یہ جنوں نہیں تو کیا ہے
اگرچہ ان کے اس رویے پر ’’سب کچھ لٹا کے ہوش میں آئے تو کیا کیا‘‘ جیسا تبصرہ بھی کیا جاسکتا ہے جو کچھ غلط بھی نہیں ہے۔
آٹھ دس دن کی شب و روز کی نوحہ گری اور بڑھک بازی کے بعد کل شام کچھ ایسا لگنے لگا تھا جیسے دانائی اور معاملہ فہمی نے بالآخر دھمکیوں اور اشتعال انگیزی کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور جنگ کے جنون کی جگہ حقیقت پسندی اور امن کی خواہش نے لے لی ہے اور اب بالخصوص بھارتی میڈیا اور بالعموم دونوں ملکوں کے سوشل میڈیا پر برسر پیکار لوگ اس بات کو سمجھ رہے ہیں کہ جنگ کبھی کسی مسئلہ کا حل نہیں ہوتی کہ آخری تجزیے میں اس کے جنون میں شامل ہر کسی کو نقصان ہی ہوتا ہے۔
لیکن کل رات کے اندھیرے میں چند بھارتی طیاروں کی لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی اور بھارتی حکومت کے جوابی حملوں کے نعروں نے ایک بار پھر صورتحال کو نہ صرف پہلے سے زیادہ گمبھیر بنا دیا ہے بلکہ ایک ایسی صورت حال بھی پیدا کر دی ہے کہ پاکستانی قوم ، فوج اور حکومت تینوں کے لیے اب اس کا جواب دینا ایک مجبوری اور فرض کی شکل اختیار کر گیا ہے۔
اس دوران میں بے شمار باتیں سننے میں آئی ہیں لیکن ذاتی طور پر میرے لیے دو کرداروں کا ردعمل خصوصی توجہ کا حامل تھا کہ یہ دونوں کردار مختلف وقتوں میں نہ صرف مقبوضہ کشمیر کے وزراء اعلیٰ رہ چکے ہیں بلکہ اپنی بھارت پرستی کی وجہ سے پاکستانیوں سمیت ہر امن اور انصاف پسند شخص کے لیے ناقابل اعتبار اور ناپسندیدہ لوگوں کی صف میں جگہ پاتے تھے۔
ڈاکٹر فاروق عبداللہ سے تو مجھے بھارت میں ہونے والی دو تقریبات میں ملنے کا موقع ملا ہے لیکن محبوبہ مفتی کو میں نے صرف ٹی وی پر ہی دیکھا اور سنا تھا۔ دونوں نے ایک ہی وقت میں جب مودی سرکار اگلے چناؤ میں کامیابی کے لیے پوری قوم کو ایک جنگی جنون میں مبتلا کرنے کی کوشش میں مصروف ہے، جس طرح سے اس سازش کا حصہ بننے سے انکار کیا ہے اور جس حوصلے اور دلیل کے ساتھ حکومتی اقدامات سے اپنے اختلاف اور مقبوضہ کشمیر سے متعلق مودی سرکار کی ظالمانہ پالیسیوں پر انگلی اٹھائی ہے وہ بیک وقت حیرت انگیز بھی ہے اور خوشگوار بھی۔
اگرچہ ان کے اس رویے پر ''سب کچھ لٹا کے ہوش میں آئے تو کیا کیا'' جیسا تبصرہ بھی کیا جاسکتا ہے جو کچھ غلط بھی نہیں ہے مگر ایسے غلام فطرت لوگوں کا اختلاف رائے اس بات کا بین ثبوت ہے کہ اب پانی واقعی سروں سے گزر چکا ہے کہ دونوں نے اپنے حالیہ بیانات میں بہت واضح طور پر اپنی حکومت اور اس کے بھونپو میڈیا کو یہ بتایا ہے کہ جس پلوامہ حملے کو مبینہ طور پر پاکستان کے ایک جہادی گروپ جیشِ محمد سے جوڑا جا رہا ہے۔
