تبھی تو ہم یہینچ کھڑے ہیں
غصہ ایسے بھی اتارا جا سکتا ہے یہ تو ہم نے بھی کبھی نہ سوچا تھا۔
ہم اوپر تلے کے بھائی بہن تھے اور گھر میں ایک بکری تھی۔ جیسا کہ ہوتا ہے، جب بھی ہم بچوں میں جھگڑا ہو جاتا تو چونکہ کسی کو کسی پر ہاتھ اٹھانے کی اجازت نہیں تھی لہٰذا یا تو دیوار پر مکہ مار کے غصہ نکالا جاتا یا پھر غریب بکری کو جھاڑو سے پیٹ دیا جاتا۔
یہ لطیفہ بھی پہلی بار والد صاحب سے ہی سنا تھا کہ تقسیم کے غیر یقینی زمانے میں ٹرانزسٹر ٹیکنالوجی نہیں تھی۔ ایک بڑا سا ریڈیو ہوا کرتا تھا جو بجلی سے گرم ہو کے چلتا تھا۔ایک صاحب جب لٹ پٹ کے پاکستان پہنچے تو ہر وقت آل انڈیا ریڈیو سنتے رہتے۔کسی نے پوچھا، بھیا ریڈیو پاکستان بھی کبھی سن لیا کرو۔کہنے لگے، آل انڈیا ریڈیو سننا جادا جروری ہے،کم ازکم دسمن کی بجلی تو کھرچ ہو رہی ہے۔
یہ بات یوں یاد آئی جب پلوامہ میں چالیس سے زائد بھارتی نیم فوجیوں کی ہلاکت کے بعد کرکٹر ہر بھجن سنگھ اور بھارت کے سب سے پرانے انڈین کرکٹ کلب ممبئی سمیت بہت سے لوگوں اور اداروں کی طرف سے یہ مطالبہ ہونے لگا کہ پہلے تو انڈین کرکٹ بورڈ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل سے یہ کہے کہ پاکستان کو اس برس مئی جون میں برطانیہ میں منعقد ہونے والے کرکٹ ورلڈ کپ میں ہی شامل نہ کیا جائے۔ بصورتِ دیگر کم ازکم یہی ہو جائے کہ بھارت ورلڈ کپ میں پاکستان سے کوئی میچ نہ کھیلے، بھلے پاکستان کو بھارتی بائیکاٹ کے بدلے دو پوائنٹس ہی کیوں نہ مل جائیں۔
مگر سابق کپتان سنیل گواسکر نے کہا کہ ایسے مطالبات کرنے والوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہیں۔ پلوامہ کا غصہ اپنی جگہ لیکن اس غصے کے بدلے بنا مقابلہ کیے کرکٹ کے میدان میں پاکستان کو مفت کے دو پوائنٹس تھما دینے سے انڈیا کو کیا ملے گا۔چنانچہ پھر یہ حرکتیں شروع ہو گئیں کہ انڈین کرکٹ بورڈ کے ممبئی ہیڈ کوارٹرز اور ملک بھرکے اسٹیڈیمزمیںجہاں جہاں بھی پاکستانی کرکٹرز کی تصاویر یا یادگار اشیا رکھی گئی تھیں سب ہٹا دی گئیں۔
مگر غصہ اندھا نہ ہو توکاہے کاغصہ۔ دو پاکستانی کھلاڑیوں کو دلی میں ہونے والی نشانے بازی کی عالمی چیمپین شپ میں شرکت کے لیے بھارت نے گزشتہ ہفتے ویزا دینے سے انکار کر دیا۔انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی نے سختی سے نوٹس لیا اور اس حرکت کو اولمپکس کی بنیادی روح اور فلسفے سے متصادم قرار دیتے ہوئے کھیلوں کی تمام عالمی فیڈریشنز کو منع کردیا ہے کہ آیندہ بھارت میں اولمپکس میں شامل کسی گیم کے مقابلے نہ کرائے جائیں تاوقتیکہ بھارت تحریری یقین دہانی نہ کرائے کہ آیندہ ایسی حرکت نہ ہوگی۔
