فخرو بھائی کو بعض فیصلوں میں عدالت کی مداخلت پر تحفظات تھے
پنجاب ،خیبر پختوانخوا ، بلوچستان کے ممبران نے انھیں دیوار سے لگا دیا ، انھیں ڈکٹیٹ تک کیا جاتا تھا
18ویں آئینی ترمیم کے بعد چیف الیکشن کمشنر کا عہدہ بے اختیار ہوچکا تھا اور اس عہدے کی حیثیت صرف الیکشن کمیشن کے ممبر کی رہ گئی تھی۔
18ویں ترمیم سے پہلے یہ بہت بااختیار عہدہ تھا صدارتی الیکشن ، سینٹ الیکشن ، ووٹر لسٹوں کی تیاری اور تمام انتظامی اختیارات چیف الیکشن کمیشنر کے پاس تھے جبکہ الیکشن کمیشن کے پاس صرف عام انتخابات اور حلقہ بندیوں کا کام تھا ۔ الیکشن کمیشن کے بعض فیصلوں میں چیف الیکشن کمشنر کو اعتماد میں نہیں لیا گیا اور کئی فیصلے انھیں ڈکٹیٹ بھی کیے گئے ہیں۔ پنجاب ،خیبر پختوانخواہ اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے الیکش کمیشن کے تین ممبران اکھٹے ہوکر زیادہ فیصلوں پر اثر انداز ہو رہے تھے۔ سپریم کورٹ میں صدارتی انتخابی شیڈول کے بارے میں الیکشن کمیشن کاموقف دراصل ان تین ممبران کا ہی تھا۔ چیف الیکشن کمشنر کے پاس صرف اجلاس کی صدارت کا اختیار رہ چکا تھا۔ اگر تین ممبران اکھٹے ہوجائیں تو صدارت کی ضرورت بھی نہیں رہتی ۔
وہ اکھٹے مل کر چیف الیکشن کمشنر کے کسی بھی فیصلے سے اختلاف کرسکتے ہیں اور ان کا اکثریتی فیصلہ حتمی تصور کیا جائے گا۔ فخر الدین جی ابراہیم انتہائی وضع دار اور بااصول آدمی ہیںانھوں نے جب چیف الیکشن کمیشنر کا عہدہ قبول کیا تو انہیں شاید اس عہدے کے بے وقت ہونے کا اندازہ نہیں تھا اب وہ سمجھ رہے تھے کہ انہیں دیوار کے ساتھ لگایا جارہا ہے چیف الیکشن کمشنر کو الیکشن کمیشن کے بعض معاملات میں عدلیہ کی مداخلت پر بھی تحفظات تھے وہ سمجھتے تھے کہ صدارتی الیکشن کیلیے 6اگست کا فیصلہ درست تھا۔
سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن کاموقف دراصل تین ممبران کا ہی تھا سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت کے دوران جب الیکشن کمیشن کو موقف دینے کیلیے ایک گھنٹے کا وقت دیا گیا تو اس وقت چیف الیکشن کمیشنر فخرالدین جی ابراہیم کراچی میں تھے اور اسلام آباد میں صرف یہ تین ممبران ہی موجود تھے۔سندھ سے تعلق رکھنے والے ممبر الیکشن کمیشن نے کئی فیصلوں پر احتجاجا دستخط بھی نہیں کیے۔ ذرائع کے مطابق این اے 103حافظ آباد کے معاملے میں لیاقت عباس بھٹی کے خلا ف میاں شاہد کی درخواست پر بھی پنجاب ،خیبر پختوانخوا اور بلوچستان کے ممبران اثر انداز ہوئے چیف الیکشن کمشنر کو اس فیصلے پر بھی تحفظات تھے ۔اس فیصلے میں بھی ڈسٹرکٹ الیکشن افسر اور کچھ پریذائڈنگ افسران کے خلاف ایف آئی درج کروائی گئی لیکن ریٹرننگ افسر کیخلاف پرچہ درج کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا۔
18ویں ترمیم سے پہلے یہ بہت بااختیار عہدہ تھا صدارتی الیکشن ، سینٹ الیکشن ، ووٹر لسٹوں کی تیاری اور تمام انتظامی اختیارات چیف الیکشن کمیشنر کے پاس تھے جبکہ الیکشن کمیشن کے پاس صرف عام انتخابات اور حلقہ بندیوں کا کام تھا ۔ الیکشن کمیشن کے بعض فیصلوں میں چیف الیکشن کمشنر کو اعتماد میں نہیں لیا گیا اور کئی فیصلے انھیں ڈکٹیٹ بھی کیے گئے ہیں۔ پنجاب ،خیبر پختوانخواہ اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے الیکش کمیشن کے تین ممبران اکھٹے ہوکر زیادہ فیصلوں پر اثر انداز ہو رہے تھے۔ سپریم کورٹ میں صدارتی انتخابی شیڈول کے بارے میں الیکشن کمیشن کاموقف دراصل ان تین ممبران کا ہی تھا۔ چیف الیکشن کمشنر کے پاس صرف اجلاس کی صدارت کا اختیار رہ چکا تھا۔ اگر تین ممبران اکھٹے ہوجائیں تو صدارت کی ضرورت بھی نہیں رہتی ۔
وہ اکھٹے مل کر چیف الیکشن کمشنر کے کسی بھی فیصلے سے اختلاف کرسکتے ہیں اور ان کا اکثریتی فیصلہ حتمی تصور کیا جائے گا۔ فخر الدین جی ابراہیم انتہائی وضع دار اور بااصول آدمی ہیںانھوں نے جب چیف الیکشن کمیشنر کا عہدہ قبول کیا تو انہیں شاید اس عہدے کے بے وقت ہونے کا اندازہ نہیں تھا اب وہ سمجھ رہے تھے کہ انہیں دیوار کے ساتھ لگایا جارہا ہے چیف الیکشن کمشنر کو الیکشن کمیشن کے بعض معاملات میں عدلیہ کی مداخلت پر بھی تحفظات تھے وہ سمجھتے تھے کہ صدارتی الیکشن کیلیے 6اگست کا فیصلہ درست تھا۔
سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن کاموقف دراصل تین ممبران کا ہی تھا سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت کے دوران جب الیکشن کمیشن کو موقف دینے کیلیے ایک گھنٹے کا وقت دیا گیا تو اس وقت چیف الیکشن کمیشنر فخرالدین جی ابراہیم کراچی میں تھے اور اسلام آباد میں صرف یہ تین ممبران ہی موجود تھے۔سندھ سے تعلق رکھنے والے ممبر الیکشن کمیشن نے کئی فیصلوں پر احتجاجا دستخط بھی نہیں کیے۔ ذرائع کے مطابق این اے 103حافظ آباد کے معاملے میں لیاقت عباس بھٹی کے خلا ف میاں شاہد کی درخواست پر بھی پنجاب ،خیبر پختوانخوا اور بلوچستان کے ممبران اثر انداز ہوئے چیف الیکشن کمشنر کو اس فیصلے پر بھی تحفظات تھے ۔اس فیصلے میں بھی ڈسٹرکٹ الیکشن افسر اور کچھ پریذائڈنگ افسران کے خلاف ایف آئی درج کروائی گئی لیکن ریٹرننگ افسر کیخلاف پرچہ درج کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا۔