شارک کے تحفظ پر تین روزہ عالمی کانفرنس کا آغاز
کراچی میں ڈبلیو ڈبلیو ایف کی جانب سے منعقدہ کانفرنس میں شارک کے تحفظ کے بین الاقوامی ماہرین کی شرکت
شمالی بحرہند ( انڈین اوشن) میں شارک کی بقا کو لاحق شدید خطرات اور اہم آبی حیات کے تحفظ کی خاطر نیشنل ایکشن پلان تشکیل دینے کے لیے ڈبیلو ڈبیلو ایف کی جانب سے کراچی میں تین روزہ سیمینار معنقد ہوا جس میں دنیا بھر سے 9 ممالک سے سائنس دان اور ماہرین نے شرکت کی۔
مقامی ہوٹل میں ڈبلیو ڈبلیو ایف، پاکستان کے زیرتحت منعقدہ سیمینار کے افتتاحی روز صوبائی وزیر ماحولیات تیمور تالپور مہمان خصوصی تھے۔ اس سیمینار میں جنوبی افریقا، آسٹریلیا، سری لنکا، مالدیپ سمیت نو مختلف ممالک کے نمائندے شریک ہوئے۔ غیرملکی ماہرین برائے آبی حیات کی جانب سے شارک کی معدومیت کے پس منظر میں وجوہات کو دستاویزی فلم کی شکل میں پیش کیا گیا اور ان کی بقا پر زور دیا گیا۔
اس اہم اجلاس میں صوبائی وزیر ماحولیات تیمور تالپور کا کہنا تھا کہ شارک اور دیگر اقسام کی آبی حیات اور مچھلیوں کے تحفظ کے لیے ڈبیلو ڈبیلو ایف کے نیشنل پلان کے ارادے کو سندھ حکومت کی جانب سے بھرپورمدد فراہم کی جائیگی۔اس حوالے سے جس قسم کی قانون سازی کی ضرورت ہے اس کو ہرسطح پرممکن بنایا جائے گا۔
تیمور تالپور کا کہنا تھا کہ سندھ انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی (سیپا) واٹر کمیشن کے سربراہ جسٹس امیرکی بدولت کافی حد تک فعال ہوگئی ہے اسی وجہ سے پلاسٹک بیگ جبکہ مختلف اقسام کے کوڑے کرکٹ کی صورتحال میں بھی 60 فیصد کمی آئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سمندر میں صنعتی فضلہ ڈالنے کے حوالے سے بھی چمڑے کے کارخانوں، شوگر ملز اور دیگر صنعتوں پر سختی کرتے ہوئے انھیں واٹر کمیشن کی جانب سے ڈیڈ لائن دی گئی ہے اب کوئی بھی فیکٹری بغیر ٹریٹمنٹ پلانٹ کے نہیں چل رہی۔
ڈبیلو ڈبیلو ایف کے علاقائی سربراہ برائے سندھ بلوچستان ڈاکٹر بابر خان کا ایکسپریس نیوز سے گفتگو میں کہنا تھا کہ ورکشاپ کا بنیادی مقصد شارک کے تحفظ کے لیے مستقبل بنیادوں پر مربوط پلان بنانا ہے۔ شارک کا سمندر میں کردار بالکل گھر کے سربراہ جیسا ہےاوریہ آبی حیات سمندری غذائی زنجیر میں سب سے اوپر پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے شارک آسانی سے شکار کی جاتی ہے۔
بابر خان نے بتایا کہ شارک ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل مکانی کرتی رہتی ہے۔ اسی بنا پر کوئی ایک ملک اس کا تحفظ نہیں کرسکتا اور اس کے حفاظت پر تمام اقوام کو آمادہ ہونا ہوگا۔ شارک کی بقا ہی صحتمند سمندری کی ضمانت ہے۔ پاکستان میں بدقسمتی سے نقصان دہ جال کی وجہ سے بڑے پیمانے پر شارک اور ان کے بچوں کو شکار کرلیا جاتاہے جبکہ ان کے مسکن دن بدن آلودہ ہوتے جارہے ہیں اور ذمہ دارانہ ماہی گیری کا شدید فقدان ہے۔ شمالی بحرہند میں شارک کا تحفظ ہی پائیدار پاکستانی ماہی گیری کی ضمانت ہے۔
ڈبیلو ڈبیلو ایف کے ریجنل ڈائریکٹر کے مطابق سندھ اور بلوچستان کی صوبائی حکومتوں کے شکرگزار ہے جس کی وجہ سے معدومیت سے دوچار شارک کی چند اقسام کوحکومتی سطح پر تحفظ دیا گیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ بین الاقوامی بحری سائسندان اورماہرین پاکستان کے سمندری حیات کے تحفظ کے ایکشن پلان بنانے میں مدد کرینگے،جبکہ یہ ایکشن پلان خطے میں شامل دیگر ممالک کے حوالے سے مددگار ثابت ہوگا۔
ڈاکٹربابر کے مطابق 180 اقسام کی شارک شمالی بحرہند میں پائی جاتی ہیں جس میں سے بیشتر پاکستان کا رخ کرتی ہیں مگر گذشتہ 25 برس کے دوران 70 اقسام کی شارک معدومیت سے دوچار ہوچکی ہے۔