اگر اس کو پورا سچ بھی مان لیا جائے تب بھی یہ بات اپنی جگہ پر ایک حقیقت رہے گی کہ مودی حکومت اور اس کی سات لاکھ فوج نے جس طرح سے کشمیر میں ظلم و ستم کا بازار گرم کر رکھا ہے اس کی وجہ سے بے شمار کشمیری نوجوان اور ان کے خاندان جان و مال اور عزت و آبرو کی قربانیاں دینے کے بعد اب اپنے حقوق آزادی اور انصاف کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے اور ظالم کا ہاتھ جھٹکنے کے لیے ذہنی اور عملی طور پر تیار ہیں اور اگر انھیں سرحد پار کے کسی جہادی گروہ کی حمایت اور تربیت اور وہاں کی حکومت کی اخلاقی سے کچھ زیادہ مدد حاصل ہے تب بھی ان کی یہ بیداری، مزاحمت اور احتجاج سراسر ان کے اپنے ہیں اور یہ کہ اگر بھارت انھیں اپنے ساتھ رکھنا چاہتا ہے تو اسے ظلم کا دروازہ بند اور انصاف کا راستہ کھولنا پڑے گا۔
دوسری طرف پاکستان کی حکومت اور فوج دونوں نے اپنے اس موقف کو باربار دہرایا ہے کہ وہ ہرگز ہرگز کسی قسم کا لڑائی جھگڑا نہیں چاہتے اور یہ کہ دہشت گردوں اور انتشار پسندوں کے گروپ دونوں ملکوں میں موجود ہیں، اگر مودی حکومت کے دور میں گجرات کے مسلمان بھارتی شہریوں کا قتل عام کیا گیا اورآج تک قاتلوں کو سزا دینا تو ایک طرف ان کی نشاندہی بھی نہیں کی جاسکی تو افغان وار کے چالیس برسوں میں جو شدت پسند گروپ پاکستان کے اندر اور بعض ہمسایہ ممالک میں رہتے ہوئے تخریب کاریاں کر رہے ہیں اور جن کی دہشت گردانہ کارروائیوں سے پاکستان کے ستر ہزار شہری اور دس ہزار کے قریب سیکیورٹی اداروں کے افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں، تو وہ اورکچھ بھی ہوں پاکستان کے دوست بہرحال نہیں ہیں۔
اب اگر ان میں سے کچھ لوگ یا گروہ واقعی بھارت یا اس کے مقبوضہ کشمیر میں کچھ تخریبی کارروائیاں کر رہے ہیں تو اس ضمن میں انھیں پاکستانی حکومت یا خفیہ اداروں کا آلہ کار قرار دینا اور وہ بھی بغیر کسی ثبوت کے کس طرح سے درست اور جائز ٹھہرتا ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے اس واقعے کے بعد نہ صرف اس اقدام سے اپنی حکومت کی کسی بھی طرح کی وابستگی کی نفی کی ہے بلکہ واضح طور پر یہ بھی کہا کہ اگر بھارتی حکومت کے پاس حملہ آوروں کے متعلق کچھ ٹھوس ثبوت ہیں تو وہ انھیں سامنے لائے ہم ان کے خلاف ہر ممکن کارروائی کریں گے لیکن اگر بات صرف بے بنیاد الزام تراشیوں اور دھمکیوں تک محدود رہے گی تو پھر اسے کسی موزوں اور موثر حل تک لے جانا ممکن نہیں ہوگا لیکن اگر مودی سرکار نے حسب سابق اسے آیندہ الیکشن کے اسٹنٹ کے طور پر استعمال کیا اور کوئی یکطرفہ کارروائی کی تو ہم جواب کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔
یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ بھارتی حکومت اور میڈیا نے اس بات کی حکمت، سچائی اور معقولیت پر غور کرنے کے بجائے جوابی کارروائی کے نام پر وہ راستہ اختیار کیا جس کی آخری منزل ایک ایسی جنگ ہے جو دونوں ملکوں اور ان کے عوام کے لیے تباہی اور معاشی بدحالی کی پیغامبر ہوگی۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ دونوں ملکوں کے سرکاری بیانات کے ساتھ اب سوشل میڈیا پر بھی جنگی ترانے بجانے والے اور ایٹم بم کے عملی استعمال کی باتیں کرنے والوں کو روکا جائے کہ دونوں ملکوں کے عوام امن ،انصاف ، محبت اور خوشگوار باہمی تعلقات کے ساتھ اچھے ہمسایوں کی طرح زندہ رہنا چاہتے ہیں، انھیں ان مٹھی بھر جنگ کے جنون میں گرفتار لوگوں کی گرفت سے بچانا ہم سب کی ذمے داری ہے۔ ان باہمی تنازعات اور جنگی جنون نے گزشتہ سات دہائیوں میں بار بار ہمارا رستہ کاٹ کر ہمارے عوام کو امن اور خوشحالی سے محروم رکھا ہے اب اس سلسلے کو ختم ہونا چاہیے اور یہ کام جنگ سے نہ ہوا ہے اور نہ ہو گا۔
