ایمان یقین اور اطمینان قلب
ایمان،نوریقین کی اس حسین ودل نشین کیفیت کا نام ہے جو اگردل کی ویرانے میں جلوہ گرہوجائے تو اسے اجالوں سے معمورکردیتی ہے
حضرت ابو سعید خدریؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
'' تم میں سے جو کسی برائی کو دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ (یعنی عملی جدوجہد) سے روکنے کی کوشش کرے اور اگر ایسا نہ کر سکے تو اپنی زبان سے (تنقید و مذمت کے ذریعے) روکے اور اگر اپنی زبان سے بھی روکنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو (کم از کم اس برائی کو) اپنے دل سے بُرا جانے اور یہ ایمان کا کم زور ترین درجہ ہے۔''
شرح و تفصیل
ایمان، نورِِ یقین کی اس حسین و دل نشین کیفیت کا نام ہے جو اگر دل کے ویرانے میں جلوہ گر ہو جائے تو اسے اجالوں سے معمور کر دیتی ہے اور اگر سینے کے سونے بن میں مہک اٹھے تو چنبے کی بوٹی کی طرح اسے شگفتہ اور بہار آفرین گلستانوں میں تبدیل کر دیتی ہے۔ دل کے چمن میں کھلنے والے یقین کے یہ سدا بہار، عنبر بار پھول اتنے دلآویز ہوتے ہیں کہ شکوک و شبہات کے کانٹے ان کے قریب بھی نہیں پھٹکتے اور اگر ان کی شاخوں کے ساتھ چمٹنے کی کوشش بھی کریں تو ان کے نزدیک آتے ہی اپنا تیکھا پن کھو دیتے ہیں اور خون خوار جارحانہ انداز بھول کر حریر بن جاتے ہیں۔
مذکورہ بالا حدیث مبارکہ میں ایمان کے تین درجات بیان کیے گئے ہیں۔ جس درجے کا کوئی شخص ہو اسی کے مطابق اسے روحانی مقام و مرتبہ نصیب ہوتا ہے۔ مضمون حدیث یہ ہے کہ ایمان کے تین درجات ہیں اور مومن کے دل میں کسی برائی کے خلاف پیدا ہونے والے رد عمل کی کیفیت سے ان کا تعین ہوتا ہے، مثلاً بدی کی حکم رانی، شر کی قوت اور منکرات کو پھلتا پھولتا دیکھ کر اگر مومن کے دل میں رد عمل کے طور پر حق کی حمایت میں غیظ و غضب پیدا ہو اور وہ طاغوتی قوتوں کے خلاف علم بغاوت بلند کر کے میدان میں آجائے اور باطل پرستوں کی بے پناہ طاقت سے مرعوب نہ ہو تو یہ اعلیٰ درجے کے ایمان کی علامت ہے۔
اور اگر شر کو غالب دیکھ کر برائی کو قوتِ بازو سے مٹانے کی جرات نہیں ہوتی یا اسے اس مقصد کے لیے صورت حال موزوں نظر نہیں آتی اس صورتِ حال میں وہ اپنی جدوجہد کو صرف باطل کے خلاف آواز اٹھانے، اس کے خلاف رائے عامہ ہم وار کرنے اور ظالموں کے سامنے کلمہ حق ادا کرنے کا فریضہ انجام دینے تک ہی محدود رکھتا ہے تو یہ دوسرے درجے کے ایمان کی علامت ہے، اور اگر صورت حال اتنی ابتر ہے کہ مومن کے لیے اس کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرنا ممکن نہیں اور زبانی جہاد کے مواقع بھی معدوم ہیں، منکرات اور برائیوں کی طویل ریل پیل دیکھ کر دل میں کڑھنے اور ان سے نفرت کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تو یہ تیسرے درجے کے ایمان کی علامت ہے اور یہ ایمان کا کم زور ترین درجہ ہے۔
