بھارتی دراندازی پر پاکستان کی جوابی کارروائی
عالمی قوتوں کی بے نیازی سے خطے کا توازن بگڑنے کے ساتھ اندوہناک نتائج پر منتج ہوسکتا ہے۔
بھارتی جنگی جنون بالآخر برصغیر کی دو ایٹمی طاقتوں کو ایک دوسرے کے مقابل لے آیا۔
منگل کو بھارت نے بالاکوٹ میں فضائی دراندازی کا ڈراما رچایا اور دعویٰ کیا کہ اس کے لڑاکا طیاروں نے جیش محمد کے زیر تربیتی کیمپ پر حملہ کرکے متعدد افراد کو ہلاک کردیا، یہ انکشاف بھارت کے خارجہ سیکریٹری نے اپنی تین منٹ کی مختصر پریس کانفرنس میں کیا جو زمینی و فضائی جنگی تباہ کاریوں کے تناظر میں حقائق کے قطعی برعکس جھوٹی داستان سرائی کے سوا کچھ بھی نہ تھی۔ جس کا بھارتی میڈیا نے بھی مذاق اڑایا ۔ تاہم پاکستان نے اس در اندازی کا بہت ہی موثر جواب دیا ۔
پاکستان کو عالمی برادری اور امریکا کے عملی اقدام کا انتظار ہے، عالمی قوتوں کی بے نیازی سے خطے کا توازن بگڑنے کے ساتھ اندوہناک نتائج پر منتج ہوسکتا ہے، کیونکہ بھارت پاکستان کے لیے وجودی خطرے کی بہیمانہ علامت بن کر تاریخ سے انتقام لینے پر بضد ہے جب کہ مودی کو تاریخ سے سبق لینے کی ضرورت ہے۔
بدھ کی صبح میڈیا کو بتایا گیا کہ پاک فضائیہ نے دو بھارتی طیارے مار گرائے ہیں جب کہ دو بھارتی پائلٹ کو پاک فوج نے گرفتارکرلیا ۔ پاکستان نے بھارت کو سرپرائزدے دیا۔ڈی جی آئی ایس پی آرکا کہنا ہے کہ بھارتی فضائیہ کی بدھ کی صبح کنٹرول لائن کی خلاف ورزی پرپاک فضائیہ نے جوابی کارروائی کی۔
ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کے مطابق پاک فضائیہ نے دو بھارتی طیارے مار گرائے ہیں ،ایک بھارتی طیارہ آزاد جموں کشمیر کی حدود میں گرا جب کہ دوسرا بھارتی طیارہ مقبوضہ کشمیر کی حدود میں گرا ، ڈی جی آئی ایس پی آر کا مزید کہنا ہے کہ مار گرائے گئے دونوں بھارتی طیارے پاکستانی فضائی حدود میں تھے ۔ دفتر خارجہ کی جانب سے بھی تصدیق کی گئی ہے کہ پاکستانی فضائیہ نے آج پاکستانی حدود کے اندر سے کنٹرول لائن کے پار کارروائی کی۔
دریں اثناوزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت نیشنل کمانڈ اتھارٹی کا اہم اور ہنگامی اجلاس منعقد کیا گیا جس کے بعد پارلیمانی رہنماؤں کو بریفنگ دی گئی، اتھارٹی کے اجلاس میں جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی، سروسز چیفس اور سینئر حکام نے شرکت کی ۔
اجلاس میں ملکی سلامتی اور جوہری صلاحیت سے متعلق امور زیر غور لائے گئے، اجلاس میں بھارتی فضائی دراندازی اور پاکستان کی جوابی کارروائی کا جائزہ لیا گیا، یاد رہے قومی سلامتی کمیٹی کے کچھ روز قبل اجلاس میں سیاسی وعسکری قیادت نے فیصلہ کیا تھا کہ بھارت کو دو ٹوک جواب اور سرپرائز دینے کے لیے وقت اور جگہ کا تعین خود پاکستان کرے گا۔