اس ایک حرکت کے سبب دو ہزار اکیس میں بھارت میں ہونے والی باکسنگ چیمپئین شپ، دو ہزار چھبیس میں یوتھ اولمپکس، دو ہزار تیس میں ایشین گیمز اور دو ہزار بتیس میں سمر اولمپکس منعقد کرانے کی خواہش کا کریا کرم ہو سکتا ہے۔ اسے کہتے ہیں میرے شوق کی بلندی میری ذہنیت کی پستی۔
پھر خبر آئی کہ بھارت کے مختلف تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے کشمیری طلبا اور برس ہا برس سے کاروبار کرنے والے کشمیری دوکانداروں کو کئی ریاستوں سے حملوں، دھمکیوں اور خوف کے سبب نکال دیا گیا یا وہ خود نکلنے پر مجبور ہو گئے۔جب یہ سب ہو گیا تو ساتویں روز مودی جی کا بیان آیا کہ کشمیری ہمارے بھائی ہیں۔ان کے ساتھ ایسا سلوک مناسب نہیں۔
مگر شمال مشرقی ریاست میگھالے کے گورنر تتھاگٹا رائے آج بھی اپنے عہدے پر برقرار ہیں جنہوں نے یہ ٹویٹ کیا کہ نہ صرف کشمیری مصنوعات بلکہ کشمیری سیاحت کا بھی بائیکاٹ کیا جائے۔اس پر کئی حلقوں کی جانب سے شرم شرم کہا گیا مگر ہو گی تو آئے گی۔سابق وزیرِ خزانہ پی چدم برم نے اس ٹویٹ کے جواب میں ٹویٹ کیا '' کیا ستم ظریفی ہے کہ ایک طرف تو ہم چاہتے ہیں کہ کشمیر بھارت کا حصہ رہے مگر کشمیریوں کو بھارت کا حصہ ماننے سے ہمیں انکار ہے''۔
پھر یہ خبر ملی کہ جنوبی ریاست کرناٹک کے دارلحکومت بنگلور میں تریپن برس سے قائم کراچی بیکری کا کچھ جوشیلے نوجوانوںنے گھیراؤ کیا تاکہ کراچی بیکری میں سے کراچی ہٹا دیا جائے ورنہ بیکری بند کر دی جائے۔یہ بیکری جنوبی بھارت میں اپنے فروٹ بسکٹسں کے سبب جانی جاتی ہے اور اسے بنگلور کی سوغات کہا جاتا ہے۔
بیکری کے مالک خان چند رمنانی نے پہلے تو مارے خوف کے کراچی کے نام پر کپڑا ڈال دیا اور پھر غصے میں بھری منڈلی کو بتایا کہ وہ خود انیس سو سینتالیس میں پاکستان چھوڑ کر بھارت میں بسے اور انھوں نے اپنی بیکری کا نام کراچی بیکری کسی پاکستانی کے کہنے پر نہیں بلکہ جنم بھومی سے جڑی یادوں کو زندہ رکھنے کے لیے رکھا۔اگر یہ کوئی جرم ہے تو چھ دہائیوں تک کسی نے انھیں کیوں نہیں بتایا۔
غصہ ایسے بھی اتارا جا سکتا ہے یہ تو ہم نے بھی کبھی نہ سوچا تھا۔مگر اب ہم سوچ رہے ہیں کہ جب کبھی اسلام آباد جائیں تو جوش ملیح آبادی کی قبر پر کالک مل دیں گے کیونکہ ملیح آباد تو ہندوستان میں ہے۔فراق گھورکھپوری، اصغر گونڈوی ، قائم چاند پوری، سراج اورنگ آبادی اور اکبر الہ آبادی کی شاعری کراچی یونیورسٹی کی لائبریری سے نکال پھینکیں کیونکہ یہ ساری جگہیں بھارت میں ہیں اور بھارت پاکستان کا دشمن۔
