صدقہ اور خیرات
فی زمانہ لوگوں کا عجب چلن ہوگیا ہے۔ خود تو پیٹ بھرکر کھاتے ہیں لیکن برابرمیں رہنے والے بھوکے پڑوسی کی طرف مڑ کر بھی۔۔۔
ISLAMABAD:
دوسروں کی مدد کرنا، روپے پیسے سے ان کے ساتھ تعاون کرنا یا ان کے لیے روزمرہ کی ضرورت کی اشیاء فراہم کرنا کار ثواب بھی ہے اور اپنے رب العالمین کو راضی کرنے کا آسان طریقہ بھی۔
اللہ اسی وقت راضی ہوتا ہے جب بندہ اس کے احکامات پر عمل کرے اور اس کے رسولؐ کی دی ہوئی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ؐ نے ارشاد فرمایا: ''جو شخص یہ پسند کرے کہ اسے ایمان کا ذائقہ حاصل ہو جائے تو اسے چاہئے کہ محض اللہ کی رضا اور خوش نودی کے لیے دوسرے (مسلمان) سے محبت کرے۔'' (مستند احمد)
ایک اور حدیث مبارکہ میں حضرت ابو ذرؓ سے مروی ہے کہ رسول عربیؐ نے ارشاد فرمایا: '' اللہ کے لیے محبت رکھنا اور اللہ کی راہ میں بغض رکھنا بہترین اعمال میں سے ہے۔''
معلوم ہوا کہ اگر انسان کسی دوسرے انسان سے محبت کرے تو اس میں اس کی ذاتی غرض شامل نہ ہو، بلکہ یہ محبت اور پسندیدگی صرف اللہ کے لیے ہو۔ اسی طرح اگر ایک انسان دوسرے انسان سے بغض یا ناراضی رکھے تو یہ بھی کسی ذاتی وجہ کی بناء پر نہ ہو بلکہ یہ بھی اللہ کی وجہ سے ہو۔ یعنی اگر انسان یہ دیکھے کہ فلاں انسان نے فلاں کام اللہ کے حکم کے خلاف کیا ہے یا فلاں کام میں اس کی نافرمانی کی ہے تو وہ اس بناء پر اس شخص سے ناراض ہو یا اس کے لیے ناپسندیدگی کا اظہار کرے۔
فی زمانہ لوگوں کا عجب چلن ہوگیا ہے۔ خود تو پیٹ بھر کر کھاتے ہیں لیکن برابر میں رہنے والے بھوکے پڑوسی کی طرف مڑ کر بھی نہیں دیکھتے۔ اس کے بچے روٹی کو ترستے ہیں اور اپنے بچے ضرورت سے زائد مال اڑاتے ہیں۔ حیرت اس بات پر ہے کہ اس بے جا اصراف پر کسی شرمندگی کا اظہار نہیں ہوتا بلکہ کھلم کھلا فخر کیا جاتا ہے۔ اپنے گھر میں تو بے تحاشا مال جمع کر رکھا ہے جسے لوگوں کو دکھا دکھا کر خوب فضول خرچ کیا جاتا ہے جب کہ دوسرے لوگ دانے دانے کو ترستے ہیں لیکن یہ طریقہ سبھی لوگوں کا نہیں ہے۔
بعض لوگ اللہ سے ڈرنے والے ہوتے ہیں وہ اپنے ساتھ ساتھ اپنے پڑوسیوں، عزیزوں اور رشتے داروں کا بھی خیال رکھتے ہیں اور اپنے دروازے ان کے لیے ہمیشہ کھلے رکھتے ہیں۔ اگر کبھی کسی ضرورت کے تحت وہ لوگ ان کے گھر آتے ہیں تو اللہ کے نیک بندے اپنے پاس آنے والوں کو اپنے لیے باعث رحمت سمجھتے ہیں اور انہیں کبھی مایوس یا خالی ہاتھ واپس نہیں لوٹاتے، بلکہ حتی المقدور ان کی مدد کرتے ہیں اور اس خواہش کے پیچھے صرف ایک ہی جذبہ کار فرما ہوتا ہے، وہ یہ کہ ان کا یہ نیک عمل بارگاہ الٰہی میں قبول ہو جائے اور انہیں کسی طرح اللہ کی رضا حاصل ہو جائے۔ اس نیک کام میں ان کی اپنی ذاتی تشہیر کا مقصد قطعاً کار فرما نہیں ہوتا اور نہ ضرورت مندوں کی دل آزاری مقصود ہوتی ہے۔ وہ تو نہایت خاموشی سے ضرورت مندوں کی مدد کرکے اپنے رب کو راضی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے: '' (لوگ) آپؐ سے پوچھتے ہیں کہ (اللہ کی راہ میں) کیا خرچ کریں۔ فرما دیجئے کہ جس قدر بھی مال خرچ کرو (درست ہے) مگر اس کے حق دار تمہارے ماں باپ ہیں اور قریبی رشتے دار ہیں اور یتیم ہیں اور محتاج ہیں اور مسافر ہیں اور جو نیکی بھی تم کرتے ہو، بے شک! اللہ اسے خوب جاننے والا ہے۔'' (البقرہ: 215)