لیکن کل رات کے اندھیرے میں چند بھارتی طیاروں کی لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی اور بھارتی حکومت کے جوابی حملوں کے نعروں نے ایک بار پھر صورتحال کو نہ صرف پہلے سے زیادہ گمبھیر بنا دیا ہے بلکہ ایک ایسی صورت حال بھی پیدا کر دی ہے کہ پاکستانی قوم ، فوج اور حکومت تینوں کے لیے اب اس کا جواب دینا ایک مجبوری اور فرض کی شکل اختیار کر گیا ہے۔
اس دوران میں بے شمار باتیں سننے میں آئی ہیں لیکن ذاتی طور پر میرے لیے دو کرداروں کا ردعمل خصوصی توجہ کا حامل تھا کہ یہ دونوں کردار مختلف وقتوں میں نہ صرف مقبوضہ کشمیر کے وزراء اعلیٰ رہ چکے ہیں بلکہ اپنی بھارت پرستی کی وجہ سے پاکستانیوں سمیت ہر امن اور انصاف پسند شخص کے لیے ناقابل اعتبار اور ناپسندیدہ لوگوں کی صف میں جگہ پاتے تھے۔
ڈاکٹر فاروق عبداللہ سے تو مجھے بھارت میں ہونے والی دو تقریبات میں ملنے کا موقع ملا ہے لیکن محبوبہ مفتی کو میں نے صرف ٹی وی پر ہی دیکھا اور سنا تھا۔ دونوں نے ایک ہی وقت میں جب مودی سرکار اگلے چناؤ میں کامیابی کے لیے پوری قوم کو ایک جنگی جنون میں مبتلا کرنے کی کوشش میں مصروف ہے، جس طرح سے اس سازش کا حصہ بننے سے انکار کیا ہے اور جس حوصلے اور دلیل کے ساتھ حکومتی اقدامات سے اپنے اختلاف اور مقبوضہ کشمیر سے متعلق مودی سرکار کی ظالمانہ پالیسیوں پر انگلی اٹھائی ہے وہ بیک وقت حیرت انگیز بھی ہے اور خوشگوار بھی۔
اگرچہ ان کے اس رویے پر ''سب کچھ لٹا کے ہوش میں آئے تو کیا کیا'' جیسا تبصرہ بھی کیا جاسکتا ہے جو کچھ غلط بھی نہیں ہے مگر ایسے غلام فطرت لوگوں کا اختلاف رائے اس بات کا بین ثبوت ہے کہ اب پانی واقعی سروں سے گزر چکا ہے کہ دونوں نے اپنے حالیہ بیانات میں بہت واضح طور پر اپنی حکومت اور اس کے بھونپو میڈیا کو یہ بتایا ہے کہ جس پلوامہ حملے کو مبینہ طور پر پاکستان کے ایک جہادی گروپ جیشِ محمد سے جوڑا جا رہا ہے۔
اگر اس کو پورا سچ بھی مان لیا جائے تب بھی یہ بات اپنی جگہ پر ایک حقیقت رہے گی کہ مودی حکومت اور اس کی سات لاکھ فوج نے جس طرح سے کشمیر میں ظلم و ستم کا بازار گرم کر رکھا ہے اس کی وجہ سے بے شمار کشمیری نوجوان اور ان کے خاندان جان و مال اور عزت و آبرو کی قربانیاں دینے کے بعد اب اپنے حقوق آزادی اور انصاف کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے اور ظالم کا ہاتھ جھٹکنے کے لیے ذہنی اور عملی طور پر تیار ہیں اور اگر انھیں سرحد پار کے کسی جہادی گروہ کی حمایت اور تربیت اور وہاں کی حکومت کی اخلاقی سے کچھ زیادہ مدد حاصل ہے تب بھی ان کی یہ بیداری، مزاحمت اور احتجاج سراسر ان کے اپنے ہیں اور یہ کہ اگر بھارت انھیں اپنے ساتھ رکھنا چاہتا ہے تو اسے ظلم کا دروازہ بند اور انصاف کا راستہ کھولنا پڑے گا۔
