غیر ذمے داری اور نمرہ بے چاری
شکر ہے خدا کا کہ چھوٹی سی نمرہ بیگ کی والدہ نے اپنی لاڈلی کا بہتا ہوا خون نہیں دیکھا۔
اس ادھیڑ عمر ڈاکٹرنی کا تعلق جرمنی سے تھا ، وہ انسانی دماغ کی ماہر تھی لیکن اس کیس میں اس کا سر چکرا گیا تھا، اس نوجوان شادی شدہ ایک دس ماہ کے بیٹے کی ماں کا پہلا آپریشن ہو چکا تھا لیکن کچھ عرصے بعد ہی اس کی ناک سے پھر پانی بہنا شروع ہوگیا تھا۔
پہلی بار جب وہ لڑکی اسپتال آئی تھی تو اسے سر کے درد کی بہت شکایت تھی اس کے ساتھ اس کے ناک سے پانی بہہ رہا تھا۔ یہ کوئی عام سرکا درد نہ تھا بہرحال ڈاکٹرز نے اپنی تمام تر کوششوں اور ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے اس کی سرجری کر ڈالی تھی۔ والدین سے لڑکی کی کیس ہسٹری معلوم کی تو پتہ چلا تھا کہ بچی بچپن میں جب پاکستان میں مقیم تھی تب کبھی دیوار چڑھتے گرگئی تھی اور اس کا سر پھٹ گیا تھا۔
ڈاکٹرز نے ٹانکے لگا دیے تھے اور بچی ٹھیک ہوگئی تھی اس کے بعد اسے کبھی کوئی تکلیف نہ ہوئی۔ اس کے چند برسوں بعد ہی وہ پورا خاندان امریکا منتقل ہوگیا تھا، پھر اتنے برسوں بعد سر میں اس قدر درد اور ناک سے پانی بہنا تشویش ناک بات تھی، ڈاکٹرز نے بتایا کہ یہ پانی دراصل اس کے دماغ سے رس رہا ہے، ایک سرجری کے باوجود بات نہ بنی تو کان ناک اور حلق کے ماہر ڈاکٹر کو بھی اس کیس میں شامل کیا گیا جو یہودی تھا لیکن اپنے کام سے عشق کرتا تھا دونوں ماہرین نے سر جوڑ کر ریسرچ کی تو پتہ چلا کہ دماغ اور آنکھ کے درمیان ایک جھلی ہوتی ہے جو ایک طرح سے انسانی دماغ میں موجود قدرتی محلول کی حفاظت کرتی ہے، اس لڑکی میں یہ جھلی نہیں ہے جس کی وجہ سے اس کے دماغ سے محلول ناک کے راستے بہہ رہا ہے گویا وہ ہر دم موت کی جانب بڑھ رہی تھی۔
''میں نے اپنا سر پیٹ لیا تھا اور اس سے کہا کہ خدارا! تم میری ڈیوٹی کے دوران نہ مرنا۔'' ڈاکٹرنی نے اس آخری کامیاب آپریشن کے بعد اسے فرط مسرت سے بتایا تھا کیونکہ وہ اپنے مریض کو یوں مرتا نہیں دیکھ سکتی تھی۔ اس آپریشن میں ان ڈاکٹرز نے اس کی ران کی جانب سے کہیں گوشت لے کر یہ عمل انجام دیا تھا۔
''وہ میرے سامنے بیڈ پر آنکھیں موندے پڑی تھی لیکن اس قدر حساس ہو چکی تھی کہ اگر میں اپنا پہلو بھی بدلتی تو میری معمولی جنبش سے اس کی پیشانی پر تکلیف سے سلوٹ پڑتی اور میرا دل خوف سے سکڑ جاتا لیکن بس یہ سب اوپر والے کا کرم اور اسپتال کے پورے عملے اور ڈاکٹرزکی انتھک محنت کا صلہ ہے، میری بچی میرے سامنے تکلیف سے بیڈ سے ایک ایک فٹ اچھلتی۔ وہ میرے سامنے مر رہی تھی اس کو دوائی دینے والی لمبی چوڑی عمر دراز نرس نے مجھے بتایا کہ میں نے اسے دو دفعہ ڈبل ڈوز دی ہے اسے پھر بھی اتنا شدید درد ہے۔