اس آیت کریمہ میں بالکل کھل کر حکم دیا گیا ہے کہ اللہ کی راہ میں اور اس کے بندوں کی ضرورت پوری کرنے اور ان کی تکلیف دور کرنے کے لیے تمہارا جتنا جی چاہے، مال خرچ کرو، اس میں کوئی پابندی یا ممانعت نہیں ہے، لیکن اس مال کے اصل حق دار کون ہیں؟ اس کی وضاحت آگے چل کر کر دی گئی ہے۔ جب تم اپنے ماں باپ کی ضروریات پوری کر دو اور پھر بھی تمہارے پاس زائد مال ہو تو اسے بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرو، مگر ماں باپ کے بعد باری تمہارے قریبی رشتے داروں کی ہے، ان پر خرچ کرنے کے بعد یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں کا نمبر ہے۔
یہ سب وہ لوگ ہیں جن پر آپ اپنی حلال کی کمائی خرچ کر سکتے ہیں، مگر یاد رہے کہ ان میں پہلا حق ماں باپ کا ہے، اس طرح دوسروں کی مدد کرنے کا طریقہ بھی بتا دیا گیا اور اس کے مرحلے وار درجے بھی بتا دیے گئے کہ پہلا نمبر کس کا ہے، دوسرا کس کا اور تیسرا نمبر کس کا وغیرہ۔ پھر اس کام کو نیکی قرار دے کر قبولیت کا درجہ عطا فرما دیا گیا۔ گویا یہ طریقہ اللہ کی نظر میں پسندیدہ ہے وہ ضرور قبول ہوگا۔ اسی آیت کریمہ میں یہ بھی کہہ دیا گیا کہ تمہارا کوئی بھی عمل اللہ سے پوشیدہ نہیں ہے۔ وہ تمہارے ہر کام اور ہر عمل سے خوب واقف ہے۔ '' اور جو نیکی بھی تم کرتے ہو، بے شک! اللہ اسے خوب جاننے والا ہے۔''
معلوم ہوا کہ انسان اس دنیا میں رہتے ہوئے جو کام بھی کرے گا، چاہے وہ کام اچھا ہو یا برا، نیکی کا ہو یا بدی کا، اللہ کو راضی کرنے کا ہو یا اسے ناراض کرنے کا، ہر کام اور ہر بات اس خالق کے علم میں ہے۔ اس سے کچھ بھی پوشیدہ نہیں ہے۔
قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے: '' وہی ایک اللہ آسمانوں میں بھی ہے اور زمین میں بھی۔ وہ تمہارے ظاہر اور پوشیدہ حال جانتا ہے اور جو برائی یا بھلائی تم کماتے ہو وہ اسے بھی جانتا ہے۔'' ( الانعام 2:3)
ہمارے بعض نادان دوست یہ کہتے ہیں کہ اس وقت قیامت کی فکر کون کرے، قیامت تو نہ جانے کب آئے گی؟ جب آئے گی تب دیکھی جائے گی، اس وقت تو دنیا کی فکر کرو۔ قیامت کے لیے ابھی سے خود کو ہلکان کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ انتہائی پستی اور گم راہی کی بات ہے۔ انسان نے خود کو اس حد تک خدا کا نافرمان بنا لیا ہے کہ وہ آخرت کی فکر کرنے کو بھی تیار نہیں ہے۔ دنیا اس کی نظر میں اس حد تک اہمیت اختیار کرگئی ہے کہ اسے اس کی چمک دمک کے سوا اور کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ یہ سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔ اللہ رب العزت ہمیں ایسی پست سوچ اور گھٹیا فکر سے محفوظ رکھے۔
مذکورہ بالا سطور میں اللہ کے مستحق بندوں پر خرچ کرنے کی بات ہو رہی تھی کہ ایک انسان دوسرے انسان کی بھلائی اور بہبود کا جذبہ اپنے دل میں رکھے، مگر پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان کس پر کیا اور کتنا خرچ کرے، اسے سمجھنے کے لیے ہمیں ذیل کی آیۂ مبارکہ پر نظر ڈالنی ہوگی۔
