کراچی میں سہ منزلہ عمارت زمیں بوس
کسی بھی سانحے کے رونما ہونے پر ہمدردی کے بیانات جاری کرکے اپنی ذمے داریوں سے بری الذمہ ہونے کا چلن عام ہوگیا ہے۔
کراچی کے علاقے ملیر جعفرطیار سوسائٹی میں تین منزلہ عمارت زمیں بوس کے واقعے میں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع نے جہاں ہرآنکھ کو اشک بارکیا ہے، وہیں اس سانحے نے اداروں اور انتظامیہ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگایا ہے۔
ریسیکو آپریشن بروقت شروع نہ ہونے کے سبب ملبے تلے افراد کو نہ نکالا جاسکا ۔ اہل محلہ اپنی مدد آپ کے تحت امدادی کارروائیاں کرتے رہے جوکہ جذبے اور خلوص کے باوجود ناکافی تھیں،کیونکہ اصل مسئلہ ملبے کو ہٹانا تھا جو بھاری مشینری کے بغیر نہ ممکن تھا۔
میڈیا پر خبریں چلنے کے باوجود حکومتی مشینری ڈھائی گھنٹے تاخیر سے پہنچی، لیکن اس کی کوششیں کارگر ثابت نہ ہوئیں،البتہ پاک فوج کی انجینئرنگ کورکے دستے نے ہیوی مشینری کے ہمراہ کام شروع کیا ۔شہر ناپرساں کی یتیمی کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس طرح کے حادثات سے نمٹنے کے لیے شہری انتظامیہ کے پاس مشینری موجود نہیں۔ شہرپر آبادی کا دباؤ روز بروز بڑھتا جارہا ہے، رہائشی جگہوں کی شدید ترین قلت ہے ۔
سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سے اے) کے مطابق مکان پرانا تھا، مالک مکان نے عمارتی کالمزکوکاٹنے اورکھدائی کا کام شروع کروایا ہوا تھا جس کی وجہ سے عمارتی اسٹرکچرکونقصان پہنچا کیونکہ عمارت کارنر ہونے کی وجہ سے کوئی اضافی سپورٹ نہیں تھی، اس لیے اپنے ہی بوجھ سے فوری زمین بوس ہوگئی۔ مالک کو مکان اپنی غفلت کا خمیازہ اپنی جان سے ہاتھ دھوکر ادا کرنا پڑا بلکہ کئی اورخاندان بھی لمحہ بھر میں اجڑگئے۔
شہر اب کنکریٹ کاجنگل بنتا جارہاہے،انتہائی تنگ جگہوں اور پرانی آبادیوں اور محلوں میں کثیر المنزلہ عمارتیں متعلقہ محکموں کے اہلکاروں کی جیب گرم کرکے تعمیر کی جارہی ہیں۔ جب کہ دوسری جانب انتہائی بلندوبالا عمارتیں پندرہ تا بیس منزلہ مثلا ایک ہزار ،چھ سو مربع گز کے رہائشی پلاٹوں پر تین فلور پارکنگ کے بنا کر تعمیر کردی گئیں جن کی بنیادیں بھی مضبوط نہیں ہیں بلکہ زلزلے کے جھٹکے یا زمین دھنسے کی صورت میں یہ عمارتیں گرسکتی ہیں اور سیکڑوں جانوں کے ضیاع کا خطرہ ہمہ وقت منڈلا رہا ہے۔
محکمہ بھی موجود ہے لیکن تعمیراتی قواعد پر عمل درآمد نہیں ہورہا ۔کسی بھی سانحے کے رونما ہونے پر ہمدردی کے بیانات جاری کرکے اپنی ذمے داریوں سے بری الذمہ ہونے کا چلن عام ہوگیا ہے۔ صوبائی حکومت اور متعلقہ محکمے ان حادثات کی روک تھام کے لیے موثر اقدامات اٹھائیں ، تاکہ شہریوں کے جان ومال کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے۔
ریسیکو آپریشن بروقت شروع نہ ہونے کے سبب ملبے تلے افراد کو نہ نکالا جاسکا ۔ اہل محلہ اپنی مدد آپ کے تحت امدادی کارروائیاں کرتے رہے جوکہ جذبے اور خلوص کے باوجود ناکافی تھیں،کیونکہ اصل مسئلہ ملبے کو ہٹانا تھا جو بھاری مشینری کے بغیر نہ ممکن تھا۔
میڈیا پر خبریں چلنے کے باوجود حکومتی مشینری ڈھائی گھنٹے تاخیر سے پہنچی، لیکن اس کی کوششیں کارگر ثابت نہ ہوئیں،البتہ پاک فوج کی انجینئرنگ کورکے دستے نے ہیوی مشینری کے ہمراہ کام شروع کیا ۔شہر ناپرساں کی یتیمی کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس طرح کے حادثات سے نمٹنے کے لیے شہری انتظامیہ کے پاس مشینری موجود نہیں۔ شہرپر آبادی کا دباؤ روز بروز بڑھتا جارہا ہے، رہائشی جگہوں کی شدید ترین قلت ہے ۔
سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سے اے) کے مطابق مکان پرانا تھا، مالک مکان نے عمارتی کالمزکوکاٹنے اورکھدائی کا کام شروع کروایا ہوا تھا جس کی وجہ سے عمارتی اسٹرکچرکونقصان پہنچا کیونکہ عمارت کارنر ہونے کی وجہ سے کوئی اضافی سپورٹ نہیں تھی، اس لیے اپنے ہی بوجھ سے فوری زمین بوس ہوگئی۔ مالک کو مکان اپنی غفلت کا خمیازہ اپنی جان سے ہاتھ دھوکر ادا کرنا پڑا بلکہ کئی اورخاندان بھی لمحہ بھر میں اجڑگئے۔
شہر اب کنکریٹ کاجنگل بنتا جارہاہے،انتہائی تنگ جگہوں اور پرانی آبادیوں اور محلوں میں کثیر المنزلہ عمارتیں متعلقہ محکموں کے اہلکاروں کی جیب گرم کرکے تعمیر کی جارہی ہیں۔ جب کہ دوسری جانب انتہائی بلندوبالا عمارتیں پندرہ تا بیس منزلہ مثلا ایک ہزار ،چھ سو مربع گز کے رہائشی پلاٹوں پر تین فلور پارکنگ کے بنا کر تعمیر کردی گئیں جن کی بنیادیں بھی مضبوط نہیں ہیں بلکہ زلزلے کے جھٹکے یا زمین دھنسے کی صورت میں یہ عمارتیں گرسکتی ہیں اور سیکڑوں جانوں کے ضیاع کا خطرہ ہمہ وقت منڈلا رہا ہے۔
محکمہ بھی موجود ہے لیکن تعمیراتی قواعد پر عمل درآمد نہیں ہورہا ۔کسی بھی سانحے کے رونما ہونے پر ہمدردی کے بیانات جاری کرکے اپنی ذمے داریوں سے بری الذمہ ہونے کا چلن عام ہوگیا ہے۔ صوبائی حکومت اور متعلقہ محکمے ان حادثات کی روک تھام کے لیے موثر اقدامات اٹھائیں ، تاکہ شہریوں کے جان ومال کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے۔