سندھ کے حیدرآباد میں تقسیم سے پہلے کی بمبئی بیکری موجود ہے اور اس کا جدی پشتی مالک ایک پاکستانی ہندو خاندان ہے۔کیا میں انھیں کہوں کہ پاکستان میں رہنا ہے تو بمبئی بیکری کا نام مکہ یا مدینہ بیکری رکھیں یا کم ازکم کراچی بیکری رکھ لیں۔کیا کل سے میں دہلی کباب ہاؤس اور بندو خان میرٹھ والے کو بھارتی ایجنٹ سمجھ کے شیشے توڑ دوں۔
پاکستان یا بھارت سے اپنی محبت جتانے کے لیے دوسرے ملک سے نفرت کرنا لازمی ہے؟ اگر بنگلور کی کراچی بیکری اس لیے محفوظ نہیں کہ کراچی پاکستان میں ہے تو پھر موہن جو دڑو سے ملنے والی ڈانسنگ گرل دلی میں کیا کر رہی ہے۔کروڑوں بھارتی بچے ہر صبح اسکول میں جن گن من ادھی نائک جے ہے کے بعد اگلا مصرعہ پنجاب، سندھ، گجرات، مراٹھا کیوں گاتے ہیں۔کیا اس ترانے میں سے سندھ نکال کے اڑیسہ ڈالا جا سکتا ہے۔ سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا بھی پھاڑ کے پھینک دیا جائے۔کیونکہ یہ اقبال نے لکھا تھا اور اقبال اب پاکستان کا قومی شاعر ہے۔
بندر کی بلا طویلے کے سر، گرا گدھی پر سے غصہ کمہار پر، کہمار پے بس نہ چلا تو گدھے کے کان مروڑ ڈالے۔یہ ہم سب بچپن سے سنتے بھی آ رہے ہیں مگر یہی کچھ کرتے بھی آرہے ہیں۔تبھی تو ہم جنوبی ایشیائی یہینچ کھڑے ہیں اور دنیا آگے بڑھ کے کہیں سے کہینچ پہنچ چکی ہے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے )
یہ لطیفہ بھی پہلی بار والد صاحب سے ہی سنا تھا کہ تقسیم کے غیر یقینی زمانے میں ٹرانزسٹر ٹیکنالوجی نہیں تھی۔ ایک بڑا سا ریڈیو ہوا کرتا تھا جو بجلی سے گرم ہو کے چلتا تھا۔ایک صاحب جب لٹ پٹ کے پاکستان پہنچے تو ہر وقت آل انڈیا ریڈیو سنتے رہتے۔کسی نے پوچھا، بھیا ریڈیو پاکستان بھی کبھی سن لیا کرو۔کہنے لگے، آل انڈیا ریڈیو سننا جادا جروری ہے،کم ازکم دسمن کی بجلی تو کھرچ ہو رہی ہے۔
یہ بات یوں یاد آئی جب پلوامہ میں چالیس سے زائد بھارتی نیم فوجیوں کی ہلاکت کے بعد کرکٹر ہر بھجن سنگھ اور بھارت کے سب سے پرانے انڈین کرکٹ کلب ممبئی سمیت بہت سے لوگوں اور اداروں کی طرف سے یہ مطالبہ ہونے لگا کہ پہلے تو انڈین کرکٹ بورڈ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل سے یہ کہے کہ پاکستان کو اس برس مئی جون میں برطانیہ میں منعقد ہونے والے کرکٹ ورلڈ کپ میں ہی شامل نہ کیا جائے۔ بصورتِ دیگر کم ازکم یہی ہو جائے کہ بھارت ورلڈ کپ میں پاکستان سے کوئی میچ نہ کھیلے، بھلے پاکستان کو بھارتی بائیکاٹ کے بدلے دو پوائنٹس ہی کیوں نہ مل جائیں۔