ایمان کے تین درجات ہیں۔
۱۔ علم الیقین ۲۔ عین الیقین ۳۔ حق الیقین
جب تک انسان ''علم الیقین'' کے درجے میں ہو تو اس کے ایمان کی کیفیت مستحکم نہیں ہوتی۔ اس کے دل میں شکوک و شبہات پیدا ہو سکتے ہیں۔ اہل باطل اسے اپنی چکنی چپڑی باتوں، پْر فریب و من گھڑت دلیلوں اور خود ساختہ تاویلوں سے ورغلا سکتے ہیں۔ وہ جعل سازوں کے بچھائے ہوئے جال میں آسانی سے پھنس کر ان کا اثر قبول کرنے کی پوزیشن میں ہوتا ہے۔ ''عین الیقین'' کے درجے میں اس کے ایمان میں مضبوطی اور قوت آجاتی ہے، وہ لازوال حقائق کو اپنی آنکھوں کے سامنے بے حجاب دیکھ کر اور سربستہ اسرار کا مشاہدہ کرکے، شکوک و شبہات کی بدولت بے یقینی کی دلدل میں پھنسنے کے خطرے سے محفوظ ہو جاتا ہے اور اہل زیغ کے لیے ممکن نہیں رہتا کہ اسے بھٹکا سکیں اور مشاہدے کی بدولت حاصل ہونے والی ایمان کی قوت زائل کر سکیں۔
حق الیقین کے درجے میں خود اس کی ذات پر واردات طاری ہوتی ہیں۔ وہ صرف مشاہدہ ہی نہیں کرتا بلکہ آزماتا بھی ہے، بذات خود اس مرحلے سے گزرتا ہے، اسے اطمینان کی وہ کیفیت نصیب ہوتی ہے جہاں کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ تمام وساوس و خطرات اور شکوک و شبہات اس منزل سے پیچھے رہ جاتے ہیں اور مومن اسرار کی اس دنیا میں داخل ہو جاتا ہے جہاں حقائق خود بولتے ہیں۔ چند مثالوں سے ان درجات و کیفیات کی وضاحت کی جاتی ہیں۔
۱۔ حضور نبی اکرمؐ نے فرمایا: '' میں اس شخص کو پہچانتا ہوں جسے سب سے آخر میں، دوزخ سے نکالا جائے گا۔ وہ دوزخ سے باہر آکر کہے گا، رب کا شکر ہے کہ اس نے مجھے تجھ سے نجات دی۔ پھر عرض کرے گا: یااللہ! دوزخ کا منظر بہت خوف ناک ہے، اسے میری نظروں سے اوجھل کر دے اور جنت کا منظر دکھا دے۔ چناںچہ دوزخ اوٹ میں چلی جائے گی اور جنت اپنی تمام تر رعنائیوں اور دائمی بہاروں کے ساتھ اس کی آنکھوں کے سامنے آجائے گی۔ وہ باغ جنت کا شان دار منظر دیکھ کر باغ باغ ہو جائے گا۔ پھر ایک موقع پر عرض کرے گا: یااللہ! مجھے اس جنت کے قریب کر دے تاکہ میں اس کے مناظر دیکھ سکوں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوگا: اے بندے تو اس کے بعد اور سوال داغ دے گا؟ بندہ عرض کرے گا میرے پاک معبود! نہیں، میں اس کے سوا اور کچھ نہیں مانگوں گا۔ وہ پکے عہد و پیمان کر کے جنت کے قریب چلا جائے گا۔ ایک موقع پر پھر اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے گا اور عرض کرے گا۔ یا اللہ! مجھے جنت کے دروازے تک پہنچا دے، اس کے سوا کچھ نہیں مانگوں گا۔ ارشاد ہوگا: تو نے پہلے وعدہ کیا تھا کہ مزید سوال نہیں کروں گا۔ وہ عرض کرے گا: مالک! بس یہ سوال پورا کر دے اور کچھ نہیں مانگوں گا۔ وہ از سرنو، عہد و پیماں کرے گا اور اسے جنت کے دروازے کے قریب کر دیا جائے گا۔ وہ جنت کا حسین ترین ماحول دیکھ کر پھر بے قرار ہو جائے گا اور عرض کرے گا: یا اللہ! مجھے جنت میں داخل کر دے۔ ارشاد ہوگا: بندے تو نے تو کچھ اور نہ مانگنے کا پکا وعدہ کیا تھا۔
