بڑی بات
صبر کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑو
JERUSALEM:
اس مرتبہ عید کے حوالے سے اربازخان اور بہروزخان کے ذہن میں کئی ایک باتیں تھیں یا بقول بہروزخان ''منصوبے'' تھے ۔ لیکن کاش۔۔۔۔! یہ کاش، ان کے منصوبوں کے لیے فنانس کی کمی تھی۔ اربازخان اور بہروزخان نے اپنے انکل سے دبئی میں بھی رابطہ کیا تھا اور اُن سے اپنے عید کے منصوبے بھی شیئر کرلیے لیکن وہاں انکل کے ساتھ کچھ ایسی بات ہوئی کہ فی الحال وہاں سے بھی درہم کی آمد ''دیر آید، درست آید'' کی مانند تھی۔ یہ ''دیر آید، درست آید'' کا محاورہ بھی اربازخان نے انکل سے بات کرنے کے بعد استعمال کیا تھا۔
''دیر آید، درست آید'' کا استعمال یہاں تم نے غلط کیا ہے۔ بہروزخان چِلّایا۔ ہمارے منصوبے عید کے حوالے سے ہیں بلکہ عید کے آنے سے پہلے کے ہیں۔ جب انکل کے پیسے آئیں گے تب تک عید گزر چکی ہوگی،تو پھر کیسے ''درست آید'' ہوگا۔
میرے چھوٹے بھائی! اربازخان بولا، صبر کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑو۔ اگر ہمارے ارادے اور نیت نیک ہے تو انشاء اﷲ، اﷲ تعالیٰ کہیں نہ کہیں سے سبب بھی پیدا کردے گا۔
اربازخان اکثر محاورہ بولتا تو بہروزخان بہت تلملاتا۔ وہ بڑبڑایا۔ محاورے بول کر خود کو بڑا اردودان ثابت کرنا چاہتا ہے۔ ہونہہ۔۔۔۔ اپنے منہ، میاں مٹھو بنتا ہے بڑا۔
بہروزخان کچھ دیر خاموش رہ کر اچانک چونکا، ارے۔۔۔۔۔! یہ تو میں بھی بے خیالی میں محاورہ بول گیا۔
ایک دن دونوں بھائی اپنے ایک کزن کے گھر سے واپس آرہے تھے کہ اچانک بہروزخان چِلّانے لگا، ارے۔۔۔ رے۔۔۔۔۔ رک جائو، بریک لگائو، آخر مجھے نظر آہی گئے۔ اربازخان نے یہ چیخ پکار سن کر اپنی سائیکل روکی اور مُڑکر بہروزخان کی طرف دیکھا جو اپنی سائیکل سے اُترکر ایک طرف کو دوڑا جارہا تھا۔
اربازخان جھنجھلایا، میرے بھائی! یہ کیا فضول دوڑ لگا رہے ہو؟ گھر چلو، ہمیں گھر سے نکلے کافی دیر ہوگئی ہے۔ گھر والے پریشان ہو رہے ہوں گے۔
ارے۔۔۔۔ اب تو مزہ ہی آگیا۔ بہروزخان کی آواز آئی۔
اب اربازخان سے نہ رہا گیا اور اس نے اپنی سائیکل کا رخ اسی طرف کردیا۔ بہروزخان کے قریب پہنچ کر اس نے دیکھاکہ بہروزخان کے ہاتھ میں ہزار ہزار روپے کے کئی نوٹ تھے۔
ہائیں۔۔۔! یہ تمہارے پاس کہاں سے آئے؟ اربازخان نے حیرت سے پوچھا۔
اﷲ جب دیتا ہے تو چَھپر پھاڑ کر دیتا ہے۔ بہروزخان نے جواب میں کہا۔
اربازخان کی حیرت دُگنی ہوگئی۔ نوٹ پاکر تو تم بامحاورہ گفتگو کرنے لگے ہو! ماشاء اﷲ، چشم بد دور، اﷲ نظرِبد سے بچائے۔ ہارن دے کر رستہ لو۔ اچانک خود اربازخان کی گفتگو بے ربط ہونے لگی۔
یہ ہارن دے کر رستہ لو، چہ معنی دارد؟ میرے بھائی! کہیں ان نوٹوں کی وجہ سے تمہارا دماغی توازن تو نہیں بگڑ گیا؟ بہروزخان بولا۔
