضلعی محتسب، ضلعی مشاورت، اور عوامی رضا کار بورڈز CCBs قائم ہونے تھے اور عوام کو ان اداروں کے ذریعے اس نظام کا حصہ بننا تھا۔ لیکن اِن میں کتنے ادارے قائم ہوئے اور وہ موٗثر انداز میں کام کر سکے یا نہیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے۔
اگست 2001ء کے بعد یہ نظام کیسے چلا۔ ہم نے دیکھا ملک بھر میں ضلع ناظم منتخب ہو ئے اور یہ منتخب ہونے والے 80 سے 90 فیصد لوگ وہی روایتی جاگیردار، وڈیرے اور سرمایہ دار تھے جو خود یا ان کے آبائو اجداد ایوان اقتدار میں ہمیشہ سے حصے دار رہے تھے صرف چند اضلاع میںہی نئے چہرے ضلع ناظم کی صورت میں سامنے آئے۔ البتہ بڑے بڑے شہروں میں سٹی ڈسٹرکٹ ناظم، نائب ناظمین اور ٹائون ناظمین کی اکثریت نوجوان اور پڑھے لکھے لوگوں پر مشتمل تھی، تحصیل ناظمین کی اکثریت بھی روایتی سیاستدانو ں پر مشتمل تھی اور % 50 نئے چہروں کو موقع مل سکا تاہم کونسلرز اور خصوصاً خواتین کونسلر مزدور کسان اور اقلیتی نشستوں پر عام آدمی کو مو قع مل سکا اور وہ کونسلر بن کر اس نظام کا حصہ بنے۔
ابتداء میں سب سے بڑا چیلنج جس کا اس نظام کو سامنا کرنا پڑا وہ بیوروکریسی کا رویہ تھا کیونکہ اس نئے نظام کے قیام سے سب سے زیادہ جس کے اختیار کم ہوئے وہ بیورو کریسی تھی پاکستان کی تاریخ میں پہلی با ر کسی نظام نے بیورو کریسی کو بے اختیار کیا۔ اے سی، ڈی سی، کمشنر سب کے اختیارات اس نظام کے آنے سے ختم ہو گئے اور یہ تمام اختیارات تحصیل اور ضلع کے منتخب افراد کو مل گئے۔ اس عمل کے کیا فوائد اور کیا نقصانات یہ ایک الگ بحث ہے تاہم عوام کو65 سال سے قائم بیوروکریسی کے فرسودہ نظام اور انگریز کے غلامانہ حکمرانی کے نظام سے نجات ضرور مل گئی جس کے فوائد کے ساتھ کچھ نقصانات بھی ضرور ہوئے۔ غرض اس نظام پر عمل درآمد میں بیوروکریسی کا رویہ پہلی رکاوٹ کے طور پر سامنے آیا۔ دوسری بڑی رکاوٹ فرسودہ جاگیردارانہ، وڈیرانہ سوچ رہی جس نے آج تک عوام کو باشعور با اختیار بنانے کے کسی بھی اقدام کو موثر نہیں ہونے دیا۔ اپنے اقتدار کو طول دینے، اپنی بادشاہت کو قائم رکھنے اور اختیارات کو اپنے عزیزوں اور رشتے داروں تک محدود رکھنے کے لیے بلدیاتی انتخابات نہ کرائے گئے۔
اس نظام میں عوام کی موثر شرکت کے لیے بہت سارے دروازے رکھے گئے ہیں تا کہ عوام بااختیار ہو سکیں اس نظا م میں جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ یونین کونسل کو اس نظام کی بنیادی اکائی قرار دیا گیا اور یونین کونسل کے ناظم کو ضلع کی سطح پر نمایندگی ملی جب کہ یونین کونسل کے نائب ناظم کو تحصیل کونسل میں نمایندگی کا حق دیا گیا تا کہ ضلع اور تحصیل سے یو نین ناظم اور نائب ناظم اپنی اپنی یونین کونسل کے لیے فنڈز حاصل کر سکیں اور ضلع نا ظم کو منتخب کر نے کا حق بھی کو نسلر وں کو دیا گیا۔
اس نظام میں یونین کونسل کی سطح پر مانیٹرنگ کمیٹیوں کا تصور دیا گیا تھا جس کا کام ہر یونین کونسل کی سطح پر موجود حکو متی اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنانا تھا۔ یہ کمیٹیا ں ہر یونین کونسل میں قائم تو ہوئیں لیکن کہیں بھی موثر انداز میں مانیٹرنگ کی ذمے داریاں جو آئین میں دی گئیں تھیں یہ پوری نہ کر سکیں اور غیر موثر رہیں، حکو متی افسران انھیں ماننے پر تیا ر نہ ہوئے۔ اسی طر ح یونین کو نسل کی سطح پر فنڈز کی کمی رہی اور عام کونسلرز تک فنڈز نہ پہنچ سکے اور نہ ہی اس کے ذریعے استعمال ہوئے۔ بعض مقامات پر یونین ناظم اور نائب ناظم تحصیل اور ضلع سے حاصل ہونے والے فنڈز خود استعمال کرتے رہے اور اس میں اپنی کونسل کے مشورے کو شامل نہیں کیا اور یوں اس نظام کا اہم ترین حصہ کونسلرز جو اس نظام کی اصل روح تھے فنڈز اور اختیارات سے محروم رہے۔ انھیں صرف اور صرف یونین کونسل کو ملنے والے معمولی ماہانہ کے فنڈز سے ایک آدھ منصوبہ مکمل کرنے کا موقع مل سکا۔ اور اس وجہ سے سب سے زیادہ محرومی کا شکار یہی کونسلر رہے خصوصاً خواتین اور مزدور کسان کونسلرز جنھیں ایک بھی منصو بے کے لیے فنڈز میسر نہ آ سکے حلقہ کے عوام کو جوابدہ یہی لوگ رہے۔