عسکری ذرایع کے مطابق جوہری اسلحہ اور میزائل سسٹم کے آپریشنل کمان اورکنٹرول کی نگرانی پر مامور یہ اتھارٹی اعلیٰ ترین فیصلہ ساز ادارہ ہے اور ادارے کے ماتحت سیکیورٹی اہلکاروں کو اسلحہ رکھنے اور استعمال کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ بھارت نے جنگ کا جو تباہ کن راستہ چنا ہے اس کے ہولناک مضمرات سے خبردار کرنے کی پاکستانی سیاسی و عسکری قیادت نے ہر ممکن کوشش کی، پاکستان نے دراندازی اور سرجیکل اسٹرائیک کی گیدڑ بھبکیوں سے مرعوب ہوئے بغیر عالمی قوتوں سے بھی رابطے جاری رکھے کہ بھارت کو خطے کا امن تباہ کرنے سے روکا جائے مگر مودی حکومت نے جنگی جنون ترک نہیں کیا اور ایک ایسا سرجیکل اسٹرائیک کرنے کا دوبارہ بھونڈا دعویٰ کیا جسے عالمی میڈیا نے بھی مضحکہ خیز قراردیتے ہوئے بھارت کے جھوٹ کا پول کھول دیا۔لیکن مودی کی مبالغہ آمیزی اور ڈراما بازی کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا، اسے سنگینی حالات کا کوئی ادراک نہیں ۔
ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کی کارروائی بھارت کی مسلسل جارحیت کا جواب نہیں تھا، پاکستان نے نان ملٹری اہداف کو نشانہ بنایا ۔ دفتر خارجہ کے مطابق کارروائی کا واحد مقصد اپنے دفاع کے حق کا استعمال اور صلاحیتوں کا اظہار تھا، پاکستان کا مقصد ہرگز کشیدگی میں اضافہ نہیں۔ واضح رہے بھارت کا لڑاکا طیارہ مگ ٹوئنٹی ون مقبوضہ کشمیر کے ضلع بڈگام میں تباہ ہوا ہے جس کے باعث دونوں پائلٹ ہلاک ہوگئے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق بھارتی طیارہ تکنیکی خرابی کے باعث حادثے کا شکار ہوا تاہم اب بھارت کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ یہ کارروائی پاکستان کی ہے۔ یاد رہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے ہنگامی پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارتی طیاروں نے 3علاقوں میں گھسنے کی کوشش کی ،کسی کیمپ کو نشانہ نہیں بنایا، ایک بھی لاش دکھا دیں ، اب ہمارا جواب حیران کن اورغیر متوقع ہوگا، وقت اور مقام کا تعین ہم خود کرینگے، بھارت سرپرائز کا انتظار کرے۔
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا کہنا ہے اپنے ملک کا دفاع کرنا جانتے ہیں،مسلح افواج نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بے پناہ قربانیاں دیں۔ میڈیا کے کردار کے حوالے سے کانفرنس کے دوران خطاب کرتے ہوئے صدر مملکت کا کہنا تھا کہ بھارتی میڈیا اشتعال پھیلا رہا ہے،میڈیا کی اشتعال انگیزی خطرے کا باعث ہو سکتی ہے، پاکستان کی مسلح افواج چیلنجز سے نمٹنے کے لیے پرعزم ہیں، بھارتی دراندازی کی شدید مذمت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ مودی نے خطے کا امن خطرے میں ڈال دیا ہے۔
صدر مملکت کاکہنا تھاکسی بھی تنازعے کو ابھارنے یا حل کرنے میں میڈیا کا اہم کردار ہے۔ میڈیا مبصر کا کردار بھی ادا کرتا ہے، پیغام رساں پر اعتماد نہ ہو تو پیغام کی کوئی اہمیت نہیں رہتی،سوشل میڈیا نے جدید دور میں اطلاعات تک رسائی آسان بنائی۔ اس موقعے پر وزیر تعلیم شفقت محمود سمیت دیگر مقررین نے بھی میڈیا کے معاشرے پر اثرانداز ہونے سے متعلق کردار پر روشنی ڈالی۔
شاہ محمود قریشی نے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو سے ٹیلفونک رابطہ کیا اور خطے میں امن و امان کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔ شاہ محمود نے امریکی وزیر خارجہ کو بھارت کی طرف سے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی، جارحیت اور حکومت پاکستان، پارلیمنٹ اور عوامی جذبات سے آگاہ کیا اور کہا بھارت سیاسی مقاصد اور انتخابات کے لیے جنوبی ایشیا کے امن کو شدید خطرات سے دوچار کر رہا ہے۔ پاکستان خطے میں امن و استحکام کا خواہاں ہے لیکن ہم اپنی سالمیت پر سمجھوتہ نہیں کرسکتے۔میڈیا کے مطابق مائیک پومپیو نے پاکستان اور بھارت سے صبر و تحمل کی اپیل کی اور کہا کہ وہ ملٹری حملوں سے اجتناب کریں۔