اربازخان نے اپنی سائیکل سیدھی کی اور کہا، میرا دماغی توازن نوٹوں کی وجہ سے نہیں بلکہ تمہارے محاورے بولنے کی وجہ سے یقیناً بگڑ جائے گا۔ یہ کہہ کر اربازخان اپنی سائیکل کی گھنٹی بجانے لگا اور پھر سائیکل تیزی سے بہروزخان کی طرف دوڑا دی۔ بہروزخان تیزی سے اُچھل کر ایک طرف ہوگیا اور حیرت سے اربازخان کی طرف دیکھنے لگا جو سائیکل کی گھنٹی بجا رہا تھا۔ بہروزخان بڑبڑایا۔
ہوں۔۔۔۔ یہ اس کا گھنٹی بجانا، ہارن دے کر رستہ لو۔ اب میں سمجھا، لیکن یہ سائیکل اچانک کیوں دوڑانے لگا؟ اس نے سوچا۔ اتنے میں کیا دیکھتا ہے کہ اربازخان سائیکل سے اترکر ایک طرف پڑے نوٹوں پر جھپٹا۔ اس نے اربازخان کی آواز بھی سنی، اگر تیرا اﷲ ہے تو وہ میرا بھی ہے۔ اﷲ دے، تے بندہ لے۔
دونوں بھائیوں کو پیسے (فنانس) مل گئے تھے۔ بہروزخان کے ہاتھ چھے ہزار آئے تھے اور اربازخان جس طرف سائیکل دوڑا کر گیا تھا وہاں تین ہزار روپے پڑے تھے۔ اب اُن کے پاس کُل نوہزار روپے تھے۔
بہروزخان اب اپنے بھائی کی بات سے اتفاق کررہا تھا کہ ''صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔''
اربازخان خوشی سے تقریباً چِلّاتے ہوئے بولا، میرے بھائی! اب تو ہمارے سارے دن عید اور راتیں شب برأت ہوگئی ہیں۔
گھر پہنچنے پر ان دونوں کی سختی سے خبر لی گئی۔ ان کی بڑی باجی نے بہروزخان کا کان کھینچتے ہوئے کہا، تم دونوں صبح سے گدھے کے سر سے سینگ کی طرح کہاں غائب تھے؟
ہم نے آپ لوگوں کو بتایا تو تھا کہ اکبرخان کے گھر کمپیوٹر سیکھنے جارہے ہیں۔ بہروزخان نے صفائی پیش کی۔
اب باجی نے اربازخان کی طرف رخ کیا۔ لیکن تم دونوں کو جو وقت دیا گیا تھا اس سے بہت زیادہ لیٹ ہو۔
باجی۔۔۔! اربازخان لمبی سانس کھینچ کر بولا، ہم جو لیٹ ہوئے ہیں اس کا بھی ہمیں بڑا فائدہ ملا ہے۔ ہم دونوں بھائیوں کا کوئی کام بِلامقصد نہیں ہوتا۔
اچھا جی۔ باجی نے مذاق اُڑانے کے انداز میں کہا۔ بھلا لیٹ ہونے سے کیا فائدہ ہوا ہے؟
اربازخان اور بہروزخان نے کچھ بولے بغیر اپنی اپنی جیبوں سے ہزار ہزار روپوں کے نوٹ نکال کر سامنے کردیے۔
ہائے اﷲ۔۔۔! یہ کیا! اتنے سارے پیسے کہاں سے آئے؟ باجی نے حیرت سے پوچھا۔
اب اُن کی دادی جان، آنٹی، دوسری چھوٹی باجی اور چھوٹی کزن مہروزفاطمہ بھی اُن کی طرف متوجہ ہوچکے تھے۔ وہ سب ان کے پاس نوہزار روپے دیکھ کر حیران تھے۔ آخر جب بہروزخان نے انہیں ساری بات بتائی تو ان کی حیرت دور ہوئی۔
اب ان کی دونوں باجیوں نے بھی اپنے اپنے حصے کا مطالبہ کردیا، لیکن بھائی تھے کہ مسلسل انکار میں سر ہلائے جارہے تھے۔ اربازخان بولا، یہ پیسے اﷲ کی مہربانی سے ہمیں ملے ہیں، تمہیں اس میں حصہ کیوں دیں؟ غرض سب بھانت بھانت کی بولیاں بولنے لگے۔ کچھ ہی دیر میں کمرہ چڑیا گھر کا منظر پیش کرنے لگا۔ یکایک مہروزفاطمہ زور سے چِلّائی، مہربانی کرکے سب خاموش ہوجائیں، مجھے ایک ضروری بات کرنی ہے۔
