جھوٹ بولنے والا نہیں سننے والا بلواتا ہے

وہی مشاعرے والی بات ہے کہ لوگ وہی شعر یا غزل سناتے ہیں جو لوگ سننا چاہتے ہیں۔

barq@email.com

بات وہی ''بد سے بدنام برا'' والی ہے لوگ خواہ مخواہ یونہی ایروں غیروں نتھوخیروں کی بات میں آکر کچھ معصوم لوگوں کو برا بھلا بلکہ برا ہی برا کہتے رہتے ہیں اور یہ بہت بری بات ہے۔ ہم چونکہ محقق بھی ہیں، سخن فہم بھی ہیں اور کسی کے طرف دار بھی نہیں ہیں، اس لیے بغیر تحقیق کے کسی کو برا نہیں کہتے، چاہے وہ بظاہر فراق گورکھپوری ہی کیوں نہ ہو:

منہ سے ہم آپ برا تو نہیں کہتے کہ فراقؔ

ہے تیرا دوست مگر آدمی اچھا بھی نہیں

اب دیکھیے نا یہ جو ہمارے لیڈران کرام اور رہنمائیان عظام ہیں ان بچارے معصوموں کے خلاف لوگ کیا کیا کچھ نہیں کہتے، خاص طور پر یہ بات تو سب کہتے ہیں کہ یہ جھوٹے نمبر ون ہوتے ہیں۔ جھوٹ ان کا پیشہ ہے، تیشہ بھی۔ جھوٹ کے بغیر ان کو کھانا ہضم نہیں ہوتا۔ بلکہ بعض تو اگر ہر روز جھوٹا بیان نہ داغ لیں ان کو سخت کھجلی ہوتی ہے، خاص طور پر منہ، زبان اور ہونٹوں پر۔

یہ درست ہے کہ بعض لوگوں کا ہاضمہ بسیار خوری کی وجہ کچھ کمزور پڑ جاتا ہے۔ اور وہ کھانے کے بعد کسی نہ کسی چورن یا کالی پیلی بوتلوں سے کام چلاتے ہیں جیسا کہ قہر خداوندی چشم گل چشم عرف سوائن فلو کا علامہ بریانی عرف برڈ فلو کے بارے میں کہنا ہے کہ دن بھر الابلا کھانے کے بعد انسان کو کالی پیلی بوتل ضرور پینا پڑتی ہے۔ ہاں وہ لیڈروں بلکہ جھوٹ کی بات تو رہ گئی جہاں تک ہم نے اپنی تحقیق کا ٹٹو دوڑایا ہے، یہ ثابت ہوا ہے کہ جھوٹ بولنے والے ''معصوم'' ہوتے ہیں کہ لوگ جھوٹ سننا چاہتے ہیں۔

یہ بات جب ہم نے تحقیق کے ترازو میں رکھی تو بالکل درست نکلی۔ برا جھوٹ بولنے والا نہیں بلکہ سننے والے ہوتے ہیں۔ اب مثلاً موجودہ لیڈران، سربراہان وزیران و امیران یہ ''سچ'' کہہ دیں کہ ہم نے اب تک جو کچھ کہا ہے وہ جھوٹ تھا۔ ہم نیا پاکستان تو کیا بنائیں گے پرانے ہی کا کباڑا نہ کر دیں تو یہ بھی بہت ہے۔ لیکن وہ ایسا نہیں بولتے کیونکہ لوگ ایسا سننا نہیں چاہتے۔


اسی طرح سچ کا معاملہ ہے، بولنے والے اگر سچ کہنا بھی چاہیں تو نہیں کہہ سکتے کیونکہ سننے والے سچ سننا نہیں چاہتے۔ اسی لیے تو پشتو میں ''سچ'' کو '' گالی'' کہا گیا ہے اور کسی کو ماں بہن کی گالی دے کر کوئی اینٹ پتھر یا گولی سے بچ پائے گا؟۔