علاوہ ازیں چین کے سفیر یاجنگ نے شاہ محمود قریشی سے ملاقات کی جب کہ وزیر خارجہ نے چینی سفیر کو پلوامہ واقعے کے بعد بھارت کے بے جا الزامات اور لائن آف کنٹرول کی صریحاً خلاف ورزی پر پاکستان کے موقف سے آگاہ کیا۔ ادھر ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ بدھ کی صبح سے کنٹرول لائن پر سرگرمی چل رہی تھی ، پاک فوج کے پاس جواب دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔کل کی کارروائی ملکی دفاع کے لیے تھی۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ بدھ کی صبح پاک فضائیہ نے کنٹرول لائن کے پار چھ اہداف کو نشانہ بنایا ، پاک فوج کے پاس صلاحیت ، عزم ، عوام کا ساتھ سب کچھ موجود ہے، انھوں نے کہا کہ اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ ہمارے ٹارگٹ کے انگیج کرنے کے نتیجے میں کوئی انسانی نقصان نہ ہو، ہم نے یہ کارروائی اپنے دفاع کے لیے کی ، خطے کی سلامتی کو داؤ پر نہیں لگایا۔
انھوں نے مزید کہا کہ ہم اس خطے کو جنگ کی طرف نہیں لے جانا چاہتے ،ہم نے ذمے داری کا ثبوت دیا ، پاکستان نے اس تمام کارروائی میں ایف سولہ طیارے استعمال نہیں کیے ،اس پوری کارروائی میں پاکستان کا کوئی ایف سولہ طیارہ نہیں مار گرایا گیا۔
بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے کل صبح پاک فضائیہ کی جوابی کارروائی سے پہلے اپنے دورہ چین کے دوران کہا کہ بھارت ذمے داری اور تحمل سے کام لیتا رہے گا۔ان کا کہنا تھا کہ کیونکہ جنگ سے کسی کو فائدہ نہیں ہوگاکیونکہ دونوں ممالک کی سرحدوں کے درمیان کشیدگی سے پورے خطے میں منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
ادھر اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے کہا ہے کہ پلوامہ واقعے کے بعد بھارتی اقدامات سے جنوبی ایشیائی خطے کے امن کو سنگین خطرات لاحق ہیں اس سے بین الاقوامی امن وسلامتی بھی بری طرح متاثر ہو سکتی ہے۔ہم کشمیر کا حل مذاکرات کے ذریعے چاہتے ہیں۔ مزید برآں عالمی برادری نے پاکستان اور بھارت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کریں، یورپی یونین نے جوہری طاقت کے حامل دونوں ملکوں سے زیادہ سے زیادہ تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی ہے۔
چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان لْو کنگ نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کو خطے میں قیام امن اور استحکام کے لیے برداشت اور ضبط سے کام لینا ہوگا تاکہ دونوں ممالک کے درمیان خطے کے لیے سازگار بہتر تعلقات قائم ہوسکیں، انھوں نے کہا کہ ایٹمی قوتوں کے درمیان جنگ کے ہولناک نتائج ہوسکتے ہیں جس سے صرف فریقین ہی نہیں بلکہ پورا خطہ متاثر ہوسکتا ہے، دنیا کسی اور ایٹمی جنگ کی متحمل نہیں ہوسکتی، جرمنی نے بھارتی دراندازی پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔
جرمن وزیر ہائیکو ماس نے کہاکہ وہ امن قائم کرنے کی پاکستانی کوششوں کو سراہتے ہیں اوران کا ملک خطے میں امن اور سلامتی چاہتا ہے،دونوں ممالک کو مذاکرات کے ذریعے مسائل کا حل ڈھونڈنا ہوگا، جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہے، آسٹریلوی وزارت خارجہ نے بھارتی دراندازی پر اپنے بیان میں کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کسی بھی مہم جوئی سے پرہیز کرتے ہوئے باہمی گفتگو کے ذریعے اپنے تنازعات ختم کریں ۔
پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمار نے کہا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ ملاقات میں واضح کیا تھا کہ جنگ مسئلہ کا حل نہیں، اگر مسلط کی گئی تو زیادہ نقصان بھارت کا ہو گا، سابق وزیرِ اعلیٰ مقبوضہ کشمیر محبوبہ مفتی نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا کہ پاکستان نے چونکہ دعویٰ کیا ہے کہ بھارتی فضائیہ کی طرف سے حد بندی لائن کی خلاف ورزی کیے جانے کے باوجود کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ہے، اس لیے انھیں صورتِ حال میں شدت لانے کے بجائے مفاہمانہ موقف اختیار کرنا چاہیے، ورنہ پہلے سے موجود غیر مستحکم صورتِ حال قابو سے باہر ہو جائے گی اور ہمیشہ کی طرح کشمیریوں کو سب سے زیادہ جانی نقصان اٹھانا پڑے گا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ عالمی برادری بھارت کو ہوش کے ناخن لینے پر قائل کرسکتی ہے یا خطے کا امن بھارت کے جنگی جنون ، مودی کی انتہا پسندی اور پاکستان مخاصمت کی بھینٹ چڑھنے کے المیے سے دوچار ہوگا۔ بہر حال پاکستانی قوم اپنی مسلح افواج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے ۔ بھارت عاقبت نااندیشی کی بھاری قیمت چکانے کے لیے تیار رہے۔
منگل کو بھارت نے بالاکوٹ میں فضائی دراندازی کا ڈراما رچایا اور دعویٰ کیا کہ اس کے لڑاکا طیاروں نے جیش محمد کے زیر تربیتی کیمپ پر حملہ کرکے متعدد افراد کو ہلاک کردیا، یہ انکشاف بھارت کے خارجہ سیکریٹری نے اپنی تین منٹ کی مختصر پریس کانفرنس میں کیا جو زمینی و فضائی جنگی تباہ کاریوں کے تناظر میں حقائق کے قطعی برعکس جھوٹی داستان سرائی کے سوا کچھ بھی نہ تھی۔ جس کا بھارتی میڈیا نے بھی مذاق اڑایا ۔ تاہم پاکستان نے اس در اندازی کا بہت ہی موثر جواب دیا ۔
پاکستان کو عالمی برادری اور امریکا کے عملی اقدام کا انتظار ہے، عالمی قوتوں کی بے نیازی سے خطے کا توازن بگڑنے کے ساتھ اندوہناک نتائج پر منتج ہوسکتا ہے، کیونکہ بھارت پاکستان کے لیے وجودی خطرے کی بہیمانہ علامت بن کر تاریخ سے انتقام لینے پر بضد ہے جب کہ مودی کو تاریخ سے سبق لینے کی ضرورت ہے۔
بدھ کی صبح میڈیا کو بتایا گیا کہ پاک فضائیہ نے دو بھارتی طیارے مار گرائے ہیں جب کہ دو بھارتی پائلٹ کو پاک فوج نے گرفتارکرلیا ۔ پاکستان نے بھارت کو سرپرائزدے دیا۔ڈی جی آئی ایس پی آرکا کہنا ہے کہ بھارتی فضائیہ کی بدھ کی صبح کنٹرول لائن کی خلاف ورزی پرپاک فضائیہ نے جوابی کارروائی کی۔
ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کے مطابق پاک فضائیہ نے دو بھارتی طیارے مار گرائے ہیں ،ایک بھارتی طیارہ آزاد جموں کشمیر کی حدود میں گرا جب کہ دوسرا بھارتی طیارہ مقبوضہ کشمیر کی حدود میں گرا ، ڈی جی آئی ایس پی آر کا مزید کہنا ہے کہ مار گرائے گئے دونوں بھارتی طیارے پاکستانی فضائی حدود میں تھے ۔ دفتر خارجہ کی جانب سے بھی تصدیق کی گئی ہے کہ پاکستانی فضائیہ نے آج پاکستانی حدود کے اندر سے کنٹرول لائن کے پار کارروائی کی۔
دریں اثناوزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت نیشنل کمانڈ اتھارٹی کا اہم اور ہنگامی اجلاس منعقد کیا گیا جس کے بعد پارلیمانی رہنماؤں کو بریفنگ دی گئی، اتھارٹی کے اجلاس میں جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی، سروسز چیفس اور سینئر حکام نے شرکت کی ۔
اجلاس میں ملکی سلامتی اور جوہری صلاحیت سے متعلق امور زیر غور لائے گئے، اجلاس میں بھارتی فضائی دراندازی اور پاکستان کی جوابی کارروائی کا جائزہ لیا گیا، یاد رہے قومی سلامتی کمیٹی کے کچھ روز قبل اجلاس میں سیاسی وعسکری قیادت نے فیصلہ کیا تھا کہ بھارت کو دو ٹوک جواب اور سرپرائز دینے کے لیے وقت اور جگہ کا تعین خود پاکستان کرے گا۔
عسکری ذرایع کے مطابق جوہری اسلحہ اور میزائل سسٹم کے آپریشنل کمان اورکنٹرول کی نگرانی پر مامور یہ اتھارٹی اعلیٰ ترین فیصلہ ساز ادارہ ہے اور ادارے کے ماتحت سیکیورٹی اہلکاروں کو اسلحہ رکھنے اور استعمال کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ بھارت نے جنگ کا جو تباہ کن راستہ چنا ہے اس کے ہولناک مضمرات سے خبردار کرنے کی پاکستانی سیاسی و عسکری قیادت نے ہر ممکن کوشش کی، پاکستان نے دراندازی اور سرجیکل اسٹرائیک کی گیدڑ بھبکیوں سے مرعوب ہوئے بغیر عالمی قوتوں سے بھی رابطے جاری رکھے کہ بھارت کو خطے کا امن تباہ کرنے سے روکا جائے مگر مودی حکومت نے جنگی جنون ترک نہیں کیا اور ایک ایسا سرجیکل اسٹرائیک کرنے کا دوبارہ بھونڈا دعویٰ کیا جسے عالمی میڈیا نے بھی مضحکہ خیز قراردیتے ہوئے بھارت کے جھوٹ کا پول کھول دیا۔لیکن مودی کی مبالغہ آمیزی اور ڈراما بازی کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا، اسے سنگینی حالات کا کوئی ادراک نہیں ۔
ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کی کارروائی بھارت کی مسلسل جارحیت کا جواب نہیں تھا، پاکستان نے نان ملٹری اہداف کو نشانہ بنایا ۔ دفتر خارجہ کے مطابق کارروائی کا واحد مقصد اپنے دفاع کے حق کا استعمال اور صلاحیتوں کا اظہار تھا، پاکستان کا مقصد ہرگز کشیدگی میں اضافہ نہیں۔ واضح رہے بھارت کا لڑاکا طیارہ مگ ٹوئنٹی ون مقبوضہ کشمیر کے ضلع بڈگام میں تباہ ہوا ہے جس کے باعث دونوں پائلٹ ہلاک ہوگئے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق بھارتی طیارہ تکنیکی خرابی کے باعث حادثے کا شکار ہوا تاہم اب بھارت کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ یہ کارروائی پاکستان کی ہے۔ یاد رہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے ہنگامی پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارتی طیاروں نے 3علاقوں میں گھسنے کی کوشش کی ،کسی کیمپ کو نشانہ نہیں بنایا، ایک بھی لاش دکھا دیں ، اب ہمارا جواب حیران کن اورغیر متوقع ہوگا، وقت اور مقام کا تعین ہم خود کرینگے، بھارت سرپرائز کا انتظار کرے۔