ہاں! یہی ناںکہ مجھے بھی اِن نوہزار روپوں میں سے حصہ دیا جائے؟ بہروزخان نے مہروزفاطمہ کا منہ چڑایا۔
جی نہیں! مجھے کوئی حصہ وِصّہ نہیں چاہیے۔ مہروزفاطمہ زور سے بولی۔ بلکہ میں یہ کہنا چاہتی ہوںکہ یہ نوہزار جس کے ہیں، اسے واپس ملنے چاہئیں۔ عید کا موقع ہے، جس کے یہ نوہزار روپے گم ہوئے ہیں، اس بے چارے پر کیا بیت رہی ہوگی۔
مہروزفاطمہ کا یہ کہنا تھا کہ وہاں موجود سب افراد کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔ ایسی خاموشی چھاگئی کہ اگر فرش پر سوئی بھی گرتی تو اس کی آواز بھی سنائی دے جاتی۔ آخر اس خاموشی کو دادی جان نے توڑا۔ انہوں نے مہروزفاطمہ کو پکڑ کر اپنی گود میں بٹھا لیا اور بولیں، چھوٹا منہ لیکن اتنی بڑی بات۔ شاباش! میری مہروزفاطمہ بِٹیا زندہ باد۔ یہ کہہ کر دادی جان نے ارباز اور بہروزکو حکم دیا کہ یہ روپے جس کے ہیں اسے واپس ملنے چاہئیں۔ تم اپنی عید اچھی کرنا چاہتے ہو، اور اُس پر کیا گزر رہی ہوگی جس کے یہ روپے ہیں؟ آج اتنی منہگائی ہے کہ بجٹ میں ایک ہزار روپے کی بھی کمی ہوجائے تو سارا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے۔ یہ تو پھر نوہزار روپے ہیں۔
کچھ دیر بعد سب سوچ رہ تھے کہ آخر یہ روپے اصل مالک تک کیسے پہنچائے جائیں؟ کئی ایک ترکیبوں پر سوچ بچار ہوئی۔
اربازخان اور بہروزخان اسی جگہ جائیں جہاں پر یہ پیسے ملے ہیں۔ شاید وہاں اصل مالک اپنے پیسے ڈھونڈ رہا ہو۔
ہوسکتا ہے کہ وہاں پیسوں کے ساتھ کوئی کاغذ یا موبائل نمبر بھی گرا ہو یا پھر اس جگہ کی نزدیکی مسجد سے پیسوں کے گم ہونے کا اعلان کیا جائے۔
آخر یہ فیصلہ ہوا کہ اسی جگہ سب سے پہلے جانا چاہیے۔ ارباز، بہروز اور مہروزفاطمہ اس جگہ کی طرف چل پڑے۔ وہاں ایک طرف اینٹوں کا ایک ڈھیر پڑا تھا جس پر ایک بزرگ صورت شخص بہت پریشان بیٹھا تھا۔ ارباز اور بہروز کا ماتھا ٹھنکا۔ ہو نہ ہو یہی وہی شخص ہوگا جس کے پیسے گم ہوئے ہیں۔ اور جب ارباز اور بہروز اس کے نزدیک پہنچے تو وہ ان کا واقف نکلا۔ وہ ان کے دادا مرحوم کے بے حد قریبی رشتے دار اور گہرے دوست جمال بابا تھے۔
جمال بابا انہیں دیکھ کر بولے، ارے۔۔۔۔! میرے بیٹے یہاں کیا کررہے ہیں؟
اربازخان نے جواب دینے کے بجائے سوال کردیا، باباجی! ہماری بات چھوڑیں، آپ یہاں کیا کررہے ہیں؟
بس بیٹا! کیا بتائوں، میری پنشن کے نوہزار روپے گم ہوگئے ہیں۔ ہزار ہزار کے نو نوٹ تھے۔ کچھ دن بعد عید ہے، سوچ رہا ہوںکہ میرا اور میرے گھر والوں کا کیا بنے گا؟ گھر میں تو پھوٹی کوڑی بھی نہیں ہے۔