ارشاد ہوتا ہے: '' اور آپؐ سے (لوگ) یہ بھی پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں۔ فرما دیجئے کہ جو ضرورت سے زائد ہے (خرچ کر دو) اسی طرح اللہ تمہارے لیے (اپنے) احکام کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم ان پر غور و فکر کرو ۔'' (البقرہ: 219)
یہاں ہر بات بالکل صاف ہوگئی ہے۔ نبی کریم ؐ سے لوگ اکثر و بیش تر یہ دریافت کرتے تھے کہ وہ اللہ کے بندوں پر کیا خرچ کریں تو حکم ربانی آیا کہ تمہارے پاس تمہاری اپنی ضرورت سے جو کچھ زیادہ یا فاضل ہو اس میں سے دوسروں کا حصہ نکال دو۔ یعنی یہاں یہ تاکید کی گئی ہے کہ پہلے اپنی ضرورت پوری کرو، بعض لوگ اس قدر ایثار پسند ہوتے ہیں کہ وہ اپنی ضروریات کو بھی پس پشت ڈال کر دوسروں کی مدد کرتے ہیں اور اپنی ہر خواہش کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اسی لیے یہاں یہ حکم فرمایا گیا کہ پہلے اپنی ضروریات دیکھو، ان کا حساب کتاب کرو اور جب تمہاری اپنی ضروریات سے کچھ بچ جائے تو اس میں سے اللہ کے نیک بندوں کی مدد کرو۔
دوسروں کی مدد کرنا ان کی ضروریات پوری کرنا اللہ کے نزدیک ایک نہایت پسندیدہ عمل ہے۔ رسول اکرمؐ کا ارشاد ہے: '' یقیناً صدقہ رب کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے اور بُری موت کو دور کرتا ہے۔'' (ترمذی)
کس قدر پیاری حدیث ہے کہ تم دوسروں کے لیے صدقہ اور خیرات کرو، یہ وہ عمل ہے جس سے تمہارے رب کا غصہ سرد ہو جائے گا۔ صدقے کا دوسرا فائدہ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس سے انسان بری اور تکلیف دہ موت سے بچ جاتا ہے۔
دوسروں کی مدد کرنا، روپے پیسے سے ان کے ساتھ تعاون کرنا یا ان کے لیے روزمرہ کی ضرورت کی اشیاء فراہم کرنا کار ثواب بھی ہے اور اپنے رب العالمین کو راضی کرنے کا آسان طریقہ بھی۔
اللہ اسی وقت راضی ہوتا ہے جب بندہ اس کے احکامات پر عمل کرے اور اس کے رسولؐ کی دی ہوئی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ؐ نے ارشاد فرمایا: ''جو شخص یہ پسند کرے کہ اسے ایمان کا ذائقہ حاصل ہو جائے تو اسے چاہئے کہ محض اللہ کی رضا اور خوش نودی کے لیے دوسرے (مسلمان) سے محبت کرے۔'' (مستند احمد)
ایک اور حدیث مبارکہ میں حضرت ابو ذرؓ سے مروی ہے کہ رسول عربیؐ نے ارشاد فرمایا: '' اللہ کے لیے محبت رکھنا اور اللہ کی راہ میں بغض رکھنا بہترین اعمال میں سے ہے۔''
معلوم ہوا کہ اگر انسان کسی دوسرے انسان سے محبت کرے تو اس میں اس کی ذاتی غرض شامل نہ ہو، بلکہ یہ محبت اور پسندیدگی صرف اللہ کے لیے ہو۔ اسی طرح اگر ایک انسان دوسرے انسان سے بغض یا ناراضی رکھے تو یہ بھی کسی ذاتی وجہ کی بناء پر نہ ہو بلکہ یہ بھی اللہ کی وجہ سے ہو۔ یعنی اگر انسان یہ دیکھے کہ فلاں انسان نے فلاں کام اللہ کے حکم کے خلاف کیا ہے یا فلاں کام میں اس کی نافرمانی کی ہے تو وہ اس بناء پر اس شخص سے ناراض ہو یا اس کے لیے ناپسندیدگی کا اظہار کرے۔