بندہ اپنے رب کی رحمت پر ناز کرتے ہوئے عرض کرے گا: میرے اللہ! جنت میں داخل نہ ہونا تو بڑی بدبختی ہے، ان نعمتوں کو دیکھ لینے کے بعد ان سے محروم رہنا نہیں چاہتا، لہذا میری ذات سے بدبختی کے آثار مٹا دے اور مجھے اس میں داخل کر دے۔ اپنے بندے کی اس گذارش اور حسن طلب پر، مالکِ حقیقی خوش ہوگا، بندے کے لاڈ پیار اور عاجزانہ اصرار پر (اپنی شان کے لائق) ہنسے گا اور محبت سے فرمائے گا : '' اے ابن آدم! تجھے صبر نہیں آئے گا، آ، ہم تجھے نوازتے ہیں۔ پھر اسے جنت میں داخل کر دیا جائے گا اور حکم ہوگا کہ جس جس چیز کی خواہش ہے مانگ لو! وہ اپنی بساط کے مطابق مانگے گا مگر اسے دنیا سے بھی دگنی یا دس گنا جنت عطا کر دی جائے گی اور وہ اس میں سکونت پذیر ہو جائے گا۔ ''
جنت، ایمان کے تینوں درجات کی مثال اس طرح بنتی ہے کہ پہلے اس شخص کا علم جنت کے بارے میں صرف ''علم الیقین'' کی حد تک تھا، جب اس نے مناظرِ جنت کو دیکھ لیا تو اسے ''عین الیقین'' حاصل ہوگیا اور جب وہ اس میں چلا گیا تو اسے ''حق الیقین'' حاصل ہوگیا۔
2۔ ایمان کے ان درجات کی دوسری مثال مرنے کے بعد جینے کی ہے۔ سر دست، ہم سب کا علم، علم الیقین کی حد تک ہے کہ ہم میں سے ہر ایک نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے اور اللہ تعالیٰ ہمیں دوبارہ زندہ کرے گا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں ایک مقتول کو زندہ کیا گیا تھا جس نے اپنے قاتل کی نشان دہی کی تھی۔ جن لوگوں نے اسے اپنی آنکھوں سے زندہ ہوتے دیکھا تھا انہیں ''عین الیقین'' حاصل ہوگیا۔ جب لوگ خود مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہوں گے تو انہیں ''حق الیقین'' حاصل ہو جائے گا۔
ایمان کا پھیلاؤ
یہ ایک نظر آنے والی حقیقت ہے کہ عبادت کا نور چھپا نہیں رہتا بلکہ اجالا بن کر، سپیدہ ئِ سحر کی طرح عابد کے چہرے سے جھلکنے لگتا ہے اور اس کے رخ تاباں کو اتنا دل کش بنا دیتا ہے کہ جو ایمان دار اسے دیکھتا ہے وہ اسی کا ہوکر رہ جاتا ہے اور بے اختیار اس سے پیار کرنے لگتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ جب نورِ ایمان، حقیقت بن کر دل کے نہاں خانے میں جلوہ گر ہوتا ہے تو پھر دل کی وسعتوں تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ جسم کے دوسرے اعضاء کو بھی منور کرنا شروع کر دیتا ہے۔ نفسانی خواہشات دبتی ہیں تو یہ تیزی کے ساتھ پھیلتا ہے، یہاں تک کہ عارضِ تاباں اور رخِ زیبا کا ہالہ بن جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ عبادت گزار ایمان دار کے چہرے میں بے پناہ جاذبیت ہوتی ہے۔ چوں کہ یہ نور رب تعالیٰ کی یاد، خلوص و محبت اور عبادت سے پیدا ہوتا ہے، اس لیے جو اسے دیکھتا ہے اسے بے اختیار اللہ یاد آ جاتا ہے۔ اس لیے اولیاء اللہ کی ایک علامت بیان کی گئی ہے کہ جب ان کی زیارت کی جائے تو اللہ یاد آتا ہے۔ اسی نور کو ''شرحِ صدر'' بھی کہا گیا ہے۔ جب مرد مومن کو شرح صدر کی یہ دولت عظمیٰ نصیب ہوتی ہے تو وہ عام ایمان داروں سے ممتاز ہو جاتا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے :
''بھلا، اللہ نے جس شخص کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیا ہو تو وہ اپنے رب کی طرف سے نور پر (فائز) ہو جاتا ہے، (اس کے برعکس) پس اْن لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کے ذکر (کے فیض) سے (محروم ہوکر) سخت ہوگئے، یہی لوگ کھلی گم راہی میں ہیں۔'' (الزمر : 22)
یہ نور، عبادت و ریاضت، نماز، روزے کی پابندی اور صدقات و خیرات اور دوسرے نیک اعمال کی بدولت بتدریج حاصل ہوتا ہے۔ چناںچہ کسی کو جلدی اور کسی کو دیر سے نصیب ہوتا ہے ۔ یہ اپنے اپنے نصیب اور قابلیت کی بات ہے۔ کسی اللہ کے بندے کی صحبت اور سنگت اس مقصد کے لیے تریاق ہے۔ کبھی پل بھر میں یہ نعمت عظمیٰ عطا کر دیتی ہے اور صدیوں کا سفر لمحوں میں طے ہو جاتا ہے، اسی لیے قرآن پاک نے ان کی سنگت اختیار کرنے کا حکم دیا ہے کہ: '' اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور اہلِ صدق (کی معیت) میں شامل رہو۔'' (التوبۃ : 119)
'' تم میں سے جو کسی برائی کو دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ (یعنی عملی جدوجہد) سے روکنے کی کوشش کرے اور اگر ایسا نہ کر سکے تو اپنی زبان سے (تنقید و مذمت کے ذریعے) روکے اور اگر اپنی زبان سے بھی روکنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو (کم از کم اس برائی کو) اپنے دل سے بُرا جانے اور یہ ایمان کا کم زور ترین درجہ ہے۔''
شرح و تفصیل
ایمان، نورِِ یقین کی اس حسین و دل نشین کیفیت کا نام ہے جو اگر دل کے ویرانے میں جلوہ گر ہو جائے تو اسے اجالوں سے معمور کر دیتی ہے اور اگر سینے کے سونے بن میں مہک اٹھے تو چنبے کی بوٹی کی طرح اسے شگفتہ اور بہار آفرین گلستانوں میں تبدیل کر دیتی ہے۔ دل کے چمن میں کھلنے والے یقین کے یہ سدا بہار، عنبر بار پھول اتنے دلآویز ہوتے ہیں کہ شکوک و شبہات کے کانٹے ان کے قریب بھی نہیں پھٹکتے اور اگر ان کی شاخوں کے ساتھ چمٹنے کی کوشش بھی کریں تو ان کے نزدیک آتے ہی اپنا تیکھا پن کھو دیتے ہیں اور خون خوار جارحانہ انداز بھول کر حریر بن جاتے ہیں۔
