جمعۃ الوداع رمضان المبارک کی رخصتی کا پیام

رمضان کا آخری جمعہ اس لحاظ سے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ اب ان ایام کے الوداع ہونے کا وقت آگیا جن میں مسلمانوں کے لیے۔۔۔

رمضان المبارک کا آخری جمعہ اس لحاظ سے بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے کہ اب ان ایام کے الوداع ہونے کا وقت آگیا جن میں مسلمانوں کے لیے عبادات کا ثواب کئی گنا بڑھا دیا گیا تھا۔ فوٹو : فائل

اللہ تعالیٰ نے انسان کو جہاں بے شمار نعمتیں عطا فرمائی وہاں اپنے نائب و خلیفہ کے لیے اعداد و شمار اور کام کاج کے لیے دن رات بھی تخلیق فرمائے۔

بعض دنوں کو دنوں پر اور بعض راتوں کو راتوں پر فضیلت بخشی۔ راتوں میں سے نزول قرآن و آمد صاحب قرآن کی راتوں کو فضیلت و بزرگی عطا فرمائی اور دنوں میں یوم تخلیق آدم علیہ السلام ''جمعہ'' کو سرداری و شرف عنایت فرمایا۔ جمعہ کو ''سید الایام'' بھی کہا جاتا ہے اور اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس دن ابوالبشر سیدنا آدم علیہ السلام کے اجزائے تخلیق جمع کیے گئے جب کہ دوسرا قول یہ ہے کہ اس دن زمانہ جاہلیت میں قریش قصی بن کلاب کے ساتھ جمع ہوتے تھے۔ زمانہ جاہلیت میں جمعہ کو ''یوم العروبہ'' کہا جاتا تھا۔ اسلام میں جمعہ کے دن کا بڑا مقام اور مرتبہ ہے۔

یہ ہفتے کے تمام دنوں کا سردار ہے۔ جمعہ کے دن کا خصوصی امتیاز اور شرف صرف امت محمدیہ کو عطا کیا گیا اور کسی اور امت کو نہیں بخشا گیا۔ امام مسلمؒ نے روایت نقل فرمائی ہے: رسول اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: '' سب سے بڑا اور افضل دن جس میں سورج طلوع ہوا وہ جمعہ کا دن ہے۔ اسی دن آدمؑ کی تخلیق ہوئی اور اسی دن وہ جنت میں داخل کیے گئے۔''

امام حاکم اور امام ابن حبان نے اپنی اپنی صحیح میں یہ حدیث ذکر کی ہے کہ حضرت اوس بن اوسؓ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: '' سب سے افضل دن جمعہ ہے، اسی دن آدم علیہ السلام تخلیق کیے گئے اور اسی دن فوت ہوئے۔ اسی دن صور پھونکا جائے گا، اسی دن قیامت قائم ہو گی۔ اس دن مجھ پر درود بکثرت پڑھا کرو کیوں کہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔

جب یہ معلوم ہو گیا کہ جمعہ کا دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں خاص مقام اور فضیلت رکھتا ہے تو ایک مسلمان کے شایان شان یہ ہے کہ وہ جمعہ کے لیے عمل اور بامقصد منصوبہ بندی پر کار بند رہے تاکہ وہ اس کے ظاہری، باطنی، انفرادی اور اجتماعی برکات و آداب سے بھرپور مستفید ہو سکے۔

اللہ تعالیٰ نے جمعہ کے دن کے دو آداب اور فضائل مقرر فرمائے ہیں۔ ان میں ایک ادب یہ ہے کہ جمعہ کے دن مسلمانوں کو غسل کی ترغیب دی گئی ہے، نظافت اور خوشبو کے استعمال کی طرف مائل کیا گیا ہے اور یہ کہ لوگوں کو صاف ستھرے اُجلے لباس میں نمودار ہونے کی تلقین کی گئی ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا : '' جب جمعہ کا دن ہو تو آدمی کو چاہئے کہ غسل کرے اور پھر اس کے پاس جو سب سے اچھے کپڑے ہوں وہ کپڑے زیب تن کرے، پھر نماز کے لیے جائے اور یہ آداب ملحوظ رکھے کہ وہ آدمیوں کو ہٹا کر ان کے درمیان نہ بیٹھے پھر امام کو غور سے سنے تو اس کی مغفرت کر دی جاتی ہے۔''

اسی طرح اسلام نے مسلمانوں کو غسل کرنے کے ذریعے حفظان صحت کی طرف مائل کیا ہے اور ہر وقت خوش نما اور باوقار رہنے کو شعار بنانے کی ترغیب دی ہے، خاص کر مساجد، محافل اور تقریبات میں صفائی ستھرائی پر بہت زور دیا ہے۔ یہ تو عام جمعۃ المبارک کی فضیلتیں ہیں تو رمضان المبارک کے جمعۃ المبارک کی کیا شان ہو گی اور پھر رمضان المبارک کا جمعۃ الوداع تو تمام پر فضیلت و برتری پا جاتا ہے۔