فی زمانہ لوگوں کا عجب چلن ہوگیا ہے۔ خود تو پیٹ بھر کر کھاتے ہیں لیکن برابر میں رہنے والے بھوکے پڑوسی کی طرف مڑ کر بھی نہیں دیکھتے۔ اس کے بچے روٹی کو ترستے ہیں اور اپنے بچے ضرورت سے زائد مال اڑاتے ہیں۔ حیرت اس بات پر ہے کہ اس بے جا اصراف پر کسی شرمندگی کا اظہار نہیں ہوتا بلکہ کھلم کھلا فخر کیا جاتا ہے۔ اپنے گھر میں تو بے تحاشا مال جمع کر رکھا ہے جسے لوگوں کو دکھا دکھا کر خوب فضول خرچ کیا جاتا ہے جب کہ دوسرے لوگ دانے دانے کو ترستے ہیں لیکن یہ طریقہ سبھی لوگوں کا نہیں ہے۔
بعض لوگ اللہ سے ڈرنے والے ہوتے ہیں وہ اپنے ساتھ ساتھ اپنے پڑوسیوں، عزیزوں اور رشتے داروں کا بھی خیال رکھتے ہیں اور اپنے دروازے ان کے لیے ہمیشہ کھلے رکھتے ہیں۔ اگر کبھی کسی ضرورت کے تحت وہ لوگ ان کے گھر آتے ہیں تو اللہ کے نیک بندے اپنے پاس آنے والوں کو اپنے لیے باعث رحمت سمجھتے ہیں اور انہیں کبھی مایوس یا خالی ہاتھ واپس نہیں لوٹاتے، بلکہ حتی المقدور ان کی مدد کرتے ہیں اور اس خواہش کے پیچھے صرف ایک ہی جذبہ کار فرما ہوتا ہے، وہ یہ کہ ان کا یہ نیک عمل بارگاہ الٰہی میں قبول ہو جائے اور انہیں کسی طرح اللہ کی رضا حاصل ہو جائے۔ اس نیک کام میں ان کی اپنی ذاتی تشہیر کا مقصد قطعاً کار فرما نہیں ہوتا اور نہ ضرورت مندوں کی دل آزاری مقصود ہوتی ہے۔ وہ تو نہایت خاموشی سے ضرورت مندوں کی مدد کرکے اپنے رب کو راضی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے: '' (لوگ) آپؐ سے پوچھتے ہیں کہ (اللہ کی راہ میں) کیا خرچ کریں۔ فرما دیجئے کہ جس قدر بھی مال خرچ کرو (درست ہے) مگر اس کے حق دار تمہارے ماں باپ ہیں اور قریبی رشتے دار ہیں اور یتیم ہیں اور محتاج ہیں اور مسافر ہیں اور جو نیکی بھی تم کرتے ہو، بے شک! اللہ اسے خوب جاننے والا ہے۔'' (البقرہ: 215)
اس آیت کریمہ میں بالکل کھل کر حکم دیا گیا ہے کہ اللہ کی راہ میں اور اس کے بندوں کی ضرورت پوری کرنے اور ان کی تکلیف دور کرنے کے لیے تمہارا جتنا جی چاہے، مال خرچ کرو، اس میں کوئی پابندی یا ممانعت نہیں ہے، لیکن اس مال کے اصل حق دار کون ہیں؟ اس کی وضاحت آگے چل کر کر دی گئی ہے۔ جب تم اپنے ماں باپ کی ضروریات پوری کر دو اور پھر بھی تمہارے پاس زائد مال ہو تو اسے بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرو، مگر ماں باپ کے بعد باری تمہارے قریبی رشتے داروں کی ہے، ان پر خرچ کرنے کے بعد یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں کا نمبر ہے۔
یہ سب وہ لوگ ہیں جن پر آپ اپنی حلال کی کمائی خرچ کر سکتے ہیں، مگر یاد رہے کہ ان میں پہلا حق ماں باپ کا ہے، اس طرح دوسروں کی مدد کرنے کا طریقہ بھی بتا دیا گیا اور اس کے مرحلے وار درجے بھی بتا دیے گئے کہ پہلا نمبر کس کا ہے، دوسرا کس کا اور تیسرا نمبر کس کا وغیرہ۔ پھر اس کام کو نیکی قرار دے کر قبولیت کا درجہ عطا فرما دیا گیا۔ گویا یہ طریقہ اللہ کی نظر میں پسندیدہ ہے وہ ضرور قبول ہوگا۔ اسی آیت کریمہ میں یہ بھی کہہ دیا گیا کہ تمہارا کوئی بھی عمل اللہ سے پوشیدہ نہیں ہے۔ وہ تمہارے ہر کام اور ہر عمل سے خوب واقف ہے۔ '' اور جو نیکی بھی تم کرتے ہو، بے شک! اللہ اسے خوب جاننے والا ہے۔''