سیدھی سی بات ہے فرض کر لیجیے کہ ایک بہت بڑا جلسہ ہے۔ عوام جوق در جوق آئے ہوئے ہیں اور کان لگائے بیٹھے ہیں کہ اب فلاں صاحب تشریف لائیں گے اور گل افشانی کریں گے۔ ظاہر ہے کہ وہ اگر فلاں صاحب آ کر ''گل افشانی'' کے بجائے گالی افشانی کر بیٹھے تو اس کا حشر نشر ہو جائے گا۔ مثلاً یہ کہے کہ تم پرلے درجے کے نکمے نکھٹو ہو، چور ہو، حکومت کی کسی چیز کا بھی تیا پانچہ کر دیتے ہو اور ہر کسی لیڈر کے پیچھے اس کی ''محبت'' سے سرشار ہو کر نہیں ہو لیتے کہ ملک کا بھلا ہو بلکہ اس لیے اس کے آگے بھنگڑے ڈالتے ہو کہ کچھ ''ملنے'' کی امید ہوتی ہے۔ منہ سے، ملک ملک، وطن وطن، عوام عوام، اور جمہوریت یا انصاف النصاف کہتے ہو لیکن پرلے درجے کے خود غرض، حرام خور اور مفت خور ہو۔ جاؤ بھاڑ میں، جاؤ سب کے سب۔ تو ظاہر ہے کہ اس پر جان نچھاور کرنے والے حاضرین و سامعین کیا کریں گے۔ وہی کریں جو اینٹ کے جواب میں پتھر اور گالی کے جواب میں گولی ہو۔ لیکن وہ جانتاہے کہ تم سچ سننا نہیں چاہتے، اس لیے بڑے آرام سے تمہاری تعریفوں کے پل باندھے گا۔ تمہیں دودھ کا دھلا معصوم اور پاک و پاکیزہ کہے گا اور تمہارے نیک اعمال کے صلے میں تمہیں جنت الفردوس کی تصویریں دکھائے کہ تم سننا ہی یہی چاہتے ہو۔

اب اس میں قصور کس کا ہوا؟ بولنے والے کا یا سننے والے کا۔ ایسا ہی ہر سطح پر تصور کر لیجیے۔ ماتحت افسر سے گاہگ، دکاندار یہاں تک کہ بیوی اپنے شوہر سے اور شوہر اپنی بیوی سے بھی سچ کی بجائے جھوٹ چاہتا ہے اور ملے گا وہی جو آپ چاہتے ہیں۔ اور تو اور سب سے بڑے صادق نگر یا ''سچ گاہ'' عدالت میں دیکھیے۔ آپ سے گیتا سیتا پر ہاتھ رکھوا کر یہ تو سن لیا جائے گا کہ میں اس پر ہاتھ رکھ کر سچ کہوں گا اور سچ کے سوا کچھ نہ کہوں گا۔

کیا وہ وکیلوں سے ''سچ'' کہلوا سکے گا کہ جناب لائر صاحب کیا آپ بھی سچ بولیں گے یا جج صاحب سے کہہ سکتا ہے کہ میرے ساتھ آپ بھی اس پر ہاتھ رکھ کر قسم کھائیں کہ سچ بولیں گے اور سچ کریں گے ؟ یا اگر اسے معلوم بھی ہو کہ ان لوگوں نے کب کب کتنا کتنا لے کر جھوٹ بولاہے، یہ مقام کتنی رشوت دے کر حاصل کیا ہے۔ لیکن وہ قسم کھانے کے باوجود سچ نہیں بولے گا کہ سچ تو گالی ہوتا ہے اور کوئی شریف آدمی دوسرے شریف آدمی کو گالی دے سکتا ہے؟

ایک مرتبہ غالباً خان عبدالولی خان نے کسی اسمبلی میں حلف برداری کے وقت کہا تھا، کہ یہ حلف تو ہمیں ازبر ہو چکا ہے اسے خواہ مخواہ بار بار اٹھانے اور وہ بھی توڑنے کے ارادے کیوں دہراتے رہتے ہو؟

وہی مشاعرے والی بات ہے کہ لوگ وہی شعر یا غزل سناتے ہیں جو لوگ سننا چاہتے ہیں۔ کوئی پاگل ہی ہو گا جو سننے والوں کی پسند کے خلاف کچھ سنائے۔ انفرادی معاملات میں بھی یہی سلسلہ ہے کہ کہنے والام سننے والے کی مرضی سے بولتا ہے۔ اگر شوہر اپنی بیوی سے کہے کہ تم نے تو میک اپ کر کے دھوکا دیا ہے، تم تو حور کی جگہ لنگور نکلی۔ یا تم مجھے زہر لگتی ہو اور فلاں فلاں کی بیوی اچھی لگتی ہے اور یا بیوی اس سے حقائق کا اظہار کر کے گالی دے کہ تم تو شہزادے کی جگہ خرزادے نکلے تو لیکن وہ ایسا نہیں کہیں گے اور وہی کہیں گے جو سننے والا چاہتا ہے۔
Load Next Story