مذکورہ بالا حدیث مبارکہ میں ایمان کے تین درجات بیان کیے گئے ہیں۔ جس درجے کا کوئی شخص ہو اسی کے مطابق اسے روحانی مقام و مرتبہ نصیب ہوتا ہے۔ مضمون حدیث یہ ہے کہ ایمان کے تین درجات ہیں اور مومن کے دل میں کسی برائی کے خلاف پیدا ہونے والے رد عمل کی کیفیت سے ان کا تعین ہوتا ہے، مثلاً بدی کی حکم رانی، شر کی قوت اور منکرات کو پھلتا پھولتا دیکھ کر اگر مومن کے دل میں رد عمل کے طور پر حق کی حمایت میں غیظ و غضب پیدا ہو اور وہ طاغوتی قوتوں کے خلاف علم بغاوت بلند کر کے میدان میں آجائے اور باطل پرستوں کی بے پناہ طاقت سے مرعوب نہ ہو تو یہ اعلیٰ درجے کے ایمان کی علامت ہے۔
اور اگر شر کو غالب دیکھ کر برائی کو قوتِ بازو سے مٹانے کی جرات نہیں ہوتی یا اسے اس مقصد کے لیے صورت حال موزوں نظر نہیں آتی اس صورتِ حال میں وہ اپنی جدوجہد کو صرف باطل کے خلاف آواز اٹھانے، اس کے خلاف رائے عامہ ہم وار کرنے اور ظالموں کے سامنے کلمہ حق ادا کرنے کا فریضہ انجام دینے تک ہی محدود رکھتا ہے تو یہ دوسرے درجے کے ایمان کی علامت ہے، اور اگر صورت حال اتنی ابتر ہے کہ مومن کے لیے اس کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرنا ممکن نہیں اور زبانی جہاد کے مواقع بھی معدوم ہیں، منکرات اور برائیوں کی طویل ریل پیل دیکھ کر دل میں کڑھنے اور ان سے نفرت کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تو یہ تیسرے درجے کے ایمان کی علامت ہے اور یہ ایمان کا کم زور ترین درجہ ہے۔
ایمان کے تین درجات ہیں۔
۱۔ علم الیقین ۲۔ عین الیقین ۳۔ حق الیقین
جب تک انسان ''علم الیقین'' کے درجے میں ہو تو اس کے ایمان کی کیفیت مستحکم نہیں ہوتی۔ اس کے دل میں شکوک و شبہات پیدا ہو سکتے ہیں۔ اہل باطل اسے اپنی چکنی چپڑی باتوں، پْر فریب و من گھڑت دلیلوں اور خود ساختہ تاویلوں سے ورغلا سکتے ہیں۔ وہ جعل سازوں کے بچھائے ہوئے جال میں آسانی سے پھنس کر ان کا اثر قبول کرنے کی پوزیشن میں ہوتا ہے۔ ''عین الیقین'' کے درجے میں اس کے ایمان میں مضبوطی اور قوت آجاتی ہے، وہ لازوال حقائق کو اپنی آنکھوں کے سامنے بے حجاب دیکھ کر اور سربستہ اسرار کا مشاہدہ کرکے، شکوک و شبہات کی بدولت بے یقینی کی دلدل میں پھنسنے کے خطرے سے محفوظ ہو جاتا ہے اور اہل زیغ کے لیے ممکن نہیں رہتا کہ اسے بھٹکا سکیں اور مشاہدے کی بدولت حاصل ہونے والی ایمان کی قوت زائل کر سکیں۔
حق الیقین کے درجے میں خود اس کی ذات پر واردات طاری ہوتی ہیں۔ وہ صرف مشاہدہ ہی نہیں کرتا بلکہ آزماتا بھی ہے، بذات خود اس مرحلے سے گزرتا ہے، اسے اطمینان کی وہ کیفیت نصیب ہوتی ہے جہاں کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ تمام وساوس و خطرات اور شکوک و شبہات اس منزل سے پیچھے رہ جاتے ہیں اور مومن اسرار کی اس دنیا میں داخل ہو جاتا ہے جہاں حقائق خود بولتے ہیں۔ چند مثالوں سے ان درجات و کیفیات کی وضاحت کی جاتی ہیں۔