معلوم ہوا کہ انسان اس دنیا میں رہتے ہوئے جو کام بھی کرے گا، چاہے وہ کام اچھا ہو یا برا، نیکی کا ہو یا بدی کا، اللہ کو راضی کرنے کا ہو یا اسے ناراض کرنے کا، ہر کام اور ہر بات اس خالق کے علم میں ہے۔ اس سے کچھ بھی پوشیدہ نہیں ہے۔
قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے: '' وہی ایک اللہ آسمانوں میں بھی ہے اور زمین میں بھی۔ وہ تمہارے ظاہر اور پوشیدہ حال جانتا ہے اور جو برائی یا بھلائی تم کماتے ہو وہ اسے بھی جانتا ہے۔'' ( الانعام 2:3)
ہمارے بعض نادان دوست یہ کہتے ہیں کہ اس وقت قیامت کی فکر کون کرے، قیامت تو نہ جانے کب آئے گی؟ جب آئے گی تب دیکھی جائے گی، اس وقت تو دنیا کی فکر کرو۔ قیامت کے لیے ابھی سے خود کو ہلکان کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ انتہائی پستی اور گم راہی کی بات ہے۔ انسان نے خود کو اس حد تک خدا کا نافرمان بنا لیا ہے کہ وہ آخرت کی فکر کرنے کو بھی تیار نہیں ہے۔ دنیا اس کی نظر میں اس حد تک اہمیت اختیار کرگئی ہے کہ اسے اس کی چمک دمک کے سوا اور کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ یہ سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔ اللہ رب العزت ہمیں ایسی پست سوچ اور گھٹیا فکر سے محفوظ رکھے۔
مذکورہ بالا سطور میں اللہ کے مستحق بندوں پر خرچ کرنے کی بات ہو رہی تھی کہ ایک انسان دوسرے انسان کی بھلائی اور بہبود کا جذبہ اپنے دل میں رکھے، مگر پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان کس پر کیا اور کتنا خرچ کرے، اسے سمجھنے کے لیے ہمیں ذیل کی آیۂ مبارکہ پر نظر ڈالنی ہوگی۔
ارشاد ہوتا ہے: '' اور آپؐ سے (لوگ) یہ بھی پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں۔ فرما دیجئے کہ جو ضرورت سے زائد ہے (خرچ کر دو) اسی طرح اللہ تمہارے لیے (اپنے) احکام کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم ان پر غور و فکر کرو ۔'' (البقرہ: 219)
یہاں ہر بات بالکل صاف ہوگئی ہے۔ نبی کریم ؐ سے لوگ اکثر و بیش تر یہ دریافت کرتے تھے کہ وہ اللہ کے بندوں پر کیا خرچ کریں تو حکم ربانی آیا کہ تمہارے پاس تمہاری اپنی ضرورت سے جو کچھ زیادہ یا فاضل ہو اس میں سے دوسروں کا حصہ نکال دو۔ یعنی یہاں یہ تاکید کی گئی ہے کہ پہلے اپنی ضرورت پوری کرو، بعض لوگ اس قدر ایثار پسند ہوتے ہیں کہ وہ اپنی ضروریات کو بھی پس پشت ڈال کر دوسروں کی مدد کرتے ہیں اور اپنی ہر خواہش کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اسی لیے یہاں یہ حکم فرمایا گیا کہ پہلے اپنی ضروریات دیکھو، ان کا حساب کتاب کرو اور جب تمہاری اپنی ضروریات سے کچھ بچ جائے تو اس میں سے اللہ کے نیک بندوں کی مدد کرو۔
دوسروں کی مدد کرنا ان کی ضروریات پوری کرنا اللہ کے نزدیک ایک نہایت پسندیدہ عمل ہے۔ رسول اکرمؐ کا ارشاد ہے: '' یقیناً صدقہ رب کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے اور بُری موت کو دور کرتا ہے۔'' (ترمذی)
کس قدر پیاری حدیث ہے کہ تم دوسروں کے لیے صدقہ اور خیرات کرو، یہ وہ عمل ہے جس سے تمہارے رب کا غصہ سرد ہو جائے گا۔ صدقے کا دوسرا فائدہ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس سے انسان بری اور تکلیف دہ موت سے بچ جاتا ہے۔