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا کہنا ہے اپنے ملک کا دفاع کرنا جانتے ہیں،مسلح افواج نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بے پناہ قربانیاں دیں۔ میڈیا کے کردار کے حوالے سے کانفرنس کے دوران خطاب کرتے ہوئے صدر مملکت کا کہنا تھا کہ بھارتی میڈیا اشتعال پھیلا رہا ہے،میڈیا کی اشتعال انگیزی خطرے کا باعث ہو سکتی ہے، پاکستان کی مسلح افواج چیلنجز سے نمٹنے کے لیے پرعزم ہیں، بھارتی دراندازی کی شدید مذمت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ مودی نے خطے کا امن خطرے میں ڈال دیا ہے۔
صدر مملکت کاکہنا تھاکسی بھی تنازعے کو ابھارنے یا حل کرنے میں میڈیا کا اہم کردار ہے۔ میڈیا مبصر کا کردار بھی ادا کرتا ہے، پیغام رساں پر اعتماد نہ ہو تو پیغام کی کوئی اہمیت نہیں رہتی،سوشل میڈیا نے جدید دور میں اطلاعات تک رسائی آسان بنائی۔ اس موقعے پر وزیر تعلیم شفقت محمود سمیت دیگر مقررین نے بھی میڈیا کے معاشرے پر اثرانداز ہونے سے متعلق کردار پر روشنی ڈالی۔
شاہ محمود قریشی نے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو سے ٹیلفونک رابطہ کیا اور خطے میں امن و امان کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔ شاہ محمود نے امریکی وزیر خارجہ کو بھارت کی طرف سے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی، جارحیت اور حکومت پاکستان، پارلیمنٹ اور عوامی جذبات سے آگاہ کیا اور کہا بھارت سیاسی مقاصد اور انتخابات کے لیے جنوبی ایشیا کے امن کو شدید خطرات سے دوچار کر رہا ہے۔ پاکستان خطے میں امن و استحکام کا خواہاں ہے لیکن ہم اپنی سالمیت پر سمجھوتہ نہیں کرسکتے۔میڈیا کے مطابق مائیک پومپیو نے پاکستان اور بھارت سے صبر و تحمل کی اپیل کی اور کہا کہ وہ ملٹری حملوں سے اجتناب کریں۔
علاوہ ازیں چین کے سفیر یاجنگ نے شاہ محمود قریشی سے ملاقات کی جب کہ وزیر خارجہ نے چینی سفیر کو پلوامہ واقعے کے بعد بھارت کے بے جا الزامات اور لائن آف کنٹرول کی صریحاً خلاف ورزی پر پاکستان کے موقف سے آگاہ کیا۔ ادھر ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ بدھ کی صبح سے کنٹرول لائن پر سرگرمی چل رہی تھی ، پاک فوج کے پاس جواب دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔کل کی کارروائی ملکی دفاع کے لیے تھی۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ بدھ کی صبح پاک فضائیہ نے کنٹرول لائن کے پار چھ اہداف کو نشانہ بنایا ، پاک فوج کے پاس صلاحیت ، عزم ، عوام کا ساتھ سب کچھ موجود ہے، انھوں نے کہا کہ اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ ہمارے ٹارگٹ کے انگیج کرنے کے نتیجے میں کوئی انسانی نقصان نہ ہو، ہم نے یہ کارروائی اپنے دفاع کے لیے کی ، خطے کی سلامتی کو داؤ پر نہیں لگایا۔
انھوں نے مزید کہا کہ ہم اس خطے کو جنگ کی طرف نہیں لے جانا چاہتے ،ہم نے ذمے داری کا ثبوت دیا ، پاکستان نے اس تمام کارروائی میں ایف سولہ طیارے استعمال نہیں کیے ،اس پوری کارروائی میں پاکستان کا کوئی ایف سولہ طیارہ نہیں مار گرایا گیا۔
بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے کل صبح پاک فضائیہ کی جوابی کارروائی سے پہلے اپنے دورہ چین کے دوران کہا کہ بھارت ذمے داری اور تحمل سے کام لیتا رہے گا۔ان کا کہنا تھا کہ کیونکہ جنگ سے کسی کو فائدہ نہیں ہوگاکیونکہ دونوں ممالک کی سرحدوں کے درمیان کشیدگی سے پورے خطے میں منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
ادھر اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے کہا ہے کہ پلوامہ واقعے کے بعد بھارتی اقدامات سے جنوبی ایشیائی خطے کے امن کو سنگین خطرات لاحق ہیں اس سے بین الاقوامی امن وسلامتی بھی بری طرح متاثر ہو سکتی ہے۔ہم کشمیر کا حل مذاکرات کے ذریعے چاہتے ہیں۔ مزید برآں عالمی برادری نے پاکستان اور بھارت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کریں، یورپی یونین نے جوہری طاقت کے حامل دونوں ملکوں سے زیادہ سے زیادہ تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی ہے۔
چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان لْو کنگ نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کو خطے میں قیام امن اور استحکام کے لیے برداشت اور ضبط سے کام لینا ہوگا تاکہ دونوں ممالک کے درمیان خطے کے لیے سازگار بہتر تعلقات قائم ہوسکیں، انھوں نے کہا کہ ایٹمی قوتوں کے درمیان جنگ کے ہولناک نتائج ہوسکتے ہیں جس سے صرف فریقین ہی نہیں بلکہ پورا خطہ متاثر ہوسکتا ہے، دنیا کسی اور ایٹمی جنگ کی متحمل نہیں ہوسکتی، جرمنی نے بھارتی دراندازی پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔
جرمن وزیر ہائیکو ماس نے کہاکہ وہ امن قائم کرنے کی پاکستانی کوششوں کو سراہتے ہیں اوران کا ملک خطے میں امن اور سلامتی چاہتا ہے،دونوں ممالک کو مذاکرات کے ذریعے مسائل کا حل ڈھونڈنا ہوگا، جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہے، آسٹریلوی وزارت خارجہ نے بھارتی دراندازی پر اپنے بیان میں کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کسی بھی مہم جوئی سے پرہیز کرتے ہوئے باہمی گفتگو کے ذریعے اپنے تنازعات ختم کریں ۔
پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمار نے کہا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ ملاقات میں واضح کیا تھا کہ جنگ مسئلہ کا حل نہیں، اگر مسلط کی گئی تو زیادہ نقصان بھارت کا ہو گا، سابق وزیرِ اعلیٰ مقبوضہ کشمیر محبوبہ مفتی نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا کہ پاکستان نے چونکہ دعویٰ کیا ہے کہ بھارتی فضائیہ کی طرف سے حد بندی لائن کی خلاف ورزی کیے جانے کے باوجود کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ہے، اس لیے انھیں صورتِ حال میں شدت لانے کے بجائے مفاہمانہ موقف اختیار کرنا چاہیے، ورنہ پہلے سے موجود غیر مستحکم صورتِ حال قابو سے باہر ہو جائے گی اور ہمیشہ کی طرح کشمیریوں کو سب سے زیادہ جانی نقصان اٹھانا پڑے گا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ عالمی برادری بھارت کو ہوش کے ناخن لینے پر قائل کرسکتی ہے یا خطے کا امن بھارت کے جنگی جنون ، مودی کی انتہا پسندی اور پاکستان مخاصمت کی بھینٹ چڑھنے کے المیے سے دوچار ہوگا۔ بہر حال پاکستانی قوم اپنی مسلح افواج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے ۔ بھارت عاقبت نااندیشی کی بھاری قیمت چکانے کے لیے تیار رہے۔