نیب کی سراج درانی کے خلاف کارروائی

سابق صدر آصف زرداری نے سندھ اسمبلی کے اسپیکر کی گرفتاری کو سندھ پر حملہ قرار دے دیا۔

tauceeph@gmail.com

آغا سراج درانی اسلام آباد سے گرفتارکرلیے گئے۔ نیب کے اہلکاروں نے رات گئے ان کے گھر پر چھاپہ مارا اورکئی گھنٹوں تک گھرکی خواتین کو مقید رکھا ۔ سندھ کابینہ کے اراکین جب ان کی قیام گاہ پر پہنچے تو خواتین وزراء کو بھی گھر میں داخلے کی اجازت نہ ملی۔

سابق صدر آصف زرداری نے سندھ اسمبلی کے اسپیکر کی گرفتاری کو سندھ پر حملہ قرار دے دیا۔ سینیٹ کے سابق چیئرمین میاں رضا ربانی نے کہا کہ یہ گرفتاری پارلیمنٹ کی بالادستی کے لیے چیلنج ہے۔ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی سندھ اسمبلی کے اسپیکرکی گرفتاری کو جمہوریت کے لیے خطرہ قرار دیا۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے اراکین نے قومی اسمبلی میں سراج درانی کی گرفتاری پر احتجاج کیا۔

اراکین کا کہنا ہے کہ سندھ اسمبلی کے اسپیکر کی گرفتاری جمہوریت پر حملہ ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان نے حزب اختلاف کے احتجاج کو خاطر میں لانے پر تیار نہیں۔ انھوں نے فرمایا کہ جمہوریت محفوظ ہے،کرپشن میں گرفتار ہونے والے نیلسن منڈیلا بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ نیب کی اس کارروائی سے کرپشن کا معاملہ پس پشت چلا گیا۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور سندھ کے ساتھ ناروا سلوک کا مسئلہ اہمیت اختیار کرگیا ہے۔

نیب کا قانون جنرل پرویز مشرف کے دور میں بنا تھا۔ وکلاء اس قانون کی بنیادی خامیوں کی ہمیشہ سے نشان دہی کر رہے تھے۔ نیب نے جن سیاسی رہنماؤں اور بیوروکریٹس کے خلاف شور شرابے کے ساتھ کارروائی کی اور انھیں 90 دن تک نظربند رکھ کر تفتیش کی اور ان افراد کی نظربندی کے دروان ذرایع ابلاغ پر ان کے خلاف الزامات پر مشتمل چارج شیٹ جاری کی مگر عدالتوں میں چالان پیش ہوئے اور مقدمات کی سماعت شروع ہوئی تو انکشاف ہوا کہ ان افراد پر جو الزامات لگائے گئے تھے،وہ چالان میں شامل ہی نہیں تھے اور کمزور الزامات چالان میں شامل کیے گئے، ان افراد کی ضمانتیں ہوگئیں ۔کچھ بڑے لوگوں کو احتساب عدالت سے سزائیں ہوئیں تو اعلیٰ عدالتوں نے ضمانت منظور کرلی۔

جب نیب نے سابق صدر آصف زرداری کے ذاتی دوست ڈاکٹر عاصم کو گرفتار کیا تو ان پر کرپشن، اقرباء پروری، وسائل سے زیادہ زندگی گزارنے اور دہشتگردوں کا اپنے اسپتال میں علاج کرنے کے الزامات عائد کیے گئے۔ ڈاکٹر عاصم 90 دن تک نیب کی زیر حراست رہے۔ نیب کے اہلکاروں نے ڈاکٹر عاصم سے دن رات تفتیش کی۔ ان سے سیکڑوں سوالات کیے گئے۔ سوالنامے کے تحریری جوابات طلب کیے ۔ ڈاکٹر عاصم سے ان کے بینک اکاؤنٹس کے بارے میں معلومات حاصل کی گئیں، ذرایع ابلاغ پر خوب پرچرچا ہوا۔

ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری کے بعد ان کے وڈیو ٹیپ کا ذکر ہوا مگر جب ڈاکٹرعاصم کے مقدمے کی سماعت شروع ہوئی تو پہلی پیشی پر ہی محسوس ہوا کہ الزامات میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ نیب نے ایم کیو ایم کے رہنما عامر خان کو اسی طرح گرفتار کیا۔ وہ 90 دن تک نیب کی تحویل میں رہے۔ رینجرز کے اہلکاروں نے ان سے پوچھ گچھ کی۔ عامر خان کے خلاف الزامات کی چارج شیٹ کی ٹی وی ٹاک شوز میں خوب دھول چھانی گئی مگر پھر 90 دن کی قید کے بعد ایک دن عامر خان رہا ہوگئے۔


سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کا پاناما لیکس کا مقدمہ بھی قابل غور ہے۔ اس مقدمے کے ذریعے سپریم کورٹ نے شریف خاندان سے پاناما لیکس میں تحقیقات شروع کیں تو جے آئی ٹی بنائی گئی۔ اس جے آئی ٹی نے کئی ماہ تک شریف خاندان کے خلاف تحقیقات کیں۔ شریف خاندان کے ہر فرد کو جے آئی ٹی کا سامنا کرنا پڑا ۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ پر سپریم کورٹ میں طویل بحث ہوئی۔ سپریم کورٹ نے نواز شریف کو پبلک آفس کے لیے نااہل قرار دے کر مقدمات احتساب عدالت میں پیش کردیے۔ احتساب عدالت نے میاں نواز شریف کو 9 سال سزا دی مگر اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس سزا کو معطل کردیا اور احتساب عدالت نے میاں نواز شریف کو اس الزام سے علیحدہ کردیا جس الزام کی بناء پر سپریم کورٹ نے انھیں پبلک آفس کے لیے نااہل قرار دیا تھا۔

یہ صورتحال پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران اور دیگر کئی افراد کے مقدمات میں ہوئی۔ گزشتہ دنوں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف لاہور ہائی کورٹ میں ضمانت کی منظوری کے فیصلے سے بھی نیب کی کارروائی کے جواز کے بارے میں سوالات پیدا ہوگئے۔ لاہور ہائی کورٹ نے اس مقدمے کے فیصلے میں لکھا کہ شہباز شریف نے نہ اختیارات کا ناجائز استعمال کیا نہ کہ بدعنوانی، نیب کی پک اینڈ چوز پالیسی بدنیتی پر مبنی لگتی ہے۔

شہباز شریف کی گرفتاری کے بعد وزیر اعظم عمران خان کی قیادت میں وفاقی وزراء نے مہم چلائی کہ قائد حزب اختلاف ہونے کے باوجود شہباز شریف پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سربراہ نہیں ہوں گے۔ اس جھگڑے میں قومی اسمبلی کی 6 ماہ تک ذیلی کمیٹیاں نہیں بنیں نہ کوئی قانون سازی ہوئی۔ انسانی حقوق کی تحریک سے منسلک کارکنوں کا کہنا ہے کہ عدالت کے فیصلے سے پہلے ملزمان کا میڈیا ٹرائل ہوجاتا ہے لیکن بعد میں پتہ چلتا ہے کہ الزام ثابت نہیں ہوا۔

تحقیقاتی اداروں کے اہلکار وائٹ کالر جرائم کا پتہ چلانے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ وہ پہلے سے فراہم کردہ ایجنڈے کو پورا کرنے کے لیے الزامات کی فہرست مرتب کرتے ہیں۔ یہ فہرست قانون کے اصولوں سے متصادم ہوتی ہے، یوں عدالتوں میں یہ مقدمات مسترد ہو جاتے ہیںاس کا فائدہ مبینہ ملزمان کو ہوتا ہے مگر اس طریقہ کار کی بناء پر اداروںکی ساکھ ختم ہورہی ہے اور ملزمان کے لیے عوام میں ہمدردی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔

سندھ کی حکومت کی رپورٹنگ کرنے والے ایک صحافی نیب کی اس کارروائی کانئے زاویوں سے تجزیہ کررہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آغا سراج درانی کی کرپشن کے حوالے سے شہرت اچھی نہیں ہے مگر ان کے خلاف جس طریقے سے کارروائی ہوئی ، اس کی وجہ سے ان کے لیے ہمدردیاں پیدا ہوئی ہیں۔ اس کارروائی کے بعد پیپلز پارٹی کے کئی رہنماؤں جن میں سابق وزراء بھی شامل ہیں، گرفتاری کے خوف سے بچنے کے لیے ضمانتیں کرالی ہیں۔ یہ افواہ ہے کہ سندھ کے اسپیکر کی گرفتاری کے بعد صوبائی اسمبلی کے ان اراکین سے رابطہ کیا جا رہا ہے جن کے خلاف نیب میں مقدمات ہیں اور پیپلز پارٹی میں فارورڈ بلاک گروپ بنانے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔

یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ سپریم کورٹ نے گزشتہ ایک ماہ کے دوران تین مقدمات کے معرکتہ الآراء فیصلے دیے۔ ان فیصلوں پر عملدرآمد ہوتا نظر نہیں آتا۔ اس صورتحال میں نیب کی کارروائیوں اور سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عملدرآمد نہ ہونے سے شہریوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا تاثر آبادی کے ایک حصے میں مایوسی پیدا کر رہا ہے۔ نیب کے قانون کو انسانی حقوق کے مطابق ہونا چاہیے۔ حکومت اور حزب اختلاف کو فوری طور پر اس بارے میں قانون سازی پر غورکرنا چاہیے تاکہ کرپشن کے ملزمان مظلوم نہ بن جائیں۔
Load Next Story