مگر یہ نوٹ آپ کی جیب سے گرے کیسے؟ بہروزخان نے پوچھا۔
بیٹا! یہاں سے گزرتے ہوئے میں نے ایک فون آنے پر جیب سے موبائل نکالا تھا۔ لگتا ہے کہ وہ موبائل نکالتے ہوئے گرگئے لیکن اب یہاں مَیں نے ہر طرف دیکھ لیا، کہیں بھی پیسوں کا نام ونشان نہیں ہے۔ جمال بابا نے جواب دیا۔
اربازخان نے کچھ سوچا پھر کہا، جمال بابا! آپ ہمارے گھر چلیں، اﷲ بہتر کرے گا۔ وہ جمال بابا کو لے کر گھر واپس آئے اور اربازخان نے دادی جان کو ساری بات بتائی۔ پھر دادی جان نے جمال بابا کو ارباز اور بہروز کو نوہزار روپے ملنے کی بات بتائی ساتھ ہی مہروزفاطمہ کی ''بڑی بات'' بھی بتائی۔ جمال بابا نے مہروزفاطمہ کی تعریف کرتے ہوئے پوچھا، میری ننھی بیٹی! اتنی چھی باتیں تم نے کہاں سے سیکھیں؟ مہروزفاطمہ نے پٹ سے جواب دیا، باباجی! مَیں ہر ہفتے کرنیں (ایکسپریس) پڑھتی ہوں۔ اس میں اچھی اچھی باتوں والی سبق آموز کہانیاں ہوتی ہیں۔
یوں جمال بابا کو اپنے روپے واپس مل گئے اور اربازخان و بہروزخان جو کچھ دیر پہلے نوہزار روپوں کے بل بوتے پر آسمان پر پہنچ گئے تھے، واپس زمین پر آگئے۔ لیکن۔۔۔۔ وہ جو ایک اور محاورہ ہے کہ ''صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے'' تو عید سے دو دن پہلے ارباز اور بہروز کے انکل اور مہروزفاطمہ کے ابو نے انہیں عیدی کے روپے بھیج دیے۔ ان کی باجیوں کو بھی اپنا حصہ مل گیا تھا۔
اس مرتبہ عید کے حوالے سے اربازخان اور بہروزخان کے ذہن میں کئی ایک باتیں تھیں یا بقول بہروزخان ''منصوبے'' تھے ۔ لیکن کاش۔۔۔۔! یہ کاش، ان کے منصوبوں کے لیے فنانس کی کمی تھی۔ اربازخان اور بہروزخان نے اپنے انکل سے دبئی میں بھی رابطہ کیا تھا اور اُن سے اپنے عید کے منصوبے بھی شیئر کرلیے لیکن وہاں انکل کے ساتھ کچھ ایسی بات ہوئی کہ فی الحال وہاں سے بھی درہم کی آمد ''دیر آید، درست آید'' کی مانند تھی۔ یہ ''دیر آید، درست آید'' کا محاورہ بھی اربازخان نے انکل سے بات کرنے کے بعد استعمال کیا تھا۔
''دیر آید، درست آید'' کا استعمال یہاں تم نے غلط کیا ہے۔ بہروزخان چِلّایا۔ ہمارے منصوبے عید کے حوالے سے ہیں بلکہ عید کے آنے سے پہلے کے ہیں۔ جب انکل کے پیسے آئیں گے تب تک عید گزر چکی ہوگی،تو پھر کیسے ''درست آید'' ہوگا۔
میرے چھوٹے بھائی! اربازخان بولا، صبر کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑو۔ اگر ہمارے ارادے اور نیت نیک ہے تو انشاء اﷲ، اﷲ تعالیٰ کہیں نہ کہیں سے سبب بھی پیدا کردے گا۔
اربازخان اکثر محاورہ بولتا تو بہروزخان بہت تلملاتا۔ وہ بڑبڑایا۔ محاورے بول کر خود کو بڑا اردودان ثابت کرنا چاہتا ہے۔ ہونہہ۔۔۔۔ اپنے منہ، میاں مٹھو بنتا ہے بڑا۔