رمضان المبارک کا آخری جمعہ اس لحاظ سے بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے کہ اب ان ایام کے الوداع ہونے کا وقت آگیا جن میں مسلمانوں کے لیے عبادات کا ثواب کئی گنا بڑھا دیا گیا تھا۔ اس اعتبار سے رمضان المبارک کے جمعہ کا اجر و ثواب بھی بہت زیادہ ہے۔ پھر اس جمعۃ الوداع کا معاملہ تو یہ ہے کہ مومن سوچتا ہے کہ اب آئندہ سال تک ایسا فضیلت اور برکت والا جمعہ نہیں آئے گا۔

یہی وجہ ہے کہ عامۃ المسلمین جمعۃ الوداع کو بڑے اہتمام اور ذوق و شوق سے ادا کرتے ہیں۔ ملک و قوم کی بھلائی اور ترقی کے لیے خصوصی دعائیں مانگتے ہیں اور اجتماعی طور پر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں کہ وہ اپنے فضل خاص اور رحمت سے ماہ رمضان کی عبادات قبول فرمائے اور ان کو اجر و ثواب سے نوازے۔

آج دنیا کی ہر قوم اپنی پوری قوت اس مقصد کے لیے صرف کر رہی ہے کہ ان کے افراد میں اتحاد عمل پیدا ہو۔ ان کی سوچ میں یگانگت اور ان کی حرکات میں ہم آہنگی ہو۔ وہ بیک وقت ایک آواز پر بیٹھ جائیں اور ایک آواز پر سب کے سب کھڑے ہو جائیں۔

اندازہ کریں کہ جس قوم میں یہ سب باتیں ان کے دین کی برکت سے خود بخود موجود ہوں اور وہ ان سے خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ کر ے، وقت آنے پر ان سے ملی فوائد حاصل نہ کر سکے تو اس قوم کو بے روح نہ کہیں تو اور کیا کہیں؟ مسلمانوں کے اندر ان کی حرکات و سکنات میں یہ ہم آہنگی اور اطاعت امیر کی سپرٹ اسی لیے پیدا کی گئی ہے کہ ان کے قلوب و اذہان مزکیٰ ہوں، ان کی روح میں بالیدگی پیدا ہو، وہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کے احکام اپنے سامنے رکھیں۔ ان کا جھکنا اسی کے لیے ہو، ان کا اٹھنا اسی کے لیے ہو، ان کی قوتیں کم زوروں کی حفاظت کے لیے ہوں اور ان کی توانائیاں ضعیفوں کے حقوق کی نگہداشت میں کام آئیں۔

آپ اندازہ لگائیں کہ رمضان المبارک کا یہ آخری جمعہ فوائد ملی کے اعتبار سے اپنے اندر کس قدر اہمیت رکھتا ہے۔ رمضان المبارک کے شروع ہوتے ہی مسلمانوں میں جسمانی اور روحانی انقلاب پیدا کرنے کی مشق کا آغاز ہو جاتا ہے۔ انہیں خالص مجاہدانہ زندگی کا خوگر بنانے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ ان کی نگاہوں کو خیانتوں سے اور ان کے دلوں کو کدورتوں سے پاک کرنے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ دن کے وقت ان سے حلال اور پاکیزہ چیزیں بھی چھڑوا دی جاتی ہیں تاکہ یہ ماہ مبارک گزرنے کے بعد ان کے نفس حرام چیزوں کی طرف راغب نہ ہوں۔

پھر جمعۃ الوداع کے موقع پر انہیں ایک جگہ جمع کیا جاتا ہے کہ وہ مہینہ بھر کی مشق کا جائزہ لیں اور پوری دیانت داری کے ساتھ اس انقلاب کا جو ان کے اندر پیدا ہوا ہے، محاسبہ کریں۔ مرکزیت اتحاد اور اطاعت امیر کے مظاہرے سے تجدید ایمان کریں اور خالق کائنات کے حضور اس کی عملی شہادت پیش کریں۔ تربیت یافتہ ان مقدس انسانوں کی جماعت زندگی کے میدان میں جس مقصد کو بھی لے کر آگے بڑھے گی کام یاب و کامران ہو گی۔

جمعۃ الوداع کی نماز میں عامۃ المسلمین بڑی کثیر تعداد میں شریک ہوتے ہیں۔ ان میں کئی ایسے بھی ہوتے ہیں جو سال بھر باقاعدگی سے نماز نہیں پڑتے رہے، لیکن آ ج مسجد میں ندامت کی بھاری گٹھڑی اٹھائے ہوئے آئے ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور گڑ گڑا کر اپنے گناہوں کی معافی مانگیں گے کہ اے اللہ! سال گزشتہ میں ہم سے جو غلطیاں، کوتاہیاں اور تقصیریں سرزد ہوئی ہیں، بالخصوص نمازوں کے سلسلے میں جو سستی ہوئی ہے، وہ اپنی رحمت خاص سے معاف فرما دے۔ ان توبہ کرنے والوں میں کئی ایسے ہوتے ہیں جو اس عفو طلبی اور اظہار پشیمانی کے بعد آئندہ سچے اور پکے نمازی بن جاتے ہیں۔

علماء کرام فرماتے ہیں کہ عید اور جمعہ کے ان عظیم اجتماعات میں جہاں کثیر تعداد میں اہل اسلام جمع ہوتے ہیں وہاں اجتماعی دعا سے ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ حاضرین میں شامل کسی مقبول بارگاہ الہٰی شخصیت کی برکت سے سب حاضرین کی دعائیں قبول ہو جاتی ہیں۔
Load Next Story