دوسری طرف پاکستان کی حکومت اور فوج دونوں نے اپنے اس موقف کو باربار دہرایا ہے کہ وہ ہرگز ہرگز کسی قسم کا لڑائی جھگڑا نہیں چاہتے اور یہ کہ دہشت گردوں اور انتشار پسندوں کے گروپ دونوں ملکوں میں موجود ہیں، اگر مودی حکومت کے دور میں گجرات کے مسلمان بھارتی شہریوں کا قتل عام کیا گیا اورآج تک قاتلوں کو سزا دینا تو ایک طرف ان کی نشاندہی بھی نہیں کی جاسکی تو افغان وار کے چالیس برسوں میں جو شدت پسند گروپ پاکستان کے اندر اور بعض ہمسایہ ممالک میں رہتے ہوئے تخریب کاریاں کر رہے ہیں اور جن کی دہشت گردانہ کارروائیوں سے پاکستان کے ستر ہزار شہری اور دس ہزار کے قریب سیکیورٹی اداروں کے افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں، تو وہ اورکچھ بھی ہوں پاکستان کے دوست بہرحال نہیں ہیں۔
اب اگر ان میں سے کچھ لوگ یا گروہ واقعی بھارت یا اس کے مقبوضہ کشمیر میں کچھ تخریبی کارروائیاں کر رہے ہیں تو اس ضمن میں انھیں پاکستانی حکومت یا خفیہ اداروں کا آلہ کار قرار دینا اور وہ بھی بغیر کسی ثبوت کے کس طرح سے درست اور جائز ٹھہرتا ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے اس واقعے کے بعد نہ صرف اس اقدام سے اپنی حکومت کی کسی بھی طرح کی وابستگی کی نفی کی ہے بلکہ واضح طور پر یہ بھی کہا کہ اگر بھارتی حکومت کے پاس حملہ آوروں کے متعلق کچھ ٹھوس ثبوت ہیں تو وہ انھیں سامنے لائے ہم ان کے خلاف ہر ممکن کارروائی کریں گے لیکن اگر بات صرف بے بنیاد الزام تراشیوں اور دھمکیوں تک محدود رہے گی تو پھر اسے کسی موزوں اور موثر حل تک لے جانا ممکن نہیں ہوگا لیکن اگر مودی سرکار نے حسب سابق اسے آیندہ الیکشن کے اسٹنٹ کے طور پر استعمال کیا اور کوئی یکطرفہ کارروائی کی تو ہم جواب کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔
یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ بھارتی حکومت اور میڈیا نے اس بات کی حکمت، سچائی اور معقولیت پر غور کرنے کے بجائے جوابی کارروائی کے نام پر وہ راستہ اختیار کیا جس کی آخری منزل ایک ایسی جنگ ہے جو دونوں ملکوں اور ان کے عوام کے لیے تباہی اور معاشی بدحالی کی پیغامبر ہوگی۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ دونوں ملکوں کے سرکاری بیانات کے ساتھ اب سوشل میڈیا پر بھی جنگی ترانے بجانے والے اور ایٹم بم کے عملی استعمال کی باتیں کرنے والوں کو روکا جائے کہ دونوں ملکوں کے عوام امن ،انصاف ، محبت اور خوشگوار باہمی تعلقات کے ساتھ اچھے ہمسایوں کی طرح زندہ رہنا چاہتے ہیں، انھیں ان مٹھی بھر جنگ کے جنون میں گرفتار لوگوں کی گرفت سے بچانا ہم سب کی ذمے داری ہے۔ ان باہمی تنازعات اور جنگی جنون نے گزشتہ سات دہائیوں میں بار بار ہمارا رستہ کاٹ کر ہمارے عوام کو امن اور خوشحالی سے محروم رکھا ہے اب اس سلسلے کو ختم ہونا چاہیے اور یہ کام جنگ سے نہ ہوا ہے اور نہ ہو گا۔