بہروزخان کچھ دیر خاموش رہ کر اچانک چونکا، ارے۔۔۔۔۔! یہ تو میں بھی بے خیالی میں محاورہ بول گیا۔
ایک دن دونوں بھائی اپنے ایک کزن کے گھر سے واپس آرہے تھے کہ اچانک بہروزخان چِلّانے لگا، ارے۔۔۔ رے۔۔۔۔۔ رک جائو، بریک لگائو، آخر مجھے نظر آہی گئے۔ اربازخان نے یہ چیخ پکار سن کر اپنی سائیکل روکی اور مُڑکر بہروزخان کی طرف دیکھا جو اپنی سائیکل سے اُترکر ایک طرف کو دوڑا جارہا تھا۔
اربازخان جھنجھلایا، میرے بھائی! یہ کیا فضول دوڑ لگا رہے ہو؟ گھر چلو، ہمیں گھر سے نکلے کافی دیر ہوگئی ہے۔ گھر والے پریشان ہو رہے ہوں گے۔
ارے۔۔۔۔ اب تو مزہ ہی آگیا۔ بہروزخان کی آواز آئی۔
اب اربازخان سے نہ رہا گیا اور اس نے اپنی سائیکل کا رخ اسی طرف کردیا۔ بہروزخان کے قریب پہنچ کر اس نے دیکھاکہ بہروزخان کے ہاتھ میں ہزار ہزار روپے کے کئی نوٹ تھے۔
ہائیں۔۔۔! یہ تمہارے پاس کہاں سے آئے؟ اربازخان نے حیرت سے پوچھا۔
اﷲ جب دیتا ہے تو چَھپر پھاڑ کر دیتا ہے۔ بہروزخان نے جواب میں کہا۔
اربازخان کی حیرت دُگنی ہوگئی۔ نوٹ پاکر تو تم بامحاورہ گفتگو کرنے لگے ہو! ماشاء اﷲ، چشم بد دور، اﷲ نظرِبد سے بچائے۔ ہارن دے کر رستہ لو۔ اچانک خود اربازخان کی گفتگو بے ربط ہونے لگی۔
یہ ہارن دے کر رستہ لو، چہ معنی دارد؟ میرے بھائی! کہیں ان نوٹوں کی وجہ سے تمہارا دماغی توازن تو نہیں بگڑ گیا؟ بہروزخان بولا۔
اربازخان نے اپنی سائیکل سیدھی کی اور کہا، میرا دماغی توازن نوٹوں کی وجہ سے نہیں بلکہ تمہارے محاورے بولنے کی وجہ سے یقیناً بگڑ جائے گا۔ یہ کہہ کر اربازخان اپنی سائیکل کی گھنٹی بجانے لگا اور پھر سائیکل تیزی سے بہروزخان کی طرف دوڑا دی۔ بہروزخان تیزی سے اُچھل کر ایک طرف ہوگیا اور حیرت سے اربازخان کی طرف دیکھنے لگا جو سائیکل کی گھنٹی بجا رہا تھا۔ بہروزخان بڑبڑایا۔
ہوں۔۔۔۔ یہ اس کا گھنٹی بجانا، ہارن دے کر رستہ لو۔ اب میں سمجھا، لیکن یہ سائیکل اچانک کیوں دوڑانے لگا؟ اس نے سوچا۔ اتنے میں کیا دیکھتا ہے کہ اربازخان سائیکل سے اترکر ایک طرف پڑے نوٹوں پر جھپٹا۔ اس نے اربازخان کی آواز بھی سنی، اگر تیرا اﷲ ہے تو وہ میرا بھی ہے۔ اﷲ دے، تے بندہ لے۔
دونوں بھائیوں کو پیسے (فنانس) مل گئے تھے۔ بہروزخان کے ہاتھ چھے ہزار آئے تھے اور اربازخان جس طرف سائیکل دوڑا کر گیا تھا وہاں تین ہزار روپے پڑے تھے۔ اب اُن کے پاس کُل نوہزار روپے تھے۔
بہروزخان اب اپنے بھائی کی بات سے اتفاق کررہا تھا کہ ''صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔''
اربازخان خوشی سے تقریباً چِلّاتے ہوئے بولا، میرے بھائی! اب تو ہمارے سارے دن عید اور راتیں شب برأت ہوگئی ہیں۔
گھر پہنچنے پر ان دونوں کی سختی سے خبر لی گئی۔ ان کی بڑی باجی نے بہروزخان کا کان کھینچتے ہوئے کہا، تم دونوں صبح سے گدھے کے سر سے سینگ کی طرح کہاں غائب تھے؟
