پولیس کا سٹی کورٹ میں قیدیوں سے غیر انسانی سلوک

قیدیوں سے پیشی سے قبل رقم طلب کی جاتی ہے، رشوت نہ دینے پر سختی سے زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے

رشوت نہ دینے پر قیدیوں کو سختی سے زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے۔ فوٹو : ایکسپریس

جیلوں سے سٹی کورٹ لائے گئے قیدیوں سے پیشی سے قبل رقم طلب کی جاتی ہے اور رشوت نہ دینے پر سختی سے زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے۔

پولیس نے جیلوں سے سٹی کورٹ لائے گئے قیدیوں کو بهی اپنی کمائی کا ذریعہ بنالیا ہے، عدالتوں میں پیشی سے قبل قیدیوں سے سٹی کورٹ لاک اپ میں رشوت طلب کی جاتی ہے اور مطالبہ پورا نہ ہونے پر غیر انسانی سلوک روا رکھتے ہوئے قیدیوں کی زنجیروں کو اس حد تک سخت کردیا جاتا ہے کہ زنجیریں ان کی کلائیوں میں دھنس جاتی ہیں اور ہاتھ زخمی ہوجاتے ہیں۔



تفصیلات کے مطابق عدالتوں میں زیرسماعت مقدمات میں کراچی کی سینٹرل جیل، لانڈھی جیل، وومن جیل، جوینائل جیل اور ریمانڈ ہوم ناظم آباد میں اسیر ملزمان کو ان کے مقدمات کی سماعت کے موقع پر سٹی کورٹ لایا جاتا ہے، ابتدائی طور پر ان قیدیوں کو سٹی کورٹ لاک اپ میں رکھا جاتا ہے، بعد ازاں انہیں مرحلہ وار کورٹ پولیس کی نگرانی میں ان کی متعلقہ عدالتوں میں پیش کیا جاتا ہے۔

پیشی سے قبل حفاظتی نکتہ نگاہ سے ان قیدیوں کو ہتهکڑیاں پہنائی جاتی ہیں روزانہ پیشی کیلئے لائے جانے والے قیدیوں کی تعداد 500 سے 1200 تک ہوتی ہے، زیادہ قیدی ہونے کے باعث کورٹ پولیس کے پاس ہتهکڑیاں کم پڑجاتی ہیں لہذا قیدیوں کو جانوروں کی طرح زنجیروں سے باندھ دیا جاتا ہے، پولیس انسانی حقوق کی کھلم کھلا اور سنگین خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک ایک زنجیر میں کئی قیدیوں کو بهیڑ، بکریوں کی طرح جکڑ دیتی ہے۔

کورٹ پولیس اس ظلم پر ہی اکتفا نہیں کرتی بلکہ ان کا اصل کام تو اب شروع ہوتا ہے، زنجیروں میں جکڑنے سے قبل ملزمان سے رقم طلب کی جاتی ہے رشوت دینے کی سکت رکھنے والے قیدی توکچھ نہ کچھ دے کر اپنی جان چھڑا لیتے ہیں اور ان کی ہتهکڑیاں ڈھیلی کر دی جاتی ہیں لیکن شامت ان غریب قیدیوں کی آتی ہے جو پولیس کا مطالبہ پورا کرنے کی استطاعت نہیں رکهتے، قیدیوں کو زنجیریں میں اس حد تک سختی سے جکڑ دیا جاتا ہے کہ آہنی زنجیریں ان کی کلائیوں میں دھنس جاتی ہیں، ان کے ہاتھ زخمی ہو جاتے ہیں اور جسم میں خون کی روانی متاثر ہونے لگتی ہے۔




بعض اوقات ہاتهوں سے خون تک نکل آتا ہے اور ان کی چیخیں نکل جاتی ہیں، کورٹ پولیس کے اس ظلم و بربریت کے شکار ہونے والے بعض قیدیوں کو پھوٹ پھوٹ کر روتے بھی دیکھا گیا ہے، سٹی کورٹ میں قیدیوں نے الزام عائد کیا ہے کہ رقم نہ دینے پر کورٹ پولیس کے سفاک اہلکار انہیں مغلظات بکتے ہیں اور انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔



سٹی کورٹ لاک اپ پولیس کا قیدیوں سےغیرانسانی سلوک دوچار ماہ کا شاخسانہ نہیں بلکہ یہ سلسلہ عرصہ دراز سے جاری ہے اور جیلوں سے عدالت لائے جانے والے قیدی گزشتہ کئی دہائیوں سے اس اذیت، ظلم و بربریت اور انسانیت سوز سلوک کا سامنا کررہے ہیں تاہم کورٹ پولیس اپنی اس کارروائی پر شرمندہ ہے اور نہ ہی اسے کسی قسم کی ندامت ہے جس کا منہ بولتا ثبوت یہ ہے کہ جب پولیس کا موقف جاننے کیلئے سٹی کورٹ لاک اپ کے انچارج انسپکٹر ظہور سے رابطہ کیا گیا تو موصوف بات چیت کیے بغیر اپنے آفس سے اس طرح غائب ہوئے جس طرح گدھے کے سر سے سینگ تاہم ڈیوٹی آفیسر سب انسپکٹر رضا نے اپنے موقف میں اس الزام سے انکار کیا اور اسے جھوٹ کا پلندہ قرار دیا۔



وکلا رہنما صدر کراچی بار ایسوسی ایشن نعیم قریشی نے یقین دہانی کرائی ہے کہ وە سٹی کورٹ میں قیدیوں سے روا رکھے جانے والے اس غیر انسانی سلوک کو قطعی برداشت نہیں کریں گے اور جلد اعلیٰ پولیس افسران سے رابطہ کرکے ان کی توجہ اس جانب مبذول کرائیں گے ہوم سیکریٹری برائے جیل خانہ جات عبدالوہاب میمن نے قیدیوں پر ڈھائے جانے والے ظلم کے حوالے سے اپنا کوئی موقف دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ نہ وە قیدیوں کو ہتھکڑیاں لگاتے ہیں اور نہ ہی اس بارے میں کچھ جانتے ہیں۔
Load Next Story