۱۔ حضور نبی اکرمؐ نے فرمایا: '' میں اس شخص کو پہچانتا ہوں جسے سب سے آخر میں، دوزخ سے نکالا جائے گا۔ وہ دوزخ سے باہر آکر کہے گا، رب کا شکر ہے کہ اس نے مجھے تجھ سے نجات دی۔ پھر عرض کرے گا: یااللہ! دوزخ کا منظر بہت خوف ناک ہے، اسے میری نظروں سے اوجھل کر دے اور جنت کا منظر دکھا دے۔ چناںچہ دوزخ اوٹ میں چلی جائے گی اور جنت اپنی تمام تر رعنائیوں اور دائمی بہاروں کے ساتھ اس کی آنکھوں کے سامنے آجائے گی۔ وہ باغ جنت کا شان دار منظر دیکھ کر باغ باغ ہو جائے گا۔ پھر ایک موقع پر عرض کرے گا: یااللہ! مجھے اس جنت کے قریب کر دے تاکہ میں اس کے مناظر دیکھ سکوں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوگا: اے بندے تو اس کے بعد اور سوال داغ دے گا؟ بندہ عرض کرے گا میرے پاک معبود! نہیں، میں اس کے سوا اور کچھ نہیں مانگوں گا۔ وہ پکے عہد و پیمان کر کے جنت کے قریب چلا جائے گا۔ ایک موقع پر پھر اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے گا اور عرض کرے گا۔ یا اللہ! مجھے جنت کے دروازے تک پہنچا دے، اس کے سوا کچھ نہیں مانگوں گا۔ ارشاد ہوگا: تو نے پہلے وعدہ کیا تھا کہ مزید سوال نہیں کروں گا۔ وہ عرض کرے گا: مالک! بس یہ سوال پورا کر دے اور کچھ نہیں مانگوں گا۔ وہ از سرنو، عہد و پیماں کرے گا اور اسے جنت کے دروازے کے قریب کر دیا جائے گا۔ وہ جنت کا حسین ترین ماحول دیکھ کر پھر بے قرار ہو جائے گا اور عرض کرے گا: یا اللہ! مجھے جنت میں داخل کر دے۔ ارشاد ہوگا: بندے تو نے تو کچھ اور نہ مانگنے کا پکا وعدہ کیا تھا۔
بندہ اپنے رب کی رحمت پر ناز کرتے ہوئے عرض کرے گا: میرے اللہ! جنت میں داخل نہ ہونا تو بڑی بدبختی ہے، ان نعمتوں کو دیکھ لینے کے بعد ان سے محروم رہنا نہیں چاہتا، لہذا میری ذات سے بدبختی کے آثار مٹا دے اور مجھے اس میں داخل کر دے۔ اپنے بندے کی اس گذارش اور حسن طلب پر، مالکِ حقیقی خوش ہوگا، بندے کے لاڈ پیار اور عاجزانہ اصرار پر (اپنی شان کے لائق) ہنسے گا اور محبت سے فرمائے گا : '' اے ابن آدم! تجھے صبر نہیں آئے گا، آ، ہم تجھے نوازتے ہیں۔ پھر اسے جنت میں داخل کر دیا جائے گا اور حکم ہوگا کہ جس جس چیز کی خواہش ہے مانگ لو! وہ اپنی بساط کے مطابق مانگے گا مگر اسے دنیا سے بھی دگنی یا دس گنا جنت عطا کر دی جائے گی اور وہ اس میں سکونت پذیر ہو جائے گا۔ ''
جنت، ایمان کے تینوں درجات کی مثال اس طرح بنتی ہے کہ پہلے اس شخص کا علم جنت کے بارے میں صرف ''علم الیقین'' کی حد تک تھا، جب اس نے مناظرِ جنت کو دیکھ لیا تو اسے ''عین الیقین'' حاصل ہوگیا اور جب وہ اس میں چلا گیا تو اسے ''حق الیقین'' حاصل ہوگیا۔