اس تکلیف دہ واقعے کو سال بھر ہونے والا ہے،ابھی حال ہی میں وہ اپنے شوہر اور بچے کے ساتھ کسی ہل پوائنٹ پرگئی تب ہی اس کے شوہر نے دیکھا اس کی ناک سے پانی بہہ رہا تھا وہ گھبرا گیا اور چلانے لگا کہ فوراً اسپتال چلو لیکن وہ پرسکون تھی اس نے کہا کہ مجھے اگر مرنا ہوگا تو میں مر جاؤں گی لیکن ابھی میں اپنے ننھے سے بیٹے کے ساتھ یہاں تصویریں ضرور بنواؤں گی اس کا اعتماد اور سکون ہل سے اترتے وقت اور بھی پکا ہوگیا جب اس کی ناک سے پانی بہنا بند ہوگیا۔
سفید برف سے ڈھکی پہاڑیوں کے گرد اس کی اپنے پیارے سے بیٹے کے ساتھ تصویریں کہیں سے بھی ایک خطرناک بیماری کو شکست دے کر آگے بڑھنے والی لڑکی کی تو نہیں تھیں کیونکہ مسلمان ہونے کے ناتے اسے پکا یقین ہے کہ موت برحق ہے جب لکھی ہے تو تب ضرور آئے گی لیکن مضبوط ارادوں والی فضا اور اس کی ماں تہہ دل سے ان تمام لوگوں کی شکر گزار ہیں جنھوں نے بغیر کسی مذہبی تفریق کے اپنی پیشہ ورانہ ذمے داریاں بخوبی مثبت دلی جذبات کے ساتھ نبھائیں۔
ابھی چند ہی روز پہلے فضا کی تکلیف دہ کہانی سنی تو بہت عجیب سا محسوس ہوا یقینا ایک ماں کے لیے اپنی اولاد کی تکلیف اور درد ناقابل برداشت ہوتا ہے ۔ فضا کی زندگی کا سفر ہو یا کسی بھی انسان کا سفر زندگی پھولوں اور کانٹوں سے بھری ہے لیکن اسے انسانی غیر ذمے داری مزید خاردار بنا دیتی ہے کوئی بھی انسان غیر ذمے دارکب ہوتا ہے جب اسے کوئی خوف نہیں ہوتا کہ اس کی پوچھ گچھ کرنے والا کوئی نہیں ہے وہ کسی کو جواب دہ نہیں ہے ۔اس کا ضمیر سرد ہوتا ہے انسانی جذبات، جیسے رحم، ہمدردی، پیار محبت، دکھ تکلیف اس کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتے، اسے اس اعلیٰ ترین ہستی کی نعمتوں کو وصول کرنے اور برتنے کا زعم ہوتا ہے کہ جیسے وہ بہت اعلیٰ و برتر ہے۔
نمرہ بیگ ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی کے فرسٹ ایئر کی طالبہ تھی وہ ایک خوش شکل، ذہین اور خوش اخلاق لڑکی تھی، اس کے والد کا انتقال ہوچکا تھا وہ اپنے چھوٹے بھائی اور والدہ کے ساتھ اپنے ماموں کے ساتھ رہتی تھی ان کے گھر کا ماحول علمی تھا، والدہ بھی تعلیم و تدریس کے شعبے سے منسلک تھیں۔ مرحوم والد اور دادا بھی پولیس کے محکمے سے منسلک رہے تھے۔
کراچی جیسے بڑے شہر میں ان دنوں ہونے والے اسٹریٹ کرائمز سے کون ناواقف ہے لیکن ڈاکوؤں کی دیدہ دلیری دیکھیے کہ اب مرنے سے ڈرتے نہیں کیونکہ ان کے پاس اس قدر کا جدید اسلحہ ہوتا ہے جو شاید ہمارے پولیس کے جوانوں کے پاس بھی نہیں ہوتا ۔
بہرحال فائرنگ کے تبادلے کے درمیان رکشے میں سوار نمرہ کو گولی لگ گئی ایک دبلی پتلی پچاس کلو گرام کے وزن سے کم پانچ فٹ چند انچوں کی لڑکی میں آخر خون ہی کتنا ہوگا۔ جسے محلے کے چند لڑکے اسی رکشے میں لے کر نزدیکی ایوان صحت و تجارت کے اسپتال پہنچے جہاں اس قسم کے حادثات سے نمٹنے کے لیے کچھ بھی تو نہ تھا ہمت والوں نے ہار نہ مانی اور نارتھ کراچی سے ناظم آباد کے عباسی شہید اسپتال کا رخ کیا لیکن پینتیس اڑتیس برسوں سے قائم اس اسپتال میں وینٹی لیٹرکی سہولت نہ تھی ، ہمت والوں کے اس گروپ نے پھر جناح اسپتال کا رخ کیا لیکن اس تیسرے اسپتال تک پہنچتے ہی اس نے ہمت ہار دی اور دم دے دیا۔