مگر سابق کپتان سنیل گواسکر نے کہا کہ ایسے مطالبات کرنے والوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہیں۔ پلوامہ کا غصہ اپنی جگہ لیکن اس غصے کے بدلے بنا مقابلہ کیے کرکٹ کے میدان میں پاکستان کو مفت کے دو پوائنٹس تھما دینے سے انڈیا کو کیا ملے گا۔چنانچہ پھر یہ حرکتیں شروع ہو گئیں کہ انڈین کرکٹ بورڈ کے ممبئی ہیڈ کوارٹرز اور ملک بھرکے اسٹیڈیمزمیںجہاں جہاں بھی پاکستانی کرکٹرز کی تصاویر یا یادگار اشیا رکھی گئی تھیں سب ہٹا دی گئیں۔
مگر غصہ اندھا نہ ہو توکاہے کاغصہ۔ دو پاکستانی کھلاڑیوں کو دلی میں ہونے والی نشانے بازی کی عالمی چیمپین شپ میں شرکت کے لیے بھارت نے گزشتہ ہفتے ویزا دینے سے انکار کر دیا۔انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی نے سختی سے نوٹس لیا اور اس حرکت کو اولمپکس کی بنیادی روح اور فلسفے سے متصادم قرار دیتے ہوئے کھیلوں کی تمام عالمی فیڈریشنز کو منع کردیا ہے کہ آیندہ بھارت میں اولمپکس میں شامل کسی گیم کے مقابلے نہ کرائے جائیں تاوقتیکہ بھارت تحریری یقین دہانی نہ کرائے کہ آیندہ ایسی حرکت نہ ہوگی۔
اس ایک حرکت کے سبب دو ہزار اکیس میں بھارت میں ہونے والی باکسنگ چیمپئین شپ، دو ہزار چھبیس میں یوتھ اولمپکس، دو ہزار تیس میں ایشین گیمز اور دو ہزار بتیس میں سمر اولمپکس منعقد کرانے کی خواہش کا کریا کرم ہو سکتا ہے۔ اسے کہتے ہیں میرے شوق کی بلندی میری ذہنیت کی پستی۔
پھر خبر آئی کہ بھارت کے مختلف تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے کشمیری طلبا اور برس ہا برس سے کاروبار کرنے والے کشمیری دوکانداروں کو کئی ریاستوں سے حملوں، دھمکیوں اور خوف کے سبب نکال دیا گیا یا وہ خود نکلنے پر مجبور ہو گئے۔جب یہ سب ہو گیا تو ساتویں روز مودی جی کا بیان آیا کہ کشمیری ہمارے بھائی ہیں۔ان کے ساتھ ایسا سلوک مناسب نہیں۔
مگر شمال مشرقی ریاست میگھالے کے گورنر تتھاگٹا رائے آج بھی اپنے عہدے پر برقرار ہیں جنہوں نے یہ ٹویٹ کیا کہ نہ صرف کشمیری مصنوعات بلکہ کشمیری سیاحت کا بھی بائیکاٹ کیا جائے۔اس پر کئی حلقوں کی جانب سے شرم شرم کہا گیا مگر ہو گی تو آئے گی۔سابق وزیرِ خزانہ پی چدم برم نے اس ٹویٹ کے جواب میں ٹویٹ کیا '' کیا ستم ظریفی ہے کہ ایک طرف تو ہم چاہتے ہیں کہ کشمیر بھارت کا حصہ رہے مگر کشمیریوں کو بھارت کا حصہ ماننے سے ہمیں انکار ہے''۔