ہم نے آپ لوگوں کو بتایا تو تھا کہ اکبرخان کے گھر کمپیوٹر سیکھنے جارہے ہیں۔ بہروزخان نے صفائی پیش کی۔
اب باجی نے اربازخان کی طرف رخ کیا۔ لیکن تم دونوں کو جو وقت دیا گیا تھا اس سے بہت زیادہ لیٹ ہو۔
باجی۔۔۔! اربازخان لمبی سانس کھینچ کر بولا، ہم جو لیٹ ہوئے ہیں اس کا بھی ہمیں بڑا فائدہ ملا ہے۔ ہم دونوں بھائیوں کا کوئی کام بِلامقصد نہیں ہوتا۔
اچھا جی۔ باجی نے مذاق اُڑانے کے انداز میں کہا۔ بھلا لیٹ ہونے سے کیا فائدہ ہوا ہے؟
اربازخان اور بہروزخان نے کچھ بولے بغیر اپنی اپنی جیبوں سے ہزار ہزار روپوں کے نوٹ نکال کر سامنے کردیے۔
ہائے اﷲ۔۔۔! یہ کیا! اتنے سارے پیسے کہاں سے آئے؟ باجی نے حیرت سے پوچھا۔
اب اُن کی دادی جان، آنٹی، دوسری چھوٹی باجی اور چھوٹی کزن مہروزفاطمہ بھی اُن کی طرف متوجہ ہوچکے تھے۔ وہ سب ان کے پاس نوہزار روپے دیکھ کر حیران تھے۔ آخر جب بہروزخان نے انہیں ساری بات بتائی تو ان کی حیرت دور ہوئی۔
اب ان کی دونوں باجیوں نے بھی اپنے اپنے حصے کا مطالبہ کردیا، لیکن بھائی تھے کہ مسلسل انکار میں سر ہلائے جارہے تھے۔ اربازخان بولا، یہ پیسے اﷲ کی مہربانی سے ہمیں ملے ہیں، تمہیں اس میں حصہ کیوں دیں؟ غرض سب بھانت بھانت کی بولیاں بولنے لگے۔ کچھ ہی دیر میں کمرہ چڑیا گھر کا منظر پیش کرنے لگا۔ یکایک مہروزفاطمہ زور سے چِلّائی، مہربانی کرکے سب خاموش ہوجائیں، مجھے ایک ضروری بات کرنی ہے۔
ہاں! یہی ناںکہ مجھے بھی اِن نوہزار روپوں میں سے حصہ دیا جائے؟ بہروزخان نے مہروزفاطمہ کا منہ چڑایا۔
جی نہیں! مجھے کوئی حصہ وِصّہ نہیں چاہیے۔ مہروزفاطمہ زور سے بولی۔ بلکہ میں یہ کہنا چاہتی ہوںکہ یہ نوہزار جس کے ہیں، اسے واپس ملنے چاہئیں۔ عید کا موقع ہے، جس کے یہ نوہزار روپے گم ہوئے ہیں، اس بے چارے پر کیا بیت رہی ہوگی۔
مہروزفاطمہ کا یہ کہنا تھا کہ وہاں موجود سب افراد کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔ ایسی خاموشی چھاگئی کہ اگر فرش پر سوئی بھی گرتی تو اس کی آواز بھی سنائی دے جاتی۔ آخر اس خاموشی کو دادی جان نے توڑا۔ انہوں نے مہروزفاطمہ کو پکڑ کر اپنی گود میں بٹھا لیا اور بولیں، چھوٹا منہ لیکن اتنی بڑی بات۔ شاباش! میری مہروزفاطمہ بِٹیا زندہ باد۔ یہ کہہ کر دادی جان نے ارباز اور بہروزکو حکم دیا کہ یہ روپے جس کے ہیں اسے واپس ملنے چاہئیں۔ تم اپنی عید اچھی کرنا چاہتے ہو، اور اُس پر کیا گزر رہی ہوگی جس کے یہ روپے ہیں؟ آج اتنی منہگائی ہے کہ بجٹ میں ایک ہزار روپے کی بھی کمی ہوجائے تو سارا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے۔ یہ تو پھر نوہزار روپے ہیں۔