شکر ہے خدا کا کہ چھوٹی سی نمرہ بیگ کی والدہ نے اپنی لاڈلی کا بہتا ہوا خون نہیں دیکھا اس تین سیٹوں والے رکشے میں سوار ان نیک لوگوں کی جدوجہد اور نمرہ کی اذیت ناک شکل نہیں دیکھی ورنہ شاید ایک ماں کے صبرکا پیمانہ لبریز ہوجاتا یہ درد ایک ایسی کیفیت ہے جو ہم جیسے دل رکھنے والوں کی آنکھوں سے پانی بن کر برس جاتی ہے اور لبوں سے دعا نکلتی ہے خدا نمرہ کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے آمین اور ان کی والدہ کو صبر عطا کرے (آمین۔)
کیا نمرہ کو گولی لگنے کے بعد پولیس کے جوان اپنی گاڑیوں میں لے کر اسپتال نہیں پہنچ سکتے تھے حالانکہ کارروائی میں دو علاقوں کے تھانوں کی پولیس شامل تھی پھر یہ ذمے داری اس وقت موجود لوگوں کوکیوں اٹھانی پڑی؟
تیس برسوں سے زائد کثیر آبادی والے علاقے ناظم آباد میں قائم عباسی شہید اسپتال میں انسانی جانوں کی حفاظت کے لیے اس قدر اہم سہولت وینٹی لیٹر جو مریض کو مصنوعی تنفس دے کر زندہ رکھتی ہے کیوں موجود نہیں ہے؟ نمرہ نے نارتھ کراچی سے جناح اسپتال تک تین اسپتالوں کا سفر طے کیا اور ایک اسپتال نے بھی میڈیکل کی اس طالبہ کے لیے اپنی ذمے دارانہ اور پیشہ ورانہ خدمات پیش نہ کیں، خدا ہم سب پر رحم فرمائے اور ہمیں ایک ذمے دار قوم بنائے۔( آمین)
پہلی بار جب وہ لڑکی اسپتال آئی تھی تو اسے سر کے درد کی بہت شکایت تھی اس کے ساتھ اس کے ناک سے پانی بہہ رہا تھا۔ یہ کوئی عام سرکا درد نہ تھا بہرحال ڈاکٹرز نے اپنی تمام تر کوششوں اور ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے اس کی سرجری کر ڈالی تھی۔ والدین سے لڑکی کی کیس ہسٹری معلوم کی تو پتہ چلا تھا کہ بچی بچپن میں جب پاکستان میں مقیم تھی تب کبھی دیوار چڑھتے گرگئی تھی اور اس کا سر پھٹ گیا تھا۔
ڈاکٹرز نے ٹانکے لگا دیے تھے اور بچی ٹھیک ہوگئی تھی اس کے بعد اسے کبھی کوئی تکلیف نہ ہوئی۔ اس کے چند برسوں بعد ہی وہ پورا خاندان امریکا منتقل ہوگیا تھا، پھر اتنے برسوں بعد سر میں اس قدر درد اور ناک سے پانی بہنا تشویش ناک بات تھی، ڈاکٹرز نے بتایا کہ یہ پانی دراصل اس کے دماغ سے رس رہا ہے، ایک سرجری کے باوجود بات نہ بنی تو کان ناک اور حلق کے ماہر ڈاکٹر کو بھی اس کیس میں شامل کیا گیا جو یہودی تھا لیکن اپنے کام سے عشق کرتا تھا دونوں ماہرین نے سر جوڑ کر ریسرچ کی تو پتہ چلا کہ دماغ اور آنکھ کے درمیان ایک جھلی ہوتی ہے جو ایک طرح سے انسانی دماغ میں موجود قدرتی محلول کی حفاظت کرتی ہے، اس لڑکی میں یہ جھلی نہیں ہے جس کی وجہ سے اس کے دماغ سے محلول ناک کے راستے بہہ رہا ہے گویا وہ ہر دم موت کی جانب بڑھ رہی تھی۔
