مجرم صرف بیوی کیوں

چند سالوں میں خواتین کی طرف سے آئے دن شکایات مل رہی ہیں اور میڈیا کی زینت بن رہی ہیں۔

خواتین کی جانب سے سفاکی ، بے حسی اور وحشیانہ حرکات کی خبریں میڈیا میں مردوں کے مقابلے میں بہت کم ہی پڑھنے اور سننے میں آتی تھیں ، مگر اب چند سالوں میں خواتین کی طرف سے آئے دن شکایات مل رہی ہیں اور میڈیا کی زینت بن رہی ہیں ۔ بیویوں کی طرف سے شوہروں کو زہر دے کر مار دینے کی خبروں کے ساتھ اب ایسے جرائم بھی ہو رہے ہیں کہ کہیں بیوی نے شوہر کے مظالم سے تنگ آکر گھر چھوڑ دیا ، میکے جا کر بیٹھ گئی یا خودکشی کرلی ۔

اب میڈیا میں بیویوں کی طرف سے شوہروں کو قتل کرنے اور خود اپنی حقیقی اولاد کو مختلف طریقوں سے ہلاک کردینے کے واقعات رونما ہو رہے ہیں ۔ خواتین کی طرف سے اخلاقی جرائم میں ملوث ہوکرگرفتار ہونے کی خبریں بھی عام ہی تھیں مگر اب خواتین کی طرف سے ایسے ایسے جرائم کی خبریں آرہی ہیں کہ حیرت ہوتی ہے اور یقین نہیں آتا کہ وہ مائیں جن کے پیروں تلے جنت ہوتی ہے وہ کسی بھی وجہ سے اپنے لخت جگروں کو مارکر اپنی ہی گودیں اجاڑ لیں گی اور مقدس کہلانے والی ماؤں کے نام پر دھبے لگا کر بقیہ عمر جیلوں میں گزارنا چاہیں گی ۔

کراچی میں دو دریا پر ایک تعلیم یافتہ ماں نے اپنی ڈھائی سال کی معصوم بچی سمندر میں پھینک دی اور خود بھی سمندر میں کودنے کی کوشش کر رہی تھی کہ وہاں موجود لوگوں نے اسے پکڑکر پولیس کے حوالے کر دیا جس کی خبریں میڈیا پر چلیں۔ تبصرے ہوئے اور اس ماں کو سفاک، ظالم، بے حس، قاتلہ اور نہ جانے کیا کیا قرار دیا گیا اور اس کے اقدام کی مذمت بھی کی گئی۔

گرفتار نوجوان خاتون نے سات سال قبل پسند کی شادی کی تھی جس کے بطن سے ڈھائی سال قبل پہلی بچی پیدا ہوئی تو اس سے پسند کی شادی کرنے والا اس کا شوہر ہی ظالم، بے حس اور سفاک بن گیا تھا اور بیٹی جس کو اللہ کی رحمت قرار دیا جاتا ہے مگر اسے اللہ کی یہ رحمت پسند نہ آئی اور اس نے بچی کی پیدائش کا ذمے دار اپنی بے گناہ پسندیدہ بیوی کو قرار دیا اور بیوی اور بچی پر مظالم ڈھانے شروع کیے۔کبھی بیوی پر تشدد کیا کبھی اسے گھر سے نکالا اور من مانیوں اور ظالمانہ سلوک سے بیوی کو اس قدر تنگ کردیا کہ وہ زندگی ہی سے بے زار ہوگئی ۔ محبت کی شادی کا اس کا گھر ڈھائی سال تک اس کے لیے دوزخ بنادیا گیا۔