پاکستان میں فنگر فِش اور دیگر پکوانوں میں شارک کا گوشت استعمال کیا جارہا ہے، ماہی گیر اس کے جگر سے نکلنے والے تیل کو اپنی کشتیوں کی لیپائی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ چین، تائیوان اور دیگر ممالک میں شارک کے پنکھ کا سوپ بنایا جاتا ہے جو بہت مرغوب ہے۔ یہ سوپ تھائی لینڈ، تائیوان اور دیگر ممالک میں رغبت سے پیا جاتا ہے اسی لیے شارک کو شکار کرکے مشرقی مارکیٹوں میں بھیجا جاتا ہے۔
مقامی ہوٹل میں ڈبلیو ڈبلیو ایف، پاکستان کے زیرتحت منعقدہ سیمینار کے افتتاحی روز صوبائی وزیر ماحولیات تیمور تالپور مہمان خصوصی تھے۔ اس سیمینار میں جنوبی افریقا، آسٹریلیا، سری لنکا، مالدیپ سمیت نو مختلف ممالک کے نمائندے شریک ہوئے۔ غیرملکی ماہرین برائے آبی حیات کی جانب سے شارک کی معدومیت کے پس منظر میں وجوہات کو دستاویزی فلم کی شکل میں پیش کیا گیا اور ان کی بقا پر زور دیا گیا۔
اس اہم اجلاس میں صوبائی وزیر ماحولیات تیمور تالپور کا کہنا تھا کہ شارک اور دیگر اقسام کی آبی حیات اور مچھلیوں کے تحفظ کے لیے ڈبیلو ڈبیلو ایف کے نیشنل پلان کے ارادے کو سندھ حکومت کی جانب سے بھرپورمدد فراہم کی جائیگی۔اس حوالے سے جس قسم کی قانون سازی کی ضرورت ہے اس کو ہرسطح پرممکن بنایا جائے گا۔
تیمور تالپور کا کہنا تھا کہ سندھ انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی (سیپا) واٹر کمیشن کے سربراہ جسٹس امیرکی بدولت کافی حد تک فعال ہوگئی ہے اسی وجہ سے پلاسٹک بیگ جبکہ مختلف اقسام کے کوڑے کرکٹ کی صورتحال میں بھی 60 فیصد کمی آئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سمندر میں صنعتی فضلہ ڈالنے کے حوالے سے بھی چمڑے کے کارخانوں، شوگر ملز اور دیگر صنعتوں پر سختی کرتے ہوئے انھیں واٹر کمیشن کی جانب سے ڈیڈ لائن دی گئی ہے اب کوئی بھی فیکٹری بغیر ٹریٹمنٹ پلانٹ کے نہیں چل رہی۔
ڈبیلو ڈبیلو ایف کے علاقائی سربراہ برائے سندھ بلوچستان ڈاکٹر بابر خان کا ایکسپریس نیوز سے گفتگو میں کہنا تھا کہ ورکشاپ کا بنیادی مقصد شارک کے تحفظ کے لیے مستقبل بنیادوں پر مربوط پلان بنانا ہے۔ شارک کا سمندر میں کردار بالکل گھر کے سربراہ جیسا ہےاوریہ آبی حیات سمندری غذائی زنجیر میں سب سے اوپر پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے شارک آسانی سے شکار کی جاتی ہے۔
بابر خان نے بتایا کہ شارک ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل مکانی کرتی رہتی ہے۔ اسی بنا پر کوئی ایک ملک اس کا تحفظ نہیں کرسکتا اور اس کے حفاظت پر تمام اقوام کو آمادہ ہونا ہوگا۔ شارک کی بقا ہی صحتمند سمندری کی ضمانت ہے۔ پاکستان میں بدقسمتی سے نقصان دہ جال کی وجہ سے بڑے پیمانے پر شارک اور ان کے بچوں کو شکار کرلیا جاتاہے جبکہ ان کے مسکن دن بدن آلودہ ہوتے جارہے ہیں اور ذمہ دارانہ ماہی گیری کا شدید فقدان ہے۔ شمالی بحرہند میں شارک کا تحفظ ہی پائیدار پاکستانی ماہی گیری کی ضمانت ہے۔
ڈبیلو ڈبیلو ایف کے ریجنل ڈائریکٹر کے مطابق سندھ اور بلوچستان کی صوبائی حکومتوں کے شکرگزار ہے جس کی وجہ سے معدومیت سے دوچار شارک کی چند اقسام کوحکومتی سطح پر تحفظ دیا گیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ بین الاقوامی بحری سائسندان اورماہرین پاکستان کے سمندری حیات کے تحفظ کے ایکشن پلان بنانے میں مدد کرینگے،جبکہ یہ ایکشن پلان خطے میں شامل دیگر ممالک کے حوالے سے مددگار ثابت ہوگا۔
ڈاکٹربابر کے مطابق 180 اقسام کی شارک شمالی بحرہند میں پائی جاتی ہیں جس میں سے بیشتر پاکستان کا رخ کرتی ہیں مگر گذشتہ 25 برس کے دوران 70 اقسام کی شارک معدومیت سے دوچار ہوچکی ہے۔
پاکستان میں فنگر فِش اور دیگر پکوانوں میں شارک کا گوشت استعمال کیا جارہا ہے، ماہی گیر اس کے جگر سے نکلنے والے تیل کو اپنی کشتیوں کی لیپائی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ چین، تائیوان اور دیگر ممالک میں شارک کے پنکھ کا سوپ بنایا جاتا ہے جو بہت مرغوب ہے۔ یہ سوپ تھائی لینڈ، تائیوان اور دیگر ممالک میں رغبت سے پیا جاتا ہے اسی لیے شارک کو شکار کرکے مشرقی مارکیٹوں میں بھیجا جاتا ہے۔