''میں نے اپنا سر پیٹ لیا تھا اور اس سے کہا کہ خدارا! تم میری ڈیوٹی کے دوران نہ مرنا۔'' ڈاکٹرنی نے اس آخری کامیاب آپریشن کے بعد اسے فرط مسرت سے بتایا تھا کیونکہ وہ اپنے مریض کو یوں مرتا نہیں دیکھ سکتی تھی۔ اس آپریشن میں ان ڈاکٹرز نے اس کی ران کی جانب سے کہیں گوشت لے کر یہ عمل انجام دیا تھا۔
''وہ میرے سامنے بیڈ پر آنکھیں موندے پڑی تھی لیکن اس قدر حساس ہو چکی تھی کہ اگر میں اپنا پہلو بھی بدلتی تو میری معمولی جنبش سے اس کی پیشانی پر تکلیف سے سلوٹ پڑتی اور میرا دل خوف سے سکڑ جاتا لیکن بس یہ سب اوپر والے کا کرم اور اسپتال کے پورے عملے اور ڈاکٹرزکی انتھک محنت کا صلہ ہے، میری بچی میرے سامنے تکلیف سے بیڈ سے ایک ایک فٹ اچھلتی۔ وہ میرے سامنے مر رہی تھی اس کو دوائی دینے والی لمبی چوڑی عمر دراز نرس نے مجھے بتایا کہ میں نے اسے دو دفعہ ڈبل ڈوز دی ہے اسے پھر بھی اتنا شدید درد ہے۔
اس تکلیف دہ واقعے کو سال بھر ہونے والا ہے،ابھی حال ہی میں وہ اپنے شوہر اور بچے کے ساتھ کسی ہل پوائنٹ پرگئی تب ہی اس کے شوہر نے دیکھا اس کی ناک سے پانی بہہ رہا تھا وہ گھبرا گیا اور چلانے لگا کہ فوراً اسپتال چلو لیکن وہ پرسکون تھی اس نے کہا کہ مجھے اگر مرنا ہوگا تو میں مر جاؤں گی لیکن ابھی میں اپنے ننھے سے بیٹے کے ساتھ یہاں تصویریں ضرور بنواؤں گی اس کا اعتماد اور سکون ہل سے اترتے وقت اور بھی پکا ہوگیا جب اس کی ناک سے پانی بہنا بند ہوگیا۔
سفید برف سے ڈھکی پہاڑیوں کے گرد اس کی اپنے پیارے سے بیٹے کے ساتھ تصویریں کہیں سے بھی ایک خطرناک بیماری کو شکست دے کر آگے بڑھنے والی لڑکی کی تو نہیں تھیں کیونکہ مسلمان ہونے کے ناتے اسے پکا یقین ہے کہ موت برحق ہے جب لکھی ہے تو تب ضرور آئے گی لیکن مضبوط ارادوں والی فضا اور اس کی ماں تہہ دل سے ان تمام لوگوں کی شکر گزار ہیں جنھوں نے بغیر کسی مذہبی تفریق کے اپنی پیشہ ورانہ ذمے داریاں بخوبی مثبت دلی جذبات کے ساتھ نبھائیں۔
ابھی چند ہی روز پہلے فضا کی تکلیف دہ کہانی سنی تو بہت عجیب سا محسوس ہوا یقینا ایک ماں کے لیے اپنی اولاد کی تکلیف اور درد ناقابل برداشت ہوتا ہے ۔ فضا کی زندگی کا سفر ہو یا کسی بھی انسان کا سفر زندگی پھولوں اور کانٹوں سے بھری ہے لیکن اسے انسانی غیر ذمے داری مزید خاردار بنا دیتی ہے کوئی بھی انسان غیر ذمے دارکب ہوتا ہے جب اسے کوئی خوف نہیں ہوتا کہ اس کی پوچھ گچھ کرنے والا کوئی نہیں ہے وہ کسی کو جواب دہ نہیں ہے ۔اس کا ضمیر سرد ہوتا ہے انسانی جذبات، جیسے رحم، ہمدردی، پیار محبت، دکھ تکلیف اس کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتے، اسے اس اعلیٰ ترین ہستی کی نعمتوں کو وصول کرنے اور برتنے کا زعم ہوتا ہے کہ جیسے وہ بہت اعلیٰ و برتر ہے۔