کچھ دیر بعد سب سوچ رہ تھے کہ آخر یہ روپے اصل مالک تک کیسے پہنچائے جائیں؟ کئی ایک ترکیبوں پر سوچ بچار ہوئی۔
اربازخان اور بہروزخان اسی جگہ جائیں جہاں پر یہ پیسے ملے ہیں۔ شاید وہاں اصل مالک اپنے پیسے ڈھونڈ رہا ہو۔
ہوسکتا ہے کہ وہاں پیسوں کے ساتھ کوئی کاغذ یا موبائل نمبر بھی گرا ہو یا پھر اس جگہ کی نزدیکی مسجد سے پیسوں کے گم ہونے کا اعلان کیا جائے۔
آخر یہ فیصلہ ہوا کہ اسی جگہ سب سے پہلے جانا چاہیے۔ ارباز، بہروز اور مہروزفاطمہ اس جگہ کی طرف چل پڑے۔ وہاں ایک طرف اینٹوں کا ایک ڈھیر پڑا تھا جس پر ایک بزرگ صورت شخص بہت پریشان بیٹھا تھا۔ ارباز اور بہروز کا ماتھا ٹھنکا۔ ہو نہ ہو یہی وہی شخص ہوگا جس کے پیسے گم ہوئے ہیں۔ اور جب ارباز اور بہروز اس کے نزدیک پہنچے تو وہ ان کا واقف نکلا۔ وہ ان کے دادا مرحوم کے بے حد قریبی رشتے دار اور گہرے دوست جمال بابا تھے۔
جمال بابا انہیں دیکھ کر بولے، ارے۔۔۔۔! میرے بیٹے یہاں کیا کررہے ہیں؟
اربازخان نے جواب دینے کے بجائے سوال کردیا، باباجی! ہماری بات چھوڑیں، آپ یہاں کیا کررہے ہیں؟
بس بیٹا! کیا بتائوں، میری پنشن کے نوہزار روپے گم ہوگئے ہیں۔ ہزار ہزار کے نو نوٹ تھے۔ کچھ دن بعد عید ہے، سوچ رہا ہوںکہ میرا اور میرے گھر والوں کا کیا بنے گا؟ گھر میں تو پھوٹی کوڑی بھی نہیں ہے۔
مگر یہ نوٹ آپ کی جیب سے گرے کیسے؟ بہروزخان نے پوچھا۔
بیٹا! یہاں سے گزرتے ہوئے میں نے ایک فون آنے پر جیب سے موبائل نکالا تھا۔ لگتا ہے کہ وہ موبائل نکالتے ہوئے گرگئے لیکن اب یہاں مَیں نے ہر طرف دیکھ لیا، کہیں بھی پیسوں کا نام ونشان نہیں ہے۔ جمال بابا نے جواب دیا۔
اربازخان نے کچھ سوچا پھر کہا، جمال بابا! آپ ہمارے گھر چلیں، اﷲ بہتر کرے گا۔ وہ جمال بابا کو لے کر گھر واپس آئے اور اربازخان نے دادی جان کو ساری بات بتائی۔ پھر دادی جان نے جمال بابا کو ارباز اور بہروز کو نوہزار روپے ملنے کی بات بتائی ساتھ ہی مہروزفاطمہ کی ''بڑی بات'' بھی بتائی۔ جمال بابا نے مہروزفاطمہ کی تعریف کرتے ہوئے پوچھا، میری ننھی بیٹی! اتنی چھی باتیں تم نے کہاں سے سیکھیں؟ مہروزفاطمہ نے پٹ سے جواب دیا، باباجی! مَیں ہر ہفتے کرنیں (ایکسپریس) پڑھتی ہوں۔ اس میں اچھی اچھی باتوں والی سبق آموز کہانیاں ہوتی ہیں۔
یوں جمال بابا کو اپنے روپے واپس مل گئے اور اربازخان و بہروزخان جو کچھ دیر پہلے نوہزار روپوں کے بل بوتے پر آسمان پر پہنچ گئے تھے، واپس زمین پر آگئے۔ لیکن۔۔۔۔ وہ جو ایک اور محاورہ ہے کہ ''صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے'' تو عید سے دو دن پہلے ارباز اور بہروز کے انکل اور مہروزفاطمہ کے ابو نے انہیں عیدی کے روپے بھیج دیے۔ ان کی باجیوں کو بھی اپنا حصہ مل گیا تھا۔