شوہر نے گھر سے نکالا تو اس کے والدین بھی غیر بن گئے کیونکہ اس نے والدین کی مرضی کے خلاف پسند کی شادی کی تھی ۔ آج کے دور میں بیٹیوں کے لیے رشتوں کا حصول ایک اہم معاشی مسئلہ بنا ہوا ہے۔ بیٹیاں رشتے نہ ملنے سے گھروں میں بیٹھی بوڑھی ہو رہی ہیں ۔ ان کی عمر تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ایک طرف بیٹیوں کے لیے رشتوں کا کال پڑا ہوا ہے تو دوسری طرف رشتے طے ہونے کے بعد جہیزکی لعنت اہم مسئلہ بن کر رہ گئی ہے۔ لڑکے والے لڑکی کا رشتہ قبول کرکے لڑکی کے خاندان پر احسان جتاتے ہیں اور مفت میں ملنے والی لڑکی کی اپنے گھر آمد سے قبل مطلوبہ جہیز کی فرمائشیں کرتے ہیں۔

مہنگائی کے اس دور میں جہیزکی تیاری اور شادی کرنا آسان نہیں رہا ہے بلکہ لاکھوں روپے درکار ہوتے ہیں جس کے بعد بھی بیٹی کے اچھے مستقبل کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی۔ شادی کے بعد معمولی باتوں پر میاں بیوی کے درمیان گھریلو جھگڑے معمول بنے ہوئے ہیں۔ نوجوانوں میں غصہ زیادہ اور برداشت کا فقدان عام ہے جس کے نتیجے میں نئی نئی بیویاں میکے جانا پسند کرنے لگی ہیں کیونکہ ان کی ارینج شادی کا ذمے دار وہ اپنے والدین ہی کو قرار دیتی ہیں جب کہ پسندکی شادی کرنے والی بیٹیوں کو نافرمانی پر والدین قبول کرتے ہیں نہ معاف کرتے ہیں جس کے نتیجے میں بیٹیاں میکے کی رہتی ہیں نہ سسرال کی جس کے بعد ان کے پاس دونوں گھر چھوڑنے کا ہی راستہ بچتا ہے یا وہ زندگی سے بے زار ہوکر موت کی خواہش میں مختلف حرکات پر زندگی کا خاتمہ کرلیتی ہیں۔

مہنگائی اور موجودہ معاشی حالات میں جتنی پریشانیاں شادی شدہ خواتین کو لاحق ہیں اتنی شوہروں کو نہیں ہیں۔ شوہر گھریلو پریشانیوں اور باہر کے معاشی مسائل کا غصہ حکومت کو برا بھلا کہہ کر اپنے بیوی بچوں پر نکالتے ہیں جس سے گھریلو تشدد میں اضافہ، مالی وسائل محدود ہونے سے اولاد کی تربیت صحیح نہ ہونے سے اولاد ماں باپ سے بدظن، تعلیم سے دوری اور نافرمانی پر گامزن ہوجاتی ہے کیونکہ والدین کی اکثریت ان کی فرمائشیں پوری کرنے سے قاصر ہوتی ہے تو لڑکے جرائم پر راغب ہوجاتے ہیں تو بیٹیاں ماں باپ اور بھائیوں کے غصے کا نشانہ بن رہی ہیں۔

سمندر میں اپنی بیٹی پھینک کر گرفتار ہونے والی بے بس ماں کا کہنا ہے کہ شوہر کے سفاکانہ مظالم اور میکے کی بے حسی سے اس کی زندگی عذاب بنی ہوئی تھی اس لیے اس نے اپنی بیٹی کو ایسے عذاب میں مبتلا کرنے کی بجائے اسے سمندر میں پھینکا مگر خود سمندر میں ڈوبنے کی کوشش میں کامیاب نہ ہوسکی۔ جو گھریلو مظالم، تشدد، طلاقیں اور واقعات ہو رہے ہیں اس کے زیادہ ذمے دار خود شوہر اور مرد ہیں۔ خواتین کی ہلاکت پر گھریلو افراد گرفتار ہوتے ہیں تو بیویوں کو تنگ کرکے ایسے اقدامات پر مجبورکرنے والے شوہر مجرم کیوں قرار نہیں دیے جاتے؟
Load Next Story