نمرہ بیگ ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی کے فرسٹ ایئر کی طالبہ تھی وہ ایک خوش شکل، ذہین اور خوش اخلاق لڑکی تھی، اس کے والد کا انتقال ہوچکا تھا وہ اپنے چھوٹے بھائی اور والدہ کے ساتھ اپنے ماموں کے ساتھ رہتی تھی ان کے گھر کا ماحول علمی تھا، والدہ بھی تعلیم و تدریس کے شعبے سے منسلک تھیں۔ مرحوم والد اور دادا بھی پولیس کے محکمے سے منسلک رہے تھے۔
کراچی جیسے بڑے شہر میں ان دنوں ہونے والے اسٹریٹ کرائمز سے کون ناواقف ہے لیکن ڈاکوؤں کی دیدہ دلیری دیکھیے کہ اب مرنے سے ڈرتے نہیں کیونکہ ان کے پاس اس قدر کا جدید اسلحہ ہوتا ہے جو شاید ہمارے پولیس کے جوانوں کے پاس بھی نہیں ہوتا ۔
بہرحال فائرنگ کے تبادلے کے درمیان رکشے میں سوار نمرہ کو گولی لگ گئی ایک دبلی پتلی پچاس کلو گرام کے وزن سے کم پانچ فٹ چند انچوں کی لڑکی میں آخر خون ہی کتنا ہوگا۔ جسے محلے کے چند لڑکے اسی رکشے میں لے کر نزدیکی ایوان صحت و تجارت کے اسپتال پہنچے جہاں اس قسم کے حادثات سے نمٹنے کے لیے کچھ بھی تو نہ تھا ہمت والوں نے ہار نہ مانی اور نارتھ کراچی سے ناظم آباد کے عباسی شہید اسپتال کا رخ کیا لیکن پینتیس اڑتیس برسوں سے قائم اس اسپتال میں وینٹی لیٹرکی سہولت نہ تھی ، ہمت والوں کے اس گروپ نے پھر جناح اسپتال کا رخ کیا لیکن اس تیسرے اسپتال تک پہنچتے ہی اس نے ہمت ہار دی اور دم دے دیا۔
شکر ہے خدا کا کہ چھوٹی سی نمرہ بیگ کی والدہ نے اپنی لاڈلی کا بہتا ہوا خون نہیں دیکھا اس تین سیٹوں والے رکشے میں سوار ان نیک لوگوں کی جدوجہد اور نمرہ کی اذیت ناک شکل نہیں دیکھی ورنہ شاید ایک ماں کے صبرکا پیمانہ لبریز ہوجاتا یہ درد ایک ایسی کیفیت ہے جو ہم جیسے دل رکھنے والوں کی آنکھوں سے پانی بن کر برس جاتی ہے اور لبوں سے دعا نکلتی ہے خدا نمرہ کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے آمین اور ان کی والدہ کو صبر عطا کرے (آمین۔)
کیا نمرہ کو گولی لگنے کے بعد پولیس کے جوان اپنی گاڑیوں میں لے کر اسپتال نہیں پہنچ سکتے تھے حالانکہ کارروائی میں دو علاقوں کے تھانوں کی پولیس شامل تھی پھر یہ ذمے داری اس وقت موجود لوگوں کوکیوں اٹھانی پڑی؟
تیس برسوں سے زائد کثیر آبادی والے علاقے ناظم آباد میں قائم عباسی شہید اسپتال میں انسانی جانوں کی حفاظت کے لیے اس قدر اہم سہولت وینٹی لیٹر جو مریض کو مصنوعی تنفس دے کر زندہ رکھتی ہے کیوں موجود نہیں ہے؟ نمرہ نے نارتھ کراچی سے جناح اسپتال تک تین اسپتالوں کا سفر طے کیا اور ایک اسپتال نے بھی میڈیکل کی اس طالبہ کے لیے اپنی ذمے دارانہ اور پیشہ ورانہ خدمات پیش نہ کیں، خدا ہم سب پر رحم فرمائے اور ہمیں ایک ذمے دار قوم بنائے۔( آمین)