2۔ ایمان کے ان درجات کی دوسری مثال مرنے کے بعد جینے کی ہے۔ سر دست، ہم سب کا علم، علم الیقین کی حد تک ہے کہ ہم میں سے ہر ایک نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے اور اللہ تعالیٰ ہمیں دوبارہ زندہ کرے گا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں ایک مقتول کو زندہ کیا گیا تھا جس نے اپنے قاتل کی نشان دہی کی تھی۔ جن لوگوں نے اسے اپنی آنکھوں سے زندہ ہوتے دیکھا تھا انہیں ''عین الیقین'' حاصل ہوگیا۔ جب لوگ خود مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہوں گے تو انہیں ''حق الیقین'' حاصل ہو جائے گا۔
ایمان کا پھیلاؤ
یہ ایک نظر آنے والی حقیقت ہے کہ عبادت کا نور چھپا نہیں رہتا بلکہ اجالا بن کر، سپیدہ ئِ سحر کی طرح عابد کے چہرے سے جھلکنے لگتا ہے اور اس کے رخ تاباں کو اتنا دل کش بنا دیتا ہے کہ جو ایمان دار اسے دیکھتا ہے وہ اسی کا ہوکر رہ جاتا ہے اور بے اختیار اس سے پیار کرنے لگتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ جب نورِ ایمان، حقیقت بن کر دل کے نہاں خانے میں جلوہ گر ہوتا ہے تو پھر دل کی وسعتوں تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ جسم کے دوسرے اعضاء کو بھی منور کرنا شروع کر دیتا ہے۔ نفسانی خواہشات دبتی ہیں تو یہ تیزی کے ساتھ پھیلتا ہے، یہاں تک کہ عارضِ تاباں اور رخِ زیبا کا ہالہ بن جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ عبادت گزار ایمان دار کے چہرے میں بے پناہ جاذبیت ہوتی ہے۔ چوں کہ یہ نور رب تعالیٰ کی یاد، خلوص و محبت اور عبادت سے پیدا ہوتا ہے، اس لیے جو اسے دیکھتا ہے اسے بے اختیار اللہ یاد آ جاتا ہے۔ اس لیے اولیاء اللہ کی ایک علامت بیان کی گئی ہے کہ جب ان کی زیارت کی جائے تو اللہ یاد آتا ہے۔ اسی نور کو ''شرحِ صدر'' بھی کہا گیا ہے۔ جب مرد مومن کو شرح صدر کی یہ دولت عظمیٰ نصیب ہوتی ہے تو وہ عام ایمان داروں سے ممتاز ہو جاتا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے :
''بھلا، اللہ نے جس شخص کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیا ہو تو وہ اپنے رب کی طرف سے نور پر (فائز) ہو جاتا ہے، (اس کے برعکس) پس اْن لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کے ذکر (کے فیض) سے (محروم ہوکر) سخت ہوگئے، یہی لوگ کھلی گم راہی میں ہیں۔'' (الزمر : 22)
یہ نور، عبادت و ریاضت، نماز، روزے کی پابندی اور صدقات و خیرات اور دوسرے نیک اعمال کی بدولت بتدریج حاصل ہوتا ہے۔ چناںچہ کسی کو جلدی اور کسی کو دیر سے نصیب ہوتا ہے ۔ یہ اپنے اپنے نصیب اور قابلیت کی بات ہے۔ کسی اللہ کے بندے کی صحبت اور سنگت اس مقصد کے لیے تریاق ہے۔ کبھی پل بھر میں یہ نعمت عظمیٰ عطا کر دیتی ہے اور صدیوں کا سفر لمحوں میں طے ہو جاتا ہے، اسی لیے قرآن پاک نے ان کی سنگت اختیار کرنے کا حکم دیا ہے کہ: '' اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور اہلِ صدق (کی معیت) میں شامل رہو۔'' (التوبۃ : 119)