پھر یہ خبر ملی کہ جنوبی ریاست کرناٹک کے دارلحکومت بنگلور میں تریپن برس سے قائم کراچی بیکری کا کچھ جوشیلے نوجوانوںنے گھیراؤ کیا تاکہ کراچی بیکری میں سے کراچی ہٹا دیا جائے ورنہ بیکری بند کر دی جائے۔یہ بیکری جنوبی بھارت میں اپنے فروٹ بسکٹسں کے سبب جانی جاتی ہے اور اسے بنگلور کی سوغات کہا جاتا ہے۔
بیکری کے مالک خان چند رمنانی نے پہلے تو مارے خوف کے کراچی کے نام پر کپڑا ڈال دیا اور پھر غصے میں بھری منڈلی کو بتایا کہ وہ خود انیس سو سینتالیس میں پاکستان چھوڑ کر بھارت میں بسے اور انھوں نے اپنی بیکری کا نام کراچی بیکری کسی پاکستانی کے کہنے پر نہیں بلکہ جنم بھومی سے جڑی یادوں کو زندہ رکھنے کے لیے رکھا۔اگر یہ کوئی جرم ہے تو چھ دہائیوں تک کسی نے انھیں کیوں نہیں بتایا۔
غصہ ایسے بھی اتارا جا سکتا ہے یہ تو ہم نے بھی کبھی نہ سوچا تھا۔مگر اب ہم سوچ رہے ہیں کہ جب کبھی اسلام آباد جائیں تو جوش ملیح آبادی کی قبر پر کالک مل دیں گے کیونکہ ملیح آباد تو ہندوستان میں ہے۔فراق گھورکھپوری، اصغر گونڈوی ، قائم چاند پوری، سراج اورنگ آبادی اور اکبر الہ آبادی کی شاعری کراچی یونیورسٹی کی لائبریری سے نکال پھینکیں کیونکہ یہ ساری جگہیں بھارت میں ہیں اور بھارت پاکستان کا دشمن۔
سندھ کے حیدرآباد میں تقسیم سے پہلے کی بمبئی بیکری موجود ہے اور اس کا جدی پشتی مالک ایک پاکستانی ہندو خاندان ہے۔کیا میں انھیں کہوں کہ پاکستان میں رہنا ہے تو بمبئی بیکری کا نام مکہ یا مدینہ بیکری رکھیں یا کم ازکم کراچی بیکری رکھ لیں۔کیا کل سے میں دہلی کباب ہاؤس اور بندو خان میرٹھ والے کو بھارتی ایجنٹ سمجھ کے شیشے توڑ دوں۔
پاکستان یا بھارت سے اپنی محبت جتانے کے لیے دوسرے ملک سے نفرت کرنا لازمی ہے؟ اگر بنگلور کی کراچی بیکری اس لیے محفوظ نہیں کہ کراچی پاکستان میں ہے تو پھر موہن جو دڑو سے ملنے والی ڈانسنگ گرل دلی میں کیا کر رہی ہے۔کروڑوں بھارتی بچے ہر صبح اسکول میں جن گن من ادھی نائک جے ہے کے بعد اگلا مصرعہ پنجاب، سندھ، گجرات، مراٹھا کیوں گاتے ہیں۔کیا اس ترانے میں سے سندھ نکال کے اڑیسہ ڈالا جا سکتا ہے۔ سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا بھی پھاڑ کے پھینک دیا جائے۔کیونکہ یہ اقبال نے لکھا تھا اور اقبال اب پاکستان کا قومی شاعر ہے۔
بندر کی بلا طویلے کے سر، گرا گدھی پر سے غصہ کمہار پر، کہمار پے بس نہ چلا تو گدھے کے کان مروڑ ڈالے۔یہ ہم سب بچپن سے سنتے بھی آ رہے ہیں مگر یہی کچھ کرتے بھی آرہے ہیں۔تبھی تو ہم جنوبی ایشیائی یہینچ کھڑے ہیں اور دنیا آگے بڑھ کے کہیں سے کہینچ پہنچ چکی ہے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے )